شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی علمی و روحانی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بیان فرمایا:
اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَهْلِهٖٓ اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا.
’’(وہ واقعہ یاد کریں) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔‘‘
النمل، 27:7
اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں زیر تربیت رہنے کے بعد اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر واپس پلٹ رہے تھے تو وادی سینا سے گزرتے ہوئے انہوں نے ایک نور دیکھا۔ انہوں نے اس روشنی کو آگ کا شعلہ گمان کیا اور اپنی زوجہ سے فرمانے لگے:
اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا.
’’میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔‘‘
النمل، 27:7
یہاں میں اس آیت کا ایک روحانی ترجمہ بھی کررہا ہوں جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ آیت مبارکہ میں مذکور لفظ ’’اٰنَسْتُ‘‘ کا مادہ بھی ’’انس‘‘ ہے، جس کا معنی محبت و انس ہے۔ اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا کا ترجمہ اس رو سے یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زوجہ سے کہا کہ وہ آگ جو جل رہی ہے، مجھے اس آگ سے محبت ہوگئی ہے، میں اس آگ سے اُنس محسوس کررہا ہوں۔ پھر فرمایا:
سَاٰتِیْکُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْکُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ.
’’عنقریب میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی خبر لاتا ہوں (جس کے لیے مدت سے دشت و بیاباں میں پھر رہے ہیں) یا تمہیں (بھی اس میں سے) کوئی چمکتا ہوا انگارا لا دیتا ہوں۔‘‘
النمل، 27:7
یاد رکھیں! سفرِ طریقت، سفرِ حقیقت، سفرِ معرفت، سفرِ ہدایت اور سفرِ کمال انس اور محبت کی کیفیت سے شروع ہوتا ہے اور پھر جب انس و محبت ہوتی ہے تو تب کچھ ’’اس‘‘ کی خبر ملتی ہے۔ بصورت دیگر محبت کے بغیر ساری عمر پڑھ پڑھ کر بھی لوگ بے خبر ہی رہتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس آیت مبارکہ میں اصول دے دیا کہ خبر انس و محبت کے بعد ہی آتی ہے، بغیر انس و محبت کے محض پڑھنے سے خبر نہیں آتی بلکہ بے خبری رہتی ہے۔ انس و محبت ہوجانے کے بعد جب یار کی خبر ملتی ہے تو پھر اس کی علامت و پہچان یہ ہے کہ اس خبر سے دل میں ایک چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔ جس کے دل میں چنگاری سلگ جائے اور وہ اس کی روشنی محسوس کرے تو سمجھ لیں کہ کچھ نہ کچھ خبر پاگیا ہے، مگر جس کا دل بُجھا رہے اور اسے چنگاری اور اس کی تپش نہ ملے تو سمجھو کہ وہ بے خبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’باخبر‘‘ درد و سوز کے حامل ہوتے ہیں، محبوب کی یاد اور ذکر سے فوری بھڑک اٹھتے ہیں اور بِشِهَابٍ قَبَسٍ کی صورت جو چنگاری ان کے اندر بھڑکتی رہتی ہے وہ بڑھتے بڑھتے بھانبھڑ بن جاتا ہے۔
’’انسان‘‘ کا معنٰی کیا ہے؟
لغت میں لفظِ انسان ’’انس‘‘ سے ہے۔ جس کا معنی ہے ’’اس نے محبت کی‘‘۔ اس معنی کی رو سے ’’انس‘‘ میں الف زائدہ نہیں بلکہ الف اصلی ہے۔ گویا جسے اُنس اور محبت ہو وہ انسان ہے اور جو اُنس اور محبت سے محروم ہے، وہ انسانیت سے محروم ہے۔
دوسری لغت کی رو سے لفظ ’’انس‘‘ میں الف زائدہ ہے۔ اس اعتبار سے انسان ’’نَسِیَ‘‘ سے ہے، اس رو سے انسان کا معنی یہ ہے کہ ’’جو بھول گیا‘‘۔
گویا ایک معنی کے اعتبار سے انسان کا مطلب ہے ’’محبت و انس کرنے والا‘‘ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے انسان کا مطلب ہے ’’بھولنے والا‘‘۔ اہل لغت نے ان دو مادوں کو الگ الگ بیان کیا ہے مگر اہل محبت چونکہ جدائی کے قائل نہیں ہوتے بلکہ ملاپ کے علمبردار ہوتے ہیں، لہذا انہوں نے دونوں مادوں کو یکجا کیا ہے۔ اگر لفظ انسان کے دونوں معانی کو جد اکریں تو محبت کرنا اور شے ہے اور بھول جانا اور شے ہے۔ یہ دونوں معانی باہم متضاد ہیں لیکن اگر ان دونوں مادوں میں ملاپ کردیں تو پھر یہ ایک ہی شے ہے اور وہ اس طرح کہ حقیقت میں محبت اس وقت تک پہچانی ہی نہیں جاتی جب تک محبت کرنے والا بھولنے نہ لگے یعنی جس سے محبت کرتا ہے صرف اس ایک کو یاد کرلیتا ہے اور اس کے ماسوا کو بھول جاتا ہے، محبوب کے ہر غیر کو اور محبوب سے دُور لے جانے والی ہر شے کو بھول جاتا ہے۔
تَبَتُّلْ اور تَبْتِیْل میں فرق
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا.
