ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
مسلمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں جب نہایت کم وسائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور یقین رکھتے ہوئے غزوۂ بدر کے لیے نکلے تو اس موقع پر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مدد کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اور وسیلہ سے میدانِ جنگ میں فرشتوں کے اترنے، بارش کے نازل ہونے اور غنودگی طاری کرنے کے ذریعے لشکر کی تھکاوٹ دور کرکے مدد کی گئی۔
اللہ رب العزت نے اس تمام معاملہ کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا:
اِذْتَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنّیْ مُمِدُّ کُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓـئِکَةِ مُرْدِفِیْنَo وَمَا جَعَلَهُ اﷲُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْ بُکُمْ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ ﷲِ اِنَّ اﷲَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِرَکُمْ بِهٖ وَیُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَo اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَةِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ کُلَّ بَنَانٍo
’’(وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لیے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔ اور اس (مدد کی صورت) کو اللہ نے محض بشارت بنایا (تھا) اور (یہ) اس لیے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور (حقیقت میں تو) اللہ کی بارگاہ سے مدد کے سوا کوئی (اور) مدد نہیں، بے شک اللہ (ہی) غالب حکمت والا ہے۔ جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لیے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِّ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے۔ (اے حبیبِ مکرّم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجیے) جب آپ کے رب نے (غزوۂ بدر کے موقع پر) فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لیے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں، سو تم (بشارت و نصرت کے ذریعے) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی (جنگ جُو) کافروں کے دلوں میں (لشکر محمدی کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں، سو تم (غزوۂ بدر کے دوران جارح کافروں کی) گردنوں کے اوپر سے ضرب لگانا اور (ان کی سازشوں اور جنگی حربوں کے جواب میں) ان کے ایک ایک جوڑ کو توڑ دینا۔‘‘
(الانفال، 8: 9-12)
اِن آیات مبارکہ کے مذکورہ پسِ منظر کے علاوہ اِن کی روحانی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر کی صورت حال ذکر فرماکر بتادیا کہ اگر آج بھی کوئی اللہ کے حضور اپنے آپ کو اس طرح پیش کردے جس طرح اصحابِ بدر نے کیا تو اللہ آج بھی فرشتوں کے ذریعے اس کی ضرور مدد و نصرت فرمائے گا۔ آج بھی اس کی مدد و نصرت کا دروازہ کھلا ہے، بند نہیں ہوا۔ وہ ہمارے حال اور اپنی شان کے لائق آج بھی اپنے ملائکہ کے ذریعے ہماری مدد فرمائے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ اصحابِ بدر جیسا یقین و توکل اور غلامیٔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہونی چاہئے۔
فرشتوں کے نزول میں پنہاں روحانی حکمت
یہ امر ذہن نشین رہے کہ فرشتوں کے ذریعے کی جانے والی مدد درحقیقت اللہ ہی کی طرف سے مدد کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس نے فرمایا ہے:
وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ ﷲِ.
یعنی مدد تو مَیں نے ہی کرنی ہے اور مَیں مدد کے لیے فرشتوں کو بھیجنے کا بھی محتاج نہیں۔ یہ کوئی ضروری اور لازم نہیں کہ فرشتے اتریں تو میری مدد ہوگی اور اگر فرشتے نہ اتریں تو میری مدد نہیں ہوسکتی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ! جب سب کچھ تو نے ہی کرنا تھا اور تجھے فرشتوں کی محتاجی بھی نہ تھی تو پھر مدد کے لیے فرشتوں کو کیوں اتارا؟
فرشتوں کو اتارنے میں راز یہ تھا کہ میں بندوں کو طریقہ اور سلیقہ سکھانا چاہتا ہوں کہ مدد تو میں ہی کرتا ہوں مگر کچھ ہستیوں کو اپنی مدد کا مظہر اور وسیلہ بناتا ہوں۔ میدانِ بدر میں بھی مدد تو میری ہی آئی مگر میری مدد کے لیے ظاہری واسطہ و وسیلہ میں نے اپنے ملائکہ کو بنایا تاکہ پتہ چل جائے کہ قیامت تک میرا اصول یہ ہے کہ جب بھی میری مدد کے طلبگار بنو تو جان لو میری مدد واسطے اور وسیلے کے بغیر نہیں ہوتی۔
قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤالدین، حضور سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سلطان بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ سہرورد رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، شیخ کل غوث الثقلین غوث الاعظم اور جملہ اولیاء کرام رحمہم اللہ یہ سب برگزیدہ لوگ کون ہیں؟ جان لیں! یہ اللہ کی مخلوق ہیں اور روحانیت کی طرف عازمِ سفر ہونے والے قافلوں کے لیے اللہ کی مدد کے مظہر ہیں۔ اللہ کی مدد ان کے واسطے سے اللہ کی مخلوق کو پہنچتی ہے۔ نصرتِ الہٰیہ، ملائِ اعلیٰ کا فیض اور انوارِ الہٰیہ ان برگزیدہ بندوں کے وجود کے توسط سے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر اتارتا رہا ہے اور اتارتا ہے اور اتارتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ نے روحانیت کے سفر میں اپنی مدد و نصرت کے مظاہر، واسطے اور وسیلے اس لیے سامنے کردیئے تاکہ انہیں دلی اطمینان نصیب ہو۔ فرمایا:
اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْ بُکُمْ.
