حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو لوگوں کی خوشی اور مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی، وہ ایک حدیث میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں :
مَارَاَيْتُ اَشَدَّ فَرْحًا مِنْهُمْ بِشَئٍی مِنَ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم.
(ابن سعد، طبقات، 1 : 234)
’’مدینہ طیبہ کے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے جس قدر خوش ہوئے، میں نے انہیں کسی چیز سے اس قدر خوش ہوتے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔
انہیں خوشی کی وجہ سے یوں لگ رہا تھا جیسے مدینہ کی ہوائیں اور فضائیں ہی بدل گئی ہیں، درودیوار پر غیر مرئی نور چھاگیا ہے اور کوئی چیز بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
لَمَّا کَانَ الْيَوْمُ الَّذِيْ دَخَلَ فِيْهِ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اَضَآءَ مِنْهَا کُلُّ شَيْئٍ.
’’جس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے، اس روز ہر چیز منور ہوگئی‘‘۔
شَهِدْتُه يَوْمَ دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلَيْنَا فَمَا رَاَيْتُ يَوْمًا قَطُّ کَانَ اَحْسَنَ وَلَا اَضْوَاَ مِنْ يَوْمٍ دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلَيْنَا.
’’جس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، میں مدینہ میں موجود تھا، میں نے کوئی دن نہیں دیکھا جو اس دن سے زیادہ حسین اور روشن ہو‘‘۔
شرح و تفصیل
شاہ والا مرتبت، نبی اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے مدینہ ’’مدینہ منورہ‘‘ نہیں بلکہ صرف ’’یثرب‘‘ تھا۔ ’’یثرب‘‘ ملامت کرنے کو کہتے ہیں۔ آمد شاہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے یہاں کی فضاء زہر آلود اور آب و ہوا انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر تھی۔ اس لئے اگر کوئی شخص اپنی بستی چھوڑ کر یہاں آ کر آباد ہوتا تھا تو لوگ اسے ملامت کرتے تھے کہ کیسے ناسمجھ ہو، اپنی بستی چھوڑ کر ایک ایسی جگہ آ کر آباد ہوگئے ہو، جو بیماریوں کا گھر ہے، مگر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے اس خطے کی قسمت و تاثیر ہی بدل گئی، نہ صرف اس کی بیماریوں کا خاتمہ ہوگیا، بلکہ یہاں کی خاک اور پانی کو شفائی اثرات بھی حاصل ہوگئے۔
نہ جب تک تو نے اے یثرب کفِ سرکار چومے تھے
تیرے ذروں میں تابش تھی نہ تیرے بام و در روشن
اس وقت مدینہ منورہ کی بستی نو محلّوں پر مشتمل تھی، ہر محلہ ایک بڑے دیہات سے کم نہیں تھا کیونکہ اس کے اندر ہی مکانات، کھیت، کھجوروں کے درخت اور کنویں وغیرہ تھے، اور ان میں بڑے بڑے خاندان آباد تھے، مختلف جزائر و دریا سے وجود میں آنے والی کسی ریاست کی طرح مدینہ بھی انہی متحدہ دیہاتوں کا نام تھا، جن میں سے ہر دیہات کو ’’دار‘‘ کہتے تھے اس وقت مشہور ترین ’’دار‘‘ محلے، یا دیہات یہ تھے۔ (البدایہ والنہایہ، 3 : 203)
- دار بنو سالم بن عوف : ان کے سربراہ عتبان بن مالک اور عباس بن عبادہ تھے۔
- دار بنو ساعدہ : اس کے سربراہ سعد بن عبادہ تھے۔
- دار بنو الحارث بن خزرج : اس کے بزرگ عبداللہ بن رواحۃ اور سعد بن ربیع تھے۔
