17 جون 2014 ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے، اس دن ریاستی ادارے پولیس نے حکومتِ وقت کی ایماء اور ہدایت پر ماڈل ٹائون میں بے گناہ اور نہتے شہریوں پر گولیوں کی بارش کی، جس کے نتیجے میں دو خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ سمیت 14 افراد کو شہید اور 100 کو زخمی کر دیا گیا۔ مورخہ 17 جون 2022ء کو شہداء سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی آٹھویں برسی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اور شہداء کے لواحقین 8 سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ابھی تک انصاف سے محروم ہیں۔ یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ سانحہ ماڈل ٹائون ایک منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے جس کا مقصد حکومت کے ماورائے آئین و قانون طرزِ حکمرانی کیخلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد کو روکنا تھا۔ یہ محض حادثہ نہیں تھا بلکہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ اگر یہ محض حادثہ ہوتا تو سانحہ کے فوری بعد قتل و غارت گری میں ملوث پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی ہوتی، انہیں بے گناہوں کی جانیں لینے پر برطرف کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سانحہ میں حصہ لینے والے تمام افسران اور اہلکاروں کو پرکشش عہدوں سے نوازا گیا، انہیں آئوٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئیں،انہیں پسند کی تقرریاں دی گئیں، یہاں تک کہ پولیس کی مدعیت میں جھوٹی ایف آئی آر درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم و ناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔
تادمِ تحریر اس سانحہ کے قانونی پہلوئوں کے حوالے سے قارئین کو زیرِ نظر صفحات پر آگاہ کیا جارہا ہے:
- سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کاٹرائل انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں زیر سماعت ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے فلور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے تشکیل پانے والی نئی JITنے مورخہ 14جنوری 2019ء سے لیکر 20مارچ 2019ء تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام زخمی افراد ،چشم دید گواہان اور شہداء کے لواحقین کے بیانات قلمبند کرلیے تھے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے بھی نئی JITکے روبروپہلی دفعہ تمام زبانی ودستاویزی ثبوت شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔
نئی JITنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان بشمول سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف اورموجودہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ PSO ٹو سابق وزیراعلیٰ پنجاب، سابق آئی جی مشتاق سکھیرا سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش مکمل کرلی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے؟ اس کے پیچھے کیا سازش کار فرما تھی؟ اس وقوعہ کے پیچھے کو ن کون سے سازشی عناصر موجود ہیں؟ اور یہ سازش کہاں سے چلی؟ اور کس طرح اس سازش پر عملدر آمد ہوا؟
جب یہ نئی JIT حقائق کے بالکل قریب پہنچ گئی اور اس کے سامنے حق اور سچ نکھر کر سامنے آگیا تو فوری طورپر کچھ قوتیں متحرک ہوگئیں اور انہوں نے 22 اپریل 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ذریعہ JITکی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کروالیااورنئی JITکو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مزید تفتیش سے روک دیاگیاتاکہ JIT ان تمام ملزمان سابق وزیراعظم نوازشریف، موجودہ وزیراعظم شہبازشریف، موجودہ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ، سابق PSO ٹو وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر توقیرشاہ و دیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، انھیں گنہگار ٹھہرا کر انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان پیش نہ کردے اور ان منصوبہ ساز ملزمان اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث افرادکے ٹرائل کا آغاز نہ ہوجائے۔ یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکسیشن اور بینچ کی تشکیل کا علم نہ ہو سکا۔ جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو معلوم ہوا تو وہ فوری طورپر عدالت میں پہنچ گئے اور فل بنچ کے سامنے ساری صورتحال رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو لاہور ہائی کورٹ نے توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیاگیا۔
