قدوۃ الاولیاء سید السادات شیخ المشائخ قطب العالم حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت 18 ربیع الاول 1352ھ کو عراق کے دارالحکومت اور انوار و تجلیات غوثِ صمدانی کے مرکز بغداد میں ہوئی۔ جس گھر میں آپ پیدا ہوئے وہی ’’حرم دیوان خانہ قادریہ‘‘ ہے۔
حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلہ 16 واسطوں کے بعد حضور سیدنا غوث اعظمؓ سے اور 28 واسطوں کے بعد حضور اکرم ﷺ سے جاملتا ہے جبکہ آپ کا سلسلہ طریقت 19 واسطوں کے بعد سیدنا غوث الاعظمؓ تک اور 35 واسطوں کے بعد سید دو عالم حضور نبی اکرم ﷺ سے جاملتا ہے۔
آپ کی دینی تعلیم مسجد سید سلطان میں مکمل ہوئی۔ یہ مسجد بغداد میں شاہراہ الرشید پر دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے۔ آپ کے اساتذہ گرامی میں ملا سید اسد آفندیؒ، مفتی قاسم النقبیؒ اور شیخ خلیل الراویؒ شامل ہیں۔ مدرسہ دربار غوثیہ میں آپ نے مفتی اعظم عراقؒ سے بھی تفسیر، حدیث اور فقہ میں کسبِ علم کیا۔ ان کے علاوہ مختلف علم و فنون میں متعدد و دیگر اساتذہ بھی آپ کے اتالیق رہے۔
آپ نے سب سے پہلے روحانی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی حضرت سیدنا شیخ محمود حسام الدین الگیلانیؓ سے حاصل کی اور انہی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ وہ دربار غوثیہ کے متولی، نقیب الاشراف اور خاندان گیلانیہ کی اپنے عہد کی سب سے عظیم شخصیت تھے۔ انہیں ان کے والد بزرگوار قطب الاقطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالرحمن النقیبؒ نے اپنی زندگی میں ہی نقیب الاشراف کی اہم ذمہ داری سے سرفراز کردیا تھا۔ یہی وہ ہستی ہیں جنھیں جسے حضور سیدنا غوث اعظمؓ نے روحانی طور پر براہِ راست اپنی خلافت سے نوازا تھا اور اس عہد کے بیشتر اولیاء کرام نے اس امر کی تصدیق کی تھی۔ پورا عالمِ اسلام ان کی علمی و روحانی اور سیاسی بصیرت کا معترف تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کی خصوصی تربیت کی اور خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اپنے والد گرامی کے علاوہ بھی آپ نے بغداد شریف کے کئی مشائخ سے اکتسابِ فیض کیا۔
نقیب الاشراف کا منصبِ جلیلہ
آپ کا تعلق جس خانوادہ گیلانیہ کی شاخ سے ہے۔ حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے وصال سے لے کر اب تک دربار غوثیہ کی تولیت اور اوقاف کی نگرانی کے ساتھ ساتھ منصبِ نقابت کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس خاندان کا جو فردِ فرید اس ذمہ داری پر فائز کیا جاتا ہے، اسے نقیب الاشراف کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ نقیب الاشراف کی اولاد نرینہ کے نام کے ساتھ اسی مناسبت اور شرف کی وجہ سے نقیب زادہ کے لقب کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو حضرات نقیب الاشراف کی اولاد سے نہیں ہوتے، وہ اپنے نام کے ساتھ صرف الگیلانی کا لفظ شامل رکھتے ہیں۔
نقیب الاشراف کی ذمہ داریوں میں دربار کے جملہ انتظامی معاملات اوقاف کی دیکھ بھال، زائرین کی خبر گیری اور فقراء و مساکین میں وظائف کی تقسیم جیسے اہم امور شامل ہیں۔ اہلِ عراق کسی بادشاہ کے سامنے اپنی گردن جھکاتے ہیں اور نہ کسی صاحب اقتدار و حکومت کے رعب اور دبدبے کو تسلیم کرتے ہیں جتنا کہ وہ نقیب الاشراف کے اثر اور روحانی اقتدار و حکومت کو مانتے ہیں۔ خاندانِ گیلانیہ کے علماء، صلحاء، متقین، سیاستدانوں اور جرنیلوں کی مقبولیت اور اہلِ عراق پر ان کا غلبہ و اثر ہمیشہ عراق کے حکمرانوں کے لیے باعث رشک رہا ہے۔ خاندانِ گیلانیہ کے روحانی و سیاسی اثر و رسوخ سے بارہا حکمرانوں کو پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ ضرورت پڑنے پر اس خاندان کے مدبر اور سیاست دان حضرات نے اہلِ عراق کے سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد اور قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا اور جب ضرورت محسوس ہوئی تو اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوکر بھی مخلوقِ خدا اور دین محمدی ﷺ کی خدمت کرتے رہے۔