- دارعدی بن النجار : اس کے بزرگ سلیط بن قیس تھے۔
اس آخری محلے کے لوگ وہ خوش قسمت حضرات تھے، جنہیں حضور علیہ السلام کے ساتھ نسبی تعلق بھی تھا اور یہ رشتے میں آپ کے ماموں لگتے تھے، اس لئے قدرتی طور پر ان حضرات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی سب سے زیادہ خوشی تھی۔ جب قباء کی بستی میں قیام کے دس بیس دن گزر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی نسبت اور رشتے کی وجہ سے جمعہ کے دن خصوصی طورپر بنو النجار کو پیغام بھیجا کہ یہاں آکر ہمیں لے جائیں۔
یہ خبر بوئے گل کی طرح چمن سے نکل گئی اور سارے مدینہ میں پھیل گئی، اہل مدینہ کی خوشی کی انتہاء نہ رہی، آنے والے حسین لمحات کے جانفزا تصور نے ان کے رگ و ریشہ میں بجلیاں بھردیں، مسرتوں کے دلکش ہالے چہروں پہ سجا دیئے، وہ اپنے محبوب کو لانے کے لئے دن چڑھنے سے پہلے ہی تیار ہوگئے، اور اپنے دور اور سادہ ماحول کے مطابق عقیدت و محبت اور شان و شوکت کا اظہار کرنے کے لئے جسموں پہ تلواریں آراستہ کرلیں۔ ترکش کاندھوں پہ ڈال لئے، کمانیں ہاتھوں میں پکڑ لیں اور پرے باندھ کر بڑے جوش و خروش کے ساتھ بستی قباء کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلوس کی شکل میں دھوم دھام کے ساتھ لاسکیں۔
اَرْسَلَ اِلٰی مَلَاِبَنِی النَّجَّارِ فَجَآءُ وْامُتَقَلِّدِيْنَ بِسُيُوْفِهِمْ.
(مسلم، 1 : 200)
’’بنو نجار کو پیغام بھیجا تو وہ تلواریں حمائل کرکے آگئے‘‘۔
جب قبیلہ بنو نجار اور دوسرے قبائل کے ہتھیار بند دستے قباء میں پہنچے تو ہر طرف چہل پہل ہوگئی، ان کی آمد سے رونق میں بے پناہ اضافہ ہوگیا، سورج طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی جلوس کی تیاری مکمل ہوگئی، حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ناقہ مبارک قصواء پر سوار ہوگئے، اپنے پیچھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بٹھالیا، اور حضرات بنو نجار نے آپ کی سواری کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ اس شان سے مسرت کے نعروں، چمکتے چہروں اور حمدوستائش کے ترانوں کے جلو میں یہ جلوس نبوی سوئے طیبہ روانہ ہوا۔
فَرَکِبَ نَبِيَ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَاَبُوْبَکْرٍ وَحَفُّوْا دُوْنَهُمَا بِالسَّلَاحِ.
(بخاری، 2 : 656)
’’پس نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سوار ہوئے اور جلوس کے مسلح شرکاء نے ان کو گھیر لیا‘‘۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس منظر کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں :
کَاَنِّيْ اَنْظُرُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی رَاحِلَتِه وَ اَبُوْبَکْرٍ رِدْفُه وَمَلَاُ بَنِی النَّجَّارِ حَوْلَه.
’’گویا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ناقہ پر دیکھ رہا ہوں، صدیق اکبر آپ کے پیچھے ہیں اور بنو نجار کا گروہ آپ کے گرد و پیش ہے‘‘۔
لَمَّا کَانَ يَوْمُ الْجُمْعَةِ اِرْتِفَاعَ النَّهَارِ، دَعَا رَاحِلَتَه وَحَشَرَ الْمُسْلِمُوْنَ وَتَلَبَّسُوْا بِالسَّلَاحِ وَرَکَبَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم نَاقَتَهُ الْقَصْوَاءَ وَالنَّاسُ مَعَه عَنْ يَمِيْنِه وَ شِمَالِه.
