سوال: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں برادری سسٹم کی حقیقت کے بارے میں رہنمائی فرمادیں۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو زندگی کے کسی شعبہ میں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے غیروں کا محتاج نہیں رکھا۔ روح و جسم کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں۔ معاش ومعاد کے تمام مسائل کا شافی حل بتادیا ہے۔ ذہنوں میں اٹھنے والے وسوسوں اور دماغوں میں پیدا ہونے والی الجھنوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ہے۔ اب یہ امت پر منحصر ہے کہ و ہ اس خزینہ علم و حکمت سے کہاں تک فیض یاب ہونے کی سنجیدہ کوشش کرتی ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ انسانیت کا مستقبل دینِ اسلام سے وابستہ ہے۔ تہذیبِ حاضر نے مادی ترقی کے عوض انسان سے جو کچھ لیا ہے، اس سے انسان کو جو ذہنی انتشار، نفاق، کھچائو، ظلم و بربریت اور سیاسی و اقتصادی غلامی نصیب ہوئی ہے، وہ بڑی بھاری قیمت ہے جو انسان نے ادا کی ہے۔ نئی سائنسی ترقی سے مخلوقِ خدا کو جو فوائد و برکات حاصل ہوسکتی تھیں وہ کم اور اس کی مکمل تباہی کا جو سامان مہیا کردیا گیا ہے اس کی ہلاکت آفرینی کا خوف زیادہ ہے۔
قرآن مجید کی روشنی میں
قرآن کریم میں برادری سسٹم کے بارے میں جامع ہدایایت دی گئیں ہیں۔ اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے بگاڑ کے اسباب و نتائج سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ.
(الحجرات، 49: 13)
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک الله کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بے شک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والاہے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں ایک بڑی اور عالمگیر گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جس سے دنیا میںہمیشہ گمراہی پھیلی ہے اور جس سے ظلم و زیادتی کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں۔ یعنی نسلی، قومی، وطنی، لسانی اور رنگ کا تعصب قدیم زمانے سے موجود ہے۔ انسانوں نے انسانیت کو چھوڑ کر اپنے اردگرد کچھ دائرے کھینچے ہیں جن کے اندر بسنے والوں کو اس نے اپنا اور باہر والوں کو بیگانہ سمجھا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی یا اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقیہ پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ مثلاً: ایک قبیلے یا خاندان میں پیدا ہونا، کسی خاص خطہ زمین پر پیدا ہونا، کوئی خاص زبان بولنا، کسی خاص رنگ و نسل سے متعلق ہونا وغیرہ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی، اس تمیز نے دوسروں سے نفرت، عداوت، تحقیرو تذلیل اور ظلم و ستم کی بدترین صورتیں اختیار کیں۔ اس کے لئے فلسفے گھڑے گئے، مذہب ایجاد ہوئے، قوانین بنائے گئے، اخلاقی اصول وضع کئے گئے، قوموں اور سلطنتوں کی اس پر بنیاد رکھی گئی۔ صدیوں تک اس پر عمل ہوا اور ہورہا ہے۔
چنانچہ یہودیوں نے اسی بناء پر بنی اسرائیل کو خدا کی برگزیدہ مخلوق ٹھہرایا اور مذہبی معاملات تک میں دوسری قوموں کو اپنی قوم سے فروتر رکھا۔ ہندوئوں کے ہاں درم آشرم کو اسی خیال نے جنم دیا۔ جس کی رو سے برہمنوں کو باقی قوموں پر برتری حاصل ہوئی۔ اونچی ذات والوں کے مقابلہ میں تمام انسان ہیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے۔ شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں، ان کو تاریخ کے اوراق میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ آج ہر شخص ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