بچپن کی ریاضت اور نسبتِ غوثیت میں استغراق
عظیم شخصیات کا بچپن ہو یا لڑکپن بالعموم غیر معمولی ہوا کرتا ہے۔ لیکن جس شخصیت کی تربیت خانوادۂ غوث الاعظم کی نگرانی میں ہورہی ہو اور اسے بعد ازاں فیوضاتِ روحانی کا امین اور قسیم بھی بنایا جانا ہو تو صاف ظاہر ہے اس کا بچپن اور بھی قابلِ رشک ہوگا۔ حضور قدوۃ الاولیاء بچپن سے حصولِ علم کے ساتھ ساتھ ذکرو فکر اور عبادت و ریاضت میں اپنے قابلِ فخر اسلاف کا نمونہ رہے۔
آپ کے اس مبارک وصف کی گواہی برصغیر پاک و ہند کی مشہور علمی و روحانی اور سیاسی شخصیت مولانا عبدالقدیر بدایونی اپنے ذاتی مشاہدے کی بناء پر دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ہم جب 1943ء میں متحدہ ہندوستان سے ایک وفد کی شکل میں بغداد شریف حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کے مزار مبارک پر حاضری کے لیے گئے۔ اثنائے زیارت و حاضری ہم نے دیکھا کہ ایک دس گیارہ سالہ معصوم اور نوخیز شہزادہ مزار پاک کے پاس چہرہ مبارک کی طرف نماز عشاء کے بعد کھڑا ہوا اور ساری رات اسی حالت میں کھڑا مناجات کرتا رہا حتی کہ فجر کا وقت ہوگیا۔ ہم اس نوخیز اور معصوم بچے کی یہ استقامت اور مجاہدانہ رنگ دیکھ کر لرزہ براندام ہوگئے کہ آخریہ بچہ ہے کون؟ پوچھنے پر خدام نے بتایا کہ یہ نقیب الاشراف سیدنا محمود حسام الدین الگیلانیؓ کے چھوٹے صاحبزادے ’’سیدنا طاہر علاؤالدین‘‘ ہیں۔ مولانا عبدالقادر بدایونی فرماتے ہیں کہ ہم دس پندرہ روز مزار غوث الاعظمؓ پر حاضری کے لیے بغداد شریف رکے رہے، ہر رات جب بھی مزارِ اقدس پر حاضری ہوتی رہی، ہم یہی نظارہ کرتے رہے۔ آپ روزانہ پورے عزم و استقامت کے ساتھ چہرہ مبارک کی طرف محوِ ریاضت رہے۔
یہ معمول جہاں بچپن میں آپ کی غیر معمولی استقامت اور ریاضت کی دلیل ہے وہاں نسبتِ غوثیت مآبؓ میں حد درجہ استغراق اور فنائیت کی علامت بھی ہے۔ بچپن میں سیدنا غوث الاعظمؓ کی یہ کرم نوازیاں ہی تو تھیں جنہوں نے عین شباب میں آپ کے سیرت و کردار میں پہاڑوں جیسی صلابت اور سمندروں جیسا ظرف عطا کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ولایت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے اور اسی سبب بیعت کے بعد آپ ہر مرید کو ارشاد فرماتے: ’’اب تم غوث پاک کا مرید ہوگیا ہے۔‘‘
زاہد شب زندہ دار
سلف صالحین عرفاء و متقین کے معمولات میں قیام اللیل ایک اہم معمول رہا ہے۔ قرب کی وہ منزلیں جن سے گزر کر بندہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں حتی کہ اس کی رضا کا پیکر بن جاتا ہے، دراصل رات کی خاموش تاریکیوں میں ہی طے ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے متلاشیانِ حق نے قیام اللیل میں مداومت کو اپنے اوپر فرض کیے رکھا۔ امام شعرانیؒ نے تو یہاں تک فرمایا کہ:
’’جو شخص فقر کا دعویٰ کرے اور رات نیند کے غلبے میں بسر کردے، اسے طریقت سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اسی لیے بجا طور پر فرمایا:
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانیؒ بھی زاہد شب زندہ دار تھے۔ قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی زبانی بیان کرتے ہیں کہ:
’’میں جب بھی حضور پیر صاحب کے ہاں حاضر ہوتا اور رات قیام کا موقع ملتا تو ہمیشہ رات کو جاگ کر گزارتا۔ آپ کے معمولات دیکھتا رہتا۔ چھپ کر خاموشی کے ساتھ اس کمرے پر نظریں جمائے رکھتا جہاں آپ نوافل وغیرہ ادا فرماتے۔ آپ کا حجرہ مبارک برآمدے کے ساتھ تھا جس میں سرخ یا سبز رنگ کا زیرو واٹ بلب روشن ہوتا۔ حضور پیر صاحبؒ کمرے میں تنہا ہوتے تھے اور اس جالی دار کھڑکی میں سے میں نے ہمیشہ آپ کو قیام و مناجات میں دیکھا اور آپ کی ہر رات اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت میں گزرتی اور میری رات آپ کے شب زندہ داری کی کیفیت کو دیکھتے دیکھتے گزر جاتی۔
شانِ استغناء اور بے نیازی
استغناء اور بے نیازی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور جو بندہ اللہ کے رنگ میں رنگا ہوا ہوتا ہے وہ صفاتِ الہٰیہ کا مظہر بن جاتا ہے اس لیے استغنا اور بے نیازی بھی اولیاء اللہ کا لازمی وصف ہوا کرتا ہے۔ یہی وصف انہیں مخلوق سے ملنے والے نفع و نقصان سے بے نیاز کردیتا ہے۔ وہ صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کا بندہ ہوتا ہے اور تمام حاجات، امیدیں اور تمنائیں اسی سے وابستہ رکھتا ہے۔ توحید کی روح بھی یہی ہے کہ بندہ صرف معبودِ حقیقی کے در پر سجدہ ریز رہے اور ماسوا کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔ تعلیماتِ تصوف و طریقت میں ’’استغنائے نفس‘‘ کی اہمیت سے تشنگانِ علم و معرفت کو روشناس کرایا جاتا ہے۔ اسلاف میں ا س کی مثالیں کثرت سے دستیاب ہیں لیکن فی زمانہ یہ جوہر کمیاب ہے۔ بالخصوص آج کے مادیت زدہ ماحول میں تو ’’روحانیت‘‘ بھی الا ماشاء اللہ مادیت کے حصول کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔
تصوف و روحانیت کے نام پر بے شمار نام نہاد ’’روحانی شخصیات‘‘ عوام الناس کو لوٹتی نظر آتی ہیں۔ اس تناظر میں حضور پیر صاحبؒ کی سیرت بالکل منفرد تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ شان بے نیازی دے رکھی تھی کہ شاہانِ وقت خود چل کر آپ کی بارگاہ میں جاتے اور اپنی خدمات پیش کرتے لیکن آپ نے کبھی کسی کے سامنے اپنی کوئی حاجت اور آرزو نہ رکھی۔ بلکہ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ صدر ایوب اور صدر ضیاء الحق مرحوم جیسے مطلق العنان حکمران تو عام حاضرین کی طرح ا ٓپ کی دست بوسی کو سعادت سمجھتے تھے۔ آپ چاہتے تو ایک اشارے سے اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتے تھے مگر حاصل کرنا تو دور کی بات آپ کے قلب و ذہن میں بھی دنیاوی فوائد کے حصول کی کوئی خواہش کبھی پیدا نہ ہوئی۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان نے ایک مرتبہ آپ کی مالی خدمت کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
’’جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنا بند ہوجائے گا تو آپ سے لے لیں گے‘‘۔ بقول اقبال
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زِرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغناء
یہ شانِ استغناء آپ کو اپنے غیور اسلاف کی طرف سے ورثے میں ملی تھی۔ اللہ والوں کی یہی پہچان ہے کہ ان کے دروازے پر بادشاہ آئے یا غریب، وہ دونوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ نہ شاہوں سے اپنے لیے کچھ طلب کرتے ہیں اور نہ ان کے قصرِ سلطنت کو اپنی آرزوؤں کا مسکن بننے دیتے ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاصر خانوادوں میں سے کئی ایک سجادہ نشین حضرات کی ’’خدمتِ اسلام‘‘ کا دائرہ کار اب مروجہ سیاست کے ذریعے ایوان ہائے اقتدار کے طواف تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ حالانکہ فقر و درویشی کی دنیا میں امارت اور حکومت کی طلب تو کجا قربت بھی پسندیدہ نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسی لیے فرمایا:
بئس الفقیر علی باب الامیر.