(طبقات، 1 : 236)
’’جب جمعہ کا دن آیا اور دن چڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سواری منگوائی، مسلمان بھی جمع ہوئے اور انہوں نے ہتھیار باندھ لئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ناقہ قصواء پر سوار ہوئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں چلنے لگے‘‘۔
اس بے مثل اور قدسی جلوس میں، شرکاء کا حیرت انگیز جوش و خروش، پر خلوص جذبہ وارفتگی اور عشق جنون خیز کی بے قراری کا سماں دیدنی تھا۔ کوثر و سلسبیل کے معطر پانیوں میں دھلی ہوئی عقیدت و محبت، انمول اور پاکیزہ چاہت ایک نئے، انوکھے اور دل افروز روپ میں جلوہ گر تھی، ہر عاشق یہی کوشش کررہا تھا کہ آگے بڑھے اور ناقہ کی مہار تھامنے کی سعادت حاصل کرے۔
مَشَوْا حَوْلَ نَاقَتِه لَايَزَالُ اَحَدُهُمْ يُنَازِعُ صَاحِبَه زِمَامَ النَّاقَةِ شُحًّا عَلَی کَرَامَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَتَعْظِيْمًا لَه.
(البدايه والنهايه، 3 : 199)
’’وہ ناقہ کے اردگرد رواں دواں تھے، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ محبت اور تعظیم کی وجہ سے، مہار تھامنے کی خاطر ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے‘‘۔
اس طرح دھیرے دھیرے یہ نورانی جلوس محلہ سالم میں پہنچ گیا، اس وقت تک جمعۃ المبارک کا وقت ہوچکا تھا، وہ لوگ سراپا نیاز بن کر کھڑے ہوگئے اور عرض گزار ہوئے کہ مدینہ منورہ کے اندر جمعہ کی پہلی نماز ادا کرنے کی عزت ان کے محلے کو بخشی جائے، آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی یہ عرضداشت منظور فرمائی اور مدینہ طیبہ کے اندر پہلی نماز جمعہ اس پہلے محلے میں ادا کی۔
ادرکت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم الجمعة فی بنی سالم بنی عوف فَصَلَّاهَا فِی الْمَسْجِدِ الَّذِيْ، فِيْ بَطْنِ الْوَادِيْ وَادی رَانُوْنَآءَ فَکَانَ اَوَّلُ جُمْعَةٍ صَلَّاهَا بِالْمَدِيْنَةِ.
’’محلہ بنی سالم بن عوف میں جمعہ کے وقت نے آ لیا۔ پس آپ نے وادی رانوناء میں نماز ادا فرمائی، یہ مدینہ میں جمعہ کی پہلی نماز تھی‘‘۔
نماز کے بعد پھر جلوس آگے بڑھا، مدینہ طیبہ کی ساری آبادی جلوس کے نورانی و قدسی مناظر دیکھنے کے لئے ٹوٹ پڑی، ان کی خوشی کے سارے بندھن ٹوٹ گئے، مسرت نے انہیں دیوانہ بنا دیا، محبوب حجازی کی دید اور ناقہ کے گرد پروانوں کی طرح منڈلانے اور نعروں کی صورت میں اپنے جذبات محبت کا اظہار کرنے کے سوا انہیں کسی چیز کا ہوش نہ رہا، صرف مردوں اور جوانوں ہی کی یہ حالت نہ تھی بلکہ بچیوں اور عورتوں کی زبان پر بھی یہی نعرہ اور ترانہ تھا۔
جَاءَ نَبِيُ اللّٰهِ، جَاءَ نَبِيُ اللّٰهِ.
’’اللہ کے نبی آگئے، اللہ کے نبی آگئے‘‘۔
خَرَجَ النَّاسُ حِيْنَ قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ الطُّرُقِ وَعَلَی الْبُيُوْتِ وَالْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ يَقُوْلُوْنَ : اَللّٰهُ اَکْبَرُ جَآءَ رَسُوْلُ اللّٰهِ. اَللّٰهُ اَکْبَرُ جَآءَ رَسُوْلُ اللّٰهِ.
