محمد اقبال نقشبندی (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنِ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِه وَوَلَدِه وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب حب الرسول صلی الله عليه وآله وسلم من الإيمان، 1 : 14، رقم : 15)
’’تم میں سے کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
ایک دفعہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا :
لَاَنْتَ يَارَسُوْلَ اللّٰهِ اَحَبُّ اِلَيَ اِلاَّ مِنْ نَّفْسِيْ.
’’اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ مجھے ماسوا میری جان کے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِه حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْکَ مِنْ نَّفْسِکَ.
’’اس عظیم ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے جب تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی عزیز تر نہ ہوجاؤں‘‘۔
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں :
فَاِنَّکَ اَلْآنَ وَاللّٰهِ اَحَبُّ اِلَيَ مِنْ نَّفْسِيْ.
’’یقیناً اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْآنَ يَاعُمُرُ.
’’اے عمر! اب ٹھیک ہے‘‘۔
پس ایمان کی تکمیل محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ممکن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کا اظہار آپ کی کامل اتباع اور اطاعت کرنے سے ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
لَوْکَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَاَطَعْتَه
اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيْعٌ
’’اگر تیرے اندر محبوب کی محبت کا سچا جذبہ موجود ہے تو پھر اس کی اطاعت کرے گا اس لئے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا تابع فرمان ہوتا ہے‘‘۔
نیز اتباع محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت الہٰی کا سبب بنتی ہے کیونکہ اسی خالق لم یزل کا ارشاد ہے :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ.
(آل عمران : 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا‘‘۔
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں فرمایا :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.
(الحشر، 59 : 7)
’’اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو‘‘۔
اور یہ بھی ایک کلی اصول اور قاعدہ ہے کہ کسی کی کامل اتباع اس سے محبت کئے بغیر نہیں ہوسکتی تو اس سے سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سے اس درجہ کی محبت کہ تمام لوگوں سے آپ مومن کے ہاں زیادہ محبوب بن جائیں بظاہر سمجھ آجانی چاہئے۔
کامل ایمان جس سے بندہ پوری حلاوت و چاشنی محسوس کرے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے۔ امام بخاری حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْاِيْمَانِ : اَنْ يَکُوْنَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا اَنْ يُحِبَّ الْمَرْاَ يُحِبُّهُ اِلَّا لِلّٰهِ وَاَنْ يَکْرَه اَنْ يَعُوْدَ اِلَی الْکُفْرِ کَمَا يَکْرَه اَنْ يُقْذَفَ فِی النَّارِ.
’’جس آدمی میں درج ذیل تین چیزیں موجود ہوں وہ ایمان کی حقیقی چاشنی پاسکتا ہے۔
- اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دنیا کی جملہ اشیاء سے عزیز تر ہوں۔
- کسی چیز کو پسند نہ کرے مگر رضائے الہٰی کی خاطر۔
- اسے کفر کی طرف واپسی اتنی ناپسند ہو جتنا اسے دوزخ کی آگ میں پھینکا جانا ناپسند ہو‘‘۔
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت زیادہ شعراء و ادباء کو شعور بخشا کہ وہ جہاں اپنے قصائد اور منظومات شعریہ میں اللہ رب العزت کی حقیقی حمدوثناء بیان کریں وہاں وہ اپنے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک شمائل، محامد، اخلاق اور فضائل کو بھی واضح کریں۔ درحقیقت ہمیں خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی خصوصیات کا ذکر کرکے حکم دیا ہے کہ تم بھی میری مدح سرائی میں حصہ ڈالو۔ صحیح مسلم میں ایک روایت ہے :
اَنَا سَيِّدُ وُلدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبَر وَاَوَّلُ شَافِعٍ وَاَوَّلُ مُشَفَّعٌ.
’’میں بروز قیامت تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا۔ میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر سب سے پہلے شق ہوگی۔ میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت قبول ہوگی۔ میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو شفاعت کرے گا‘‘۔
یہاں چار امتیازی خصوصیات کا ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے چونکہ ارشاد خداوندی ہے :
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاO
(النسآء : 113)
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے کہ تم اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیاں بیان کرو اور اس اظہارِ بیان کے لئے خصوصی اہتمام فرماتے اور دعا فرماتے تھے اے اللہ! حسان کی روح الامین (جبریل) کے ذریعے نصرت و اعانت فرما۔
مگر بدقسمتی سے اسی امت سے تعلق رکھنے والے کچھ گروہ ایسے بھی موجود ہیں جو اغیار کی سازشوں کا شکار ہوئے، قرآن و حدیث و صحیح طور نہ سمجھ پائے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کے اظہار کے لئے کی جانے والی مدح سرائی پر شرک و بدعت اور نعت خوانوں کے بارے میں نہایت بے باکی سے مشرک و بدعتی ہونے کے فتوے صادر کرنا شروع کئے اور اس ضمن میں وہ اس حدیث مبارکہ کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
لَاتُطْرُوْنِيْ کَمَا اَطَرَتِ النَّصَاریٰ اِبْنَ مَرْيَمَ.
