شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی شہرہ ٔ آفاق تصنیف ’’اسلام دینِ امن و رحمت ہے‘‘ میں مسلم معاشرہ کی خصوصیات اور ایک مومن کے خصائل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے مسلم معاشرے میں رہنے والوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے، بھلائی کی نصیحت کرنے اور اچھائی چاہنے کے احکامات دیتے ہوئے فرمایا کہ کوئی شخص دوسرے کا نقصان نہ کرے، دوسرے کو اذیت نہ دے، بے توقیر نہ کرے، نہ کسی کی برائی چاہے، ہر شخص دوسرے کے لئے بہی خواہ، ہمدرد، نفع بخش، محبت کرنے والا اور بھلائی پہنچانے والا ہو۔‘‘ سورۃ الحجرات میں اللہ رب العزت نے فرمایا ’’بات یہی ہے کہ (سب )اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں، ایک دوسرے پر ظلم و بربریت، جبر و دہشت گردی اور ڈاکہ زنی نہیں کرتے، وہ ایک دوسرے کی مال و جان کے محافظ اور ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں، وہ باہم پیار محبت کے جذبات رکھنے والے اور ایک دوسرے کی کمزوری، گناہوں اور خطائوں پر پردہ ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے مومنوں کی اس تعریف کو ’’انما‘‘ کلمہ حَصر کے ذریعے بیان کیا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ مومن صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جن میں بھائی چارہ نظر آئے۔ جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے مواخاتِ مدینہ کی صورت میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم فرماتے ہوئے انہیں بھائی بھائی بنا دیا تھا چنانچہ جب تک مواخات کی یہ جھلک مسلمانوں کی عملی زندگی میں نظر نہ آئے تو وہ تب تک قرآن کے ایمانی معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔
مسلم معاشرے اور ایک مومن کے اوصاف کے حوالے سے یہ ایک مختصر تعارف ہے یعنی ایک مومن کسی کو ناحق ایذا نہیں دے سکتا، اُسے بلاجواز اذیت میں مبتلا نہیں کر سکتا، اگر ہم بحیثیتِ مسلمان اپنی شخصیت اور مزاج کو مذکورہ بالا قرآنی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمیں بہت کھلے تضادات نظر آئیں گے۔ آج اگر ہم اپنی سوسائٹی، معاشرے اور معاشرت پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں تنگ نظری، انتہا پسندی، عدمِ برداشت، لاقانونیت نظرآتی ہے۔ ہم بلاجواز دوسروں کو تنگ کرتے ہیں، جن سے ہمارا اصولی یا غیر اصولی اختلاف ہو تو ہم اُسے قابلِ گردن زدنی سمجھتے ہیں۔ اُس کے الٹے سیدھے نام رکھ کر اُسے بے توقیر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہم دوسروں کے اموال کے امین نہیں رہے۔ دوسروں کے مال پر ناحق تسلط جمانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
عدمِ برداشت اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اصولی اختلاف کو دشمنی کے پیرائے میں شامل کر لیتے ہیں اور نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بالخصوص سیاسی امور و معاملات میں اس حد تک بگاڑ آچکا ہے کہ اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کیا جارہا۔ الزام تراشی، تہمت اور غیبت معمولات زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اور دکھ اس بات کا کہ ان خطرناک ذہنی، جسمانی اور روحانی عوارض کے مضمرات سے ہم خبردار بھی نہیں رہے۔ بغیرتحقیق کے الزام تراشی کرنا اور پھر الزامات کی فہرست کو آنکھیں بند کر کے وائرل کر دینا گویا کوئی عیب اور گناہ رہے ہی نہیں۔
