القرآن: طہارۃ القلوب (امراضِ قلب اور اُن کا علاج)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: حبیب احمد کوکب سامی

امسال شہرِ اعتکاف 2022ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’طہارۃ القلوب (باطنی امراض اور ان کا علاج)‘‘ کے موضوع پر 10 خطابات ارشاد فرمائے، ان خطابات کے عناوین درج ذیل ہیں:

1۔ الوصیۃ العلویۃ: حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کی وصیت حسنین کریمین علیہما السلام کے نام

2۔ باطن کو ظاہر سے بہتر کریں

3۔ خطرۃ: باطنی بیماری کا نقطہ آغاز

4۔ خواطرِ اربعۃ: (خاطِر ربانی، خاطِر مَلَکی، خاطِر شیطانی، خاطَر نفسانی)

5۔ برے خطرات بندے کو ہلاکت تک کیسے پہنچاتے ہیں؟

6۔ دل مریض کیسے ہوتا ہے؟

7۔ قربِ الہی

8۔ اصلاحِ قلب کے مراحل

9۔ دل کی سات امراض اور ان کا علاج

10۔ دل اور شہوات

زیرِ نظر صفحات پر اِن خطابات میں سے پہلے تین خطابات کے خلاصے نذرِ قارئین ہیں۔ بقیہ خطابات کے خلاصہ جات ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ شماروں میں شائع کیے جائیں گے۔


1۔ پہلا خطاب: الوصیۃ العلویہ (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی وصیت حسنینِ کریمینؓ کے نام)

شہرِ اعتکاف 2022ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت (21 رمضان المبارک) کی مناسبت سے اپنے پہلے خطاب (22 اپریل/ 20رمضان المباک۔ جمعۃ المبارک) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے نام وصیت کو بیان کیا۔ شیخ الاسلام کا اِن وصیتوں کو موضوع بنانے کا مقصد ایک طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا تو دوسری طرف شہر اعتکاف میں امسال کے خطابات کے موضوع ’’طہارۃ القلوب‘‘ کا آغاز کرنا بھی تھا، اس لیے کہ اِن وصیتوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادگان کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کلمات ارشاد فرمائے ہیں جن کا تعلق دلوں کے احوال سے ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت کے کلمات کو بیان کرتے ہوئے اپنے منفرد اسلوب کے تحت ان کلمات کی وضاحت اور تفصیل بھی بیان فرمائی۔

شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اس وصیت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دل کے احوال پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس وصیت کا ایک ایک لفظ قابلِ توجہ ہے۔ اسے دل و دماغ کی تختی پر ثبت کریں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

  • یہ وصیت ہے اس والد کی جو فانی ہے، اس بیٹے کے لیے جس نے اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اللہ کے ذکر کے ساتھ اپنے دل کو زندہ اور آباد رکھنا۔
  • تمہارے اور اللہ کے مابین جو رشتہ ہے اس سے بہتر اور نفع مند کوئی اور رشتہ نہیں ہوسکتا۔ بشرطیکہ اس رشتۂ عبودیت و للہیت کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔
  • اللہ کے مواعظ کے ذریعے اپنے دل کو زندہ رکھ، زہد کے ذریعے دل کی خواہشوں کو مردہ کردے، اس لیے کہ جو چیزیں اللہ کے نزدیک کرتی ہیں، وہی دل کو زندہ کرتی ہیں۔
  • اللہ پر یقینِ کامل رکھتے ہوئے اسے دل کا سہارا بنانا۔
  • اللہ کی حکمت میں جو راز پوشیدہ ہے اس سے دل کو منور کرنا۔
  • یہ دل بے قابو ہوجانے والا ہے، اس کو موت کی یاد کے ساتھ قابو میں رکھنا۔ ہر وقت اس دل کو فنا کے اقرار پر جمائے رکھنا۔ یعنی دل یہ کبھی نہ بھولے کہ ہم فانی ہیں گویا موت اور فنا ہمیشہ سامنے رہے۔
  • دل کو موت اور فنا کے تصور پر جمائے رکھنے میں مدد کے لیے حوادثِ زمانہ کو سامنے رکھنا کہ کیا کیا اور کون کون تھے جو اس دنیا میں تھے مگر آج نہیں ہیں۔ یعنی حادثاتِ دنیا کے ذریعے انسان کو اس دنیا کے فانی ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ ان حوادثات کا مشاہدہ کرتے رہنا، دل کو گردشِ زمانہ یاد کراتے رہنا، گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات دل کے سامنے رکھنا، جو تم سے پہلے ہوئے، ان پر جو جو بیتا، ان پر آنے والے عذاب و ثواب کو سامنے رکھنا۔ ان کھنڈرات میں چلتے پھرتے رہنا یعنی اپنی یاد ان میں رکھنا کہ کس طرح وہ حکمِ الہٰی کی نافرمانی پر ویران ہوگئے۔ یعنی اس طرح تصور کا مقصود یہ ہے کہ دل فنا کے تصور پر پختہ ہوجائے۔
  • عنقریب تمہارا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا یعنی تم بھی بالآخر کوچ کرجائو گے۔ لہذا جہاں کوچ کرکے اترنا ہے، اس منزل کو اچھا کرو۔ اپنی اصل منزل کو سنوارنے کی فکر کرو۔
  • افسوس! ہم راستے کو سنوارنے میں مصروف ہیں مگر منزل اجڑی پڑی ہے، ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں۔ ہمارے راستے پُر رونق و خوبصورت ہیں، خدا نہ کرے کہ منزل بھیانک و تاریک ہوجائے، ہمیں اس کی پرواہ کرنا ہے اور اس کے بارے میں سوچنا ہے۔
  • آخرت کا دنیا سے سودا نہ کرنا، دنیا کے عوض آخرت نہ بیچ دینا، دنیا سنوارتے سنوارتے آخرت خراب نہ کرنا۔
  • جو چیز نہیں جانتے، اس کے متعلق بات نہ کیا کرو۔ جس بات کا تم سے تعلق نہیں، اس کے بارے میں کلام نہ کیا کرو۔
  • دنیا میں بدترین کھانا حرام کھانا ہے اور بدترین ظلم وہ ہے جو ناتواں و کمزور پر کیا جائے۔
  • جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو، اس راہ میں قدم نہ اٹھایا کرو۔
  • یاد رکھو! تم آخرت کے لیے پیدا ہوئے ہو نہ کہ دنیا کے لیے۔ اس لیے اپنی زندگی کی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ دنیا میں ہم امتحان دینے آئے ہیں، یہ امتحان گاہ ہے، آرام گاہ نہیں ہے۔ تعجب ہوگا اس شخص پر جو امتحان گاہ کو آرام گاہ بنائے۔
  • تم فنا کے لیے خلق کیے گئے ہو، بقا کے لیے نہیں۔ جو شخص بقائے حیات میں فنائے حیات کو یاد رکھے، وہ امتحان میں کامیاب ہوتا ہے۔ تم موت کے لیے بنے ہو، حیات کے لیے نہیں۔ زندگی کو موت کا خادم، دنیا کو آخرت کا خادم اور راستہ کو اپنی منزل سنوارنے کا وسیلہ بنادو۔
  • بیٹے! تم ایسی منزل اور مقام پر ہو جو آخرت کا سازو سامان تیار کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ دنیا؛ آخرت کی منزل کی گزرگاہ ہے۔
  • نیک لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا، تم بھی نیک ہوجائو گے۔ ان لوگوں سے جو اللہ کو یاد رکھتے ہیں، جن کے ظاہر پاکیزہ اور باطن روشن ہوگئے ہیں۔ اس لیے کہ سنگت و صحبت کے اثرات ہوتے ہیں۔برے لوگوں کی صحبت و سنگت سے بچے رہنا۔ برے سے بچے رہنے سے بروں کے اثرات سے بچے رہو گے۔

