رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنے اندر اﷲ تعالیٰ کی لامحدود رحمتیں اور بے پایاں برکتیں سمیٹے ہوئے ہم پر سایہ فگن ہے۔ مومنین اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں اور شب و روز عبادات میں مصروفِ عمل ہیں۔ روزے کا مقصد کیا ہے؟ اور اس مقصد کو حاصل کرنے والے کو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے کیا اجرو ثواب عطا کیا جاتا ہے؟ زیرِنظر صفحات پر ہم اسی امر کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے:
روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے
روزہ ایک بدنی عبادت ہے جو تقویٰ اور رضاے الٰہی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔ رضاے الٰہی کا حصول ہی مطلوب و مقصودِ مومن ہے۔ گویا دینِ اسلام کا تیسرا رکن ’روزہ‘ مقصود اور مطلوب تک رسائی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے روزے کی مقصدیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
یٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
(البقرة، 2: 183)
اللہ تعالیٰ نے یٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ کے ذریعے تقویٰ کی نعمت کے حصول کو ایمان کی نعمت سے مشروط فرما دیا ہے کہ یہ نعمت صرف اُسے ملے گی جس کے دل میں ایمان موجود ہوگا۔ گویا اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنی خاص نعمت کے لیے منتخب فرمانا چاہتا ہے تو اُس کے لیے بندہ بھی خاص ہی چنتا ہے۔ روزے کے ذریعے تقویٰ کی نعمت عطا فرمانے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے اہل ایمان کا انتخاب کرتا ہے اور پھر اُن کے ظرف کا معیار دیکھتا ہے۔ وہ ایسا دل دیکھتا ہے کہ جس میں ایمان کا نور تابانیاں بکھیر رہا ہو تاکہ وہ اس نعمت کو بخوبی سنبھال سکے۔
روزے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘۔ یعنی اس مجاہدہ کا مقصد یہ ہے کہ تم اللہ سے ڈرنے والے اور اس کی خشیت اختیار کرنے والے بن جاؤ۔
تقویٰ کیا ہے؟ اس کی سادہ اور بہترین تعریف امام ابوبکر محمد الروزباری نے کی ہے:
’’تقویٰ اُن تمام چیزوں سے اجتناب کرنے کا نام ہے جو تمہیں اللہ سے دور کرتی ہیں۔‘‘
(ابو نعیم، حلیة الاولیاء، 10: 386)
گویا تقویٰ اور پرہیزگاری ہر اس شے سے دوری اختیار کرنے کا نام ہے جو رب کی یاد سے دور کر دے، ہر اُس محبت کو دل سے نکالنے کا نام ہے جو حبِ الٰہی کو دل سے نکال دے۔ گویا دنیاوی لذات اور شہواتِ نفسانی سے رک جانے کا نام تقویٰ ہے۔
روزے کا اجر
روزے کے اجر کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہایت خوب صورت حدیث مبارک مروی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعِفُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، إِلٰی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ مَا شَاءَ ﷲُ. یَقُولُ ﷲُ: إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهٗ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهٖ. یَدَعُ شَهْوَتَهٗ وَطَعَامَهٗ مِنْ أَجْلِي. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهٖ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهٖ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ.
’’بنی آدم کے تمام اعمال کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک - جتنا بھی اللہ چاہے - بڑھا دیا جاتا ہے سوائے روزہ کے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا کیونکہ روزہ دار میرے لیے اپنی خواہشات اور کھانا چھوڑتا ہے‘۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔‘‘
(صحیح مسلم، مسند أحمد، سنن ابن ماجه)
بندے کی ہر نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اُس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے مگر روزہ ایک ایسا عمل ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ بندے کے نامہ اعمال میں نہیں، بلکہ اپنی بارگاہ میں موجود دفتر میں تحریر کرتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ’روزہ میرے لیے ہے اور اُس کی جزا میں ہی دیتا ہوں‘۔
