رپورٹ
عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کی سنٹرل ایگزیکٹو اور فیڈرل کونسل کے مشترکہ اجلاس مورخہ 27 جنوری اور 28 جنوری 2018ء کو مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوئے۔ اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی صدارت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کی۔ اجلاسوں میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے ممبرانِ سی ڈبلیو سی اور فیڈرل کونسل شریک ہوئے۔ ان اجلاسوں میں تحریک منہاج القرآن کے دستور، پاکستان عوامی تحریک کے آئین میں بعض ترامیم کی منظوری اور مشن کی ترقی، تحریک کے پیغام کو عام کرنے، ممبر سازی، تنظیم سازی اور تنظیمی استحکام جیسے امور زیر بحث آئے۔ اس موقع پر ویژن 2025ء کی منظوری دی گئی۔ اجلاسوں میں جملہ فورمز نے اپنی کارکردگی رپورٹس ہاؤس کے سامنے رکھیں جن میں علماء کونسل، ویمن لیگ، یوتھ لیگ، ایم ایس ایم، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن،آغوش، بیت الزہرہ،ایم ای ایس، کالج آف شریعہ، منہاج یونیورسٹی بطور خاص شامل ہیں۔ جملہ نظامتوں کے سربراہان نے بھی کارکردگی رپورٹس پیش کیں۔ ہاؤس میں پیش کی جانے والی فورمز کی کارکردگی رپورٹس اکتوبر2018ء کے مجلہ میں تفصیل کے ساتھ شائع ہونگی۔
اجلاس میں چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین، صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین، پاکستان عوامی تحریک کے صدر قاضی زاہد حسین، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور، نائب صدر تحریک منہاج القرآن بریگیڈیئر(ر) اقبال احمد خان، نائب ناظم اعلیٰ کوآرڈینیشن محمد رفیق نجم، نائب ناظم اعلیٰ سردار شاکر مزاری، نائب ناظم اعلیٰ احمد نواز انجم، نائب ناظم اعلیٰ رانا محمد ادریس، جملہ فورمز کے مرکزی صدور و سیکرٹریز، دیگر سینئر رہنما اور نظامتوں کے سربراہان خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جملہ نظامتوں اور فورمز کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیااور آئندہ کیلئے لائحہ عمل اور ہدایات دیں۔
شیخ الاسلام نے اس موقع پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف ہمیں ایمان کی طرح عزیز ہے۔ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے قانونی، سیاسی، احتجاجی جدوجہد کررہے ہیں اور کامل انصاف ملنے تک کرتے رہیں گے۔ حصول انصاف کی جدوجہد کے تین فیز ہیں، اس وقت ساری توجہ قانونی جدوجہد پر ہے۔ ہم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سے استدعا کررہے ہیں کہ کراچی،قصور اور مردان کے شرمناک اور ذلت آمیز درندگیوں پر عدلیہ کا نوٹس لینا قابل تحسین اقدام ہے اس پرپاکستان عوامی تحریک اور پاکستان عوامی تحریک کی فیڈرل کونسل کی مجلس شوری مشترکہ طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے مگر ساتھ ہی شدت کے ساتھ مطالبہ کرتی ہے کہ لاہور کے راؤ انواروں پر ہاتھ کب ڈالا جائے گا۔؟چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ اگر ریاست پاکستان کے شہریوں کا قتل عام کرے تو ریاست کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی تو چیف جسٹس آف پاکستان کو متوجہ کرتا ہوں کہ 17 جون 2014 کو جو کچھ ہوا کیا وہ ریاست نے قتل عام نہیں کیا؟جو 14بے گناہ شہریوں کی لاشیں گرائی گئیں، 100 کے قریب بے گناہ لوگوں کے جسم گولیوں سے چھلنی کئے گئے، جس کے اوپر جسٹس باقر نجفی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں Establish کر دیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے یا تحریک منہاج القرآن کی طرف سے کسی ایک کارکن نے بھی گولی نہیں چلائی۔اس رپورٹ سے پہلے پاکستان کا میڈیا پوری دنیا کو بتا رہا تھا اور دکھا رہا تھا کہ یکطرفہ گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی ہے اور جوابی کاروائی میں سیلف ڈیفنس میں بھی کوئی گولی نہیں چلی۔ انہوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لاشیں گرائیں۔لاشیں گرانا اور خون کی ہولی کھیلنا ایک ٹاسک تھا جو انہیں دیا گیا اور انہوں نے اسے مکمل کیا۔