ہمارے پاس کسی کو اچھا برا کہنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ ہاں اللہ نے ایک پیمانہ دیا ہے۔ارشاد فرمایا:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ.

’’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔‘‘

(الحجرات، 49: 13)

غور کریں! اس پوری وصیت میں دل کے احوال پر غوروفکر کا حکم دیا جارہا ہے۔ کسی ایک جملہ میں نسب پر فخر کی بات نہیں کی بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو عبدیت اور بندگی سکھارہے ہیں۔ یہ وصیت و نصیحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں تو اگرمعمولی سی نام ونمود اور نیکی مل جائے تو ہم اپنے آپ میں نہیں رہتے۔ ہم جن کا نام لیتے ہیں، اُن کا طریقہ بھی ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔

وقتِ شہادت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حسنین کریمین علیہما السلام کو وقتِ شہادت بھی ایک وصیت کی۔ اس وصیت میں درج ذیل امور کی طرف توجہ مبذول کروائی:

  • زندگی میں ہر لمحہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا۔
  • اپنے معاملات کو اللہ اور مخلوق کے ساتھ درست رکھنا۔

یاد رکھیں! معاملات پانچ طرح کے ہیں:

1۔ اللہ کے ساتھ معاملات کو درست رکھنا: اس میں عبدیت، بندگی، طاعت، یقین، توکل، اخلاص اور تقویٰ شامل ہیں۔

2۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ معاملات درست رکھنا: اس میں محبت، اطاعت، متابعت، تعظیم و تکریم، دین کی نصرت، دین کا فروغ اور دین پر عمل کرنا شامل ہے۔

3۔ صحابہ کرام و اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ معاملات درست رکھنا: اس میں ان کی اتباع اور تعظیم و تکریم شامل ہے۔

4۔ اولیاء و صالحین کے ساتھ معاملات درست رکھنا: اس میں اِن ہستیوں کی اطاعت اور تعظیم و تکریم شامل ہے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ عقیدت اورمتابعت کو ہمیشہ جمع کریں۔ عقیدہ درست کریں اور عمل اس کی اتباع میں کریں۔ اگر عقیدہ درست ہے تو معاملہ درست ہے۔

5۔ تمام اعزاء و اقارب کے ساتھ معاملات درست رکھنا۔

6۔ جمیع مخلوق کے ساتھ معاملات درست رکھنا۔

  • آپس کے تعلقات کو سنوارے اور بنائے رکھنا۔ صلاح ذات بینکم یعنی باہمی رشتوں کو درست رکھنا۔ اس لیے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ باہمی رشتوں کو درست رکھنا، یعنی معاملات کو بگڑنے نہ دینا، ساری زندگی کی نفلی عبادت سے افضل ہے۔

افسوس کہ آج ہم ’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ کے جھگڑوں میں ہیں۔ ’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ دو ایسے بت ہیں کہ بندہ ان کا پجاری بن کر اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔ معاملات کو آپس میں بگاڑے رکھنا، اپنے دین کو جڑوں سے کاٹنا ہے جبکہ آپس کی کشیدگیوں اور رنجشوں کو مٹانا نفلی عبادت سے افضل ہے۔

  • امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہنا۔ اگر اس عمل سے رک گئے اور اپنی ذات تک محدود ہوگئے تو پھر تم پر بدکردار لوگوں کو حکمران بناکر مسلط کردیا جائے گا اور تم جیسے لوگوں کی دعا بھی قبول نہ ہوں گی۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خود نیکی کرنے اور برائی سے بچنے میں کمزور ہیں، چہ جائیکہ نیکی کا فروغ کریں اور برائی سے دوسروں کو بچائیں۔ اللہ ہمیں زندگی کا حقیقی شعور دے اور زندگی سنوارنے کا صحیح فہم عطا فرمائے۔

2۔ دوسرا خطاب: باطن کو ظاہر سے بہتر کریں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف میں ’’طہارۃ القلوب‘‘ کے موضوع پر اپنا دوسرا خطاب (23 اپریل/ 21 رمضان المبارک۔ ہفتہ) ’’باطن کو ظاہر سے بہتر کریں‘‘ کے عنوان پر ارشاد فرمایا۔ شیخ الاسلام نے اس حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا:

ہمارے ظاہر کو سب لوگ جانتے ہیں، جبکہ باطن کو اللہ اور ہمارے اپنے سواء کوئی نہیں جانتا۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے باطن کو جانتا ہے۔ لہذا ہر کوئی کوشش کرے کہ اپنے باطن کو کم از کم ظاہر جیسا تو کر لے۔ جسم اور ظاہر مخلوق کی نظر گاہ ہے، جبکہ قلب اور باطن خالق کی نظر گاہ ہے۔ جسے مخلوق نے دیکھنا ہے، اسے ہم سجاتے اور سنوارتے ہیں، مگر افسوس کہ جسے خالق نے دیکھنا ہے اس کی ہم پرواہ نہیں کرتے۔

قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے درجنوں مقامات پر ظاہرو باطن، سریرہ اور اعلانیہ کا ذکر اکٹھا کیا ہے مگر تمام مقامات پر باطن، سریرہ، مخفی کا ذکر پہلے جبکہ ظاہر اور اعلانیہ کا ذکر ہمیشہ بعد میں کیا ہے۔ حتی کہ انہ علیم بالذاتِ الصدور کے ذریعے اپنے علم کا ذکر کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ ہر بار فوکس ہمارے چھپے ہوئے احوال پر کرتا ہے۔ اس اسلوب میں یہ پیغام ہے کہ ہم اپنے باطنی احوال پر غور و فکر کریں جس پر اللہ رب العزت کی خاص نظر ہوتی ہے۔ جسم پر وارد ہونے والی امراض نظر بھی آتی ہیں، تکلیف بھی دیتی ہیں اور ہم اسکے علاج کے لئے فکر مند بھی ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ عارضی ہوتی ہیں لیکن جو نیات، خواہشات اور امراض دل کو گدلا کر رہی ہیں، یہ امراض نظر آتی ہیں اور نہ ہم ان کے علاج کے لئے فکر مند ہوتے ہیں حالانکہ یہ طویل المیعاد ہیں اور روح کو تکلیف دیتی ہیں۔ لہٰذا کوشش کریں کہ باطن کے امراض پر توجہ دیں اور جو چیزیں اللہ کو نظر آتی ہیں انھیں سنواریں۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقائے دو جہاں ﷺ ہمیشہ یہ دعا فرمایا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے مجھے بھی یہ دعا سکھائی:

اَللّٰھُمَّ اجعَل سَرِیرَتِی خَیرًا مِّن عَلَانِیَّتِی. وَاجعَل عَلَانِیَتِی صَالِحَةً.

اے اللہ! میرے سریرہ (باطن) کو میرے ظاہر سے بہتر کر دے، میرے قلب کو میرے جسم سے بہتر کر دے، میرے من کے مخفی حالات کو لوگوں کو دکھائی دینے والے حالات سے زیادہ بہتر کر دے اور میرے ظاہر کو صالح اور نیک کر دے۔

(سنن ترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ ، رقم: 3586)

گویا اس دعا میں یہ کہا جارہا ہے کہ اے اللہ میرے ظاہر کو حسین کر دے اور میرے باطن کوحسین تر کر دے۔

ہمارے جسم میں ہمارے قلب کا مقام اور اہمیت آقا علیہ السلام کے اس ارشاد سے واضح ہوجاتی ہے کہ

ان فی الجسد مضغة، اذا صلحت صلح الجسد کله، واذا فسدت فسد الجسد کله، آلاوهی القلب.

بے شک جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ سنور جائے تو سارا بدن سنور گیا اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، خبردار وہ دل ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرا لدینه، رقم: 52)

یعنی دل سنور جانے سے آنکھیں، کان، ہاتھ، منہ، پیٹ، پاؤں الغرض سارے اعضاء جن سے انسان نیکی اور بدی کے عمل کرتا ہے، یہ تمام اعضاء سنور جاتے ہیں اور جب جسم کا ہر عضو سنور جائے تو بدی کی موت ہوجاتی ہے اور زندگی میں نیکی زندہ و آباد ہوجاتی ہے لیکن اگر دل میں فساد آ جائے، دل کی نیّات اور خواہشیں خراب ہو جائیں تو سارا جسم برائیوں، گناہوں اور بدی سے معمور ہو جاتا ہے۔

