بین الاقوامی سطح پر مسلم امہ کو ہیجانی اور اضطرابی کیفیت سے نکالنے کے لیے ریاستی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہر آئے دن مختلف مذاہب، ان کے شعائر، توہین آمیز خاکوں اور مقدس کتب کی بے حرمتی ایسے مسئلوں سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال کا عملی تدارک اور ازالہ ممکن ہوسکے:
1۔ بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ملک میں کسی اقلیت کے مذہبی جذبات اور مذہب کی توہین کا ارتکاب ملک کی آئین شکنی کے مترادف گردانا جائے۔
2۔ کسی بھی ملک میں اس کے بانی اور قائد کی توہین کرنا قابلِ تعزیر عمل گردانا جاتا ہے بلکہ اس کی تصویر کی توہین بھی اس قائد کی توہین کے زمرے میں آتی ہے اور قابلِ سزا جرم ہے تو کسی مذہب کے بنیادی شعار کی بے توقیری اور گستاخی سے کیونکر درگزر کیا جائے؟ لہذا بین الاقوامی سطح پر ایسے جرم کا ارتکاب عملاً قابل سزا ٹھہرایا جانا چاہیے۔
3۔ پوری دنیا میں ہرجانے کے دیوانی قانون کے تحت ہتکِ عزت کا قانون نافذ العمل ہے، حیرت اس بات کی ہے کہ ہتکِ مذہب، ہتکِ پیغمبر اور ہتکِ مذہبی شعار کے حوالے سے قانون پر عمل درآمد کرنا تنازع کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس پر سختی سے بلا امتیاز عملدرآمد کیا جانا چاہیے۔
4۔ توہینِ عدالت جیسے جرم کے سرزد ہونے پر فوری طور کسی بھی عدالت میں سزا کا عمل متحرک ہوجاتا ہے اور توہینِ عدالت کی پاداش میں موقع پر ہی سزا تجویز اور اس سزا پر عملدرآمد فوری کیا جاتا ہے۔ جس کی عملی مثال پاکستان میں ایک وزیراعظم کو عدالت کے حکم پر کسی ملک میں خط نہ لکھنے کی پاداش میں چند منٹ کی سزا سنائی اور فوری عملدرآمد بھی کروایا گیا اور اسے 5 سال کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا گیا۔
توہین رسالت اور فرضی خاکہ جات کے ذریعے کسی پیغمبر، قرآن مجید جیسی پاک مقدس کتاب کی دانستہ توہین پر کسی بھی ملک میں فوری تدارکی عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔ جس کے باعث اقلیتی مذاہب کو مذہبی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شورش جنم لیتی ہے اور از خود قانون ہاتھ میں لینے کی نوبت آتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سطح پر ایسے قوانین پر نظر ثانی اور یکساں عملدرآمد کی سفارش کی جانی ضروری ہے کیونکہ مذہبی توہین کسی جج صاحب کی توہین سے زیادہ اہم ہے اور حقوقِ انسانی کا اہم مسئلہ ہے۔
5۔ پوری دنیا میں آزادیٔ رائے، آزادیٔ تحریر، آزادیٔ تقریر پر سختی سے عملدرآمد ہورہا ہے اور مطلقاً قانون موجود ہے۔ قانون سے تجاوز اور خلاف ورزی پر قید کی سزا مقرر ہے۔ لمحہ فکریہ اور بہت بڑا المیہ ہے کہ کسی معاشرے کے فرد کی عزت و آبرو کا تحفظ ایک بنیادی انسانی حق ہے، اس میں نازیبا کلمات، گستاخانہ الفاظ کہنے اور لکھنے کی ممانعت ہے جبکہ مذہب و مقدس کتاب اور مقدس پیغمبر جیسی اہم ہستیوں کی توہین ہونے پر کوئی فوری قانونی عملدرآمد نہیں ہے۔ قوانین تو کتابوں میں موجود ہیں مگر خلاف ورزی پر مناسب اور فوری عملدرآمد نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس کا تدارک کیا جانا ضروری ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آزادی تقریر و تحریر کے زمرے میں رقم طراز ہیں کہ آزادی کی کوئی حدود و قیود متعین نہ کرنا اور لامحدود آزادی کا تصور رکھنا ایک غلط مفروضہ ہے۔ کوئی قول یا فعل جو کسی طبقہ کی اخلاقی اور مذہبی اقدار کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور جس سے اس کی سلامتی و بقاء اور تقدیس پر ضرب لگنے سے امن کے لیے سنگین خطرہ پیدا ہوجاتا ہے، اسے آزادی تحریر و تقریر کا حق نہیں گردانا جاسکتا۔ اسلام تحمل و رواداری، بقائے باہمی اور جیو اور جینے دو کے اصول کی تعلیم دیتا ہے۔ شیخ الاسلام کے نزدیک اسلام دوسرے مذاہب کے معبودوں اور مذہبی علامتوں کو کسی بھی طرح برا بھلا کہنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور انسانیت کے احترام کا سبق دیتا ہے اور اسلامی قانون بلاامتیاز دیگر مذاہب کی سلامتی و وقار اور ان کے عقائد کے احترام پر زور دیتا ہے۔
6۔ UNO چارٹر میں تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی، انسانی اور بین الاقوامی مسائل کے حل اور انسان کی بنیادی آزادی اور مذہبی احترام کی حوصلہ افزائی کرنا لازم قرار دیا گیا ہے اور بلا امتیاز نسل و زبان، مذہب کی آزادی اور انسانی حقوق تسلیم کیے گئے ہیں لیکن حیرت ہے کہ تاحال رسالت مآب ﷺ کی توہین اور مقدس کتاب قرآن مجید کی توہین کا پیہم ارتکاب ہورہا ہے اور اقوام متحدہ اور UNO چارٹر کی دفعات اس سنگین مسئلہ پر بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس پر فوری توجہ اور عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
7۔ یورپین ممالک باہمی طور کوئی ایسی تدبیر و لائحہ عمل اپنائیں کہ جس سے توہین رسالت مآب ﷺ اور فرضی خاکہ جات جیسی جسارت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روکا جائے۔ آئندہ کے لیے موثر سدباب کیا جائے اور موثر قانون کے ذریعے گذشتہ بے ضابطگیوں اور گستاخیوں کا ازالہ کیا جائے۔
8۔ اہلِ مغرب باور کریں کہ مسلمانوں میں خاکوں کی جسارت پر تشویش کی لہر دوڑنا اور غم و غصہ کے باعث اشتعال انگیزی کرنا، مغربی ممالک کی عدم مساوات پر مبنی حکمت عملی اور قانون پر یکساں عملدرآمد نہ کرنے کا ردعمل ہے۔ اس سلسلہ میں ممالک اصولی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوں۔
9۔ بین الاقوامی سطح پر عالمی رہنما اس مسئلہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری محسوس کریں اور اس حساس مذہبی مسئلہ کی اہمیت اور ضرورت کے پیشِ نظر ترجیحی بنیادوں پر حل کریں اور مسلم امہ کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں بلکہ اپنے جمہوری اور عدل پسند رویہ کے باعث سوچیں کہ اسلام کی مقدس کتاب قرآن جسے بے حرمتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے ایسے ہیں کہ وہ بائبل یا کسی بھی مقدس کتاب کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
10۔ بین المذاہب سطح پر ضروری اور لازم ہے کہ ہر مذہب کے مذہبی رہنما اور مبلغ اپنی عبادت گاہوں میں مسلم کمیونٹی کے جذبہ خیر سگالی اور رواداری و عفو درگزر کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اپنی تبلیغ کا موضوع بنائیں اور مسلم کمیونٹی کے مذہبی شعار اور تہذیبی اقدار کی توقیر و احترام کرنے کا درس دیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کے مذموم اقدامات کے سد باب کے لیے