- JITکے نوٹیفکیشن کی معطلی کے خلاف فل بنچ کے فیصلہ کے عبوری حکم مورخہ 22 مارچ 2019ء کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد میں CPLAS دائر کی تھیں جس کی سماعت مورخہ 13فروری 2022ء کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد خاں کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی جس میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں نیا بینچ تشکیل دے کر اور ترجیحاًتین ماہ کے اندرفیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی تھی لیکن افسوس صد افسوس کہ سپریم کورٹ کی 3 ماہ کی ڈائریکشن کے باوجود بھی لاہور ہائی کورٹ کا لارجربینچ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بننے والی ایک غیر جابندار JIT کا فیصلہ نہ کرسکا۔
- یہ پوری قوم کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جس ملک میں دن دیہاڑے 17جون 2014ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر نواز، شہباز حکومت نے معصوم، نہتے اور بے گناہ کارکنان کو ریاستی دہشت گردی کے ذریعے قتل کروایا اور دہشت گردی کے مناظر پوری دنیانے میڈیا چینلز کے ذریعے براہ راست دیکھے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں تمام شواہد ریکارڈ پر موجود ہونے اور سانحہ کو 8 سال سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی انصاف کے ادارے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف نہ دلواسکے اور وہ اشرافیہ جس نے ریاستی دہشت گردی کروائی تھی، آج پھر دوبارہ اقتدار پر براجمان ہیں ۔
- JITکی تشکیل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں جو رٹ دائر ہوئی تھیں جس کی وجہ سے JIT کا نوٹیفکیشن معطل ہے، وہ کیسز 3سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس زیر سماعت ہیں جن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اسی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں ابھی تک مزید پیش رفت نہ ہوسکی ہے۔ غیر جانبدارتفتیش سے ہی انصاف کا عمل ٹریک پر آئے گا۔ کسی بھی مقدمہ کے انصاف کیلئے شفاف ٹرائل کا ہونا ضرور ی ہے لیکن شفاف ٹرائل اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک شفاف انوسٹی گیشن نہ ہو لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شفاف ٹرائل تو دورکی بات، ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو غیرجانبدار تفتیش کا حق ہی نہیں ملا ہے جوکہ پوری قوم کے لئے ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔
اس وقت ملک میں دو قانون موجود ہیں: اشرافیہ کے لیے الگ قانون اور عوام کے لئے الگ قانون۔ اشرافیہ میں سے کوئی جرم کرتا ہے تووہ اپنی مال ودولت اورطاقت کے بل بوتے پر ہرسطح پر معاملات کو Manage کرلیتا ہے اور ہمارے اس سسٹم میں بیٹھے ہوئے لوگ ہی ان کوتحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ عام آدمی جرم نہ بھی کرے تو اس کو جھوٹے مقدمے میں سزا ہوجاتی ہے۔
- یہ امر ذہن نشین رہے کہ جب تک کسی مقدمہ کا فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے، اگر عدالت میں مقدمہ کا چالان اور فردِ جرم بھی عائد ہو جائے تو بھی دوبارہ تفتیش سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔ کوئی بھی قانون دوبارہ تفتیش سے نہیں روکتا۔ شفاف ٹرائل کے لئے شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔ سیکشن 19 انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت دوسری، تیسری، چوتھی JIT بنانے میں بھی کوئی قانونی قدغن موجود نہیں ہے بلکہ گورنمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ مقدمہ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف تفتیش کے لئے دوسری، تیسری، چوتھی JIT بھی بنا ئی جاسکتی ہے۔ کراچی کے 12 مئی کے واقعہ کے مقدمہ میں بھی ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود سند ھ ہائی کورٹ نے نئی JIT بنانے کا ازخود حکم دیا کیونکہ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ شفاف تفتیش نہ ہو سکی تھی۔ اس واقعہ میں اس وقت کے بااثر افراد کے ملوث ہونے کی اطلاعات تھیں، اس وجہ سے شفاف تفتیش نہیں ہوئی تھی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ بھی بڑاحساس ہے۔ اس میں بھی نواز، شہبازحکومت ملوث ہے۔ جس کے زیراثر تمام پولیس افسران تھے جس کی وجہ سے اس وقت واقعہ کی شفاف تفتیش نہ ہونے دی گئی بلکہ اس سانحہ میں کسی بھی زخمی، چشم دید گواہان اور شہداء کے لواحقین کے بیانات بھی قلمبند نہیں کئے گئے۔ جس کی وجہ سے نئی JIT تشکیل دینے کی قانونی ضرورت پیدا ہوئی۔ ٹرائل کورٹ ازخود فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران شفاف ٹرائل کے لئے بقیہ شہادت برآمدگی، فرانزک اور ڈیجیٹل وغیرہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی بلکہ صرف اور صرف JIT ہی شفاف ٹرائل کے لئے ان تقاضوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اس لئے نئی JIT کو شفاف تفتیش سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین 8 سال سے انسداد دہشت گردی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان تک حصولِ انصاف کیلئے مسلسل قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ 8 سال کاعرصہ گزرجانے کے باوجود بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اچانک یا حادثاتی طور پر برپا نہیں ہوا تھا بلکہ نواز، شہباز حکومت کی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ بیئرز کو ہٹانا تو ایک بہانا تھا، اصل مقصد حکومت کے ماورائے آئین وقانون طرزِ حکمرانی کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریک اور جدوجہد کو روکنا تھا۔ نواز، شہباز حکومت کا اصل ایجنڈا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اور ان کی تحریک کو ختم کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ناپاک ارادوں سے شیخ الاسلام کو محفوظ رکھا اور الحمدللہ شیخ الاسلام کی آواز اور تحریک منہاج القرآن کا پیغام پوری دنیا کے کونے کونے میں آج بھی گونج رہا ہے۔
- شیخ الاسلام نے ہمیشہ آئین وقانون کی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی ہے اور ملک کو خطرات اور گرداب سے نکالنے کے لیے 23دسمبر 2012ء کو مینارپاکستان کے سائے تلے ’’سیاست نہیں ریاست بچا ؤ‘‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اور موجودہ سیاسی، انتخابی اور معاشی استحصال سے نجات دلانے کے لیے لاکھوں افرادکے اجتماع میں نظام کی تبدیلی اور انتخابی اصلاحات کا پوراعملی پیکچ پیش کیا اور اسے باقاعدہ عملی جامہ پنانے کے لیے تحریک کا آغاز کیا۔
اس سلسلہ میں مورخہ 13جنوری 2013ء کو آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی ،حقیقی جمہوریت کے قیام ،استحصالی نظام کے خاتمے اور انتظامی اصلاحات کے لئے ملکی سیاسی تاریخ کا پہلا پُرامن لانگ مارچ کیا اور لاکھوں افراد نے عوام دشمن فرسودہ نظامِ انتخاب کے خلاف نفرت کا اظہارکیااور2013ء میں اس وقت کی حکومت کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی کیاتھا ۔
بعد ازاں پاکستان عوامی تحریک نے 11مئی 2013ء کو ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں کرپٹ نظامِ انتخاب کے خلاف دھرنا دیاجس میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نئے نظام کا حکومتی وانتظامی ڈھانچہ اور سستے و فوری عدل و انصاف کی فراہمی کی پالیسی قوم کے سامنے پیش کی۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 2014ء میں عوام کی خوشحالی کے لئے 10 نکاتی انقلابی پروگرام بھی قوم کے سامنے پیش کیا اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری، کرپشن، لاقانونیت اور عوام کے حقوق کی بازیابی کے لئے ماہ جون 2014ء کو پاکستان آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر نواز، شہبازحکومت بوکھلا اُٹھی اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی اور مورخہ 17 جون 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن برپاکیا اور اپنے مذموم ومکروہ ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی، چادر اور چار دیواری کا تقدس بُری طرح پامال کیاگیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقصد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اس تحریک اور جدوجہد کو روکنا تھا۔