تاکہ یہ دیکھ کر ان کو اور ان کے دلوں کو اطمینان ہوجائے اور یہ امر ان کے لیے خوشخبری بن جائے۔
مشاہدات کا ظہور کیونکر ممکن ہوتا ہے؟
میدانِ بدر میں اللہ کی مدد و نصرت کے نزول کی روحانی تفسیر یہ ہے کہ جب کوئی اللہ والا بن جائے۔۔۔ اللہ کی راہ کا مسافر بن جائے۔۔۔ اللہ کی مدد و نصرت کا طالب ہوجائے۔۔۔ فرشی ہوکر عرشی سے تعلق جوڑے۔۔۔ ناسوتی ہوکر ملکوتی، لاہوتی و جبروتی سے تعلق جوڑے۔۔۔ اللہ کی قربت اور بندگی کے دائرے میں آجائے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتیں، انوار و تجلیات اور واردات اتارتا ہے اور پھر اسے مشاہدات نصیب ہوتے ہیں۔ ان مشاہدات میں ملائکہ کا اترنا بھی شامل ہے۔
اس کی مثال لیلۃ القدر میں ملائکہ کا نزول ہے کہ جب لیلۃ القدر میں خاص قبولیت کی گھڑی آتی ہے تو جبرائیل امین اور ملائکہ اللہ کے ان خاص بندوں کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں جو نفسانیت کے گھر سے نکل کر روحانیت کے گھر کی طرف عازمِ سفر ہوتے ہیں۔ جب ملائکہ ان سے مصافحہ کرتے ہیں تو اِن لمحات میں ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بجلی کی ایک لہر ان کے بدن میں دوڑ جاتی ہے۔ بندے کو پتہ چلتا ہے کہ میرا وجود ملائِ اعلیٰ کے وجود کے ساتھ مل گیا ہے۔ اللہ والے جب کامل ہوتے ہیں تو بیداری میں یہی کیفیتں اور تجلیات دیکھتے ہیں مگر وہ لوگ جو روحانیت کے مسافر ہوتے ہیں، سفر کی ابتداء میں ہوتے ہیں انہیں یہ کیفیات عَالِم خواب میں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کیفیات کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ روح قفسِ عنصری سے آزاد ہو۔ ان کیفیات کا مشاہدہ روح ہی کرسکتی ہے، جسم کی آنکھ کے لیے یہ ممکن نہیں۔ جب تک جسم پر نفس کا غلبہ ہے، یہ مشاہدات نہیں ہوسکتے۔ جب ہم سوتے ہیں تو نیند کی وجہ سے جسم، نفس اور وجود کا غلبہ کمزور ہوجاتا ہے۔ جب نفس اور وجود کا غلبہ کمزور ہوتا ہے تو اس پنجرے سے روح آزاد ہوجاتی ہے اور وہ ملکوتی مشاہدات کا نظارہ کرنے لگتی ہے۔
روحانی تجلیات کا نزول طہارتِ باطنی کا سبب ہے
اللہ تعالیٰ نے یہ فلسفہ اور منظر قرآن مجید میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے سفرِ بدر میں بیان فرمایا ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر مقام بدر میں پہنچا تو فرمایا:
اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ.