یورپ والوں نے امریکہ میں ریڈ انڈین نسل کے لوگوں سے جو سلوک کیا اور ایشیا و افریقہ کے اکثر ممالک پر تسلط قائم کرکے ان پر جو مظالم ڈھائے اور جس طرح ان کے مادی وسائل کا استحصال کیا اور سامراج کا چھوٹی قوموں سے جو ظالمانہ برتائو ہمیشہ رہا ہے، اس سے کون واقف نہیں؟ فلسطینی مسلمانوں پر اور ہندوستان میں اقلیتوں پر جو مشق ستم جاری ہے، اس سب میں ایک ہی سبب کارفرما ہے کہ اپنی قوم کے سوا سب کا مال، جان اور عزت مباح ہے، جیسے چاہو پامال کرو۔ اپنی قوم کے سوا سب کو غلام بنالو۔ ضرورت محسوس ہو تو نیست و نابود کردو۔ مغربی دنیا میں دو عظیم جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان کے پیچھے بھی نسلی برتری کا یہی تصور موجود تھا۔
ان حقائق کونظر میں رکھ کر اگر اس آیت کریمہ پر غور کیا جائے تو انسان بآسانی اندازہ لگاسکتا ہے کہ وہ کتنی اور عظیم گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لئے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں تین نہایت اہم اصولی باتیں بیان فرمائی گئی ہیں:
1۔ اول: ہم نے تمام انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ ان تمام قوموں اور نسلوں کی ابتداء صرف ایک آدم اور حواء (علیھماالسلام) سے ہوئی ہے۔ اس تمام سلسلہ میں کوئی بنیاد اس اونچ نیچ کے لئے نہیں جس میں لوگ مبتلا ہیں۔ ایک خدا پیدا کرنے والا، ایک مادہ منویہ سے سب کی پیدائش اور ایک طریقہ تخلیق کے ماتحت تمام انسان پیدا کئے گئے۔
2۔ دوم: اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوجانا فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پورے روئے زمین کے انسانوں کا ایک ہی خاندان یا ایک ہی علاقہ یا ایک جیسا رنگ یا ایک ہی زبان تو نہ ہونی تھی۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ خاندان بڑھیں، مختلف علاقوں میں آباد ہوں، خاندانوں سے قومیں بنیں اور کسبِ معاش کے لئے مختلف پیشے اختیار کریں اور تمدن کی بنیاد رکھیں۔ ان فطری اختلافات کو تو ظاہر ہونا ہی تھا، اس میں کوئی خرابی نہ تھی بلکہ ان سے قوموں میں اور انسانوں کے مختلف طبقات میں تعارف پیدا ہوا جو ناگزیر تھا مگر اس فطری فرق و امتیاز کا ہر گز منشا یہ نہ تھا کہ اس امتیاز پر انسانوں میں اونچ نیچ، شریف کمین، برتر اور کمتر اور چھوٹے بڑے کے امتیازات قائم کئے جائیں۔ ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے۔ ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کی تحقیر کریں اور ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے اور انسانی حقوق میں ایک گروہ کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے مختلف اقوام اس لئے بنائیں کہ باہمی تعارف و تعاون ہو، ایک دوسرے سے محبت و مودت ہو اور لوگ ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہوں۔
3۔ سوم: کسی قوم اور برادری میں پیدا ہونا کسی کی بزرگی یا سعادت کی بنیاد نہیں بلکہ بزرگی و شرافت کی اصل بنیاد اخلاقی فضیلت ہے۔ کسی شخص کا کسی قوم میں پیدا ہونا اس کے لئے اتفاقی امر ہے۔ اس کا اپنا اس میں کوئی اختیار نہیں۔ لہذا شرف و بزرگی کا اصل سبب قوم و قبیلہ سے متعلق ہونا نہیں بلکہ اس کی ذاتی اخلاقی خوبیاں ہیں۔ جو شخص خدا سے زیادہ ڈرتا ہے، اس کے احکام کا پابند ہے، اس کی رضا کا متلاشی ہے، وہ عظیم ہے، شریف ہے، بزرگ ہے اور قابلِ تکریم و تعظیم ہے اور جو شخض خدا کا باغی ہے، رسول ﷺ کا گستاخ ہے، وہ ذلیل، نیچ اور حقیر ہے۔
ارشاداتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں
یہی حقائق جو قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کو مختلف خطبات میں مختلف مواقع پر تفصیلاً بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر فرمایا:
الحمدلله الذی اذھب عنکم عیبة الجاھلیة وتکبرھا. یاایھاالناس، الناس رجلان: برتقی کریم علی الله وفاجر شقی ھین علی الله، الناس کلھم بنو آدم وخلق الله آدم من تراب.