’’جب ہم حضور علیہ السلام کے جلوس کے ہمراہ مدینہ طیبہ پہنچے تو لوگ بازاروں اور گھروں کی چھتوں پر نکل آئے، خدام، غلام سب چلانے لگے۔ اللہ اکبر رسول کریم آگئے اللہ اکبر، رسول اللہ آگئے‘‘۔
اَشْرَفُوْا يَنْظُرُوْنَ اليهِ وَيقولُونَ جَاءَ نبی اللّٰه جَاءَ نبيُ اللّٰه.
(بخاری، 1 : 556)
’’لوگ جھانک جھانک کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے اور کہتے تھے، نبی اللہ آگئے، نبی اللہ آگئے‘‘۔
مدینہ طیبہ کی ننھی منی بچیوں کا یہ ہلکا پھلکا سادہ آسان اور مقبول ترانہ جو انہوں نے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرتے ہوئے، دف بجا بجا کر پڑھا آج بھی مشہور و معروف ہے اور حصول برکت کے لئے اب بھی اکثرت سے پڑھا جاتا ہے۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيَاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَادَعَا لِلّٰهِ دَاع
’’وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے۔ اللہ کے داعی نے ہمیں جو دعوت دی ہے، اس پہ شکر ادا کرنا واجب ہے‘‘۔
انوار و تجلیات، رحمتوں اور برکتوں کی برستی گھٹاؤں میں، مسرت بھرے نغمے حقیقی خوشیوں کے مہکتے پھول بکھیرتا یہ قدسیت بدامان اور رحمت بکنار کارواں آگے بڑھتا رہا، ایمان والے جھروکوں، کھڑکیوں اور چھتوں سے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کرتے اور فدا ہوتے رہے، اس وقت ہر ایک کے ذہن پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ آگے بڑھ کر آنے والے عظیم رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن جہاں آرا کی ایک جھلک دیکھ لے اور ان کی حسین صورت ہمیشہ کے لئے اپنا دل کے نہاں خانے میں بسالے، اس جلوس میں آگے بڑھنے، دیدار کرنے، قربان و نثار ہونے اور استقبالی نعرے لگانے کے سوا انہیں کوئی کام نہیں تھا، سب کچھ بھول چکے تھے، اور ہر چیز سے بے نیاز ہوکر ایک ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔
جن حضرات کے محلے یا ’’دار‘‘ جلوس کی گزر گاہ میں آتے تھے، ان کے عشق و جنون اور وارفتگی و بے قراری کا عالم ہی کچھ اور ہوتا تھا، ان کی ساری تمنائیں اور چاہتیں اسی نقطہ پر آ کر مرکوز ہوجاتی تھیں کہ کسی طرح محبوب حجازی کو اپنے دار میں قیام فرمانے پر راضی کرلیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل کریں۔ جب بنو سالم بن عوف کا محلہ آیا، تو وہ ادب سے راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور عرض کی :
هَلُمَّ اِلَی الْقُوَّةِ وَالْمَنَعَةِ وَالثَّرْوَةِ.
’’یارسول اللہ! یہیں قیام فرمایئے! سکونت کے لئے ہمارے پاس کافی جگہ ہے، قوت بازو بھی رکھتے ہیں اور دشمنوں سے دفاع کے حوصلے بھی! حضور! ہر طرح آرام پہچانے کی کوشش کریں گے، سکونت و قیام کی یہ عزت ہمیں عطا فرمائیں‘‘۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :
اِنَّهَا مَامُوْرَةً فَخَلُّوا سَبِيْلَهَا.
