پوپ بینی ڈکٹ ہشدہم نے گذشتہ سال جرمن یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی تھی اور تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے نازیبا کلمات کہے تھے اس کے جواب میں پوری دنیا اور بالخصوص اسلام ممالک میں شدید رد عمل ہوا تھا حتی کہ غیر مسلم سکالرز نے پوپ کے اس بیان کی مخالفت کی۔ اسی پس منظر میں اسرائیلی سکالر (Uri Avenry) ’’اری ایونری‘‘ نے یہ چشم کشا مضمون تحریر کیا جو مشرق و مغرب کے تمام حقیقت پسند، غیر متعصب اہل علم کے لئے ایک ایسی گواہی ہے جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کی طرح تمام معروضی حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اسرائیلی دانشور کا یہ مسکت جواب جس کا ترجمہ ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں ہمارے قارئین کو اسلام دشمن پراپیگنڈے کے پیچھے کارفرما ذہنیت سمجھنے میں مدد دے گا۔
رومی شہنشاہوں کے زمانے میں عیسائیوں کو زندہ شیروں کا نوالہ بننے کے لئے پھینک دیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ شہنشاہوں اور سربراہان کلیسا کے درمیان تعلقات میں خاصی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔
قسطنطائن عظیم جو کوئی سترہ صدیاں قبل 306ء میں شہنشاہ بنا اس کے دور میں اس کے زیر اقتدار علاقوں میں جس میں فلسطین بھی شامل تھا عیسائی عقیدے کو خاصا فروغ حاصل ہوا۔ صدیوں بعد کلیسا دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک مشرقی (قدامت پسند) اور دوسرا مغربی (کیتھولک)۔ مغربی حصے میں بشپ روم نے پوپ کا لقب اختیار کرنے کے بعد شہنشاہ سے مطالبہ کیا کہ اس کی سیادت کو تسلیم کرلیا جائے۔
شہنشاہوں اور پوپ کے درمیان کشمکش نے یورپی تاریخ میں اقوام میں تفریق پیدا کرنے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس میں نشیب و فراز آتے گئے۔ بعض دفع شہنشاہ نے پوپ کو برطرف کردیا اور ایسے مواقع بھی آئے جب پوپ نے بادشاہ کو معطل یا عملداری سے خارج کردیا۔ شہنشاہ ہنری چہارم تین دن پوپ کے محل کے سامنے ننگے برف پر اس وقت تک کھڑا رہا جب تک کہ پوپ اس کی بے دخلی کے احکام منسوخ نہ کردے۔
لیکن ایسے زمانے بھی آئے جب شہنشاہ اور پوپ کے درمیان امن و امان کا دور دورہ رہا۔ آج بھی ہم ایسا ہی زمانہ دیکھ رہے ہیں جب سولہویں پوپ بینی ڈکٹ اور موجودہ شہنشاہ جارج بش دوم کے مابین حیرت انگیز ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ پوپ کی اختتام ہفتہ کی تقریر نے (جو دنیا بھر میں اضطراب کا باعث بنی) تہذیبوں کے تصادم کے تناظر میں بش کی ’’اسلامی فسطائیت‘‘ کے خلاف صلیبی جنگ کے حوالے سے اچھا تاثر پیدا کیا۔
جرمن یونیورسٹی میں دیئے گئے اپنے لیکچر میں پوپ نے کہا کہ وہ آج عیسائیت اور اسلام میں سب سے بڑا جو فرق محسوس کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ عیسائی مذہب عقل و منطق پر مبنی ہے اور اسلام اس سے منحرف ہے۔ مسیحی افعال الہٰیہ میں منطق کی کارفرمائی دیکھتے ہیں، اس کے برعکس مسلمان اس سے انکاری ہیں اور افعال الہٰیہ میں ایسے کسی استدلال کو نہیں مانتے۔
ایک یہودی ملحد ہونے کی حیثیت سے میں اس مناظرے میں الجھنا نہیں چاہتا کہ مجھ ناچیز میں اتنی قابلیت نہیں کہ پوپ کے استدلال کو سمجھ سکوں۔ تاہم اس کا وہ حصہ نظر انداز نہیں کرسکتا جس کا تعلق مجھ جیسے اسرائیلی سے بھی ہے جو تہذیبوں کی جنگ کے خطرناک کنارے پر آباد ہے۔ اسلام میں منطق کے فقدان کا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے پوپ کا زور بیان اس پر ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحیثیت پیغمبر اپنے پیروکاروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنا مذہب بزور شمشیر پھیلائیں۔ پوپ کے مطابق یہ بات نامعقول ہے کیونکہ عقیدہ روح سے پھوٹتا ہے نہ کہ جسم سے، پس تلوار روح پر کیسے اور کیونکر اثر انداز ہوسکتی ہے؟