رمضان کے مہینے میں روزے دار اللہ کی خاطر کھانا پینا اور لذات و شہواتِ دنیا ترک کر دیتا ہے، گرمی کی شدت میں بھی بھوک اور پیاس کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے، اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تمام نفسانی، بدنی اور بشری شہوات کو پسِ پشت ڈال کر کبھی قیام، کبھی سجود اور کبھی رکوع کر رہا ہوتا ہے۔ اُسے قدم قدم پر لذاتِ دنیا اپنی طرف راغب کرتی ہیں؛ مگر وہ ان سب ترغیبات کی نفی کرکے اللہ کی چاہت کے حصول کے لیے سرگرداں ہوتا ہے۔ الغرض وہ سب کچھ اللہ کے لیے چھوڑ کر آتا ہے، لہذا جب اجر کی بات آتی ہے تو وہ فرماتا ہے کہ یہ بندہ خالصتاً میری رضا کے لیے روزہ رکھتا تھا، لہٰذا اسے اجر بھی میں خود ہی دوں گا۔
وہ اجر کیا ہے؟ اس کا ایک اشارہ اسی مذکورہ حدیث کے الفاظ میں اس طرح مذکور ہے کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہوتی ہیں جن سے اُسے فرحت ہوتی ہے۔ ایک راحت اُس وقت اسے ملتی ہے جب وہ افطار کر رہا ہوتا ہے اور دوسری راحت تب ملے گی جب وہ بارگاهِ الٰہی میں پیش ہوگا اور اُسے دیدارِ الٰہی کا جام پلایا جائے گا۔ گویا روزہ دار کا اجر یہ ہے کہ اُسے دیدارِ الٰہی سے نوازا جائے گا۔
یہاں پر یہ واضح کر دینا بھی لازم ہے کہ روزہ داروں کی بھی کئی اقسام ہیں۔ کوئی روزہ دار لذات و شہواتِ دنیا سے دور رہنے کے لیے روزہ رکھتا ہے، کوئی جنت کی طلب کے لیے روزہ رکھتا ہے اور کوئی دیدارِ الٰہی کے لیے روزہ رکھتا ہے۔ روزے دار کو حقیقی خوشی تب ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کر رہا ہوگا اور یہی ملاقات دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے روزہ کا اجر ہوگی۔
اہل اﷲ کا اِفطار اور عید
جنت میں کسی کی راحت جنت کی نعمتوں میں ہوگی تو کسی کی راحت جنت کی نہروں، غلمان اور حور و قصور میں ہوگی مگر کوئی ایسا بھی ہوگا کہ ان تمام راحتوں کی موجودگی میں بھی افسردہ بیٹھا ہوگا۔ جنت میں بھی اس شخص کی پریشانی کو دیکھ کر پوچھا جائے گا: اے میرے بندے! تیری افسردگی کا ماجرا کیا ہے؟ عرض کرے گا: مولا! میں دنیا کی لذتوں سے جدا ان جنتوں کے لیے تو نہیں ہوا تھا۔ میرا مطلوب و مقصود تو دیدارِ الٰہی تھا۔ پس ایسے طالب کو جب دیدارِ الٰہی سے فیض یاب کیا جائے گا تب ہی اسے راحت نصیب ہوگی۔
امام قشیری ’لطائف الاشارات (1: 152)‘ میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 183 کی تفسیر کے تحت بیان کرتے ہیں:
روزہ کی دو اقسام ہیں:
- ظاہر کا روزہ
- باطن کا روزہ
واضح رہے کہ زبان، آنکھ، کان اور نفس کا بھی روزہ ہے اور قلب، روح، سِر، سر السر، خفی اور اَخفیٰ کا بھی روزہ ہے۔ جو بندے ظاہر کا روزہ رکھتے ہیں انہیں اجر بھی ظاہر میں دیا جاتا ہے اور جو لوگ باطن کا روزہ رکھتے ہیں انہیں اجر بھی باطن میں دیا جاتا ہے۔ جو لوگ ِسر کا روزہ رکھتے ہیں تو انہیں اجر بھی راز میں دیا جاتا ہے اور وہ لوگ جو روح کا روزہ رکھتے ہیں تو ان کی روح کو اجر بھی روحانی مراتب کی بلندی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔
اس کی تفصیل میں امام قشیری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:
صوموا لرؤیته، وافطروا لرؤیته.
اس حدیثِ مبارک کا ترجمہ علماء کے نزدیک یہ ہے کہ:
’’(رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر روزے رکھنا چھوڑ دو‘‘۔
یعنی علماء کے ہاں روزے دار کی عید تب ہوتی ہے جب شوال کا چاند نظر آتا ہے۔ امام قشیری اس حدیث کا ترجمہ عرفا کے مطابق یہ کرتے ہیں کہ عرفاء اور خواص کا روزہ صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہی ہوتا ہے کیونکہ اُنہوں نے اﷲ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے، جہاں اُنہیں دیدارِ الٰہی کا جام پلایا جائے گا۔ لہٰذا اُن کا افطار اور ان کی عید تب ہوتی ہے جب اﷲ تعالیٰ انہیں ملاءِ اعلیٰ پر اپنا دیدار کراتا ہے۔ فرماتے ہیں:
لرؤیته: عائدة عند أهل التحقیق إلی الحق سبحانه.