(رواه البخاری عن عمر)
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! میرے متعلق اتنے مبالغے سے کام نہ لینا جتنا عیسائیوں نے اپنے نبی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
لیکن کاش یہ محبان حدیث اور اس حدیث کی پوری تلاوت کا شرف حاصل کرلیتے تو جان جاتے کہ وہ اطراء جس سے یہاں روکا گیا ہے وہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو دائرہ بشریت سے خارج کر دینا ہے جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا اور ان کو اللہ عزوجل کا بیٹا بنا ڈالا تھا۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاملے کی خرابی کو سمجھ کر اپنی امت کو اس چیز سے منع فرمایا۔
اس فرمان نبوی سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہورہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ خالق کائنات نے تو پورا قرآن اس پیارے نبی کی مدحت و منقبت میں نازل کردیا ہے۔
لہذا جس آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیارو محبت ہے وہ خود بخود آپ کی تعریف و توصیف پر مجبور ہوجاتاہے اور جس کا دل آپ کی محبت سے خالی ہے اس کو بھلا کیسے نعت شریف کہنے کی توفیق ہوسکتی ہے۔ کسی عاشق صادق نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے :
فرش والے تیری شوکت کا علوّ کیا جانیں
خسروا عرش پر اڑتا ہے پھریرا تیرا
بلکہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تو اس طرح فرماتے ہیں :
مَا اِن مَّدَحْتُ مُحَمَّدًا بِمَقَالَتِيْ
لٰکِنْ مَّدَحْتُ مَقَالَتِيْ بِمُحَمَّدٍ
’’میں نے اپنے کلام سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف نہیں کی بلکہ ان کے ذکر جمیل سے اپنے کلام کو قابل تعریف بنالیا‘‘۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو بظاہر اپنے کلام پر ناز ہوتا ہے، وہ اپنے دنیاوی محبوبوں کے بارے میں جب تعریفیں کرتے ہیں تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں لیکن جب باری سرکار دو عالم نور مجسم احمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آتی ہے تو حکم اور الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
اسی وجہ سے امام عرب و عجم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں :
فَمَنْ شَائَ فَلْيَذْکُرْ بِنَبِيِّه
وَمَنْ شَاءَ فَلْيَغْزُلْ بِحُبِّ الزَّيَانِب
’’جس آدمی کا جی چاہے وہ نبی کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتا رہے اور جس کا جی چاہے دوسرے محبوبوں کے عشق کے گیت گائے‘‘۔
سَاذْکُرُ حُبِّيْ لِلْحِبِيْبِ مُحَمَّدٍ
رَذَا وَصَفَ الْعُشَّاقُ حُبَّ الْحَبَائِبِ
’’دوسرے عشاق اپنے یاروں کی توصیف میں رطب اللسان رہا کریں میں تو اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داستان محبت ہی بیان کرتا رہوں گا‘‘۔
ثناء مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ
ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند بڑے ثناء خوانوں میں ایک منفرد اور ممتاز نام جناب امام شرف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا آتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ 7 مارچ 1213ء کو مصر میں پیدا ہوئے لیکن ’’بوصیر‘‘ میں سکونت اختیار کرنے کی وجہ سے بوصیری کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ نے 13 برس کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کرلی تھی، بعد ازاں دیگر متداول اسلامی علوم کی تحصیل کرکے تھوڑے ہی عرصہ میں مجالسِ علم و فن میں کافی شہرت پائی تھی۔
آپ کا مجموعہ کلام ’’دیوان بوصیری‘‘ کے نام سے کئی مرتبہ مصر میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے۔ آپ کے مجموعہ کلام میں جن تلمیحات و اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے ان سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کو علم حدیث، سند، مغازی اور علم کلام جیسے بلند پایاں علوم فنون پر پوری دسترس حاصل تھی جبکہ ان کا علم بیان، بدیع اور نحو کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ ان کے دیوان کے انگریزی، فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی اور ترکی ترجمے ہوچکے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے اہل علم آپ کے شاعرانہ کمالات اور ادبی مہارت کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ اس بڑی فہرست میں عالم الدھر امام جلال الدین سیوطی، ابن العمار حنبلی، ابن شاکر کتبی کے علاوہ مستشرقین کے نکلسن اور آربری بھی آپ کے مداح ہیں۔