اللہ چاہتا تھا کہ تم پر اپنا کرم کرے اور تمہیں کچھ دکھا بھی دے لہذا اس نے سکون و راحت دینے والی اونگھ اور نیند تمہارے اوپر طاری کردی۔ یہ اونگھ اور نیند کیا تھی؟ اس کی روحانی تفسیر روحانی گھر کی طرف عازم سفر ہونے والوں کے لیے یہ ہے کہ یہ نیند اور اونگھ اس لیے طاری کی کہ وجود کا قبضہ و تصرف ختم ہوجائے اور روح کو آزادی ملے۔ رب چاہتا تھا کہ تمہیں منزل تک پہنچنے سے پہلے کچھ ملکوتی مشاہدات کرادے اور ملکوتی مشاہدے کے لیے ضروری تھا کہ وہ تمہارے باطن کی آنکھ کھولے۔ پس اللہ نے ان پر اونگھ طاری کی اور اونگھ طاری ہونے کی دیر تھی کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں دکھایا کہ
وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِرَکُمْ بِهٖ.
اللہ نے آسمانِ روح سے تمہارے اوپر پاکیزگی اور طہارت کا پانی اتار دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لِّیُطَهِرَکُمْ، آسمانِ روح سے جو پانی اترا اس سے اللہ نے تمہارے دلوں کو دھودیا اور تمہیں طہارتِ قلبی و باطنی عطا کردی۔ یہ آسمانِ روح سے اللہ کی تجلیات کی بارش تھی جو ملائِ اعلیٰ کا پانی بن کر تم پر اتری اور اس طرح وہ تمہارے دلوں کی چادروں اور تمہارے نفس کے لباس کو دھوتا چلا گیا۔ فرمایا:
یُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ.
شیطان کی پلیدیاں، وسوسے اور اس کے القاء کردہ باطل وہم و خیال اور مادی دنیا کی لذتیں، راحتیں، زیب و زینت کی چادریں اور وہ شیطانی اثرات جس نے تمہارے نفس اور دل کے لباس کو آلودہ کررکھا تھا، رب نے اس حالت میں تم پر وہ پانی اتارا کہ دل ان کدورتوں سے صاف ہوگیا اور نفس کا لباس دھل گیا۔ وہ امارہ سے نکل کر درجہ لوامہ اور پھر ملہمہ میں داخل ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ
لِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ
تمہارے دلوں پر ایسی تقویت اتاری اور مضبوطی دی کہ اس ربط کے ذریعے تم زمین پر تھے مگر تمہارے دل کو رب نے ملائِ اعلیٰ کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب اللہ کے وہ انوار و تجلیات جو زمین پر اور ناسوت پر نہیں اترتیں بلکہ عالم ملکوت پر اترتی تھیں اور تمہارے دل ان سے محروم تھے، اللہ نے تمہارے دلوں کا رابطہ ملاء اعلیٰ کے ساتھ قائم کردیا اور جو ملائِ اعلیٰ پر فرشتوں پر اتر رہا تھا، اب وہ تمہارے دلوں پر اترنے لگ گیا۔
سمجھایا یہ جارہا ہے کہ تم اللہ کی طرف سفر کا ارادہ کرکے تو دیکھو۔۔۔ اس وجود کے نفسانی گھر کو چھوڑ کر تو دیکھو۔۔۔ رب سے تعلق جوڑ کر اور رب کی رضا کا سودا کرکے دیکھو۔۔۔ جب تم اس نفس اور نفسانیت، وجود اور وجودیت سے نکل جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تم پر انوار و تجلیات اور برکات و انعامات کا وہ پانی اتارے گا جو تمہارے دلوں کو دھودے گا، نفس کی چادروں کو صاف کردے گا اور تمہارے دل کو ملائِ اعلیٰ کے ساتھ جوڑ دے گا۔ جب مردِ مومن کا دل ملاء اعلیٰ سے جڑ جاتا ہے تو وہ اس زمین پر رہ کر گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی متزلزل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دنیا کے مال و دولت کے حرص اور لالچ کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے۔
تعلق باللہ میں استقامت کے روحانی اثرات
یہی وجہ ہے کہ جہاں حرص اور لالچ کی آندھیاں، طوفان اور اندھیرے بندہ مومن پر اثر نہیں کرتے اور اس کے باوجود اس کا دل روشن رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اندھیرا اِس جہاں اور دنیا میں ہے جبکہ بندۂ مومن کا دل اب ملائِ اعلیٰ سے مربوط ہے۔ یہاں ہر طرف حرص، لالچ، تکبر، خواہشوں، شہوتوں، نفرتوں اور کدورتوں کی آندھیاں چل رہی ہیں اور ہر کوئی ان آندھیوں کی لپیٹ میں ہے مگر مردِ حق کا دل ان آندھیوں سے اثر نہیں لیتا کیونکہ اس کے دل کا رابطہ اوپر قائم ہوگیا ہے، لہذا اب اس پر وہ کیفیات اتر رہی ہیں جو ملاء اعلیٰ میں اترا کرتی ہیں۔
اس کیفیت کے پیش نظر اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَیُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ.