’’ہم خواص کے نزدیک رؤیت کی ضمیر اﷲ u کی طرف لوٹتی ہے (کہ دیدارِ الٰہی کے بعد ہی روزہ افطار کرو)۔‘‘
یعنی اہل اللہ کا چاند تو رب کا دیدار ہوتا ہے۔ انہیں شوال کے چاند سے کوئی غرض نہیں۔ وہ ہمہ وقت باطنی روزے سے ہوتے ہیں اور اُن کا یہ مجاہدہ و ریاضت اور روزے اس وقت تک جاری رہتے ہیں جب تک انہیں اللہ کے دیدار کی دولت نصیب نہیں ہو جاتی۔
روزِ حشر روزہ دار کے لیے اَجر و ثواب
امام بیہقی ’شعب الایمان (3: 295، رقم: 3582)‘ میں ’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قیامت کے روز جب اللہ حساب لے رہا ہوگا تو بندے کے ظلم و ستم کے بدلے میں اُس کے نیک اَعمال کو اُس کے نامہ اعمال سے منتقل کرکے مظلومین کے نامہ اعمال میں داخل فرمادے گا، یہاں تک کہ ظالم اور گناہ گار کے نامۂ اعمال میں روزے کے سوا کچھ بھی باقی نہ بچے گا، سب نیک اعمال مظلومین کے نامہ اعمال میں منتقل ہوچکے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض روزہ رکھنے کے ہی سبب اُس کے تمام گناہ، ظلم، عصیاں، نافرمانی، نقائص معاف کردیے گئے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ درحقیقت اُس کی معافی کا سبب یہ ہے کہ وہ روزے اس حال میں رکھتا ہے کہ اس دوران وہ اولیاء و صلحاء کی صحبتوں کو بھی اختیارکرتا ہے۔ لہٰذا ان صحبتوں اور ان سے ملنے والے اثرات کی وجہ سے اس کے باطن میں تقویٰ و پرہیزگاری کا وہ نور پیدا ہوا جو اس کی بخشش کا سبب بن گیا۔
ابن رجب الحنبلی ’لطائف المعارف (ص: 37)‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ سلف صالحین ہم سے کہا کرتے تھے:
طوبٰی لمن ترک شهوة حاضرة لموعد غیب لم یره.
’’خوش خبری ہو اُس شخص کے لیے جس نے نظر آنے والی شہوات، لذات اور کھانے پینے کو اُس اجر کی خاطر چھوڑ دیا جو پردے کے پیچھے چھپا ہے۔‘‘
روزہ داروں کے مقامات و درجات
روزہ داروں کے اجر بھی مختلف ہوں گے اور اُن کے مقامات اور درجات بھی جدا جدا ہوں گے۔ عابدین، عارفین، عاشقین، محبین، اولیاء و صالحین اور اتقیاء میں سے ہر ایک کا روزہ ان کے روحانی اور باطنی حوالے کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ امام یعقوب بن یوسف الحنفی فرماتے ہیں:
آخرت میں اللہ والوں کو خوبصورت جام میں شرابِ طہور اور شہد کی نہروں سے گلاس بھر بھر کر پلائے جا رہے ہوں گے۔ اُس وقت اﷲ رب العزت اپنے اولیاء سے یوں مخاطب ہوگا:
اے میرے اولیاء! جب بھی میں نے دنیا میں تم پر نظر ڈالی تو تمہارے ہونٹ پیاس کی وجہ سے خشک دیکھے۔ تمہاری آنکھوں کو ہمیشہ اپنی محبت میں اشک بار دیکھا اور تمہارے پیٹ کو بھوک کی شدت کی وجہ سے سکڑا ہوا دیکھا۔ آج کا دن تمہارا ہے۔ بہشت کی یہ تمام نعمتیں تمہارے لیے سجائی گئی ہیں۔
(ابن رجب، لطائف المعارف/ 158)
اُس وقت اللہ رب العزت فرما رہا ہوگا:
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِٓیْئًام بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِo
’’خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھائو اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے۔‘‘
(الحاقة، 69: 24)
- امام جلال الدین سیوطی ’الدر المنثور (1: 441)‘ میں ابن ابی الدنیا کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
الصائمون تنفح من أفواههم ریح المسک، وتوضع لهم یوم القیامة مائدة تحت العرش، فیأکلون منها والناس في شدة.