یہ اخلاقی بگاڑ ہر سطح پر پھیل چکا ہے۔ نئی نسل اخلاقی آلائشوں سے اٹے ہوئے اس ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق مومن صرف وہ ہیں جو ایک دوسرے کے لئے حقیقی بھائی سے بھی بڑھ کر اخوت اور بھائی چارہ رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسری طرف ہم ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے خون خوار بھیڑیے بنے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر دوسرے کی عزت، مال اور جان لوٹنے پر تلا بیٹھا ہے۔ ہمارا حال وحشی درندوں سے بھی بدتر ہو چکا ہے۔ قرآن مجید نے مومن کی ایک قابلِ فخر نشانی اور علامت بیان کی ہے کہ وہ صلح کروانے والے ہوتے ہیں یعنی کہ دلوں کو توڑنے والے نہیں جوڑنے والے ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے: ’’ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایاکرو۔‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قرآنی امر آج کے ماحول میں ہر اینکر پرسن اور صحافی کے پیش نظر رہنا چاہیے۔ صحت مند اختلاف رائے خیر کا باعث ہے مگر کسی کو ناحق لڑانا اور دل آزاری کرنا مصطفوی تعلیمات کے برخلاف ہے۔ آج سوسائٹی میں عدمِ برداشت خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ان حالات میں اینکر پرسنز، صحافیوں، اساتذہ، علمائے کرام اور والدین کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عدمِ برداشت کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔
عدمِ برداشت اور تنگ نظری ایک عمومی رویہ بن چکی ہے اور زندگی کا ہر شعبہ اس کے منفی اثرات کی زد میں ہے۔ عدمِ برداشت کے خلاف دعوتی مساعی کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ صلہ رحمی اور شفقت و محبت کے جذبات کو فروغ دئیے بغیر ایک پرُامن اور خوشحال سوسائٹی کی تشکیل ناممکنات میں سے ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ سراپا رحمت و شفقت تھے۔ آپ ﷺ ہمیشہ اپنوں سے محبت سے پیش آتے تھے اور اُن کی بہتری کے لئے دعا گو رہتے تھے۔ اپنوں تو کیا آپ ﷺ وسلم اغیار کے لئے بھی فکر مند رہتے تھے۔ آپ ﷺ اس بات پر مبتلائے غم رہتے کہ منکرین کو کس طرح ہدایت یافتہ بنا کر انہیں قبر اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ بنایا جائے۔ اسلام میں تنگ نظری اور شدت پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود g روایت کرتے ہیں کہ ’’حضور نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا بال کی کھال نکالنے والے (یعنی شدت پسند و انتہا پسند)ہلاک ہو گئے‘‘۔
سوشل میڈیا آج کی صدی کا ایک دو طرفہ برق رفتار ذریعۂ اظہار بن چکا ہے۔ گفت و شنید میں انقلابی سہولیات کی وجہ سے سوشل میڈیا بڑی اہمیت کا حامل ہے مگر جہاں فوائد ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی بے اندازہ ہو چکے ہیں۔سوشل میڈیاعلاقائی، قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر مباحثہ کا فورم بن چکا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ٹویٹر سپیس پر سیکڑوں افراد کسی ایشو پر اپنی رائے دے رہے ہوتے ہیں اور ہر اکائونٹ ہولڈر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بلااجازت اس بحث کا حصہ بن جائے۔ اب ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے اور وہ فیس بک، ٹویٹر اکائونٹ، انسٹاگرام جیسی ڈیوائسز کے ذریعے اپنا مافی الضمیر بیان کرتا نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں مثبت سوچ والے بھی موجود ہیں اور تخریبی سوچ والے بھی موجود ہیں۔ سوشل میڈیا رائے عامہ کو ہموار کرنے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے حوالے سے دو دھاری تلوار بنا ہوا ہے۔ ایک کلمہ گو مسلمان اور ایمان والے شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اپنی سوچ کا اظہار کرے ۔سوشل میڈیا کے ذریعے نفرتیں پھیلانے،فرقہ واریت اور دہشت گردی پھیلانے والے قرآنی تعلیمات کی رو سے مفسدین یعنی فساد فی الارض کے مجرم ہیں اور قرآن نے فسادیوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ہدایت کی ہے۔