ایک عرصہ سے یہ بات زبانِ زد عام ہے کہ عہد حاضر کی جوان نسل اپنے مقصد حیات سے بے خبر اور بے بہرہ ہوکر ماحول کی رنگینیوں، زمانے کی الجھنوں اور وقت کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس نسل کے شب و روز گلیوں، بازاروں اور پارکوں میں بے مقصد آواراہ گردی کرتے گزر رہے ہیں۔ اغیار کے کلچر کا درآمد شدہ غلاظت کا سیلاب آج مسلمانوں کی آبادیوں میں پہنچ کر اپنا تعفن اور ہلاکت خیز اثرات مرتب کررہا ہے۔ اعلیٰ انسانی قدریں اور اخلاقی تقاضے جو انسانیت کی پیشانی کا زیور اور بنی آدم کا طرہ امتیاز تھے، اسی طوفان کی نذر ہوتے جارہے ہیں۔ شرم و حیا کا تقدس، عفت و عصمت کا تحفظ اور ادب و احترام کا تصور تیزی سے حیات انسانی سے خارج ہوتا جارہا ہے۔ اچھے اور برے، نیک اور بد، شریف اور بدقماش کی شناخت دم توڑ رہی ہے۔
وہ بری خصلتیں جن کو ہر دور میں اجتماعی انسانی ضمیر اور دنیا کے ہر مذہب نے نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھا، ان کو تہذیب انسانی کے لیے زہر ہلاہل جانا جا رہا ہے، جن سے بچنے کی ہدایت و ترغیب بلا تخصیص تمام مذاہب کے پیشوائوں نے دی آج ملت اسلامیہ کے افراد انہی امراض کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ کذب بیانی، فریب کاری، دغا بازی، منافقت، وعدہ کی عدم پاسداری، ہر طرح کی مصنوعات میں جعل سازی اور دو نمبری عام ہوگئی ہے۔ آج اگر ہم ایسے دگرگوں حالات کا تجزیہ کریں تو ایسی افسوس ناک صورت حال سامنے آئے گی کہ عرق ندامت سے سارا جسم شرابور ہوجاتا ہے۔ عبادات میں ریاکاری اور سخاوت میں شہرت ہمارے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارا خاندانی اور عائلی نظام حیات بھی ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا ہے۔
اکثر گھروں کے بچے کسی رہنمائی اور تربیت کے بغیر ہی پرورش پارہے ہیں۔ اہل خانہ کے درمیان ہم خیالی، باہمی مشاورت، مثبت بات چیت اور ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹنے کی جگہ ٹیلی ویژن، کیبل اور ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی فلموں اور رقص و موسیقی کے پروگراموں نے لے لی ہے۔ان پروگرامز نے افراد کو باہم گفتگو کے موقع سے ہی محروم کر دیاہے۔ ہر انسان حصول مال و زر کے مضحکہ خیز مقابلہ میں پیش پیش ہے۔ والدین اپنی اولاد کے لیے مثالی نہیں رہے۔ ام الخیر جیسی مائیں نظر نہیں آتیں اور عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ جیسے صالح بچے جنم نہیں لیتے۔ دلوں سے محبت، ادب اور خلوص و مروت کی حلاوت و چاشنی ختم ہوکر بُغض و حسد کی کڑواہٹ پیدا ہوگئی ہے۔ گویا سارے کا سارا معاشرہ بری طرح دیوالیہ ہوکر رہ گیا ہے۔
ایک لمحہ کے لیے ذرا اپنی سوچ و فکر کا زاویہ تبدیل کرکے غور کریں کہ ہم اس حال میں کیسے پہنچے؟ یہ تمام حالات اس بات کے عکاس ہیں کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نمائندہ افراد نے اپنے اپنے ماتحت افراد کی تربیت کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔ آیئے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر خلوص نیت سے اپنے خالق و مالک کی بارگاہ عظمیٰ میں یہ عہد کریں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان مبارک کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ کے مطابق اپنی اولاد، اہل و عیال، ماتحت افراد اور وہ جن پر ہمیں ذمہ دار بنایا گیا ہے، ان تمام کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کریں گے اور نوجوان نسل کے قومی اور اسلامی کردار کے احیاء اور تحفظ میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اللہ رب العزت اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی اسی میں ہے کہ مسلمان ہر اس کام کو ترک کردے جو دین اسلام سے متصادم اور لا یعنی (بے مقصد) ہو۔ اگر ہم نے اس حوالے سے موثر کن کردار ادا نہ کیا اور اپنے اخلاقی، معاشرتی، روحانی احوال اور اپنے طرز حیات پر غوروفکر نہ کیا تو یقینا ہمارا شمار بھی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