’’اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں۔‘‘
المزمل، 73: 8
یعنی اس محبوب کا نام ایسے لے اور یاد کر کہ وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا کہ تیرا تَبَتَّلْ بھی ہوجائے اور تیری تَبْتِیْل بھی ہوجائے۔ تَبَتَّلْ کو بابِ تَفَعُّلْ سے بیان کیا اور تَبْتِیْل کو باب تَفْعِیْل سے بیان کیا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک ہی مادہ دونوں افعال پر جمع کردیا جائے۔ اس اعتبار سے تَبَتَّلْ اورتَبْتِیْل دونوں کے معانی میں ایک لطیف فرق ہے۔ تَبَتَّلْ کا معنی بھولنا ہے اور تَبْتِیْل میں بھی بھولنے کا معنی پایا جاتا ہے۔۔۔ تَبَتَّلْ میں بھی کسی سے کٹ جانا ہے اور تَبْتِیْل میں بھی کسی سے کٹ جاناہے۔۔۔ تَبَتَّلْ میں بھی کسی کو چھوڑ دینا ہے اور تَبْتِیْل میں بھی کسی کو چھوڑ دینا ہے۔۔۔ فرمایا: وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ یعنی اپنے محبوب کو یاد کر، اس کی یاد میں یوں گم اور فنا ہوجا کہ تیرا تَبَتَّلْ ہوجائے یعنی اسے یوں یاد کر کہ اس کے سوا تو ساری دنیا سے کٹ جائے۔
پھر فرمایا کہ اُسے ایسے یاد کر کہ تَبْتِیْل ہوجائے یعنی اسے یوں یاد کر کہ تَبَتَّلْ میں دنیا کو بھول گیا تھا، اب تَبْتِیْل میں تو اپنے آپ کو اور خود کو بھی بھول جائے۔ گویا تَبَتَّلْ میں دنیا کو بھول جانے کا معنی ہے اور تَبْتِیْل میں خود کو بھی بھول جانا مراد ہے۔ یعنی محبوب کو یوں یاد کر کہ نہ دنیا یاد رہے اور نہ تو اپنے آپ کو یاد رہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے یوں یاد کر کہ پہلے تو خود کو دنیا سے الگ کردے اور پھر خود کو خود سے بھی الگ کرلے۔
ذاکر جب خود کو دنیا سے الگ کردے تو ذاکر ’’ذکر‘‘ ہوجاتا ہے اور جب خود کو خود سے الگ کردے تو ’’مذکور‘‘ ہوجاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جسے ذاکر ہمہ ذکر و ذکر مذکور شود (ذاکر سراپا ذکر ہوجائے تو ذکر مذکور ہوجاتا ہے ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان ’’اُس‘‘ سے مکمل محبت کرتا ہے اور ہر ماسوا کو بھول جاتا ہے۔ اس لیے اولیاء اللہ کا ’’غیر اللہ‘‘ اور ہوتا ہے اور ملاؤں کا ’’غیراللہ‘‘ اور ہوتا ہے۔ عاشقوں اور عارفوں کا ’’غیر اللہ‘‘ اور ہوتا ہے اور فتویٰ بازوں کا ’’غیر اللہ‘‘ اور ہوتا ہے۔ جن کو ملاں لوگ غیر کہتے ہیں، وہ (اللہ) اُن کو اپنا کہتا ہے۔ عاشق لوگ غیر کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ وہ جو اُن کو اُس (اللہ) سے دور کردے، وہ غیر اللہ ہے اور وہ جو انہیں اُس (اللہ) کے قریب کردیں، وہ اللہ کے اپنے ہیں، غیر نہیں۔