آقا علیہ السلام کے اس فرمان سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ باطن کا ہمارے ظاہر پر کتنا اثر ہے۔ لہٰذا ہم نے جسم کے اندر چھپے ہوئے دل کو سنوارنا ہے، اسے صحت دینی ہے، اس کے لیے شفا مانگنی ہے اور اسے روشن کرنا ہے۔ جس طرح ظاہری امراضِ قلب کے ہسپتال ہیں، اسی طرح منہاج القرآن کا یہ شہرِ اعتکاف باطنی امراضِ قلب کا ہسپتال ہے۔ ان امراضِ باطنی کا معالج اللہ ہے۔ یہاں اللہ کا سچا بندہ بن کر اپنی گناہوں اور خرابیوں کا اقرار کرکے اللہ سے دل کی صحت طلب کریں تو اس کی بارگاہ سے یہ خیرات بالیقین حاصل ہوتی ہے۔

یاد رکھیں! باطنی احوال کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے، اسی طرح ظاہری اعمال کا اثر بھی باطن پر پڑتا ہے۔ ظاہر و باطن آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جس کا ظاہر خراب ہوگا، اس کا باطن کبھی آباد نہیں ہو سکتا اور ظاہر اسی کا خراب ہوتا ہے، جس کا پہلے دل بگڑگیا۔ باطن کی بربادی ہی ظاہر کوخراب کرتی ہے۔ یہ دو طرفہ اثر ہے۔ یعنی من کا اثر تن پر پڑتا ہے اور تن کا اثر من پر پڑتا ہے۔ دل کے حالات اور جسمانی اعمال کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے۔

لہٰذا اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میرا سریرہ، دل اور باطن آباد و سیراب، پُر رونق اور اچھا ہو گیا ہے مگر دکھائی یہ دے کہ اس کا ظاہر خراب ہے تو یاد رکھ لیں کہ اس کا باطن کبھی آباد نہیں ہو سکتا۔ آج کل کچھ لوگوں کا یہ من گھڑت تصور ہے کہ یہ میرا اللہ کے ساتھ اندر کا معاملہ ہے، آپ کون ہوتے ہیں میرے ظاہر کی بنیاد پر میرے باطن پر فیصلہ کرنے والے؟ یاد رکھیں! دینِ حق کا قاعدہ ہے کہ فیصلے ظاہر پر ہوتے ہیں، باطن پر نہیں۔ کیونکہ ظاہر کی جو بھی حالت ہے اس کی وجہ باطن ہی ہے۔ لوگوں نے یہ لبادہ پہن رکھا ہے کہ ظاہر کو اہمیت نہیں دیتے اور باطن کی پاکی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! شریعت ہمیشہ ظاہر پر فیصلہ کرتی ہے، اس لیے ظاہر کو دیکھ کر باطن کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ہر عمل کو عادت کے طور پر نہیں بلکہ عبادت کے طور پر کریں۔ عادت اور عبادت میں نیت کا فرق ہے۔ اگر رضائے الٰہی کی نیک نیت عادت میں شامل ہوجائے تو اس عادت کو عبادت میں بدل دیتی ہے اور اس کے برعکس اگر عبادت نیتِ صالحہ سے خالی ہوجائے تو وہ عبادت، عادت بن جاتی ہے۔

پس جو شخص اللہ کی طاعات کو ترک کرتا ہے، نماز، روزہ اورعبادات پر عمل نہیں کرتا، حلال و حرام کا فرق نہیں کرتا، اوامر و نواہی کی پیروی نہیں کرتا، آقا علیہ السلام کی سنت کی متابعت نہیں کرتا، برائیوں سے نہیں بچتا اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ میرا دل بڑا نیک اور باطن بڑا صالح ہے تو وہ جھوٹا مدعی ہے۔ اس کے بر عکس، کوئی اپنے ظاہر کو بڑا سنوارے، معاملات اور عبادات میں اچھا ہو لیکن باطن میں ریا اور دکھلاوا ہے تو سارا کچھ جہنم میں گیا۔ اس کے جملہ ظاہری نیک اعمال عبادت نہیں بلکہ عادت اور ریاکاری میں شمار ہوں گے۔

یاد رکھیں! کچھ لوگ واضح انکار کرنے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ معرضین ہوتے ہیں یعنی جن کا دل اور باطن اللہ کے احکامات کی طرف متوجہ نہیں۔ لہذا ہم دل کا محاسبہ کریں کہ ظاہر شریعت سے خالی نہ ہو اور باطن صدق و اخلاص سے خالی نہ ہو بلکہ ہمہ وقت اس کے احکامات اور تعلیمات کی طرف متوجہ ہو۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

نِیةُ المؤمنِ خیر مِن عَمَلِه و عَمَلُ المُنافِقِ خَیرُ مِن نِیَتِه.

مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے جبکہ منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہوتا ہے۔

(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم: 5942)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رتبہ امت میں اتنا بلند ہے کہ ان کے ایک رائی کے دانہ برابر عمل کا اجر بھی آخری زمانے کے اُحد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیت اتنی اعلیٰ ہوتی تھی کہ دل ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتا تھا۔ جو اپنے عمل میں ہر طرف اللہ کو دیکھتا ہے، اس کا ظاہر و باطن کسی اور طرف متوجہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے سلف صالحین کہا کرتے تھے:

حَاسِب نَفسَکَ فِی کُلِّ خَطرَةٍ.