’’جب روزے دار قیامت کے دن آرہے ہوں گے تو اُن کی سانسوں سے مشک کی خوشبو آرہی ہوگی اور عرشِ الٰہی کے نیچے ان کے لیے ربِ دو جہاں کا خاص دستر خوان بچھایا جا رہا ہوگا۔ روزے دار اللہ رب العزت کی خاطر اُس دسترخوان سے کھا رہے ہوں گے، جب کہ اس کے برعکس عامۃ الناس اپنے حساب وکتاب میں مشغول ہوں گے۔‘‘
پھر فرمایا: اللہ رب العزت کی خاطر روزہ رکھنے والو! سن لو! تمہارا اجر یہ ہے کہ تم اللہ رب العزت کے خاص دستر خوان سے کھاؤ گے کہ جسے کسی آنکھ نے آج تک نہ دیکھا ہوگا۔
ولا أذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر لا یقعد علیها إلا الصائمون.
’’جسے کسی کان نے آج تک سنا نہ ہوگا، نہ ہی کسی بشر کے وہم و گمان سے گزرا ہوگا، سوائے روزے داروں کے اُس دستر خوان پر کسی کو نہ بٹھایا گیا ہوگا۔‘‘
(هندی، کنزالعمال، 8: 211، رقم: 23620)
جب روزِ قیامت روزے دار اللہ تعالیٰ کی طرف سے بچھائے گئے دستر خوان پر طعام میں مصروف ہوں گے اور دیگر لوگ حساب و کتاب کی تکالیف برداشت کر رہے ہوں گے تو وہ دوسرے بندے کہیں گے:
اے مولیٰ! تو ہمارا حساب لے رہا ہے مگر وہ کھانے پینے میں مصروف ہیں۔ فرمایا: تمہیں معلوم نہیں کہ جب تم دنیا میں کھانے پینے میں مصروف ہوتے تھے تو یہ روزہ رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ جب تم غفلت کی نیند سو رہے ہوتے تھے تو یہ قیام اللیل کے ذریعے مجھے منا رہے ہوتے تھے۔
(ابن رجب، لطائف المعارف: 158)
- سلف صالحین میں سے کسی نے خواب میں حضرت بشر بن حارث کو دیکھا کہ وہ جنت میں تشریف فرما ہیں اور اُن کے سامنے جنت کا دستر خوان بچھا ہوا ہے اور وہ اس میں تناول فرما رہے ہیں۔ سوال کیا کہ مولیٰ! بشر بن حارث پر اتنا کرم کیوں کر رہا ہے؟ غیب سے آواز آئی:
کل یا من لم یأکل، واشرب یا من لم یشرب.
’’(اے بشر حافی!) آج کھا کیونکہ دنیا میں تو میری خاطر نہ کھاتا تھا۔ آج پی، کیونکہ دنیا میں میری خاطر نہ پیتا تھا۔‘‘
(ابن رجب، لطائف المعارف: 158)
یعنی تو دنیا میں جس جس لذت کو ترک کر کے آیا ہے، وہ ساری، لذتیں اور نعمتیں تیرے لیے یہاں کھول دی گئی ہیں۔
روزہ صبر کی تلقین کرتا ہے
جس طرح اللہ رب العزت اپنی رحمتِ کاملہ سے بندے کے ہر عمل کا اجر دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے، اس طرح روزے کے عمل کا اجر بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ عمل کیسے بڑھتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ روزے کے ذریعے بندہ اللہ کی رضا پر صبر کا اظہار کرتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ کا بندہ صبر کرتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اُس کے مقامات اور اُس کے صبر کا اجر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے روزے کو صبر ہی کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے۔ رمضان المبارک کو ماهِ صبر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ روزہ صبر سکھاتا ہے، اس کی تلقین اور تربیت (training) کرتا ہے۔
جب بندہ اللہ کی اطاعت کی خاطر صبر کرتے ہوئے حرام چیزوں سے بچتا اور بھوک اور پیاس کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے، کبھی شدید گرمی کی تمازت برداشت کرتا ہے، کبھی سفر کی حالت میں صبر کرتا ہے، کبھی میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتا ہے؛ مگر زندگی کے ہر کٹھن مرحلے پر رضاے الٰہی کی خاطر صبر کا تلخ جام نوش کرتا رہتا ہے تو اُسے اس کے صبر کی وجہ سے یہ نوید سنائی جاتی ہے کہ:
اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِحِسَابٍo
بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا۔
(الزمر، 39: 10)
نسبت سے اعمال کے اجر میں اضافہ
واضح رہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا اجر نسبت کے بدلنے سے بھی بدل جاتا ہے۔ جس طرح نماز، نماز ہی ہے مگر مسجد حرام، مسجد نبوی یا مسجد اَقصیٰ میں نماز پڑھیں تو مکان کے بدلنے سے اُس نماز کا اجر عام نمازوں جیسا نہیں رہتا، بلکہ کئی ہزار گنا بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح حرمِ مکہ میں رکھے گئے رمضان کے روزوں کا اجر بھی دوسرے مقام کے روزوں سے زیادہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
مَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ بِمَکَّةَ فَصَامَ، وَقَامَ مِنْهُ مَا تَیَسَّرَ لَهٗ، کَتَبَ ﷲُ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ شَهْرِ رَمَضَانَ فِیْمَا سِوَاهَا.