اہل محبت، اُجرت نہیں بلکہ قربت کے طالب ہوتے ہیں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرمان کہ ’’مجھے ایک آگ سے محبت سے ہوگئی ہے‘‘، سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کوئی آگ نہ جلے اور اس آگ سے محبت نہ ہو اور جب تک یار کی خبر نہ ملے تب تک دل روشن نہیں ہوتا۔ دل اس وقت روشن ہوتا ہے جب بندہ اس راستے پر چلتا ہے کہ اس کے سوا کو بھولنے لگتا ہے۔ اگر اس کے غیر کو بھلادے تو پھر اسے حضوری کی وادی میں لے جایا جاتا ہے اور وادی قربت میں لے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جو آگ کی تپش پر سفر کرتے ہیں، باخبر ہوکر سفر کرتے ہیں وہ وادیِ اُجرت میں نہیں جاتے، وہ سودا نہیں کرتے بلکہ ان کا تو اپنا سودا ہوچکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کون سی جنت اور کون سے ثواب کا سودا کرنا ہے، وہ تو خود بک گئے ہوتے ہیں۔ محبت کرنے والے اُجرت کے طالب نہیں ہوتے بلکہ قربت کے طالب ہوتے ہیں۔
کبار اولیاء میں سے کسی سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ کو اس مرتبہ ولایت پر کس نے پہنچایا؟ فرمانے لگے: میرا استاد ایک غلام ہے۔ پوچھا: کیسے؟ فرمایا:میں بازار سے ایک غلام خرید کر لایا۔ میں نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: جس نام سے پکار لیں، وہی نام ہے۔ میں نے کہا: کوئی تو نام ہوگا؟ غلام نے کہا: غلاموں کا بھی کوئی نام ہوتا ہے۔ پھر پوچھا: کھاتے کیا ہو تاکہ تیری پسند کا کھانا پکوادیا جائے؟ عرض کیا؟ حضور! جو چاہیں کھلادیں، غلام کی بھی کوئی پسند ہوتی ہے، غلام جو ہوئے پھر پسند یا ناپسند کیا۔ پھر پوچھا: اپنی خواہش بتادے تاکہ اس کو پورا کردوں؟ عرض کیا: حضور کوئی خواہش نہیں، بس ایک غلام ہوں، کیا غلام کی بھی کوئی خواہش ہوتی ہے! فرمانے لگے: بس اُس غلام کی اِن باتوں نے مجھے اس جانب متوجہ کیا کہ تو بھی تو کسی کا غلام ہے، کیا تیرا تعلق بھی اُس مالک کے ساتھ وہی ہے جو اس غلام کا تیرے ساتھ ہے؟
ہم دراصل بندے اور مولا کے رشتے کی نوعیت اور حقیقت کو نہیں سمجھتے اور سارے جھگڑے اسی کے ہیں۔ اگر یہ رشتہ سمجھ میں آجائے تو سب جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پہلے انس ہو، اس لیے کہ یہ جھگڑے علم سے نہیں بلکہ انس و محبت سے ختم ہوں گے۔ اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا میں پہلے انس اور محبت کا بیان ہے، پھر فرمایا سَاٰتِیْکُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اس محبت کے نتیجے میں پھر خبر آتی ہے۔ معلوم ہوا کہ محبت اور انس ہو اور پھر خبر ملے تو ہدایت دیتی ہے۔ محبت کے بغیر بطریق علم خبر ملے تو گمراہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء/ صوفیاء کا اسلوب یہ ہے کہ وہ بطریق عشق خبر دیتے ہیں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُس آگ اور روشنی کی طرف سفر کیا تو اللہ رب العزت نے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی:
اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ.
’’موسیٰ میں تیرا رب ہوں۔‘‘
(طه، 20: 12)
عرض کیا: باری تعالیٰ کیا حکم ہے؟ فرمایا:
فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی.