جب تمہارا تعلق ملاء اعلیٰ سے جڑ گیا اور پھر تم اس پر ثابت قدم رہے تو تمہیں طہارتِ باطنی نصیب ہوگی اور پھر تمہاری نگاہ بھی بھٹک نہیں سکے گی۔۔۔ دل اور نفس غلاظت و پلیدی سے پاک ہوجائیں گے۔۔۔ تمہاری پاکیزگی اور تقویٰ پر کوئی داغ نہیں آئے گا۔۔۔ اس دنیا کے اثرات پھر تمہارے دلوں کو متاثر نہیں کریں گے۔۔۔ اللہ تمہیں ایسی ثابت قدمی عطا کردے گا کہ جس کے بعد اگر دنیا میں تمہاری مخالفت بھی ہو، مزاحمت بھی ہو، سازشیں بھی ہوں الغرض جو کچھ بھی دنیا میں ہوتا پھرے اس سے ساری دنیا کے لوگوں کے قدم تواکھڑ سکتے ہیں اور راہِ راست سے ہٹ سکتے ہیں مگر جس کا دل ملائِ اعلیٰ کی دنیا سے جڑ گیا ہے، اس کے قدموں کو کوئی ڈگمگا نہیں سکتا اور نہ ہی متزلزل کرسکتا ہے۔
لہذا جب تمہارا تعلق ملاء اعلیٰ سے جڑ جائے گا تو اس مقام پر اپنے رب سے جو مدد چاہو گے
اِذْتَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ
کے مصداق وہ تمہیں ضرور عطا کرے گا اور یہ ساری امداد ملکوتی امداد ہوگی جس میں فرشتے بھی آئیں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ تم اپنا سفر جاری رکھنا۔
ملکوتی امداد کے بعد ربانی معیت کی نوید
اس ملکوتی امداد کے بعد روحانیت کے مسافر کو اس سے بھی بڑھ کر عطا حاصل ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَةِ اَنِّیْ مَعَکُمْ.
پہلے فرشتے ملکوتی امداد لے کر اترتے تھے مگر جب اللہ کا بندہ روحانیت میں ترقی جاری رکھتا ہے تو پھر ایک مقام آتا ہے کہ بندے کو ملکوتی امداد سے بڑھ کر اب لاہوتی و جبروتی امداد حاصل ہوتی ہے۔ جب بندہ جبروتی و لاہوتی دائرے میں جاتا ہے تو حکم ہوتا ہے:
اِنِّیْ مَعَکُمْ
(بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں)
فرشتو! اب تک میرے بندے کی مدد کے لیے تم تھے مگر اب میرے بندے کو بتادو کہ اب تمہارا رب خود تمہاری مدد کو آرہا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ براہِ راست اپنی مدد سے نوازتا ہے۔ جب بندے کو بالواسطہ اور بلا واسطہ بھی اللہ کی مدد نصیب ہوجائے تو اس بندے کے قدموں کو کوئی متزلزل نہیں کرسکتا۔
جب اللہ کی معیت نصیب ہوجائے تو اس کے بعد کیا کیفیت ہوتی ہے؟ ارشاد فرمایا:
فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ.