قصیدہ بردہ شریف
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت میں کئی قصائد مرتب کئے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک شمائل و محامد کو واضح کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور مدحیہ قصائد میں ایک ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ ہے جس کی مثال عربی زبان میں لکھے جانے والے قصائد میں ناپید ہے۔
اسی قصیدے میں امام بوصیری نے مذکورہ مسئلے کے حوالے سے ان کے نظریہ کو باطل قرار دیتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کو نصاریٰ کی مدحت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم سے منزہ و مبرا ثابت کیا۔ چنانچہ قصیدہ بردہ میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
دَعْ مَا پادَّعَتْهُ النَّصَارٰی فِيْ نَبِيِّهِم
وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحًا فِيْهِ وَاحْتَکِم
’’جو کچھ نصاریٰ نے اپنے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ادعا کیا (یعنی انہیں خدا کا بیٹا کہا) اس کو چھوڑ دے باقی جو تیرا جی چاہے بحالت مدح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی فضیلتوں کو بیان کر اور اچھی طرح بیان کر‘‘۔
فَإِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اﷲِ لَيْسَ لَهُ
حَدٌّ فَيُعْرِبَ عَنْهُ نَاطِقٌ بِفَم
’’کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزرگی کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے جس کو بولنے والا بیان کرسکے‘‘۔
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
يَاحَبِيْبًا وَشَفِيْعًا مَطَاعًا
حَسْبُنَا اَنَّه اِلَيْکَ الْاِ يَابَا
’’اے حبیب و شفیع قابل اتباع ذات گرامی! آپ کی بارگاہ اقدس میں حاضری ہی ہمارے لئے کافی ہے‘‘۔
لَمْ نَقُلْ فِيْکَ مَقَالَ النَّصَارٰی
اِذْ اَضَلُّوْا فِيْ الْمَسِيْحِ الصَّوَابَا
’’ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے نصاریٰ جیسی باتیں نہیں کریں گے کیونکہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق راہ صواب سے بھٹک گئے تھے‘‘۔
اِنَّمَا اَنْتَ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْکَ الْکِتَابَ
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو واضح ڈر سنانے والے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروردگار نے قرآن حکیم نازل فرمایا‘‘۔
گویا امام بوصیری نے اس مدحت سے ڈرایا جو عیسائی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی کیا کرتے تھے وہ کہتے تھے۔
اِنَّه اِبْن اللّٰهِ اَوْثَالِثُ ثَلَاثَةٍ.
’’یعنی آپ تو اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں یا پھر وہ لوگ تثلیث کا عقیدہ رکھتے تھے کہ تین خداؤں میں ایک خدا عیسیٰ بن مریم ہیں‘‘۔ (معاذاللہ)
لیکن اس کے ساتھ ساتھ امام بوصیری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دائرہ بشریت سے خارج نہیں کیا اور ثابت بھی کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوق سے افضل ہیں۔
فَمَبْلَغُ الْعِلْمِ فِيهِ أَنَّهُ بَشَرٌ
وَ أَنَّهُ خَيْرُ خَلْقِ اﷲِ کُلِّهِم
’’پس ہمارے علم کا منتہیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت کی نسبت صرف یہی کافی ہے کہ آپ انسان ہیں اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں‘‘۔
ایک اور جگہ پر اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَاقَ النَّبِيِّيْنَ فِيْ خَلْقٍ وَّ فِيْ خُلُقٍ
وَلَمْ يُدَانُوْهُ فِيْ عِلْمٍ وَّلَا کَرَم
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن صورت اور حسن سیرت میں سب پیغمبروں پر سبقت لے گئے اور کوئی پیغمبر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رتبہ معرفت اور سخاوت تک نہیں پہنچا‘‘۔