اپنے مؤقف کی تائید میں پوپ نے سب کو چھوڑ کر ایک ایسے بازنطینی بادشاہ کا حوالہ دیا جس کا تعلق اس کے مخالف مشرقی چرچ سے تھا۔ چودھویں صدی عیسوی کے اواخر میں مینوئیل ثانی پالیولوگس نامی بادشاہ نے ایک بے نام ایرانی مسلمان عالم سے ہونے والے اپنے مباحثے (جس کا وقوع پذیر ہونا بھی شکوک ہے) کا ذکر کیا جس میں اس نے اپنے مدمقابل کو وہ الفاظ بغیر کسی سند کے کہے تھے جن کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بیان کردہ الفاظ یہ تھے۔
’’مجھے دکھاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام میں کیا بات نئی ہے۔ اس میں سوائے برائی اور غیر انسانی باتوں کے تمہیں کیا ملے گا جیسا کہ اس نے حکم دیا کہ مذہب کو تلوار سے پھیلایا جائے‘‘۔
پوپ نے جو باتیں کہیں وہ تین سوالات پیدا کرتی ہیں۔
- بادشاہ نے یہ سب کچھ کیوں کہا؟
- کیا اس نے جو کہا وہ سچ ہے؟
- موجودہ پوپ نے ان باتوں کا حوالہ کیوں دیا؟
جب مینوئیل ثانی اس مباحثے کو ضابطہ تحریر میں لایا اس وقت وہ ایک ایسی سلطنت کا حکمران تھا جو اپنے آخری دنوں پر تھی۔ جب وہ 1391ء میں برسراقتدار آیا تو اس عظیم الشان سلطنت کے صرف چند صوبے اس کے زیرِ تسلط تھے اور وہ ترک حملہ آوروں کی زد میں تھے۔ اس وقت عثمانی ترک یلغار کرتے ہوئے ڈینوب کے کنارے تک پہنچ چکے تھے، وہ بلغاریہ اور شمالی یونان تسخیر کرچکے تھے اور انہوں نے مشرقی سلطنت کو بچانے کے لئے بطور کمک بھیجی جانے والی افواج کو دوبارہ شکست سے دوچار کردیا تھا۔ مینوئیل کی موت کے چند سال بعد 29 مئی 1453ء کو قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) ترکوں کے زیر نگین آگیا جس سے ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قائم رہنے والی سلطنت روما تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔
اپنے عہد حکومت میں مینوئیل نے پوپ کے صدر مقامات کے دورے کئے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے چرچ کو دوبارہ متحد کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ کوئی شک نہیں کہ زیر نظر مقالہ بھی ترکوں کے خلاف عیسائی ممالک کو برانگیختہ کرنے اور انہیں ایک نئی صلیبی جنگ شروع کرنے کی یقین دہانی کے سلسلے کی کڑی تھی اس کا مقصد عملی طور پر مذہب کو سیاسی مقصد برآری کے لئے استعمال کرنا تھا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پوپ کے حالیہ لیکچر کا مقصد موجودہ شہنشاہ جارج بش جونیئر کے انہی سیاسی عزائم کی تکمیل کا سامان فراہم کرنا ہے جو وہ دنیائے عیسائیت کو برائی کے محور کے نام پر مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کے لئے بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ مزید برآں ترک اس مرتبہ پرامن انداز میں ایک بار پھر یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ پوپ ان قوتوں کا حامی ہے جو یورپی یونین میں ترکوں کے داخلے کی مزاحمت کرتی ہیں۔
کیا مینوئیل کے استدلال میں صداقت نام کی کوئی چیز ہے؟
پوپ نے بذات خود احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا۔ ایک معروف سنجیدہ عالم دینیات ہونے کی حیثیت سے وہ تحریری عبارت کو جھٹلانے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ لہذا وہ اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا کہ قرآن نے عقیدے کی بالجبر نشر و اشاعت سے خاص طور پر منع کیا ہے اس سلسلے میں دوسری سورت کی آیت نمبر 256 کا حوالہ دیا یا (یہ بات ایک پوپ کے لئے حیران کن ہے کہ وہ غلطی کرگیا حالانکہ اس کی مراد آیت نمبر257 تھی) جس میں اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبرو اکراہ نہیں۔
اس واضح اور غیر مبہم بیان کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