’’ہر آنے والے خطرے سے اپنا محاسبہ کرو۔‘‘

خطرہ دل میں آنے والے پہلے خیال کو کہتے ہیں۔ باطن کی چوکیداری کسی جگہ سے کی جائے کہ یہ بگڑنے نہ پائے؟ اس حوالے سے صاحبِ قوت القلوب شیخ ابو طالب مکیؒ فرماتے کہ

’’برائی کے پہلے خیال کو اپنے دل کے دروازے میں داخل نہ ہونے دو،وہیں محاسبہ کرو‘‘۔‘۔

<دل میں پہلا آنے والا خیال، آواز، خطاب، جس نے دل کے دروازے پر دستک دی اور دل پر وارد ہوا، اس خیال کو خطرہ کہتے ہیں۔ اس پہلے خیال کو پوری قوت سے دھکے دے کر دفع کر دیں کہ تم اس دروازے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اگر اسے یہیں روک لیا تو باطن بگڑنے نہ پائے گا۔

3۔ تیسرا خطاب: خطرہ: باطنی بیماری کا نقطۂ آغاز

’’طہارۃ القلوب‘‘ کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے شہرِ اعتکاف میں ہونے والے تیسرے خطاب (24 اپریل/ 22 رمضان المبارک۔ اتوار) کا عنوان ’’خطرہ: باطنی بیماری کا نقطۂ آغاز‘‘ تھا۔ اس حوالے سے شیخ الاسلام نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا:

اگر کوئی خیال ہمیں خیر سے دور کرنے کے لئے دل کے دروازے پر دستک دے تو اس خیال کو خطرہ کہا جاتا ہے، جونہی ایسا کوئی خیال آئے تو دل کے دروازے کو بند کر لینا، اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے۔ دل کی تین اقسام ہیں:

1۔ قلبِ سلیم (زندہ دل، قلب حی، سلامتی والا دل)

2۔ قلبِ میت (مردہ دل)

3۔ قلبِ سقیم (مریض دل)

قلبِ سلیم، وہ قلبِ صحیح ہے جو روحانی امراض سے محفوظ و سلامت ہے۔ اس کو قلبِ حی یعنی زندہ دل بھی کہتے ہیں۔ قلبِ میت سے مراد مردہ دل ہے اور قلبِ سقیم سے مراد بیمار یعنی مریض دل ہے۔ ہمارا فوکس بیمار دل پر ہے۔ دلوں کی بیماریوں کے داخلی و خارجی اسباب ہوتے ہیں۔ خطرہ خارجی اسباب میں سے ایک سبب ہے جو دلوں کے بیمار ہونے کی وجہ ہے۔ اگر قلبِ سقیم/ مریض کا علاج نہ کیا جائے تو یہ آہستہ آہستہ قلبِ میت ہوجاتا ہے۔

قلب کی بیماری کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ یاد رکھیں! امراض کے دل میں داخلے کا نقطۂ آغاز ’’خطرہ‘‘ ہے۔ یہ وہ پہلا خیال ہے جو دل و دماغ میں آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ اس نے ابھی دل میں وجود اور جگہ نہیں پائی، بس آیا اور گزر گیا۔ ’’خطرہ‘‘ وہ برا خیال ہے جو یکسوئی اور اطمینان کو خراب کر دے اور ہیجان پیدا کر دے۔ قرونِ اولیٰ میں ہمیشہ طلبہ کو یہ سبق دیا جاتا کہ ’’خطرہ‘‘ کے وقت فوراً چوکنے ہو جاؤ اور دل کی چوکیداری کرو۔ اس لیے کہ ’’خطرہ‘‘ اندر کے اطمینان، عبادت، اچھائی، سخاوت، استغفار، اچھا برتاؤ اور اس جیسی رغبتوں اور کیفیتوں کو ڈی فوکس کرتا ہے اور بدی کی جگہ پیدا کرتا ہے۔

ایک اچھا چوکیدار اس خطرہ کے آتے ہی چوکنا (Alert) ہو جاتا ہے۔ اگر اس خیال و خطرہ کو آتے ہی فوراً بلاک نہ کیا جائے تو یہ خیال دوبارہ آئے گا۔ اس بات کو سوشل میڈیا کی اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جب ہم کوئی چیزسرچ یا وزٹ کریں تو پھر خود بخود اس سے متعلقہ مواد کثیر مقدار میں ہماری طرف آنا شروع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہماری مانوسیت کو چیک کر لیا جاتا ہے کہ ہم نے کس چیز کو تلاش کیا اور کیا کچھ کتنا عرصہ دیکھا۔ ہمارا اس کو رد یا بلاک نہ کرنا ہماری پسندیدگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور پھر ہر روز نئی سے نئی اپ لوڈ لسٹ ہم تک پہنچا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم نے برا خیال رد نہ کیا اور اسے اندر جگہ دے دی تو اس خطرہ اور خیال کے مالک یعنی شیطان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اسے اس خیال و خطرہ سے اُنس ہے، یعنی یہاں ٹھہرنے کی گنجائش ہے، چنانچہ اسی طرح کے خیالات اور نظریات پے درپے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

یہ خطرہ اگر بار بار آتا رہے تو بالآخر ’’وسوسہ‘‘ بن جاتا ہے۔ وسوسہ سے مراد سائیکالوجی کے مرض والا وہم نہیں بلکہ عرفاء کی اصطلاح میں دل و دماغ میں قرار پکڑنے والا وہ خیال ہے جو عملِ شر کے لئے آتا ہے۔ یہاں سے دل کے روحانی مریض ہونے کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