(ترمذی، بیهقی فی شعب الایمان)
’’شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور غرور دور فرمایا۔ لوگو! تمام انسان صرف دو قسم کے ہیں: ایک نیک، پرہیزگار، اللہ کی نگاہ میں عزت والا۔ دوسرا فاجر و بدبخت جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہوتا ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایا۔‘‘
حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
یاایھا الناس الا ان ربکم واحد لافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الاّ بالتقوی، انّ اکرمکم عنداللہ اتقکم. الا ھل بلغت؟ قالوا: بلی یارسول اللہ. قال: فلیبلغ الشاھد الغائب.
(بیهقی)
’’لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو سرخ اور کسی سرخ کو کالے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔ بے شک تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔ سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچادی؟ لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ! ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچادے جو موجود نہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
ان الله لاینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم.
(مسلم، ابن ماجہ)
’’بے شک اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔‘‘
یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہلِ ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کرکے دکھادی ہے۔ جس میں رنگ، نسل، زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں، جس میں چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور موجود نہیں، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی قوم، نسل، وطن، رنگ اور زبان سے تعلق رکھنے والے ہوں، بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصولوں کو جس طرح کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی صورت دی گئی ہے، اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی ملک، کسی دین اور کسی نظام میں کہیں نہیں پائی گئی۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے مختلف قبیلوں اور قوموں کو ملاکر ایک امت بنادیا ہے۔
اس سلسلہ میں اسلامی نظام معاشرت میں بیاہ شادی کے وقت کفو کا حکم دیا گیا ہے، اس سے بعض لوگوں کو یہ وہم ہوتا ہے کہ اسلام میں بعض قوم قبیلے شریف اور کچھ رذیل ہوتے ہیں حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ اسلام میں ایک مسلمان عورت کا نکاح ہر مسلمان سے ان شرائط کے ساتھ ہوسکتا ہے جو شریعت میں بیان کردی گئیں ہیں۔ اس میں کہیں بھی ایسا کوئی حکم نہیں، جس سے ایک قوم کے مرد کا نکاح دوسری قوم کی عورت سے مخصوص قومی اختلاف کی وجہ سے ناجائز ہوجائے۔ البتہ میاں بیوی میں عمر، تعلیم، شکل و شباہت، سماجی و معاشی مناسبت وغیرہ کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جس کے بغیر ظاہر ہے کہ زوجین میں اتفاق اور نبھا مشکل ہوتا ہے۔ اس مناسبت کا خیال رکھنا ہرگز ذات پات کے وہ بندھن نہیں، جن میں مذکورہ بالا خرابیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی بھائی چارہ مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال: حق شفعہ کیا ہے؟ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آگاہ فرمائیں۔
شریعتِ اسلامیہ میں یہ قانون ہے کہ جب کوئی شخص زمین، مکان، دکان یا کوئی اور غیر منقولہ جائیداد بیچنا چاہے تو پڑوسی کو بتائے۔ اگر وہ خریدنا چاہے تو دوسروں کہ بہ نسبت وہ زیادہ حقدار ہے۔ اخلاقاً بھی قانوناً بھی اور لازم ہے کہ اسی کے ہاتھ مارکیٹ ریٹ پر بیچے۔ اگر پڑوسی نہ خریدنا چاہے تو جہاں چاہے بیچ سکتا ہے، شرعاً آزاد ہے۔
اگر کوئی شخص اپنے ہمسائے کو بتائے بغیر اپنی زمین کسی تیسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دے تو وہ اپنا حقِ شفعہ استعمال کرکے بذریعہ پنچائت یا عدالت قانوناً یہ سودا منسوخ کروا کر خود اسی قیمت پر خرید سکتا ہے جو مارکیٹ ریٹ سے بنتی ہے تاکہ کسی فریق پر زیادتی بھی نہ ہو اور حقدار کو اس کا حق بھی مل جائے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
قضی النبی ﷺ بالشفعة فی کل مالم یقسم فاذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة.