پوپ نے سادہ لوحی سے یہ استدلال قائم کیا ہے کہ اشاعت دین میں طاقت استعمال نہ کرنے کا حکم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منصب رسالت کے آغاز میں دیا تھا جس وقت وہ کمزور اور ناتواں تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے دین کی خدمت کے لئے تلوار کا استعمال جائز قرار دے دیا۔ جبکہ قرآن میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخالف عیسائی، یہودی اور دیگر عرب قبائل کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم دیا جب وہ نئی مملکت کی تشکیل کر رہے تھے لیکن فی الواقعہ یہ ایک سیاسی عمل تھا، کوئی مذہبی اقدام نہیں تھا جو بنیادی طور پر علاقہ حاصل کرنے کے لئے تھا نہ کہ دین پھیلانے کی خاطر۔
یسوع مسیح (علیہ السلام) نے کہا: ’’تم انہیں ان کے پھلوں سے شناخت کرو گے‘‘ اسلام نے دیگر مذاہب سے کیا سلوک روا رکھا، اس کو ایک سادہ پیمانے سے جانچا جاسکتا ہے۔ ایک ہزار سال بعد تک مسلمان حکمرانوں کا طرز عمل کیا رہا جب ان کے پاس طاقت اور اختیار موجود تھا؟ کیا انہوں نے دین پھیلانے کے لئے تلوار کا استعمال کیا؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ صدیوں تک لگاتار مسلمانوں نے یونان پر حکمرانی کی، کیا یونانی مسلمان بن گئے؟ کیا کسی نے یہ کوشش بھی کی کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں؟ عثمانی دور خلافت میں عیسائی یونانی اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ بلغارین سرب، رومن، ہنگری اور دیگر یورپی اقوام ایک نہ ایک دور میں عثمانی عہد حکومت کے سایہ تلے اپنے عیسائی عقیدے پر قائم رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے، کسی نے انہیں مسلمان ہونے پر مجبور نہ کیا اور وہ سب کے سب عیسائی تعلیمات پر دلجمعی سے کاربند رہے۔
یہ درست کہ البانوی اور بوسنیائی باشندوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔ لیکن اس تبدیلی مذہب پر کسی نے یہ دلیل نہیں دی کہ انہیں جبراً مسلمان ہونے کے لئے مجبور کیا گیا۔ انہوں نے اسلام اس لئے قبول کیا تاکہ وہ حکومت کے منظور نظر بن جائیں اور زیادہ مراعات سے مستفید ہوسکیں۔
1099ء میں صلیبی جنگ بازوں نے یوروشلم فتح کیا اور بلاامتیاز مسلمان اور یہودی باشندوں کا قتل عام کرکے یسوع مسیح (علیہ السلام) کے نام پر اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔ جبکہ فلسطین پر چار صدیوں سے مسلمانوں کا قبضہ رہا لیکن اس کے باوجود عیسائی وہاں اکثریت میں تھے۔ اس طویل عرصہ کے دوران ان پر اسلام مسلط کرنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ صرف ملک سے صلیبی جنگ بازوں کے انخلاء کے بعد فلسطینوں کی اکثریت نے عربی زبان اور دین اسلام اپنی رضا و رغبت سے اختیار کیا اور اہل فلسطین کے وہی آباؤ اجداد ٹھہرے۔
ایسی کوئی شہادت کہیں موجود نہیں کہ یہودیوں پر اسلام مسلط کرنے کی کبھی کوئی کاوش ہوئی۔ یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلم عہد حکومت میں سپین کے یہودی اتنی مالی آسودگی اور خوشحالی سے ہمکنار تھے جس سے وہ ہمارے زمانے تک کہیں بہرہ مند نہ ہوئے۔ یہودا ہلوے جیسے اہل ادب نے عربی شاعری میں نام پیدا کیا اور اسی طرح نامور میمونیڈز نے عربی میں اپنے جوہر دکھائے۔
مسلم سپین میں یہودی اہل علم وزراء، شعراء اور سائنسدان ملتے ہیں۔ وسطی سپین میں واقع تولیدو شہر میں جو مسلمانوں کا ادبی مرکز رہا، عیسائی، یہودی اور مسلم عالم دانشور باہمی اشتراک سے قدیم یونانی فلسفوں اور سائنسی علوم کو عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ یہ حقیقت میں ایک زریں دور تھا۔ اگر پیغمبر (علیہ السلام) نے تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا حکم دیا ہوتا تو ایسا کب ممکن ہوسکتا تھا۔