کسی شاعر نے صنعت ملمّع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کا حق ادا کردیا ہے :
يَاصَاحِبَ الْجَمَالِ وَيَا سَیِّدَ الْبَشَرِ
مِنْ وَّجْهِکَ الْمُنِيْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرُ
’’اے خوبصورتی کے پیکر اور تمام مخلوق کے سردار! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور سے ہی چاند نے اپنی چاندنی حاصل کی ہے‘‘۔
لَايُمْکِنْ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُّه
بعد از خدا بزرگ توئی قصه مختصر
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری مدحت و ثناء کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مسئلے کو مختصر کرتے ہوئے کہا جائے آپ تو اللہ بزرگ و برتر کے بعد عظیم ہستی ہیں‘‘۔
جبکہ ثناء خوان بارگاہ نبوی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اس سے پہلے حقیقت بیان کرچکے ہیں۔
وَاَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَيْنِيْ
وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
’’آپ سے زیادہ حسین بندہ میری آنکھوں نے کبھی آج تک نہیں دیکھا ہے اور آپ سے زیادہ خوبصورت آج تک کسی ماں نے جنا ہی نہیں ہے‘‘۔
خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِّنْ کُلِّ عَيْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
’’آپ تمام عیوب و نقائص سے پاک پیدا ہوئے ہیں گویا آپ کی جیسی خواہش تھی اسی طرح آپ مولود ہوئے‘‘۔
اسی طرح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الْکَوْنَيْنِ وَ الثَّقَلَيْنِ
وَ الْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّ مِنْ عَجَم
’’اوصافِ مذکورہ بالا کے مصداق جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو دین اور دنیا، جن و بشر اور دونوں فریق عرب و عجم کے سردار ہیں‘‘۔
اپنے عقیدے کی مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں :
هُوَ الْحَبِيْبُ الَّذِيْ تُرْجٰی شَفَاعَتُهُ
لِکُلِّ هَوْلٍ مِّنَ الْاَهْوَالِ مُقْتَحِمِ
’’آپ خدائے تعالیٰ کے وہ محبوب ہیں کہ مصیبتوں میں ہر ایک سخت مصیبت میں آپ کی شفاعت کی توقع کی جاتی ہے‘‘۔
يَا أَکْرَمَ الْخَلْقِ مَالِی مَنْ أَلُوذُ بِه
سِوَاکَ عِندَ حُلُولِ الْحَادِثِ الْعَمِم
’’اے اشرف المخلوقات! سوائے آپ کے بوقت نزول حادثات عامہ کوئی ایسا نہیں ہے جس کے پاس جاکر میں پناہ لوں‘‘۔
کیونکہ
فَإنَّ مِنْ جُودِکَ الدُّنْيَا وَ ضَرَّتَهَا
وَ مِنْ عُلُومِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَم
’’آپ ہی کی بخشش سے دنیا اور اس سوت (آخرت) معرض وجود میں آئیں یارسول اللہ! اور لوح و قلم کا علم آپ کے علم کا ایک جزو ہے‘‘۔
وَ مُنْذُ أَلْذَمْتُ أَفْکَارِيْ مَدَائِحَه
وَ جَدْتُهُ لِخَلَاصِی خَيْرَ مُلْتَزِم
’’میں نے جب سے اپنے افکار کو حضور علیہ السلام کی نعمت کے لئے لازم یا وقف کردیا ہے تب سے میں نے حضور علیہ السلام کو اپنی نجات کا بہترین معاون پایا‘‘۔
آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات تو ایسی ہے :
حاَشَاهُ أَنْ يَحْرِمَ الرَّاجِی مَکَارِمَه
أَوْ يَرْجِعَ الْجَارُ مِنْهُ غَيْرَ مُحْتَرَم
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے یہ بعید ہے کہ آپ کے الطاف و کرم امیدوار کو محروم کریں یا آپ کے الطاف سے وہ محروم کیا جائے اور آپ کی پناہ گزیں آپ کی درگاہ سے بلااحترام واپس ہو‘‘۔
اسی طرح باقی قصیدہ کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو رقم کیا۔ یہ محنت اور خلوص ومحبت کا ہی نتیجہ ہے کہ کوئی قصیدہ اس جیسا ہو۔ یقیناً اس کی نظیر نہ ماضی میں تھی اور نہ مستقبل میں ممکن ہے۔ لاتعداد قصائد بعد میں اس کی طرز اور اسلوب پر لکھے گئے جن کی طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے لیکن کوئی بھی قصیدہ بردہ کے مقام کو ذرہ برابر بھی نہ چھو سکا حتی کہ امیرالشعراء احمد شوقی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا جب وہ اپنا مشہور مدحیہ قصیدہ ’’ولد الھدٰی‘‘ رقم کررہا تھا۔
