آر اوز کی مدد، دھن، دھونس اور دھاندلی کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی حکومت کا بالآخر خاتمہ ہو گیا۔ نواز لیگ کے گزرے ہوئے پانچ سال سیاست، معیشت، معاشرت پر بہت بھاری ثابت ہوئے۔ تعلیم، صحت، مذہبی رواداری، بین الاقوامی تعلقات، کرپشن، دہشت گردی، انتہا پسندی، ادارہ جاتی تصادم کے بدترین حکومتی رویے اور طرزِ حکمرانی نے ریاست کو مفلوج کر دینے کی حد تک منفی اثرات مرتب کیے۔ موجودہ حکومت کے آخری ماہ ایک ڈرائونے خواب کی طرح رہے۔ معیشت، معاشرت اور ادارہ جاتی ڈسپلن کی بربادی کے بعد جاتے جاتے نااہل نے ریاستِ پاکستان پر وہ ناپاک حملہ کیا جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ نااہل نواز شریف نے دہشتگردوں کی سرپرستی کا انتہائی گھنائونا الزام پاکستان پر لگا دیا اور یہ الزام ایک ایسے موقع پر لگایا گیا جب پاکستان کے بیرونی دشمن پاکستان کو دہشت گردوں کیخلاف نرم گوشہ رکھنے کے بودے اور تعصب پر مبنی الزام کے تحت گرے لسٹ میں شامل کر چکے ہیں اور بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کبھی کسی جماعت کے سربراہ نے اس طرح اپنے وطن کیخلاف خبثِ باطن کا اظہار نہیں کیا جس طرح نااہل نے کیا۔
نااہل کی الزام تراشی اور دشمنوں کے بیانیہ کے ببانگ دہل اظہار پر قومی سلامتی کمیٹی کو اپنا ہنگامی اجلاس منعقد کرنا پڑا، اس اجلاس میں فورسز کے چیفس اور تمام ریاستی عہدیدار اور سٹیک ہولڈرز شریک ہوئے اور انہوں نے نااہل کے بیان کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ پوری قوم اور ریاستی ادارے بیک زبان ہو کر نااہل کے بیانیے کو مسترد کررہے ہیں جبکہ نااہل شرمندہ ہونے کی بجائے اپنے بیان پر ڈٹے رہنے کا اعلان کررہا ہے۔ بہرحال نااہل کے ریاست مخالف بیانیہ کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست مخالف اس بیانیہ کے ’’بانی‘‘ کو کوئی چھوٹ نہ دی جائے، اس سے دشمنوں کو ریاست پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو فکری اعتبار سے تباہ کرنے کی مذموم حرکت کی گئی۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 20 اگست 2016ء کے دن قصاص تحریک کے آغازکے موقع پر احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پڑوسی ملک نواز شریف کا اقتدار بچانے کی جنگ لڑرہا ہے، اس بیان پر ملک بھر میں کھلبلی مچ گئی۔ اس بیان کے بعد انہوں نے ستمبر 2016ء میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شریف خاندان کی ملوں میں بھارتی ٹیکنیشنز اور انجینئرز کے کام کرنے کے حوالے سے ثبوت بھی میڈیا کو فراہم کیے۔ ان ثبوتوں میں پاسپورٹ نمبرز اور ویزہ فارم شامل تھے، یہ بھارتی شریف خاندان کی ملز کی طرف سے سپانسرز کیے گئے لیٹرز پر خصوصی ویزوں پرآئے۔ ان انکشافات پر شریف خاندان کے ترجمانوں نے عدالت جانے کا اعلان کیا لیکن آج کے دن تک کسی کو عدالت جانے کی جرأت نہ ہوسکی۔ بہرحال قائد انقلاب نے 2سال قبل جو انکشافات کیے تھے آج نااہل اپنی زبان سے ان کی تصدیق اور توثیق کررہے ہیں۔
نواز لیگ حکومت کے 5 سال معیشت کیلئے بھی تباہ کن ثابت ہوئے، پاکستان نے 70سالوں میں 45 ارب ڈالر قرضہ لیا جبکہ نااہل کے دور حکومت کے پانچ سالوں میں 90 ارب ڈالر سے زائد قرضہ لیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دفاع اور ترقیاتی بجٹ سے زیادہ سود کی ادائیگی کا بجٹ رکھا گیا۔ ایکسپورٹ کم ہوئیں، امپورٹس میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ 2013ء میں ڈالر ایک سو روپے کا تھا جو اب 120 روپے کا ہو گیا۔ زرعی شعبہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا، کسانوں کو ان کی فصل کے دانے دانے کی طرح سڑکوں پر رولا گیا۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے تمام دعوے جھوٹ کا پلندا ثابت ہوئے۔ 2013ء میں دیہات میں لوڈشیڈنگ 12 سے 16گھنٹے تھی آج بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 16 گھنٹے ہے۔ گزرے ہوئے 5 سال سیاسی کارکنوں کیلئے آمرانہ ادوار سے بھی زیادہ بدترین تھے۔ ہزاروں کارکنان کو آزادی اظہار کے حق کو استعمال کرنے پر پابند سلاسل کیا گیا، حبس بے جا میں رکھا گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن شریف دور کا بدترین سانحہ ہے جس میں 100 لوگوں کو گولیاں ماری گئیں، جن میں 14 شہید ہو گئے اور پھر اقتدار کے آخری 4 سال تک انصاف نہیں ہونے دیا گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے باعث پوری دنیا میں پاکستان کا اسلامی، جمہوری تشخص بری طرح مجروح ہوا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور قائدین کے خلاف بھی بدترین حکومتی انتقامی کارروائیاں کی گئیں، سیاسی کارکنوں سے آزادی اظہار کا حق چھینا گیا، سوشل میڈیا کو ریاستی اداروں اور میڈیا کی کردار کشی مہم کیلئے استعمال کرنے کی بدترین روایت قائم کی گئی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار گزرے ہوئے ان سیاہ سالوں میں پاکستان کے سب سے بڑے منصف ادارے سپریم کورٹ کی بدترین توہین کی گئی، ججز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی، ججز کے گھروں پر فائرنگ کی گئی، کاسہ لیسوں اور حواریوں کے ذریعے تحقیقات میں شامل افراد پر زمین تنگ کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دی گئیں۔ ریاست کے اندر ریاست قائم کی گئی، وزراء کو فوج اور عدلیہ کی کردار کشی کے ٹاسک دئیے گئے۔ یہ پہلی بدبخت حکومت تھی جو اداروں کاآئینی احترام یقینی بنانے کا مینڈیٹ لے کر آئی اور اداروں کی تذلیل پر کاربند رہی۔ وزراء توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ، متعدد پر تاحال توہین عدالت کے کیسز چل رہے ہیں۔
چار سال سے زائد عرصہ عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے وزیر خزانہ کو مفروری کی حالت میں سینیٹ کا ممبر منتخب کروایا گیا۔ یہ واحد بدبخت حکومت ہے جس کے وزیراعظم نے فوج کیخلاف نیوز لیکس سکینڈل شائع کروایا اور اپنی ہی فوج کو دنیا میں بدنام کرنے کی بدترین حرکت کی۔ نااہل نے اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کی پارلیمنٹ کے اندر ختم نبوت کے قانون پر حملہ کیا، ختم نبوت کے قانون کو تبدیل کیا اور پھر پکڑے جانے پر دوبارہ قانون کو بحال کیا۔ آج کے دن تک ذمہ داروں کیخلاف نہ کوئی کارروائی کی اور نہ ہی رپورٹ منظر عام پر آنے دی گئی۔
اسی بدبخت حکومت نے ایک سال تک آپریشن ضرب عضب کو شروع نہیں ہونے دیا اور 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانیں لینے والے خطرناک دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہونے کا موقع فراہم کیا۔ بالآخر پاک آرمی کو ملک کے وسیع تر مفاد میں آپریشن کا آغاز کرنا پڑا۔ اگر یہ آپریشن بروقت شروع ہو جاتا تو کالعدم تنظیموں کے سربراہان کو پاکستان سے بھاگنے کا موقع نہ ملتا اور انسانیت کے یہ ناسور اپنے انجام سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ نہ صرف آپریشن ضرب عضب کو تاخیر نشانہ بنایا بلکہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی راہ میں قدم قدم پر روڑے اٹکائے۔ آپریشن ردالفساد کو بھی ناکام بنانے کی مذموم حرکتیں کیں۔
نیز کوئی ایسی غیر سیاسی، غیر اخلاقی، غیر آئینی، غیر قانونی حرکت نہیں تھی جس کا نااہل اور ان کے حواریوں نے ارتکاب نہ کیا ہو۔ پانچ سال تک وزیر خارجہ مقرر نہیں ہونے دیاگیا اور پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کر دیا گیا۔ پاکستان تاریخ میں پہلی بار خطے میں تنہا ہوا۔ برادر اسلامی ممالک کے ساتھ روایتی تعلقات بھی تعطل کا شکار ہوئے۔ پہلی بار افغانستان کی طرف سے پاکستان کی سرزمین پر حملے ہوئے لیکن ہر جگہ نااہل کی نااہلی آڑے آئی۔ پاناما لیکس سکینڈل نے اس نااہل ٹولے کی اخلاقی، قانونی حیثیت کا پردہ چاک کر دیا۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کے دوران علم ہوا کہ وزیراعظم کسی اور ملک کا اقامہ ہولڈر اور ملازم ہے، اور اس کا وزیر خارجہ بھی اقامہ ہولڈر نکلا، ابھی بقیہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ بہرحال گزرے ہوئے ان پانچ سالوں کو ایک جملے میں سمویا جائے تو دل سے ایک ہی صدا نکلتی ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے تاریک ترین پانچ سال تھے۔