- آج ملک وقوم اضطراب کا شکار ہیں اور ملکی معیشت تباہی کے دہانے کی طرف جا رہی ہے، ملک کے سیاسی ،اقتصادی مسائل گھمبیر ہو چکے ہیں۔ آج تمام سیاسی پارٹیاں صرف سیاست کررہی ہیں اور ان کے پاس ملک وقوم کے ان گھمبیرمسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جن کی بصیرت اور دور اندیشی کی ایک دنیا معترف ہے، انھوں نے 2012ء میں آج سے 10 سال قبل ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ لگایاتھا کہ اپنی اپنی سیاست کو چھوڑکر ریاست کو بچانے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں لیکن سٹیٹس کو کی حامی جماعتیں اور دیگر مقتدر قوتوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، جس وجہ سے ملک کے حالات تیزی سے اس سمت کی طر ف جا رہے ہیں جہاں ملک وقوم کیلئے مزیدمشکلات ہی مشکلات ہیں ۔
- سانحہ ماڈل ٹاؤن JITکی بحالی سانحہ کے انصاف کیلئے اشد ضروری ہے کیونکہ اصل ملزمان نوازشریف، شہبازشریف، رانا ثناء اللہ ،ڈاکٹر توقیرشاہ اور دیگر ملزمان ہیں، جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، ان کو استغاثہ کیس میں ناکافی شہادت کی بنیاد پر انسداددہشت گردی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ نے بحیثیت ملزم طلب نہیں کیاتھا۔ استغاثہ کی دائر گی کے وقت جو شہادتیں اس وقت دستیاب تھیں، وہ استغاثہ کیس میں دے دی گئیں تھیں لیکن کچھ ایسی شہادتیں جن میں ان کا براہِ راست ملوث ہونا پایا جاتا ہے، وہ تمام کی تمام شہادتیں نواز، شہباز حکومت جانے کے بعد اور جسٹس باقرنجفی کمیشن رپورٹ آنے کے بعد میسرآئی تھیں۔ وہ تمام کی تمام شہادتیں نئی JITکو فراہم کردی تھیں۔ اس سے پہلے جتنی بھی انوسٹی گیشن ہوئی تھی، وہ حقائق کے برعکس، جانبداراور یکطرفہ ہوئی تھیں۔ پہلی والی JIT نے جتنی بھی انوسٹی گیشن کی تھی، وہ صر ف اور صرف ملزمان کو بچانے اور اصل حقائق کو چھپانے کیلئے کی تھیں تاکہ اصل حقائق منظر عام پر نہ آسکیں۔
پہلی والی JITنے ملزمان کی ملی بھگت کے ساتھ غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیارکروائی تھی تاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل ملزمان سابق وزیراعظم نوازشریف، موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف، موجودہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ دیگر وزراء، پولیس افسران جو بطورِ ملزمان ایف آئی آر میں نامز دتھے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی بلکہ ان تمام ملزمان کو مقدمہ سے نکال دیاگیا اور پاکستان عوامی تحریک کے 42 کارکنان جن کو مورخہ 17 جون 2014ء کو ہی مقدمہ 510/14 (پولیس مدعی) میں گرفتار کیا گیا تھا، ان PATکارکنان کو اپنے ہی مقدمہ نمبر 696/14میں ملزم قرار دے کر انسداددہشت گردی عدالت میں چالان پیش کردیاگیا۔
بعدازاں ان 42 کارکنان کی اپنے ہی مقدمہ نمبر 696/14 میں ضمانتیں کروائی گئیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کاناحق چالان کرنے پر JIT کی مکمل بددیانتی سامنے آگئی تو استغاثہ دائر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ لہٰذا فوری طورپر انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں استغاثہ دائر کردیا گیا۔ استغاثہ کیس میں 56زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مکمل ہونے کے بعد مورخہ 7فروری 2017ء کو انسداددہشت گردی عدالت لاہور نے سا نحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 241 ملزمان، کانسٹیبل سے لیکر آئی جی پنجاب تک، DCO کیپٹن (ر) عثمان، TMO نشتر ٹاؤن علی عباس بخاری، AC ماڈل ٹاؤن، طارق منظور چانڈیو کو بطورملزمان طلب کرلیا تھا لیکن 12ملزمان میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیرشاہ ودیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، ان کو طلب نہ کیا۔ ان 12ملزمان کی حدتک لاہور ہائی کورٹ میں Criminal Revision دائر کی تھی جو خارج ہو گئیں تھیں۔ اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں Crl.P.L.A دائر کی ہوئی ہے جو کہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