’’ناقہ کا راستہ چھوڑ دو، وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے، وہیں بیٹھے گی جہاں اسے حکم ہوگا، اس واسطے تمہیں قیام کے لئے درخواست اور اصرار کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
جب یہ نورانی سواری محلہ بنو بیاضہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے بھی بڑے ادب و احترام کے ساتھ یہی درخواست دہرائی اور مقیم ہونے کی فرمائش کی مگر انہیں بھی وہی جواب ملا۔
اس کے بعد محلہ بنو ساعدہ اور پھر محلہ بنو الحارث بن خزرج سے گزرتا ہوا یہ جلوس محلہ عدی بن النجار میں پہنچ گیا۔ راستے میں ہر محلے کے سربر آوردہ لوگوں نے بہتیری کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں رک جائیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے یہی فرمایا کہ اس کا فیصلہ ناقہ پر موقوف ہے جہاں اسے حکم ہوگا، وہیں بیٹھ جائے گی اور ہم وہیں قیام کریں گے۔
لوگوں کے دل دھڑک رہے تھے، آنکھیں اونٹنی پر لگی ہوئی تھیں اور ہر چیز سے بے نیاز ہوکر اسی کا طواف کررہی تھیں، کہ دیکھیں آج یہ منتخب روز گار اور مامور اونٹنی کس کے دروازے کے آگے بیٹھتی ہے اور کسے حضور محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میزبان بننے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
جب بھی کسی محلہ سے اونٹنی گزرتی تو اس کے رہنے والوں کی حالت عجیب ہوجاتی، یہی حسرت دل کا منتہائے مقصود بن جاتی کہ یہ خوبصورت اونٹنی یہیں بیٹھ جائے اور وہ مسرت سے بے قابو ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم چوم لیں اور اپنی خوش بختی پہ ناز کریں کہ محبوب دو جہاں کو مہمان بنانے کی عزت پائی ہے۔
ازل ہی سے یہ لازوال عزت قبیلہ بنوالنجار کے لئے مقدر تھی۔ جونہی اونٹنی مالک بن النجار کی حویلی کے قریب پہنچی تو لوگوں کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے، انہوں نے وہ منظر دیکھا جس کی وہ قدم قدم پر آرزو کرتے آرہے تھے اور اسی چیز کا حصول ان کی آخری حسرت بن گیا تھا، یعنی ناقہ یہاں آ کر رک گئی، محلہ بنوالنجار کے مکینوں کی خوشی اور دلی مسرت کی انتہا نہ رہی، وہ اس عظیم ترین عطا اور سب سے بڑی نعمت پر خوشی سے بے قابو ہوگئے اور جلدی جلدی آگے بڑھے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناقہ سے اتاریں اور اپنے گھر لے جائیں، مگر ایک لمحہ کے لئے ان کے دل حلق میں آکر اٹک گئے، خون رگوں میں منجمد ہوگیا اور آنکھیں پتھرا گئیں، اونٹنی پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے آگے بڑھنا شروع کردیا، ان کی آرزوؤں پر پانی پھر گیا، حسرتیں تشنۂ تکمیل رہ گئیں، ویران اور اداس نگاہوں سے اونٹنی کو دیکھنے لگ گئے، جیسے کسی کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔ چند قدم آگے بڑھ کر اونٹی پھر رک گئی، کچھ توقف کیا، پھر واپس مڑی، اور اسی جگہ آکر بیٹھ گئی جہاں پہلی مرتبہ آ کر بیٹھی تھی۔
لَمَّا بَرَکَتِ النَّاقَةُ بِرَسُوْلِ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَمْ يَنْزِلْ عَنْهَا حَتّٰی وَثَبَتْ فَسَارَتْ غَيْرَ بَعِيْدٍ وَرَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَاضِعٌ لَهَا زِمَامَهَا لَايُثْنِيْهَا بِه ثُمَّ الْتَفَتَتْ خَلْفَهَا فَرَجَعَتْ اِلٰی مَبْرَکِهَا اَوَّلَ مَرَّةٍ فَبَرَکَتْ فِيْهِ.
’’جب اونٹنی بیٹھ گئی تو حضور علیہ السلام اس سے نہ اترے، یہاں تک کہ وہ دوبارہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی مہار ڈھیلی چھوڑی ہوئی تھی، اسے کسی طرف نہیں موڑ رہے تھے، اونٹنی نے پھر پیچھے کی طرف دیکھا، واپس مڑی اور اسی جگہ آ کر بیٹھ گئی جہاں پہلی مرتبہ بیٹھی تھی‘‘۔
بَرَکَتْ عَلٰی بَابِ مَسْجِدِه عَلَيْهِ السَّلَامَ الْيَوْمَ.