شیخ الاسلام کی علمی و عملی جدوجہد
قارئین گرامی قدر! فرضی خاکہ جات بنانے کی ناپاک جسارت اور گستاخی رسول ﷺ جیسی مذموم سازش کے تدارک اور دائمی سد باب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مندرجہ ذیل علمی و عملی کاوشیں فرمائی ہیں:
1۔ عالمی رہنماؤں کو خصوصی مراسلہ جات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عظیم شخصیت پوری دنیا میں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص کسی رسمی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ نے احیائے امت کی ایک عالمگیر تحریک تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے بانی سرپرست ہونے کے باعث محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس کے خلاف مغرب کی طرف سے گستاخی کے ارتکاب پر اور توہین آمیز خاکہ جات کی مذموم حرکت پر اپنی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پوری دنیا کے صدور اور وزرائے اعظم کو خصوصی توجہ دلاؤ مراسلہ جات ارسال کیے ہیں تاکہ تمام ممالک اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے اس سے فوری عہدہ برآ ہوں۔ جملہ ممالک کے سربراہان کو خصوصی مراسلہ جات کے ذریعے شیخ الاسلام نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو بالخصوص اور دیگر ممالک کو بالعموم تنبیہ اور آگاہی دی ہے کہ اگر قرآن جلاؤ ڈے اور گستاخانہ خاکوں جیسی مذموم اور ناپاک حرکات کو بروقت نہ روکا گیا تو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ امنِ عالم کے لیے نقصان دہ اور تہذیبوں کے تصادم کو فروغ دینے کا باعث ہوگا۔
شیخ الاسلام نے اپنی اعلیٰ بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام ممالک کے صدور اور وزیراعظم صاحبان کو آگاہ کیا ہے کہ پوری تاریخ گواہ ہے اسلام نے عملاً اور قولاً ہمیشہ مذہبی رواداری اور نسلی مساوات کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب وقت ہے کہ باہمی مفاہمت کے لیے مؤثر طریقہ سے سنجیدگی سے کام کیا جائے، باہمی احترام کو فروغ دیا جائے اور کثیر الاقوام گلوبل ویلج میں پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے لیے آگے بڑھا جائے۔
شیخ الاسلام نے خصوصی توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی عظیم ترین مقدس کتاب قرآن مجید اور رحمۃ للعالمین محمد ﷺ جن کا فیوضاتی اثر نہ صرف مسلمانوں کے لیے ہے بلکہ پورے عالم کے لیے ہے۔ ان کا ماننے والا ایک ادنیٰ سا مسلمان بھی قرآن اور رسول ﷺ کی تعلیمات کے باعث بائبل یا کسی دیگر مقدس کتاب کی توہین یا بے حرمتی کا سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی کسی مقدس ہستی کی توہین کا سوچ سکتا ہے۔
شیخ الاسلام نے دو ٹوک فرمایا ہے کہ ایسے فرضی خاکہ جات ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے لیے جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ خدانخواستہ اشتعال انگیزی کی آگ بھڑک اٹھی تو پھر اس آگ کو بجھانا کسی کے بھی بس میں نہ ہوگا اور یہ آتش فشاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