بندے پر اللہ کی مدد نازل ہونے سے قبل بندہ ناتمام ہوتا ہے، اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔ طاقت، افرادی قوت اور اسلحہ تھوڑا ہوتا ہے، وسائل اور اسباب کم ہوتے ہیں مگر اللہ کی مدد نازل ہونے کے بعد کمی ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ مخالفو ںکے دلوں میں اس کا رعب طاری کر دیتا ہے۔ اس کے پاس وسائل و اسباب اور اسلحہ تھوڑا ہوتا ہے مگر دشمن کو یہ سب زیادہ بھاری تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن آنکھ اٹھاتے ہوئے گھبراتا ہے۔ دشمن کی گھبراہٹ اور اس کے دل پر رعب کا طاری ہوجانا فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے سبب ہوتا ہے۔ اب اللہ کے بندوں پر نازل ہونے والی امداد عالمِ ملکوت سے بھی بڑھ کر عالمِ جبروت کی امداد بن جاتی ہے۔
دائمی اور حقیقی زندگی کے حصول کا راز
یہ سارے راستے بندے پر اس وقت کھلتے ہیں جب بندہ ایک شرط پوری کرے۔ وہ شرط کیا ہے؟ فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا ِﷲِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ.
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، دونوں) کی طرف فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔‘‘
(الانفال، 8: 24)
وہ شرط یہ ہے کہ جدھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلایا ہے اس بلاوے پر بندہ لبیک کہہ دے اور اسے ہی دائمی اور حقیقی زندگی سمجھے۔ اپنی زندگی کی حقیقت اللہ کے امر کی تعمیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی اطاعت و اتباع میں سمجھے۔ تب وہ حقیقی زندگی کا راز سمجھ لے گا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے روحانی زندگی عطا فرماتے ہوئے نفسانی گھر سے نجات عطا کرتا ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام روزانہ سنتے ہیں مگر ہمارا یقین اتنا کمزور ہے کہ ہم ان میں اپنی زندگی اور حیات کا راز مضمر نہیں جانتے۔ ہمارا یقین متزلزل ہے، نفسانیت اور خواہشات سے نکلنے کو جی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور زبان سے جو وعدہ کیا ہے، اس وعدے پر ہمارا یقین و اعتقاد کامل نہیں۔ اس پر ہمیں شک رہتا ہے کہ ہاں، قرآن میں تو بیان ہے لیکن معلوم نہیں ملے گا بھی یا نہیں۔۔۔؟ اتنے اونچے اونچے وعدے قرآن میں تو ہیں لیکن پتہ نہیں میرے نصیب میں آئیں گے یا نہیں۔۔۔؟ اس شک میں انسان کی ساری زندگی گذر جاتی ہے اور وہ نفس کی قید سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔
لوگو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو حق جانو اور ان کے بلاوے پر لبیک کہو۔ زندگی گذرتی جارہی ہے، حیاتِ مستعار کا زیادہ عرصہ گذر گیا اور تھوڑا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ زندگی ادھار دینے والا کسی وقت واپس بلالے اور ادھار کی مدت ختم ہوجائے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس کے بلاوے پر سچے دل اور روح کی اتھاہ گہرائیوں سے لبیک کہہ دیں اور اس یقین کو پختہ کرلیں کہ ہمیں حقیقی زندگی، حقیقی عزت، حقیقی راحت، حقیقی لذت اور حقیقی ترقی نفسانی گھر میں رہنے سے نہیں بلکہ روحانی گھر میں منتقل ہونے اور اللہ کی طرف سفر کرنے سے نصیب ہوگی۔ وہ لذتیں اور راحتیں جن کا اللہ رب العزت نے ہم سے وعدہ فرمایا، ان لذتوں اور راحتوں سے بہتر دنیا میں نہ کوئی اور لذت ہے، نہ کوئی چاہت ہے اور نہ ہی کوئی زندگی ہے۔