اسی طرح آئی جی مشتاق احمد سکھیرانے بھی ہائی کورٹ میں اپنی طلبی کو چیلنج کیاتھا، وہ بھی لاہور ہائی کورٹ نے خارج کردی تھی جس کی وجہ سے آئی جی مشتاق احمد سکھیر اانسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں بطورِ ملزم پیش ہوگیا اور تمام ملزمان پر مورخہ 15 اکتوبر2018ء کو دوبارہ فردِ جرم عائد ہوئی۔ جس کی وجہ سے استغاثہ کیس میں جتنابھی ٹرائل ہوا تھا، وہ DENOVO ہوگیا۔ ٹرائل DENOVOہونے کے بعد مستغیث کا بیان انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ قلمبند ہوا ہے اور ملزمان کے وکلاء نے مستغیث پر دوبارہ جرح کرنی ہے لیکن جرح کرنے سے پہلے ملزمان کے وکیل نے سیکشن 23 انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت درخواست گزاری ہے کہ ان مقدمات میں 7ATA کا اطلاق نہیں ہوتاہے، اس لئے ان مقدمات میں 7ATAکو ختم کرکے ان کیسز کو سیشن کورٹ میں ٹرائل کے لئے بھیج دیاجائے۔
اسی طرح سابق DCOکیپٹن (ر)عثمان کے وکیل نے انسداددہشت گردی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265/K کے تحت کیپٹن (ر) عثمان کی بریت کے لئے درخواست گزاری کہ کیپٹن (ر) عثمان کے خلاف مقدمہ نہیں بنتاہے اس لئے اس کو اس مقدمہ سے بری کردیاجائے۔ انسداددہشت گردی عدالت لاہور IIIنے کیپٹن (ر)عثمان کی اس بریت کی درخواست کو منظورکرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں بری کردیاہے۔ جس وجہ سے کیپٹن (ر)عثمان کی بریت کے خلاف لاہورہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔
- باقر نجفی کمیشن رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو مل گئی تھی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے کا ذمہ دار 2014ء کی پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو ٹھہرایا ہوا ہے لیکن باقرنجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی،ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس و دیگر دستاویزات شامل ہیں، وہ تمام دستاویزات افسو س صد افسوس کہ سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں ہیں۔ ان تمام منسلکہ دستاویزات کے حصو ل کے لئے 2018ء سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیر سماعت ہے، جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصولِ انصاف کی جدوجہد کو 8 سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی ذاتی دلچسپی اور راہنمائی میں انسداددہشت گردی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک مسلسل قانونی چارہ جوئی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ جاری وساری ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ جدوجہد اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اور شہداء کے لواحقین کو انصاف نہیں مل جاتا اور اس سانحہ میں ملوث عناصر اپنے عبرت ناک انجام سے دوچارنہیں ہو جاتے۔
حصولِ انصاف کی اس جدوجہد میں شہدائے ماڈل ٹائون کے ورثاء کا قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد کا اظہار قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ گزرے ہوئے آٹھ سالوں کا ہر دن حصولِ انصاف کی جدوجہد میں گزارا۔ الحمدللہ اس جدوجہد میں نہ قیادت کے عزم میں کوئی شکن آئی اور نہ ہی شہدائے ماڈل ٹائون کے ورثاء کے عزم و ہمت اور حوصلے کو وقت کی نمرودی، فرعونی اور قارونی قوتیں متزلزل کر سکیں۔
اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ شہدائے ماڈل ٹائون کے درجات بلند کرے، ان کی قبروں کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنائے اور ظالم نظام اور اس کی محافظ استحصالی قوتوں کے خلاف شہداء نے جو جانی قربانیاں دیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے، شہداء کے خون کے صدقے پاکستان کو ہر قسم کے ظلم اور استحصال سے پاک کرے، شہداء کی ان قربانیوں کے صدقے پاکستان میں مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہو اور پاکستان حقیقی معنوں میں امن، سلامتی اور خوشحالی کا گہوارہ بنے۔