’’جس نے مکہ مکرمہ میں ماهِ رمضان پایا اور وہیں روزے رکھے، اور نماز تروایح میں حسبِ استطاعت قیام کیا تو اﷲ تعالیٰ اُس کے نامہ اعمال میں دوسرے مقامات کے ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھے گا۔‘‘
(سنن ابن ماجه)
ماہ رمضان المبارک تو وہی تھا جو پوری اُمت مسلمہ کو نصیب ہوا، لیکن جب کسی مسلمان کو وہی رمضان مکہ مکرمہ میں نصیب ہوگیا تو اللہ رب العزت نے اُس کا اجر ایک لاکھ ماہ کے برابر لکھ دیا۔ اسی طرح رمضان المبارک میں ادا کی گئی فرض اور نفلی عبادات اور نیک اعمال کا معاملہ ہے کہ اس ماهِ مقدس کی نسبت سے اُن کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مَنْ تَقَرَّبَ فِیْهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ، کَانَ کَمَنْ أَدّٰی فَرِیْضَةً فِیْمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدّٰی فِیْهِ فَرِیْضَةً، کَانَ کَمَنْ أَدّٰی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَةً فِیْمَا سِوَاهُ.
’’رمضان المبارک میں جس نے بھی کوئی ایک نیک عمل کیا تو اُس کا اجر دوسرے مہینوں میں کیے گئے فرض کے برابر ہے، جس کسی نے رمضان المبارک میں ایک فرض ادا کیا تو اُس کا اجر دیگر مہینوں میں ادا کیے گئے ستر فرائض کے برابر ہوتا ہے۔‘‘
(صحیح ابن خزیمة، لطائف المعارف)
اِسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ.
’’جو صدقہ رمضان کے مہینے میں دیا جائے۔‘‘
(سنن الترمذی)
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً.
’’رمضان المبارک میں ادا کردہ عمرے کا ثواب ایک حج کے برابر ہے۔‘‘
(مسند أحمد بن حنبل، سنن الترمذی)
یوں رمضان المبارک میں ہر عمل کا اَجر بڑھتا چلا جاتا ہے؛ خواہ وہ نوافل ہوں، تسبیحات ہوں، ذکر اذکار ہو، درود شریف ہو، الغرض کوئی بھی عبادت اور نیک عمل جس کے کرنے پر اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، جب وہ عمل رمضان میں کیا جائے گا تو اُس کا اجر کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اسی لیے جب رمضان کا مقدس مہینہ آتا تو ہمارے اسلاف، اولیاء و صالحین خیرات اور عملِ خیر کی کثرت کرنا شروع کر دیتے تھے۔
واضح رہے کہ اگر رمضان کی مبارک سعادتوں کا عالم یہ ہے تو پھر رمضان المبارک میں رکھا ہوا روزہ بھی عام روزوں جیسا نہیں رہتا۔ امام ابراہیم نخعی فرماتے ہیں:
’’رمضان المبارک میں ایک دن کا روزہ عام دنوں کے ہزار روزے کے برابر ہو جاتا ہے۔‘‘
(ابن رجب، لطائف المعارف: 151)
کیونکہ رمضان المبارک میں روزے کا اجر و ثواب بڑھنے کا تعلق زمان سے بھی ہے اور مکان سے بھی ہے۔
صحبتِ صالحین میں رکھے گئے روزوں کا اجر
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خالقِ دو جہاں کے اولیاء تو مخلوقِ الٰہی کو اپنے رب کے قریب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا ان کی قربت میں رہ کر جو روزے رکھے جاتے ہیں یا نیک اعمال سرانجام دیے جاتے ہیں، ان کا اجر و ثواب اور مقام و مرتبہ بھی اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ ان کی معیت اور سنگت میں جو عبادت کی جاتی ہے، خواہ وہ نماز، روزہ کی شکل میں ہو یا قیام اللیل کی شکل میں؛ یہ تمام عبادت بھی بے نظیر و بے مثال ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے: میرا مقصد تو یہ ہے کہ تمہیں روزے سے تقویٰ کی دولت نصیب ہو جائے، اگر تمہیں ایسی صحبتیں مل جائیں جو تمہیں صبح سے شام تک تقویٰ کی دولت بخش رہی ہوں تو اُس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے!