’’یہ اونٹنی اس جگہ آکر بیٹھی جہاں آج کل مسجد نبوی کا دروازہ ہے‘‘۔
اونٹنی کے دوبارہ اٹھنے سے بنوالنجار کے مکینوں کی جان ہی نکل گئی تھی، آنکھوں میں ویرانیوں اور اداسیوں نے ڈیرے جمالئے تھے، دل ناتمام اور تشنہ حسرتوں کی آماجگاہ بن گئے تھے، ان چند ساعتوں میں ان پر جو بیتی وہ صرف وہی محسوس کرسکتے تھے۔
اچانک اونٹنی کے دوبارہ واپس آجانے کی وجہ سے ان کے تنِ ناتواں میں پھر سے جان آگئی، ویرانیاں بہاروں میں بدل گئیں، اور قلب و روح میں مسرتوں کے گلستان کھل اٹھے، خوشی خوشی آگے بڑھے۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا :
اَيُ بُيُوْتِنَا اَقُرَبُ؟
یہاں سے کس کا گھر سب سے زیادہ قریب ہے؟۔
حضرت ابو ایوب خالد بن سلطان انصاری رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور عرض کی :
اِنَّ مَنْزِلِيْ اَقْرَبُ الْمَنَازِلِ اِلَيْکَ فَاَنْقُلُ رَحْلَکَ اِلَيَ.
’’حضور! میرا گھر سب سے قریب ہے، کیا میں اونٹنی سے کجاوہ اتار کر گھر لے جاؤں‘‘۔
آقا علیہ السلام نے اجازت دی اور وہ کجاوہ اتار کر اپنے گھر لے گئے، یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ابو ایوب کو میزبانی کا شرف بخش دیا گیا ہے اور پوری کائنات میں سے یہ عظیم سعادت ان کے حصے میں آگئی ہے۔
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی دلی کیفیات کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا، چند لمحوں میں عزت و سعادت اور فضیلت و کرامت کے عرشِ کمال تک پہنچ گئے، قدرت کی کرم نوازی نے انہیں ان بلندیوں تک پہنچا دیا، جہاں تک بذات خود پہنچنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ایک آدمی نے عرض کی :
يَارَسُوْلَ اللّٰهِ! اَيْنَ تَحُلُّ؟
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کہاں قیام فرمائیں گے؟
فرمایا :
اِنَّ الرَّجُلَ مَعْ رَحُلِه حَيْثُ کَانَ.
’’انسان اپنے کجاوے یعنی سازو سامان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں وہ ہو‘‘۔
مطلب یہ تھا کہ سامان ابو ایوب کے گھر منتقل ہوگیا ہے، اس لئے ہم بھی وہیں رہیں گے۔
محلہ بنوالنجار کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، کیونکہ رحمت عالم نے اسی محلے میں قیام فرمایا تھا، خوشی کے اظہار میں چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی بزرگوں سے پیچھے نہ تھیں، چنانچہ وہ عربی دفیں لے کر گلی کوچوں میں نکل آئیں۔
خَرَجَتْ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارِ يَضْرِبْنَ بِالدُّفُوْفِ وَهُنَّ يَقُلْنَ.
اور یہ شعر پڑھنے لگیں۔
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارِ
يَاحَبَّداً مُحَمَّدٌ مِّنْ جَار
’’ہم بنو نجار کی بچیاں ہیں اور خوش ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پڑوسی اور ہمسائے بن گئے ہیں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے از راہ شفقت ان سے پوچھا :
کیا تمہیں ہم سے بہت لگاؤ ہے اور ہمارے آنے کی بے انتہاء خوشی ہے؟۔۔۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہمیں بھی تمہارے ساتھ انس ہے‘‘۔