اس کے بعد جو ظہور پذیر ہوا وہ محتاج بیان نہیں بالکل واضح ہے۔ جب کیتھولک مسیحیوں نے دوبارہ سپین فتح کرلیا تو انہوں نے مذہبی دہشت گردی کا بازار گرم کردیا۔ یہودیوں اور مسلمانوں کو حکماً مجبور کیا گیا کہ وہ یا تو عیسائی بن جائیں، یا تہ تیغ کردیئے جائیں یا وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں اور ان یہودیوں کے پاس جنہوں نے مذہب ترک کرنے سے انکار کردیا۔ وہ کم و بیش سب نقل مکانی کرکے مسلمان ملکوں میں چلے گئے جہاں ان کا کھلے ہاتھوں استقبال کیا گیا۔ سفاردی (ہسپانوی) یہودی مسلم دنیا میں جا کر آباد ہوگئے۔ مغرب میں مراکش، مشرق میں عراق، شمال میں بلغاریہ (جو اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا) اور جنوب میں سوڈان کو انہوں نے اپنا وطن بنالیا اور کسی جگہ بھی ان کو ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انہیں کہیں بھی Inquisition جیسی تفتیشی عدالتوں کا سامنا نہ کرنا پڑا جہاں ظالمانہ سزاؤں سے جرمنی میں عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا تھا، نہ آٹو ڈافے (Auto-da-fe) کے اعلان کی طرح آگ میں ڈالے گئے، نہ پوگرومز (Pogroms) کے سزا دینے والے مراکز تھے۔ نیز وہ ہر جگہ ہولوکاسٹ (جہاں سولہ بلین یہودی انسانیت سوز مظالم کے بعد ہلاک کردیئے گئے) جیسی زیادتیوں سے محفوظ و مامون رہے۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ اسلام نے بصراحت اہل کتاب پر ظلم و ستم ڈھانے سے منع کیا ہے۔ اسلامی معاشرے میں یہودیوں اور عیسائیوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے انہیں تقریباً مسلمانوں کے برابر حقوق عطا کئے گئے ہیں۔ انہیں اپنی حفاظت کے لئے ایک خاص قسم کا ٹیکس (جذیہ) ادا کرنا پڑتا ہے جس کے صلے میں انہیں عسکری خدمت بجالانے سے مستثنیٰ کردیا جاتا ہے۔ ایک ایسا سودا جو اکثر یہودیوں کے لئے خوش آئند تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو یہ بات ناپسند تھی کہ محض ترغیب و تبلیغ کے ذریعے یہودیوں کو اسلام قبول کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے کیونکہ اس طرح انہیں جزیے سے محروم ہونا پڑتا تھا۔
ہر یہودی جسے اپنی قوم کی تاریخ معلوم ہے وہ اسلام کا احسان مند اور گہرے جذبہ تشکر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام نے ان کی پچاس نسلوں کو تحفظ فراہم کیا ہے جبکہ عالم عیسائیت نے یہودیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور بہت سے مواقع پر انہیں تلوار کے زور پر ترکِ مذہب کرنے پر مجبور کیا۔
بزور شمشیر دین پھیلانے کی من گھڑت داستان محض ایک شر انگیز افسانہ ہے۔ ایک ایسا مفروضہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف یورپ کی طرف سے برپا کردہ عظیم جنگی معرکوں (جیسے عیسائیوں کا سپین پر دوبارہ قبضہ، صلیبی جنگوں اور ترکوں کے خلاف محاذ آرائی جن کے بڑھتے ہوئے فاتحانہ قدم ویانا تک پہنچ چکے تھے) میں پسپائی کے دوران جنم لیا۔ پسپائی کے بعد ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ جرمن نژاد پوپ بھی دیانتداری سے ماضی کے ان واقعات پر یقین رکھتا ہے۔ کیا ایسا ہے کہ مسیحی دنیا کا راہنما جو عیسائی مذہب کا عالم بھی ہے اس کے اپنے طور پر تاریخ مذاہب کا مطالعہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی؟ پوپ نے برسر عام ایسے الفاظ کیوں کہے! اور پھر لمحہ حاضر میں ایسا کیوں کہا؟
ان الفاظ کو بش اور اس کے پر جوش عیسائی حامی مبلغین کے ایماء پر نئے کروسیڈ (صلیبی جنگ) کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس میں نام نہاد اسلامی فسطائیت اور دہشت گردی پر عالمی جنگ کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے۔ جہاں دہشت گردی کو مسلمانوں کے ہم معنی بنا دیا گیا ہے۔ بش کے تجارتی حصہ داروں کے لئے مسلمانوں کے تیل کے ذخائر پر قبضے کو جواز فراہم کرنے کی نک چڑھی کوشش ہے۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ معاشی مفادات کی عریانی کو مذہبی قبا میں ڈھانپنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا نہیں کہ ڈاکوؤں کی مہم کو مذہبی صلیبی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ پوپ کی تقریر اسی کوشش کی صورت گری ہے۔ اس کے بھیانک نتائج کیا ہوں گے؟ کون اس کے بارے میں پیش گوئی کرسکتا ہے۔