اِعتکاف کے اغراض و مقاصد
اُمتِ مسلمہ کے لیے رمضان کا مہینہ اللہ رب العزت کا ایک عظیم الشان احسان ہے۔ جہاں اللہ رب العزت اس ماہِ مقدس میں اپنی رحمتیں، برکتیں اور عنایات کی برسات نازل فرماتا ہے، وہیں ان بے پایاں عنایات میں سے ایک بہترین نوازش آخری عشرے کا اعتکاف بھی ہے۔ یہ نعمتِ عظمیٰ درِ حبیب پر ہمیشہ پڑے رہنے کی عملی تصویر ہے۔ غالب نے اسی کیفیت کو مجازی رنگ میں یوں پیش کیا ہے:
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منتِ درباں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
دیکھا جائے تو اِعتکاف کا یہ عشرہ انسان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اعتکاف کے دس دن ایک طرف اور دنیاوی اغراض و مقاصد کی خاطر گزارے گئے سال کے باقی ماہ و ایام ایک جانب۔ ان دس دنوں میں اللہ کی رضا کی خاطر سب کچھ چھوڑ کر مومنین اللہ کے در پر سائل بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر اس عشرہ کا حق ادا کیا جائے تو اس کے اثرات اگلے پورے سال تک رہتے ہیں۔ گویا یہ ایک refresher course ہے جو پورے سال کا زادِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ اس دوران میں ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ میں اللہ کا منگتا کیسے بنوں۔۔۔؟ اس ذاتِ باری تعالیٰ سے کب، کیسے اور کیا مانگوں۔۔۔؟ میں ایسا کیسے بنوں کہ اپنے رب کو بھا جائوں۔۔۔؟ اللہ کو کیسے پاؤں۔۔۔؟ اسے کیسے راضی کروں۔۔۔؟ اپنی زندگی کو گناہوں کی غلاظت سے کیسے پاک کروں۔۔۔؟ اپنے آپ کو ایسا انسان کیسے بنائوں جس سے دوسرے لوگ فیض حاصل کریں؟۔ ہم دراصل اعتکاف کے دوران اللہ کے دروازے پر بیٹھتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر زندگی سنوارنے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔
روایتی اعتکاف اور شہرِ اعتکاف میں فرق
معمول کی زندگی آدمی صبح سے شام تک اپنے معمولات میں گزارتا ہے۔ پورے سال میں ہم وہ اعمال نہیں کر پاتے جو اعتکاف میں بیٹھ کر سرانجام دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ انفرادیت سے اجتماعیت زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ معروف حدیثِ مبارک ہے کہ ایک مرتبہ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں جلوہ افروز ہوئے تو وہاں دو مختلف حلقات ہو رہے تھے: ایک حلقہ ذکر اور دوسرا حلقہ علم و فکر۔ ان میں سے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی محفل کو مقامِ مقبولیت سے نوازتے ہوئے اس میں شرکت فرمائی۔
(سنن ابن ماجه، سنن الدارمی)
اس حوالے سے دیکھا جائے تو عام مساجد میں بیٹھا جانے والا اعتکاف بھی ذکر و اذکار والے حلقہ کی طرح ہے اور تحریک منہاج القرآن کے تحت منعقد ہونے والے شہرِ اعتکاف کی مثال حلقۂ علم و تفقہ کی سی ہے۔ یہاں ذکر، اذکار، حمد و مناجات، خشیتِ الٰہی اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑھ کر تفقہ فی الدین کا عظیم اور شاندار ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ شہرِ اعتکاف عام مساجد کے اعتکاف جیسا نہیں ہے۔ بالعموم جن جگہوں پر لوگ انفرادی یا اجتماعی اعتکاف بیٹھتے ہیں، وہاں معتکفین کی تربیت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا لیکن حرمین شریفین کے بعد دنیا کے سب سے بڑے اجتماعی اعتکاف میں ہر عمر، ہر جنس اور ہر شعبۂ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کی دینی تربیت اور اصلاحِ احوال کا بہترین انتظام ہوتا ہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم نوجوان طبقہ ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے۔ اس اہم طبقہ کی تعلیم و تربیت اور دینی بنیادوں پر شخصیت سازی کی جاتی ہے تاکہ وہ اسلامی فلاحی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں۔ اس کے ساتھ آنے والی نسلوں کو تربیت فراہم کرنے والی خواتین کو خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کی حیاتِ مبارکہ سے آگہی دلا کر ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس طرح دینِ اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لیے کی گئی اِس اِنقلابی اور اِجتماعی کاوش کے مثبت اثرات فرد سے شروع ہو کر معاشرتی سطح تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ اس مبارک برسات سے ہر طبقۂ حیات فیض یاب ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی فرماتے ہیں: تحریک کے زیر اہتمام شہر اعتکاف کے بہت سے زریں پہلوئوں میں سے ایک شاندار پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ طویل سفر کر کے آتے ہیں۔ محاورہ مشہور ہے کہ سفر وسیلۂ ظفر ہے۔ دینِ اسلام کے حصول کے لیے سفر کرنا اضافی عبادت ہے اور اس عبادت کا اجر بھی اضافی ہے۔ سفر کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں لوگ سحری و افطاری اور دیگر اخراجات کی ادائیگی بھی بذاتِ خود کرتے ہیں۔ عام مساجد میں اعتکاف بیٹھنے والے عام طور پر کوئی ادائیگی نہیں کرتے کیونکہ معتکفین کا کھانا ان کے گھروں سے آتا ہے۔ یاد رہے کہ جس عمل میں جیب سے کچھ خرچ نہ کیا جائے تو وہ عمل قبول تو ضرور ہوتا ہے مگر مقبول نہیں۔
پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر کوئی وقت نکال کر دس دن دس راتیں بیٹھتا ہے۔ جو بھی اعمال جس کی سمجھ میں آتے ہیں، انفرادی اعتکاف میں معتکفین ادا کرتے ہیں۔ کوئی نفل پڑھتا ہے، کوئی تسبیح کرتا ہے، بھلے سیدھی کر رہا ہے یا الٹی کر رہا ہے، درست پڑھ رہا ہے یا غلط پڑھ رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہاں کے امام صاحب اور خطیب صاحب اُس کو نفل پڑھنے کا طریقہ یا کوئی وظیفہ بتا دیتے ہیں۔ دس دن گزار کر وہ معتکفین چلے جاتے ہیں۔ اس طرح نہ ان کی تعلیم ہوتی ہے اور نہ کوئی تربیت۔ تحریک منہاج القرآن کے شہرِ اعتکاف میں بیٹھے گئے اعتکاف میں ہزار ہا لوگوں کا سمندر چوبیس گھنٹے ایک نظم کے ساتھ بیٹھتا ہے اور شب و روز ان کی تربیت ہوتی ہے۔ اس تربیت کے فیض کا اثر پھر ان کی پوری زندگی کے اندر اپنا رنگ بکھیرتا نظر آتا ہے۔
یہ اِعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اِعتکاف تو محلے کی مسجد میں بھی بیٹھا جاسکتا ہے پھر اتنی مسافت طے کرکے تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں بیٹھنے کی کیا ضروت ہے؟ یہ بات درست ہے کہ جہاں بھی اعتکاف بیٹھیں ثواب برابر ملتا ہے؛ سوائے تین مساجد کے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ اِن تین جگہوں کے سوا روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں عبادت کا اصل ثواب بڑھ جاتا ہے۔ مگر بات صرف ثواب کی نہیں ہے۔ ثواب ایک چیز ہے جب کہ ننانوے چیزیں اس کے علاوہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک آدمی تنہا ذکرِ الٰہی کرتا ہے اور ایک حلقے میں زیادہ لوگ ذکر کرتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگ ذکر کرتے ہیں اتنے ہی ملائکہ اس حلقے سے شریک ہوتے ہیں اور اس سے برکات بڑھ جاتی ہیں۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث مبارک ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ گشت کرنے والے مخصوص فرشتے ہیں جو ذکر کی مجالس کو تلاش کرتے رہتے ہیں، جب وہ ذکر کی کوئی مجلس دیکھتے ہیں تو ان (اہل ذکر) کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے بعض فرشتے دوسرے فرشتوں کو (اوپر تلے) ڈھانپ لیتے ہیں، حتیٰ کہ زمین سے لے کر آسمانِ دنیا کی وسعتیں ان سے بھر جاتی ہے، جب اہلِ ذکر مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو یہ فرشتے آسمان کی طرف واپس جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہu ان سے سوال کرتا ہے، حالانکہ اسے ان سے زیادہ علم ہوتا ہے، کہ ’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ہم زمین پر تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں، جو سبحان اﷲ، اللّٰہ أکبر، لا إلہ إلا اﷲ اور الحمد ﷲ کا ذکر کر رہے تھے اور تجھ سے سوال کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ مجھ سے کیا سوال کر رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: نہیں اے ہمارے رب! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیتے تو ان کا کیا عالم ہوتا؟
’’(پھر) فرشتے عرض کرتے ہیں: باری تعالیٰ! وہ تجھ سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ کس چیز سے میری پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اے رب! تیری دوزخ سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے میری دوزخ کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ میری دوزخ کو دیکھ لیتے تو پھر کس قدر پناہ مانگتے؟ (پھر) فرشتے عرض کرتے ہیں: اور وہ تجھ سے بخشش کے طلبگار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے ان کو بخش دیا اور جو کچھ انہوں نے مانگا وہ بھی میں نے انہیں عطا کر دیا اور جس چیز سے انہوں نے پناہ مانگی اس سے میں نے انہیں پناہ دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَیَقُوْلُوْنَ: رَبِّ، فِیْهِمْ فُـلَانٌ، عَبْدٌ خَطَّاءٌ، إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ.