ہم دنیا میں اپنے آپ کو خطرات سے بچاتے ہیں۔ اگر خطرات سے نہیں بچائیں گے تو نقصان کا نہ صرف اندیشہ اور خطرہ رہتا ہے بلکہ نقصان یقینی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس بندے نے احتیاط نہ کی اور اپنے آپ کو Open اور exposed رکھا۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ جس آدمی کو اپنی جان کی فکر ہو تو وہ گارڈز رکھتا ہے، مشکوک آدمی کو قریب نہیں آنے دیتا، اسی طرح ہمیں حَاسِب نَفسَک کے مصداق اپنے دل کے گھر پر سیکیورٹی گارڈز بننا ہے تاکہ کوئی مشکوک شے دل کے قریب بھی نہ آئے۔ ورنہ دشمن آسانی سے حملہ آور ہو جاتا ہے۔

یاد رکھیں! ہماری جان کے دشمن کم ہیں اور ایمان کے دشمن بہت زیادہ ہیں۔ ایمان کے دشمن زیادہ اس لیے ہیں کہ شیطان نے اللہ رب العزت کے حضور قسم کھائی ہے کہ:

فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ.

مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے سارے کے سارے بندوں کو ہر صورت پوری کوشش کر کے گمراہ کر کے رہوں گا۔

(الحجر، 15: 40)

ہم میں سے ہر شخص جو ایمان پر ہے، اس کے ایمان کا دشمن شیطان ہے اور یہ دشمن اکیلا نہیں بلکہ انسانوں کے عدد سے کہیں زیادہ ہے۔ جب یہ بات واضح ہے کہ ہم سب محفوظ نہیں بلکہ exposed ہیں تو ایمان کا یہ دشمن ہمہ وقت ہم پر حملہ آور رہتا ہے۔ اس کے حملوں سے وہی محفوط ہے جس کے بارے میں اس کا اپنا اقرار ہے کہ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ (الحجر،15:40) وہ لوگ جوexposed نہیں ہوئے بلکہ Secured ہیں، جو اپنے آپ کو ہر برائی سے محفوظ کرتے ہیں، اپنی سیکیورٹی کرتے ہیں، جنہیں تو نے اپنے کرم سے نفس کے چنگل اور شرارت سے محفوظ کر دیا ہے، وہ میرے حملے سے بچ جائیں گے۔

ہماری خرابی یہ ہے ہم اکثر اس گمان میں رہتے ہیں کہ ہم تو داعی ہیں، دین کی خدمت کرنے والے، عالم اور مبلغ ہیں، دین دار، متقی، عبادت گزار ہیں، لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم Secured (محفوظ) ہیں جبکہ اس بات کا حقیقی پہلو یہ ہے کہ نیکی اور عبادات کا خزانہ ہونے ہی کی وجہ سے تو ہم پر حملوں کا خطرہ موجود ہے۔ جس کے پاس نیکیوں اورصالحات کا خزانہ ہی نہیں، اس کے پاس کس نے چوری کیلئے آنا ہے۔ چور سے مراد شیطان اور اس کے لشکراور سپاہی ہیں۔ جس کے پاس علم، ایمان اور ہدایت کا جس قدر زیادہ خزانہ ہے، اس کے پاس شیطان اسی لیول کا سپاہی اور اپنے لشکر بھیجے گا۔

ہم بالکل الٹ سمت میں سوچتے ہیں حالانکہ جو جتنا طاعات اور نیکیوں والا ہے، وہ سوچے کہ میں اتنا ہی خطرے میں ہوں۔ جس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں، اس کے پاس شیطان کسی کو نہیں بھیجے گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی بہکا ہوا اور گمراہ ہے۔ جو آدمی نیکی میں جتنا کمزور ہے، شیطان کو اس کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں۔ وہ جو چاہتا تھا، بندہ اسی راہ پر ہے۔ شیطان کی مشکل تو شروع ہی تب ہوتی ہے، جب بندہ نیکی، خیر اور دین کی راہ پر قدم رکھتا ہے۔ تب وہ اسے بہکانے اور گمراہ کرنے کے منصوبے شروع کر دیتا ہے اور پھر اپنے شکار کی مضبوطی اور کمزوری دیکھ کر اس کے مطابق حملہ کرتا ہے۔

قرآن مجید میں شیطان کا یہ پختہ عزم و ارادہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ

لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ.

میں صراط مستقیم پر جم کر بیٹھ جاؤں گا اور وہیںاپنا ٹھکانہ بناؤں گا۔ دیکھتا ہوں کہ کون کون اس راہ پر جا رہا ہے۔ ان ہدایت والوں کے راستے میں بیٹھ کے انہیں گمراہ کروں گا۔

(الاعراف، 7: 16)

معلوم ہوا کہ شیطان اپنا ٹھکانہ گمراہی و بدی کی راہ پر نہیں بناتا، انھیں تو وہ اپنی پارٹی، گروہ اور خاندان کے لوگ سمجھتا ہے۔ وہ سیدھی راہ پر کرسی لگاتا ہے اور چوکنا ہو کر دیکھتا ہے کہ کون کون صراطِ مستقیم پر جارہا ہے۔

شیطان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پہلا خیال ’’خطرہ‘‘ کے طور پر ڈالتا ہے، جیسے بارش کا پہلا قطرہ آتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اب پیچھے بارش آنے والی ہے۔ اس پہلے خطرے سے بچنے کے لئے اپنی نگرانی کریں اور نگرانی کا طریقہ یہ ہے کہ قلب کی دائمی نگرانی حضور مع الحق کے ساتھ اس خیال کے ساتھ کریں کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میرے اللہ کی نگاہ میرے ہر عمل پر ہے۔