خطوط مذکورہ کے ذریعے شیخ الاسلام نے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانانِ عالم کی دل آزاری فوری بند کی جائے جو کہ تہذیبی نزاع کے فروغ کا باعث بن رہی ہے۔ عقل کے ناخن لیتے ہوئے قرآن جلاؤ ڈے اور رسالت مآب ﷺ کی توہین بذریعہ فرضی خاکہ جات فوری بند کرکے آئندہ ایسی گھناؤنی سازش نہ کرنے کا عہد کیا جائے۔
فرماتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ معاشروں کے درمیان نفرت اور تقسیم ختم کرنے کی کوششیں کامیاب ہوں گی، مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے والے سرفراز اور کامیاب ہوں گے اور مغربی دنیا اور اسلام کے مابین یگانگت، مفاہمت، وحدت، امن و آشتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام کو کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔
2۔ ’’سیرتِ نبوی ﷺ کا اصلی خاکہ‘‘(A real sketch of the Prophet Muhammad (PBUH)
یہ امر واقعی قابلِ صد ستائش و تقلید ہے کہ شیخ الاسلام نے گستاخانہ خاکوں جیسے مذموم اقدامات کے سدِّباب کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا اصل خاکہ اپنی کتاب A real sketch of th Prophet Muhammad کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے یہ کتاب اور خصوصی مراسلہ جات عالمی رہنماؤں کو پہنچاتے ہوئے حالات سے آگاہ کیا ہے۔ شیخ الاسلام نے اس کتاب میں سیرت نبوی ﷺ کا اصل خاکہ پیش کیا ہے جو کہ مسلمانوں کے لیے جوہر کیمیا ہے اور غیر مسلم مذاہب کے لیے نصیحت اور رہنمائی کا کامل نصاب ہے جس پر عمل پیرا ہو کر دیگر مذاہب ایک عالمی المیہ اور حادثہ سے دو چار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
جواہرِ سیرت نبوی ﷺ
بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی شخصیت مبارکہ اور سیرتِ مطہرہ کے متعلق بین الاقوامی سطح پر آگاہی دینے کے لیے تصنیف کی گئی اس کتاب میں 63 شہ سرخیوں کے ذریعے سیرت مصطفی ﷺ کا حقیقی نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اگر نبی مکرم ﷺ کی ذات اقدس کو اسلام اور ایمان کی قلعہ نما عظیم پر شکوہ عمارت تصور کرلیں تو جیسے کسی بھی عمارت کی خوبصورتی اس کے Front View (سامنے کا نظری نظارا)، Back View (عقبی نظارے) اور Side View (پہلو کے نظری نظارے ) سے ہوتی ہے، اسی طرح ایمان اور اسلام کی عظیم قلعہ نما عمارت کاBack ،Front اور Side evelation آپ ﷺ کی شخصیت، حسنِ ظاہری اور شمائل نبوی ﷺ ہے یعنی حسن سراپائے رسول ﷺ میں حسن یزداں کا پَرتو بدرجہ اتم موجود ہے جو پوری کائنات کے حسن، رعنائی، خوبصورتی اور نور افشانی کا موجب ہے۔
اگر ہم اس اسلام اور ایمان کی عظیم عمارت کا Interior Design دیکھنا چاہیں تو ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سیرت نبوی کا حقیقی نمونہ نقشہ اور ڈیزائن پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ اسی تناظر میں حضور اقدس کا Spiritual interior Design سیرت مصطفی ﷺ کے مندرجہ ذیل 63 گوشوں کی صورت میں اپنی روح کی بستی میں اتارنا ہوگا۔ ہاں یاد رہے اس ایمانی عظیم فن تعمیر کا حقیقی Designer اور Architect خالقِ کائنات ہے۔
1۔ رسول اکرم ﷺ کو کائنات کا اعلیٰ حسب و نسب عطا ہوا۔
2۔ دونوں جہانوں میں لافانی پیکر حسن جمال پرتوِ حسن خالق عطا ہوا۔
3۔ اسم محمدؐ، احمد ﷺ اور اعلیٰ القابات کے حامل ہونا۔