’’بُرا ہے وہ درویش جو شاہوں کے دروازوں پر نظر آئے۔‘‘
بارگاہِ غوثیت میں محبوبیت اور قرب کا مقام
حضور قدوۃ الاولیاء کو قدرت کے عطا کردہ اعلیٰ محاسن، خاندانی سیادت اور بالخصوص حضور سیدنا غوث الاعظم ؓ کے ساتھ نسبی اور روحانی تعلق نے جملہ معاصر اولیاء اللہ کے لیے مقتداء و پیشوا تو بنایا ہی تھا لیکن خود حضور غوث الاعظمؓ کی بارگاہ میں آپ قرب اور محبوبیت کے مقام رفیع پر فائز تھے۔ اس کی زندہ شہادت تو یہی ہے کہ آپ کے توسط سے اللہ تعالیٰ نے عصرِ حاضر میں سلسلہ قادریہ کا فیضان مشرق و مغرب میں پھیلایا۔ بلاشبہ حضور غوث پاکؓ کو اپنے اس فرزند جلیل پر فخر بھی ہے اور ناز بھی۔ کیونکہ آپ اپنے دور میں سیدنا غوث الاعظمؓ کی ولایت اور قطبیت کے مظہر تھے۔
مشفق و مہربان
حضور قدوۃ الاولیاءؒ ہر ایک کے لیے نہایت مشفق و مہربان تھے۔ جب بھی آپ کی خدمت میں حاضری کی سعادت ملتی، ایک نیا کیف و سرور نصیب ہوتا، ایک آسودگی اور طمانیت عطا ہوتی اور زندگی کی شاہراہ پر ایک نئے ولولے سے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا۔ دور دراز سے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر آنے والے زائرین سے جب آپ ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ خیر خیریت پوچھتے اور انہیں خوش آمدید کہتے تو ان کی ساری تھکاوٹ اسی پیار بھرے لہجے سے اترجاتی۔ ان کے اس محبت آمیز لہجے میں مامتا سے بڑھ کر غمگساری ہوتی اور شفقتِ پدری سے زیادہ ہمدردی۔ جب کوئی تلخی ایام کے ہاتھوں دل گرفتہ ہوکر آپؒ کے ہاں شرف باریابی پاتا تو آپ حرفِ مدعا زبان پر لانے سے پہلے ہی اتنی شفقتیں نچھاور فرمادیتے کہ سارے غم وہیں غلط ہوجاتے۔ آپ کے مرید بامراد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آپ کی شفقتوں کا یوں تذکرہ کرتے ہیں:
’’میں جب بھی دعوتی، تنظیمی اور تحریکی سرگرمیوں کی کثرت اور تسلسل سے تھکا ہارا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا یا بعض اوقات اپنوں کی مہربانیوں اور پرایوں کی سازشوں سے کبیدہ خاطر ہوجاتا تو آپ کی زیارت اور شرف ملاقات ہی میرے لیے مژدۂ جانفزا ہوتی۔ آپ پاس بٹھا کر میٹھی میٹھی باتیں کرتے جاتے اور کرم کی پھوار روح کی گہرائیوں میں اتر کر نوازتی جاتی۔ آپ کی وہی قربتیں میری زندگی کا سرمایہ، وہی محبتیں میرے دردوں کا مرہم اور وہی شفقتیں میری حیات کا ماحصل ہیں۔‘‘
وصال مبارک
حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادیؓ کو حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سے نسبی قربت کا منفرد اعزاز تو حاصل تھا ہی لیکن آپ نے اپنے حسنِ خلق، پاکیزہ سیرت، اتباعِ شریعت و طریقت، انوارِ معرفت و حقیقت اور برکات و کرامات کے باعث ایک جہان زندہ کردیا۔ نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدل جاتی ہیں اور اندر کے احوال تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کی گفتگو میں ایسی تاثیر رکھ دی تھی کہ حسنِ مقال کی تمام رعنائیاں پھول بن کر آپ کے لفظ لفظ میں کھل اٹھتیں اور جو تشنہ لب بھی آپ کے در پر آتا وہ معرفت کے آبِ خنک سے سیراب ہوکر اور اپنے دامنِ آرزو میں حکمت و دانش کے جواہر سمیٹ کر جاتا۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسن وجمال کی دولت بھی وافر عطا فرمائی تھی چنانچہ اس ظاہری و باطنی جمال اور تقویٰ و طہارت کے کمال نے آپؓ کو عوام و خواص سب کے لیے نہایت اعلیٰ مرتبت بنادیا۔
23 ذوی القعدہ بمطابق 7 جون 1991ء بروز جمعۃ المبارک صبح 9 بجے شہزادہ غوث الوریٰ جرمنی میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ کی نماز جنازہ پہلے کراچی میں نشتر پارک میں پڑھائی گئی، جس کی امامت کی سعادت آپ کے روحانی فرزند اور اسلام کے بطلِ جلیل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حصے آئی اور بعد ازاں اسی شام لاہور میں منہاج القرآن پارک میں حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ نمازِ جنازہ نے پڑھائی۔ دونوں مقامات پر مخلوقِ خدا اور آپ کے عقیدت مندوں کا جم غفیر دیدنی تھا۔ آپ کو تحریک منہاج القرآن کے عظیم تربیتی مرکز ’’جامع المنہاج‘‘ ٹاؤن شپ (بغداد ٹاؤن) میں سپرد مزار کیا گیا۔ جہاں ایک شاندار زیر تعمیر دربار غوثیہ مرجعِ خلائق ہے۔