اس تصور کی نگرانی کرنا اور دل میں ہمہ وقت اسے جمائے رکھنا مراقبہ کہلاتا ہے۔ عرفِ عام میں گردن جھکانے کو مراقبہ سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ ایک کیفیتِ مراقبہ تو ہوسکتی ہے لیکن مراقبہ در اصل چند لمحوں کی پریکٹس نہیں بلکہ ایک دائمی کیفیت کا نام ہے جو زندگی بھر رہتی ہے۔ ہمہ وقت دل پر اللہ کی نظر ہونے کے تصور کا سوچ کر دل کی نگہبانی کرنے کا نام مراقبہ ہے۔

شیطان نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ اعلان کیا کہ

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِهِمْ.

’’پھر میں یقینا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا۔‘‘

(الاعراف، 7: 17)

قرآن و حدیث نے شیطان کی اس پلاننگ اور طریقہ واردات کو قیامت تک ہر مسلمان کو بتا دیا تاکہ وہ اس کا توڑ کر سکیں۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے حملوں کا نتیجہ بھی بتادیا کہ

وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَهُمْ شٰکِرِیْنَ.

’’اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘

(الاعراف، 7: 17)

یاد رکھیں شکر؛ صبر پر قائم ہوتا ہے یعنی بندے کو جب ملے تو خوشی میں بہک نہ جائے اور جب نہ ملے تب بھی صبر کرے، غم زدہ نہ ہو جائے۔ آسانیوں میں آپے سے باہر نہ ہوجائے اور مشکلات میں شکوہ نہ کرے۔ ہر حال میں صبر ہے۔ امیری گمراہ و فاسق نہ بنائے تو یہ صبر ہے اور محتاجی میں فقر و فاقہ کا شکوہ نہ کرے تو یہ صبر ہے۔ جب صبر کی بنیاد مضبوط کرتے ہیں تو اس پر شکر کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ جتنی پختہ بنیادیں ہوں گی، اتنی مضبوط عمارت کھڑی کر سکتے ہیں۔ کمزور بنیاد پر ایک حد تک عمارت بن سکتی ہے، زیادہ نہیں۔

لہٰذا صبر کی کمزور بنیاد پر ہم شکر کی بڑی عمارت نہیں بنا سکتے۔ اگر صبر کی بنیاد مضبوط ہو چکی ہو تو شکر کی جتنی چاہیں منازل اوپر بناتے چلے جائیں۔ شکر کی کوئی حد نہیں، یہ بڑھتے بڑھتے اللہ کی رضا میں بدل جاتا ہے۔ شکر اور تسلیم و رضا کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ بندہ اللہ سے راضی ہو کر نفسِ راضیہ اور مرضیہ کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔

شیطان کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس راستے سے انسان کو خیر مل رہی ہوتی ہے، وہ اس راستہ کے حوالے سے بندے کے دل میں تشکیک پیدا کرتا ہے، وہ انسان کو خیر کے دروازے سے دور کرنا چاہتا ہے اور جہاں جڑے رہنے کی وجہ سے اس کا کام مشکل ہورہا ہے اور بندے کو خیر ہی خیر اور ہدایت مل رہی ہے، وہ اس بندے کو اس منبع و سرچشمہ سے کاٹنا چاہتا ہے۔ اس کی مثال بجلی کے ٹرانسفارمر کی ہے۔ شیطان کا کام بس یہ ہے کہ اس ٹرانسفر سے تاریں کاٹ دیتا ہے جس سے پورا محلہ اور گھر تاریک ہوجاتے ہیں۔ شیطان کو گھر میں آکر ایک ایک کمرہ کی لائٹ کاٹنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ بنیاد میں زلزلہ پیدا کرتا ہے۔

مذکورہ آیت میں شیطان کا چارجہتوں سے آنے کے حوالے سے علماء و عرفاء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ:

1۔ شیطان کے سامنے سے آنے کا مطلب ہے کہ وہ محسوسات کے چینل سے حملہ آور ہوتا ہے۔ یعنی اس طریقے سے حملہ کرتا ہے جو ظاہر میں دکھائی دینے والے طریقے ہیں۔ آج کے دور میں یہ طریقے یو ٹیوب، سیل فون، ٹی وی، الیکٹرانک میڈیا، فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک وغیرہ ہیں۔ معاشرہ بھی محسوسات میں سے ہے، جس میں برائی آنکھوں اور کانوں کے ذریعے سے ہم پر حملہ آور ہوتی ہے۔

2۔ شیطان کے انسان پر پیچھے سے آنے کا معنی یہ ہے وہ کبھی معقولات کے ذریعے بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ یعنی عقل میں شک، شبہ اور الٹے سیدھے خیالات ڈال کر بندے کو اللہ کی راہ سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً: کیا خدا ہے؟ کیسا ہے؟ مذہب کی کیا ضرورت ہے ؟ نبیوں کو کیوں بھیجا؟ وحی کا کیا معنی ہے ؟ ہم اچھائی اور برائی کا براهِ راست کیوں نہ سوچ لیں، ہمیں عقل ہے، ہم اتباع کیوں کریں؟ آج کے زمانے میں قرآن و حدیث کی پابندی کیوں کریں ؟ دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے اور ہم 14صدیاں پہلے کی بات کررہے ہیں؟ اس طرح سیکولر، لادینیت اور لامذہبیت کے خیالات شیطان انسان کی عقل و فہم میں ڈالتا ہے جن کا تعلق وجودِ باری تعالیٰ کا انکار، انکارِ مذہب، انکارِ وحی، انکارِ سنت بنوی ﷺ ، انکارِ شرائع دین اور اوامر و نواہی کے انکار سے ہے۔ یہ وہ شکوک ہیں جن کا تعلق عقل سے ہے۔ یہ بھی دراصل شیطان کے حملے ہیں کہ بندہ کہے گا کہ میں نے تو کوئی برا عمل نہیں کیا لیکن شیطان اس طرح کے ’’خطرات‘‘ شک کے طور پر انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے۔