4۔ تمام کائنات میں اعلیٰ ترین اخلاق سے مزین ہونا
5۔ انتہائی متواضع اور حلیم الطبع ہونے کا شرف
6۔ دونوں جہانوں کے لیے صادق و امین گردانے گئے
7۔ انتہائی عادل و منصف مزاج
8۔ نہایت سخی فیاض و فراخ دل
9۔ غیر معمولی نرم طبع
10۔ پرتمکنت و پروقار گفتار
11۔ انتہائی شفیق و مہربان صاحب عطوفت
12۔ بے مثل رحم دل ہستی کائنات
13۔ امنِ عالم کے پیامبر و علم بردار
14۔ کمزوروں، مفلسوں اورناتوانوں کے مددگار
15۔ بیماروں کے خبرگیر اور پرسان حال
16۔ غلاموں کے حقیقی نجات دہندہ
17۔ پناہ گزینوں کے محافظ و نگہبان
18۔ حقوقِ حیوانات کے علم بردار
19۔ نسل پرستی کے خلاف پہلی آواز
20۔ عامۃ الناس کو حقیقی انسانیت کا اعزاز عطاکرنے والے
21۔ کائنات میں خدا کی نعمتوں اور سہولتوں کے تقسیم کنندہ
22۔ پوری کائنات کے لیے سب سے زیادہ رحیم و کریم
23۔ یتیموں اور بیواؤں کے ملجاء و مولا ہونا
24۔ عورتوں کے حقوق اور ناموس کے حقیقی محافظ ہونا
25۔ بچوں کے لیے نہایت مہربان و شفیق ہونا
26۔ دوسروں کی بہت تکریم فرمانے والے
27۔ بہترین پڑوسی ہونا 28۔ حقیقی انسان دوست اور جانثار عظیم
29۔ دوسروں کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہنے والا ہونا
30۔ بین المذاہب رواداری اور ہم آہنگی کے عظیم پیامبر
31۔ معاشرتی ہم آہنگی اور استحکام کے لیے عظیم جدوجہد کرنے والے
32۔ نسلی امتیازات کا خاتمہ فرمانے والے
33۔ نفرتوں اور عداوتوں کو محبت و صلح میں تبدیل کرنے والے
34۔ مذہبی بنیاد پر عناد و تعصب کا خاتمہ فرمانے والے
35۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عملی تفسیر ہونا اور راست بازی کی حوصلہ افزائی کرنے والے
36۔ محبت کا عملاً پرچار کرنے والے
37۔ دوسروں کے عقائد کا احترام اور لحاظ کرنے والے
38۔ غیرمسلموں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے
39۔ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کا ادب و تعظیم کرنے والے
40۔ عفو و درگزر فرمانے والے عظیم رسول
41۔ زندگی بھر کسی سے انتقام نہ لینے والے عظیم بشر کائنات
42۔ انتہائی معاملہ فہم اور نرم مزاج ہونا
43۔ انتہائی صابر اور بردبار، وسعتِ قلبی کے مالک
44۔ ضبطِ نفس میں کمال کا حاصل ہونا
45۔ کبھی کسی پر لعنت ملامت نہ فرمانے والے
46۔ گنہگاروں کے لیے سب سے زیادہ رحیم و کریم ہونا
47۔ سب سے خوبصورت سنگت و صحبت سے نوازنے والے
48۔ صحابہ کرامl سے سب سے زیادہ محبت و شفقت فرمانے والے
49۔ دوسروں کا والہانہ استقبال فرمانے والے اور دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہونے والے
50۔ ہمیشہ علم و حکمت پسند فرمانے والے
51۔ ماحولیات کی حفاظت کرنے والے
52۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے کی تلقین فرمانے والے
53۔ کائنات کے سب سے پہلے ریاستی دستور (دستور مدینہ) کے بانی ہونا
54۔ اعتدال و توازن کے عظیم مبلغ
55۔ عظیم منتظم ہونا
56۔ ضبطِ نفس کے عظیم معلم
57۔ نیکی اور بھلائی میں انتہائی معاون اور حوصلہ افزائی فرمانے والے
58۔ حا لتِ جنگ میں بھی عدل اور انصاف کا دامن نہ چھوڑنے والے
59۔ ذخیرہ اندوزی اور فضول خرچی کو مسترد فرمانے والے
60۔ تنقید پر بھی بہترین طریقے سے نمٹنے والے
61۔ وقت کی قدر اور اوقات کار کا بہترین استعمال فرمانے والے