اَلْمَارِحُوْنَ وَاَرْبَابُ الْهَوٰی تَبَعٌ
لِصَاحِبِ الْبَرْدَةِ وَالْضَيْحَاءِ ذِيْ الْقِدَمِ
’’جملہ ثناء خوان مصطفیٰ اور اہل محبت عظیم قصیدہ بردہ کے ناظم کی اتباع کرتے ہیں جس کی اولیت قطعی ہے‘‘۔
مَدِيْحُه فِيْکَ حُبٌّ خَالِصٌ وَهَوًی
وَصَادِقُ الْحُبِّ عَلٰی صَادِقِ الْکَلِمِ
’’بوصیری کی نعت سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سے سراپا محبت اور نیاز ہے محبت میں سچے انسان کے سچے کلمات ہیں‘‘۔
هَذَا مَقَامٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ مُقْتَبِسٌ
تَرٰی مَهًابَتَه سُحْبَانُ بِالْبُکُمْ
’’یہ عظیم مقام و مرتبہ یقیناً اللہ کی مہربان ذات کا عطا کردہ ہے۔ جس کی ہیبت کا اندازہ ایک گونگا بھی بخوبی لگاسکتا ہے‘‘۔
اقصیدہ بردہ شریف کی وجہ تالیف
قصیدہ بردہ شریف کی تالیف کا سبب ذکر کرتے ہوئے محققین کا کہنا ہے کہ صاحب بردہ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو فالج ہوگیا جس کی وجہ سے آپ کا نصف جسم مبارک بے حس و حرکت ہوکر رہ گیا۔ اس مصیبت و ابتلاء کی کیفیت میں امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ میرے ضمیر نے مجھے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں ایک بڑا قصیدہ تالیف کیا جائے اور اسی کے ذریعے اس باب الشفاء سے اپنے لئے بیماری سے شفاء طلب کی جائے۔
چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی حالت میں اس مبارک قصیدہ کو لکھا جب سویا تو خواب میں دونوں جہاں کے والی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس عالم خواب میں، میں نے یہ قصیدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پڑھا۔ پڑھنے سے فراغت کے بعد حضور مکی مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے مفلوج حصہ پر نوری ہاتھوں کو پھیرا اور اپنی کملی (چادر مبارک) مجھے عطا فرمائی۔ جب آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو بالکل صحت یاب پایا اور وہ چادر بھی میرے پاس موجود تھی۔ اس خوشی کے عالم میں میں صبح سویرے گھر سے نکلا تو راستے میں شیخ ابوالرجاء سے ملاقات ہوئی جو اپنے وقت کے قطب الاقطاب تھے۔ فرمانے لگے اے بوصیری! وہ قصیدہ سنا جو تونے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت میں تالیف کیا ہے۔ امام بوصیری فرماتے ہیں کہ چونکہ اس قصیدے کا علم میری ذات کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا۔ اس وجہ سے میں نے ان سے عرض کیا : آپ کی مراد کون سا قصیدہ ہے؟ میں نے تو کئی قصائد مدحت نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھے ہیں۔ شیخ ابوالرجاء فرمانے لگے میری مراد وہ قصیدہ ہے جس کا مطلع کچھ اس طرح ہے :
اَمِنْ تَذَکُّرِ جِيْرَانٍم بِذِيْ سَلَم
مَزَجْتَ دَمْعًا جَرٰی مِنْ مُّقْلَةٍ بِدَم
’’کیا تو نے مقام ذی سلم کے ہمسایوں کی یاد میں آنسوؤں کو جو تیری آنکھ سے جاری ہیں خون سے ملا دیا ہے‘‘؟۔
میں نے حیرت میں ڈوب کر عرض کی اے شیخ ابوالرجاء!
مِنْ اَيْنَ حَفِظْتَهَا.
’’یہ قصیدہ آپ نے کہاں سے یاد کیا ہے‘‘؟
شیخ صاحب نے بتایا میں نے یہ قصیدہ رات اس وقت سنا جب تم دربار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پڑھ رہے تھے اور سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سن کر اظہار پسندیدگی کے لئے پھلوں سے بھری ہوئی ڈالی کی طرح حرکت فرمارہے تھے جو کہ ریاح کی حرکت کی وجہ سے ہلنے لگتی ہے۔
امام بوصیری کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر علی الفور قصیدہ ان کی خدمت عالیہ میں پیش کردیا اس کے بعد شہر بھر میں یہ خبر مشہور ہوگئی۔
حضرت امام بوصیری کے ساتھ اس قصیدہ کی برکت سے جو معجزہ پیش آیا اس کی وجہ سے یہ قصیدہ بہت مقدس اور متبرک سمجھا گیا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مثنوی چہ باید کرد میں اس کا ذکر کیا ہے۔
کار ایں بیمار نتواں بردپیش
من چو طفلاں نالم از دروے خویش
تلخی اورا فریبم از شکر
خندہ بادرلب بدوزد چارہ گر
چوں بصیری از تومی خواہم کشود
تابمن باز آید آن روزے کہ بود
مہر تو بر عاصیاں افزوں تراست
در خطا بخشی چو مہرِ مادراست