ان حالات میں اگر خیر اور نیکی ملنے والے راستوں اور دروازوں سے جڑے رہیں گے تو خیر آتی رہے گی اور ہدایت ملتی رہے گی۔ خیر کے راستوں سے کمک ملتی رہے گی تو شیطانی حملوں سے مقابلہ آسان ہوگا۔ جیسے لڑنے والی فوجوں کو کمک ملتی رہے تو وہ لڑتی رہتی ہیں اور اگر کمک نہ پہنچے تو شکست ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر شیطانی حملوں کے مقابلے میں خیر اور نیکی کے منابع اور خزانوں سے بندہ جڑا رہے اور وہاں سے اسے کمک ملتی رہے تو انسان اِن حملوں سے شکست نہیں کھاتا۔

یاد رکھیں! ہر شخص کو ہر وقت کمک کی ضرورت ہے، ری انفورسمنٹ کی ضرورت ہے۔ ہدایت کا ایک بار مل جانا کافی نہیں بلکہ اس کا تسلسل رہنا چاہئے۔ جس راستے سے ہدایت سے ملی ہے، اس راستہ سے تعلق نہ کٹے، اسے ری انفورسمنٹ کہتے ہیں۔ جیسے جسم توانائی کے لئے ہر روز کئی مرتبہ کھانے پینے کا محتاج ہے، اسی طرح دل اور روح زندہ نہیں رہ سکتے جب تک انھیں زندگی کی خوراک نہ ملے۔ ان کی زندگی کی خوراک؛ ہدایت، تذکیر، وعظ، نصیحت اور راہنمائی کا تسلسل ہے۔

منہاج القرآن ہو یا کوئی اور جماعت جہاں سے ہدایت، خیر کا سبق، طاعت کی توفیق ملی ہے اور مل رہی ہے، اس سے جڑے رہیں، اس رشتے کو نہ کاٹیں۔ جہاں سے اللہ کی قربت کا سبق مل رہا ہے اور ویژن کلیئر ہو رہا ہے، اس جگہ کا انتخاب خود کریں اور جب اطمینانِ قلبی سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں تو مرتے دم تک اس تعلق کو نہ چھوڑیں۔ شیطان اس تعلق کو توڑنے کے لئے شکوک و شبہات اور فکری انتشار پیدا کرتا ہے۔

3۔ شیطان کی تیسری سمت یعنی دائیں طرف سے حملہ آور ہونے سے مراد نفسانی شہوات، لذتیں، برائی اور گناہ کے راستے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے مراد مضبوط ایریاز ہیں، شیطان ان پر بھی حملہ کرتا ہے۔

4۔ شیطان کے بائیں طرف سے آنے سے مراد خیالات اور وساوس ہیں۔ بائیں سمت کا معنی یہ ہے کہ شیطان ان کمزور ایریاز پر بھی اپنے چھوٹے موٹے شیطانوں کے ساتھ حملے جاری رکھتا ہے۔

یاد رکھیں! انسان کے دل و دماغ میں آنے والے فاسد خیالات کو جنوں اور انسانوں کی شکل میں موجود شیاطین کے نمائندے انسان کے دل و دماغ میں ڈالتے ہیں۔ ان شیطانی حملوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کو برقرار رکھنے کے لئے ربانی اولیاء بھی بنائے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں شیطان کے حملوں کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا۔ کیسے ممکن تھا کہ اللہ شیطان کو کھلا چھوڑ دے اور خیر کی حفاظت کے لئے ہدایت مہیا کرنے والے لشکر نہ ہوں۔ اسی لئے اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام بھیجے اور جب ان کی بعثت کا سلسلہ بند ہوگیا تو امت میں قیامت تک اولیاء، مجددین اور مصلحین بھیجنے کے سلسلہ کا آغاز فرمایا۔ اس نظام میں جنات کے مقابلے میں ملائکہ ہیں اور انسانی شیطانوں کے مقابلے میں اولیاء و صالحین ہیں جو ہر زمانے میں خیر کو پھیلاتے اورلوگوں کی اصلاح کرتے ہیں، دین کی دعوت دیتے ہیں، نیک خیالات دیتے ہیں، دلوں میں نیکی کا خیال ڈالتے ہیں، شیطانوں کی حکمتِ عملی توڑتے ہیں، انھیں exposed کر کے عامۃ الناس کو ان کے راستے سے بچاتے ہیں اور نفس کو چھٹکارا دلانے کے طریقے بتاتے ہیں۔ اگر اس جنگ میں اہلِ باطل کا ایک جال اور نظام ہے تو اہلِ حق کا بھی ایک نظام ہے جس میں ملائکہ، اولیاء، صالحین، متقین اور مجددین شامل ہیں۔

(جاری ہے)