حقیقی وطن کی طرف مراجعت
ہماری روح ہمارے وجود کے پنجرے میں تڑپ تڑپ کر یہی بات ہمیں کہنا چاہتی ہے مگر افسوس! ہم اس روح کی بات کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ روح پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ بندے اس دنیا میں تو پردیسی ہے، یہ تیرا دیس نہیں جسے تو دیس سمجھ بیٹھا ہے۔ تیرا وطن تو وہ تھا جہاں تو زیادہ عرصہ گزار چکا۔ وطن وہ نہیں ہوتا جہاں انسان صرف چند سالوں کے لیے رہے، یہ دنیا ہمارا اصل وطن نہیں بلکہ ہم یہاں صرف پیدا ہوئے ہیں جبکہ ہماری حقیقی و روحانی پیدائش اس دنیا میں نہیں ہوئی۔ یہاں تو ہمارے اس وجود کے مادی تن کی پیدائش ہوئی ہے۔ ہمارے من اور روح کی پیدائش تو کسی اور جگہ ہوئی تھی، اس دنیا میں تو پچاس، ساٹھ یا سو برس کی ایک مستعار مدت ہے جو ہم گزارتے ہیں مگر اِس گھر میں آنے سے پہلے اُس گھر میں ہم طویل مدت گزار کر آئے ہیں اور مرنے کے بعد وہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پلٹ کر چلے جانا ہے اور قیامت کے دن تک وہاں آرام کرنا ہے وہ عالم ہمارا وطن ہوا نہ کہ یہ عالم جہاں مختصر قیام ہے۔ یہاں تو چند دنوں کے لیے ہماری پوسٹنگ ہوئی ہے اور کچھ عرصے کے بعد ٹرانسفر ہوکر واپس اپنے وطن کی طرف چلے جانا ہے۔
روح کہتی ہے کہ اے بندے! اپنے اصل وطن اور دیس کو پہچان۔۔۔ تیرا وہ دیس اچھا تھا جہاں تجھے اللہ کا پڑوس میسر تھا۔۔۔ جہاں ملائکہ کا قرب میسر تھا۔۔۔ جہاں ہر وقت برکتوں، رحمتوں اور انوار و تجلیات کا نزول ہوتا تھا۔۔۔ خدا کی قربتیں اور اچھی سنگتیں تھیں۔۔۔ وہاں نہ کوئی حرص و لالچ تھا اور نہ کوئی کسی سے حسد کرتا تھا۔۔۔ نہ تکبر و رعونت تھی اور نہ غیبت، چغلی، سازش اور منافقت تھی۔۔۔ ہر کوئی مومنانہ، پاکیزہ اور ملکوتی زندگی گزارتا تھا۔
اے بندے! تو اس گھر میں آگیا کہ تیرے چاروں طرف غیبت، حسد، تکبر، دنیا کی لالچ، مکرو فریب اور جھوٹ کی آندھیاں ہیں۔۔۔ یہاں انسان اپنی ذات سے بھی دھوکہ کرتا ہے پھر خدا اور دنیا سے بھی دھوکہ کرتا ہے۔۔۔ اس مکرو جھوٹ اور دجل و فریب کی دنیا اور اس گندے پردیس سے محبت چھوڑ اور پلٹ کر اپنے دیس اور اپنے وطن کو پہچان۔
مگر افسوس! ہم روح کی تڑپ کو سننے کیلئے تیار نہیں۔ کاش! ہم اس روح کی تڑپ اور اس کے رونے دھونے کی آواز کو سن لیں۔
اولیاء و صلحاء کی تعلیمات کا خلاصہ
اولیائ، صوفیاء اور عشاق ہمیشہ انسان کو اصل وطن کی طرف مراجعت اور اس دنیا سے کنارہ کشی ہی کا درس سناتے چلے آئے ہیں۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی درس دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ھا شکایت می کند
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے روح کو بانسری سے تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس روح کی پکار کو سنو! یہ روح کی بانسری کیوں چیخ اور تڑپ رہی ہے۔۔۔؟ کس کا رونا رو رہی ہے۔۔۔؟ کیسی حکایت سنارہی ہے۔۔۔؟ اس کو بھی سنو۔ جب اس کو سنتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ اپنے اصل وطن سے ہجر اور فراق کی داستان سناتی ہے۔ یہ روتی ہے کہ میرا وطن اللہ کی قربت میں عالمِ ارواح تھا۔۔۔ وہاں میں ذاتِ حق کی قربت میں رہتی تھی۔۔۔ ذکرو فکر میں رہتی تھی۔۔۔ ذاتِ حق کی معرفت و مشاہدے میں رہتی تھی۔۔۔ ہائے! میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔؟ کسی نے مجھے اس ملکوتی درخت سے توڑ کر اس جسم کے پنجرے کی قید میں بند کردیا۔۔۔ مجھے یہاں خدا کی محبت نہیں ملتی۔۔۔ ذکرو فکر، اس کے مشاہدے اور ملکوتی انوار نہیں ملتے۔۔۔ دائیں بائیں جدھر کان لگاتی ہوں کوئی مال کی بات کرتا ہے تو کوئی دکان کی بات کرتا ہے۔۔۔ کوئی تجارت میں پھنسا بیٹھا ہے تو کوئی بال بچوں کی بات کرتا ہے۔۔۔ کوئی ہوا و ہوس کی بات کرتاہے اور کوئی طاقت و سلطنت کی بات کرتا ہے۔۔۔ یہ کیا بولیاں بولتے ہیں، ان کی بولی میری سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔ اور میرا رونا ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ میرا رونا یہ ہے کہ میں اپنے وطن سے کیوں جدا ہوگئی۔۔۔؟ اور جدائی بھی ایسی کہ اب تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ میرا وطن کوئی تھا بھی یا نہیں تھا۔۔۔؟ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
کچھ نہ پوچھ کہ ہمنشیں میرا نشیمن تھا کہاں
اب تو یہ کہنا بھی مشکل ہے وہ گلشن تھا کہاں
وہ باغ و بہار گئے۔۔۔ لذاتِ لیل و نہار گئے۔۔۔ وہ قربتِ الہٰیہ کے وجدان گئے۔۔۔ وہ معرفتِ الہٰیہ اور دیدارِ حق کے پرلطف نظارے گئے۔۔۔ وہ وطن نہ رہا، وہ گلشن نہ رہا۔ روح اسی کو یاد کرکے روتی اور تڑپتی ہے۔ اس کیفیت کی مولانا روم یوں منظر کشی کرتے ہیں:
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
(بانسری کہتی ہے کہ) جس دن سے مجھے بانس کے درخت سے کاٹ دیا گیا، تب سے میں اپنے اصل وجود سے جدا ہوگئی، میری رونق اور میری زندگی مجھ سے چھن گئی۔
روح کی بانسری بھی یہی رونا رو رہی ہے کہ جس دن سے مجھے ملکوتی وطن سے جدا کردیا گیا، اپنی سنگت اور اپنی صحبت سے جدا کردیا گیا، اس وقت سے مَیں ناسوت میں قید ہوکر رہ گئی ہوں۔ جدائی کے دن سے لے کر آج تک رو رہی ہوں۔ لوگوں کو میرے رونے کی سمجھ تو نہیں آتی مگر میری نالہ و فغاں سن کر کچھ سمجھ والے لوگ رو پڑتے ہیں کہ یہ اتنا کیوں روتی ہے؟ اس کے ساتھ کیا بیت گیا؟ مگر:
مَیں کس کو سناؤں اپنا غم کہ کوئی غمخوار نہیں
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ روح کی زباں میں فرماتے ہیں:
سینہ خواھم شرخہ شرخہ از فراق
تابگویم شرح شرح درد اشتیاق
(روح کہتی ہے کہ) میں اپنا رونا دھونا، اپنی داستانِ غم سنانا چاہتی ہوں مگر کس کو سناؤں۔۔۔؟ میرے ہجر و فراق کے غم کی داستان اور میرا رونا دھونا سننے کے لیے کاش کوئی ایسا سینہ ملے جو ہجر و فراق میں پھٹ چکا ہو۔۔۔ جو محبوب سے جدا کردیا گیا ہو۔۔۔ جو اپنے محبوب کے ہجر و فراق کی آگ میں جل رہا ہو۔۔۔ وہ سینہ جس پر محبوب کے فراق کا آرا چلا کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا ہو اور وہ ریزہ ریزہ ہوگیا ہو، پھٹ کر چیتھڑے ہوگیا ہو۔ ایسے سینے کو خبر ہوگی کہ ہجرو فراق کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ روح کہتی ہے کہ مجھے کوئی ہجر و فراق میں پھٹا ہوا سینہ ملے تو میں بھی اپنے غم کی داستان اس کو سناؤں تاکہ اسے میرے غم کی سمجھ آئے۔
آیئے! روح جو اپنے غم کی داستان سنارہی ہے اور ہمیں پکار پکار کر ِاس پردیس سے بلاکر واپس اصل دیس کی طرف لے جانا چاہتی ہے، ہم روح کی اس پکار کی طرف متوجہ ہوں اور نفسانیت کے گھر سے نکل کر روحانیت کے گھر کی طرف عازمِ سفر ہوں۔
آیئے! ہم مل کر یہ عہد کریں اور اللہ تعالیٰ سے ایسی توفیق اور مدد طلب کریں کہ وہ ہمیں اس پردیس کی محبت سے نکال کر پھر اسی حقیقی دیس کی طرف عازمِ سفرکردے اور ہم اس ناسوتی اور نفسانی گھر سے نکل کر پھر اسی ملکوتی، جبروتی، لاہوتی اور روحانی گھر کی طرف روانہ ہوجائیں۔