یہاں پنجاب میں درجنوں بیسیوں کے حساب سے راؤ انوار ہیں جو 14لوگوں کے قاتل اور 100 لوگوں پر گولیاں چلانے والے ہیں وہ پنجاب میں دندناتے پھرتے ہیں وہ محفوظ ہیں۔ نہ اُن میں سے کوئی ECLپر چڑھایا گیا، نہ ان میں کوئی Arrestہوا، نہ ان میں کوئی برطرف ہوا، نہ ان میں کوئی معطل ہوا، نہ ان میں سے کسی کو سزا ملی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہاں کے راؤ انوار کی طرف متوجہ ہونا اُس کا اسی طرح آئینی ذمہ داری ہے جس طرح وہ ملک کے باقی حصوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔جب حکومت اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوجائے، انتظامیہ Deliverنہ کرے، پارلیمنٹ بھی ڈلیور نہ کرے اور ہر طرف لاقانونیت ہو اور عزتیں لٹ رہی ہوں، اور مجرم پکڑے نہ جارہے ہوں، قتل وغارت گری ہو رہی ہو تو عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پورے ملک کی نگاہیں اس وقت اعلیٰ عدلیہ پر ہیں اور ماڈل ٹاؤن کے شہداء اور ان کی بیواؤں اورماڈل ٹاؤن کے یتیم بچوں کی نگاہیں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف ہیں۔ چیف جسٹس صاحب میں آپ کو تین حوالوں سے جانتا ہوں:
- آپ کی انسان دوستی کو جانتا ہوں۔اس انسان دوستی کے ناطے سے میں آپ سے مخاطب ہوں۔
- ایک اچھے قانون دان کی حیثیت سے جانتا ہوں۔ اس ناطے سے آپ کو معلوم ہے کہ اس ملک میں قانون کس طرح قیدی ہے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ انصاف دلانے والے ادارے کس طرح قیدی ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ طاقتور کس طرح قانون سے کھیلتا ہے۔ طاقتور لوگ، غنڈوں کے جتھے کس طرح کمزوروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
- میں نے آپ کو چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے دیکھا ہے کہ جب سارے ادارے شل ہو گئے تھے اور کوئی لوگوں کو جسٹس فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ انتظامیہ، حکمران، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب خود درندے بن گئے تھے، کسی کو انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں تھی، ان حالات میں آپ ایکٹوہوئے اور آئین پاکستان کے مطابق امور کو آپ نے مستعدی سے انجام دینا شروع کیا۔
پوری قوم آپ کے اِن اقدامات کو Appreciate کر رہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان درندوں کا مستقل علاج کرنا ہوگا۔ اس سسٹم پر فوکس کرنا ہوگا کہ یہ خرابی کیا ہے؟ یہ ادارے ڈلیور کیوں نہیں کر رہے؟ پارلیمنٹ کو کس نے مفلوج بنا رکھا ہے ؟ اس ملک کے تمام لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ آپ کچھ کریں۔ طاقتور کو عدالت کی حاجت نہیں وہ غنڈہ بن چکا ہے۔ جب ایسے حالات پیدا ہوچکے ہوں تو اس سسٹم کو فکس کرنا ہوگا۔یہ ریاست کے ادارے ہیں۔انتظامیہ بھی ریاست کا ادارہ ہے۔جب انتظامیہ اور ادارے اپنے فرائض ادا کرنے میں فیل ہوجائیں تو عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پورے ملک کی نگاہیں اس وقت اعلیٰ عدلیہ پر ہیں۔
ہم نے احتجاج کے حق کو محفوظ کر لیا ہے۔ جس وقت ضرورت ہوگی ہم اپنا حق استعمال کریں گے۔ اس حق کو استعمال کرنے کی ہمیں کسی سے اجازت نہیں ہوگی۔ ہم سیاسی اور قانونی حکمت عملی پر عمل کریں گے۔ ہم نواز شریف، شہباز شریف اور دیگرماڈل ٹاؤن کے قاتلان پر ان کی عدالت میں طلبی کیلئے Concentrate کر رہے ہیں اور ان کی عدالت طلبی کی فریش پٹیشن دے دی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ اس کے لیے بنچ بنے جو ابھی تک نہیں بنا۔ہم ان قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا جو ہمارے حوصلوں کو پست کر سکے۔ ان شاء اللہ تعالی اس قوم نے اشرافیہ کو گھسیٹنا اور ان سے قانون اور آئین کے مطابق انصاف لینا ہے۔ شریف برادران سن لیں! چاہے آپ فرمائشی ڈرون حملے کروا لیں، فرمائشی بارڈر ٹینشن کروا لیں، فرمائشی بدامنی پیدا کروا لیں یا فرمائشی دیگر مسائل کھڑے کر لیں، آپ کی ساری فرمائشیں ناکام ونامراد ہوں گی۔ اس قوم کو ایک منزل ملے گی اور وہ منزل بہت قریب ہے اور وہ آپ کے فرعونی اقتدار کا خاتمہ ہے اور اس کے بعد انصاف کے سارے راستے کھلیں گے۔