62۔ تعلیم اور تربیت کے سب سے بڑے علم بردار
63۔ آپ ﷺ کے سنہرے اصول پوری خلقت کے لیے مشعلِ راہ ہونا
3۔ تصنیف: ’’قرآن اور شمائلِ نبوی ﷺ ‘‘
شیخ الاسلام نے عالمی رہنماؤں کے نام مراسلہ جات اور سیرتِ نبوی ﷺ کا اصلی خاکہ جیسی تصنیف کے ساتھ ساتھ اپنی تصنیف ’’قرآن اور شمائل نبوی ﷺ ‘‘ کے ذریعے بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے مقام و مرتبہ سے دنیا کو آگاہ کیا۔ شیخ الاسلام نے فرضی اور گستاخانہ خاکہ جات کو آپ ﷺ کے حسنِ ظاہری کے کرشموں اور فیوضات سے روکا ہے۔ اس تصنیف میں شیخ الاسلام نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ حضور ﷺ کے شمائل مبارکہ کے باب میں احادیث کے عظیم ذخیرہ کی تائید قرآن مجید کی آیاتِ کریمہ سے ہوتی ہے۔ شیخ الاسلام نے ثابت کیا ہے کہ پورا قرآن مجید آپ ﷺ کے شمائل و خصائل، فضائل اور تعلیماتِ نبوی سے عبارت ہے۔ شیخ الاسلام نے اس کتاب میں آپ ﷺ کے درج ذیل پہلوؤں کو بیان کیا ہے:
1۔ تعلیماتی پہلو
2۔ جمالیاتی پہلو
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی پوری جمالیاتی، خصائلی اور فضائلی زندگی کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:
لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ.
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘
(الحجر، 15: 72)
یہ تصنیف فرضی خاکہ جات اور گستاخی کے ارتکاب کا استدلالیہ ردّ ہے۔
4۔ تصنیف: ’’حسنِ سراپائے رسول ﷺ ‘‘
اسی سلسلہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک علمی کاوش معرکۃ الآراء تصنیف ’’حسن سراپائے رسول ﷺ ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں شیخ الاسلام نے محمد رسول اللہ ﷺ کے سراپائے حسن کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔ آپ ﷺ کے چہرہ اقدس، سرِ اقدس، موئے مبارک، جبینِ پُرنور، ابرو مبارک، چشمانِ مقدس، بصارتِ مصطفی، ناک مبارک، رخسار مقدس، لبِ اقدس، دہن مبارک، دندان مبارک، زبان مبارک، آواز مبارک، ریش مبارک، گوش اقدس، گردن مبارک، دوش اقدس، پشت مبارک، بازوئے مبارک، دستِ اقدس، قدِ زیبا، قدمین شریفین، تلوے مبارک، ایڑیاں مبارک، انگشتانِ قدمین، الغرض آپ ﷺ کے جملہ اعضائے مبارکہ کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس قدر خوبصورتی، کمال اور ادب و احترام کے سانچے میں ڈھال کر بیان کیا ہے کہ ہر کوئی اس حسن و خوبصورتی کا اسیر ہوجاتا ہے اور کسی بھی ذہن میں اس قدر خوبصورت ترین ہستی کی گستاخی کا خیال تک نہیں آسکتا کہ جن کی سیرت و اخلاق کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن بھی اپنی مثال آپ ہے۔
قارئین ذی قدر! شیخ الاسلام نے اپنی اِن تصانیف کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کا جو حقیقی خاکہ بیان فرمایا ہے، یہ کائنات کے جملہ نقش و نگار کا مرقع ہے۔ کاش یہ اصلی خاکۂ محبوب کبریا ﷺ ہماری بصارتوں اور روح میں سرایت کرجائے اور ہم شمائلی، فضائلی اور خصائلی اعتبار سے اعلیٰ ترین ہستی کے انوار و فیوضات کو سمیٹتے ہوئے حقیقی معنی میں آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ کے نہ صرف محافظ بلکہ اپنی سیرت و کردار کے ذریعے ان کی تعلیمات کے فروغ کے علمبردار بھی بن جائیں۔