’’فرشتے عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ان میں فلاں خطا کار بندہ بھی تھا، وہ اس مجلس کے پاس سے گزرا تو ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَهٗ غَفَرْتُ، هُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِهِمْ جَلِیْسُهُمْ.
’’میں نے اس کو بھی بخش دیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی بدبخت نہیں رہتا۔‘‘
قارئین کرام! اِس حدیث مبارک سے نہایت خوب صورت انداز میں انفرادی و اجتماعی عبادت کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ انفرادی طور پر کی گئی عبادت میں رہ جانے والی خامیاں اور نقائص بھی اجتماعیت میں دور ہوجاتے ہیں۔ بلکہ خطا کار صرف پاس بیٹھ جائے تو اس کی شقاوت کو سعادت میں بدل دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ثواب تو ہر جگہ برابر ملتا ہے مگر تربیت ہر جگہ میسر نہیں ہے۔ اپنی مرضی سے تو ہر کوئی اعتکاف بیٹھتا ہے، جس قدر بات سمجھ میں آتی ہے، اس پر عمل بھی ہوتا ہے۔ پھر دس دن بعد لوگ گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ گویا یہ ایک رسم ہے جو سالانہ پوری کی جاتی ہے۔ جیسے بیل کو کنوئیں کے ارد گرد باندھ دیتے ہیں تو وہ چلتا رہتا ہے۔ وہ رکتا نہیں مگر سفر بھی طے نہیں ہوتا کیونکہ رہتا تو آخر وہ اسی جگہ پر ہے۔ بس یہی فرق ہے۔
یہاں گھومتے ہی نہیں رہتے بلکہ سفر بھی آگے چلتا ہے۔ یہاں تربیت ملتی ہے، اخلاق سنوارنے پر محنت ہوتی ہے، عبادات کا مسنون طریقہ، اعمال کا سلیقہ اور اخلاقِ حسنہ کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔ یہاں انسانیت کے ساتھ معاملات کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔ طبیعت اور مزاج کو بدلنے پر محنت ہوتی ہے۔ ساری ساری رات احوال بدلنے کی بات ہوتی ہے۔ اگر کوئی سانولا ہے تو یہاں آکر گورا تو نہیں ہو سکتا مگر کالی طبیعتوں کو سفید کرنے کی کوشش ضروری ہوتی ہے۔ مزاج میں سختی ہے تو اُسے نرم کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کمزور جسم تو طاقت ور نہیں ہوسکتا لیکن اگر اندر نور آجائے تو وہ نور پھر باہر بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ مزاج اور طبیعت کو بدلنا، خصلتوں کو بدلنا، اخلاق کو بدلنا، لوگوں کے ساتھ برتاؤ کے طور طریقے بدلنا اصلِ دین اور روحِ دین ہے اور یہاں یہ سب کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں انہی سعادتوں، ساعتوں اور نعمتوں کو حاصل کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ اللہ والوں کی صحبت ہوتی ہے۔ روزے کا ماحصل اور مطلوب و مقصود اللہ کا تقویٰ ہے اور جو تقویٰ اللہ کے سالکین و صالحین اور اولیاء کی صحبت میں ملتا ہے وہ تنہائی میں نہیں مل سکتا۔ اللہ رب العزت ہمیں اس قابل کرے کہ ہم رمضان المبارک کی ان مبارک گھڑیوں میں اپنے قلوب و اذہان اور ظاہر و باطن کو اُس روزے کے حقیقی معارف و لطائف سے بہرہ ور کرسکیں۔