(صحیح بخاری)
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر غیر منقولہ غیر منقسم جائیداد میں حق شفعہ کا فیصلہ دیا۔ جب حد بندی ہوجائے اور راستے بدل جائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قضی رسول الله ﷺ بالشفعة فی کل شرکة لم تقسم ربعة او حائطا لا یحل له ان یبیع حتی یوذن شریکه فان شآء اخذ و ان شاء ترک فاذا باع ولم یوذنه فهو احق به.
(الصحیح لمسلم)
’’رسول اللہ ﷺ نے ہر شریک چیز میں حقِ شفعہ مقرر فرمایا جو تقسیم نہ ہوئی۔ گھر ہو یا باغ کسی کو جائز نہیں کہ جب تک اپنے پڑوسی کو (جس کی حد اس جائیداد سے ملتی ہے) بتائے بغیر بیچ دے۔ پڑوسی چاہے تو لے، چاہے تو چھوڑ دے۔ جب مالک نے پڑوسی کو بتائے بغیر وہ (جائیداد) بیچ دی تو پڑوسی بہ نسبت کسی تیسرے شخص کے زیادہ حقدار ہے۔‘‘
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
الجار احق بسقبه.
(صحیح بخاری)
’’پڑوسی اپنی قربت کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الجار احق بشفعته ینتظر لها وان کان غائبا.
(احمد، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ، دارمی)
’’پڑوسی شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اگر موجود نہیں تو اس کا انتظار کیا جائے گا۔‘‘
فقہائے اسلام فرماتے ہیں:
1۔ ’’جب شفعہ کرنے والے کو سودے کا پتہ چلے تو اسے فوراً اسی وقت شفعہ کا مطالبہ کردینا چاہیے۔‘‘ (فتاویٰ عالمگیری، 5: 172)
2۔ ’’اگر شفعہ کرنے والے نے کسی بیماری یا قید یا کسی اور عذر کی بنا پر جھگڑا نہیں اٹھایا اور نہ کسی کو وکیل بنانا ممکن تھا تو اس کا شفعہ باطل نہیں ہوگا۔‘‘ (فتاویٰ عالمگیری، 5: 173)
3۔ ہدایہ میں ہے: ’’طلب شفعہ میں تاخیر ہوجائے تو حقِ شفعہ باطل نہیں ہوجاتا۔‘‘ (ہدایہ، 4: 394)
یہی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور امام ابو یوسفؒ کا مذہب ہے۔
4۔ ’’اگر شفعہ کرنے والا اور خریدنے والا قیمت میں اختلاف کریں تو بات خریدنے والے کی مانی جائے گی کیونکہ شفعہ کرنے والا کم قیمت پر مکان کا حقدار ہونے کا دعویدار ہے اور خریدنے والا انکار کرتا ہے اور انکار کرنے والے کی بات قسم کے ساتھ مانی جاتی ہے۔ دونوں کو قسم نہیں دی جائے گی۔‘‘
(ہدایہ، 4: 397)
5۔ اگر کسی نے غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین، زمین کے بدلے بیچی تو حق شفعہ والا ان دونوں میں سے ہر ایک دوسری زمین کی قیمت سے لے سکتا ہے کیونکہ ہر زمین دوسرے کا بدل ہے اور قیمتی چیز ہے۔ پس ایک کو دوسری کی قیمت پر لے سکتا ہے۔‘‘ (ہدایہ، 4: 399)