’’سو تم اپنے جوتے اتار دو، بے شک تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔‘‘
(طه، 20: 12)
یہ عام ترجمہ ہے۔ خواص کا ترجمہ یہ ہوگا:
’’اے موسیٰ! اپنے آپ سے الگ ہوجا، اپنی شناخت سے الگ ہوجا، اپنے تشخص سے الگ ہوجا، اپنی پہچان سے الگ ہوجا، اپنے وجود سے الگ ہوجا، اپنی ذات کے تعین سے الگ ہوجا، خود کو خود سے الگ کردے، اس لیے کہ تو مقدس وادی میں آگیا ہے۔‘‘
جب انسان خود سے علیحدہ ہوتا ہے تو یہ مقام تجرید ہے اور مقامِ تجرید سے ہی وادیِ توحید کی طرف جایا جاتا ہے۔ اگر بندہ خود کو دنیا، رغبتِ دنیا، رغبتِ نفس، دنیا کی چاہت، دنیا کی طرف جھکاؤ، میلان اور اپنے نفس کی طرف میلان سے الگ کرلے تو حقیقتِ ایمان نصیب ہوتی ہے۔
حقیقتِ ایمان
ایک ایمان وہ ہے جو کلمہ پڑھ کر نصیب ہوگیا یعنی اقرارِ لسانی اور تصدیقِ قلبی کے ذریعے جبکہ حقیقتِ ایمان کچھ اور شے ہے۔ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں صبح کے وقت حضرت حارث رضی اللہ عنہ پیش ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کچھ پوچھا۔ انہوں نے جو جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے حقیقتِ ایمان سے تعبیر کیا۔ آیئے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے مابین حقیقتِ ایمان پر ہونے والے اس مکالمہ کا مطالعہ کرتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی الله علیه وآله وسلم کَیْفَ أَصْبَحْتَ یَا حَارِثُ، قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا. فَقَالَ: انْظُرْ مَا تَقُوْلُ، فَإِنَّ لِکُلِّ شَيئٍ حَقِیْقَةٌ، فَمَا حَقِیْقَةُ إِیْمَانِکَ؟ فَقَالَ: عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْیَا وَأَسْهَرْتُ لِذَالِکَ لَیْلِي وَاظْمَأَنَّ نَهَارِي، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی أَهْلِ الْجَنَّةِ یَتَزَاوَرُوْنَ فِیْهَا، وَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی أَهْلِ النَّارِ یَتَضَاغُوْنَ فِیْهَا. قَالَ: یَا حَاِرثُ، عَرَفْتَ فَالْزَمْ، ثَـلَاثًا.
الطبرانی فی المعجم الکبیر، 3/266، الرقم: 3367
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حارث! تو نے کیسے صبح کی؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے سچے مومن کی طرح صبح کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقینا ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، سو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیدار اور دن میں پیاسا رہتا ہوں اور حالت یہ ہے کہ گویا میں اپنے رب کے عرش کو سامنے ظاہر دیکھ رہا ہوں اور اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دوزخیوں کو تکلیف سے چِلاتے دیکھ رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حارث! تو نے (حقیقتِ ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا۔ یہ کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
یہ حدیث تصوف کی بنیاد ہے۔ تصوف کی ایک بات اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا اور فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ میں ہے کہ تصوف کا پورا سفر انس و محبت سے لے کر انخلاء تک ہے کہ اپنے ہونے کا جامہ بھی اتار دینا۔ یہ قرآن سے ثابت ہے اور تصوف کی بنیاد حدیث مبارک میں حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی اس کیفیت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان میں موجود ہے۔
یاد رکھیں! ایمان عقیدے کا موضوع ہے جبکہ حقیقتِ ایمان تصوف کا موضوع ہے۔ ایمان سے بحث علماء کرتے ہیں اور حقیقتِ ایمان سے بحث صوفیاء کرتے ہیں۔ ایمان سے بحث محقق و متکلم کرتے ہیں جبکہ حقیقتِ ایمان سے بحث عاشق و عارف لوگ کرتے ہیں۔
حضرت حارث رضی اللہ عنہ کا جواب کل تصوف کا خلاصہ ہے۔ اللہ کی عزت کی قسم تصوف یہی کچھ ہے جو بیان کررہا ہوں۔ اس کے علاوہ دیگر چیزیں تصوف کے لوازمات، مقدمات، خدمات، متعلقات، تضادات اور تناقضات ہیں۔ اصل تصوف یہ ہے جو حضرت حارث رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں درج ذیل تین جملوں میں بیان کرگئے۔ بقایا سب باتیں ہیں اور یہ سب باتوں کی بات ہے۔
- حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آقا! حقیقت ایمان یہ ہے کہ میں نے خود کو دنیا سے الگ کردیا ہے حتی کہ اپنے من، قلب اور روح کو بھی دنیا سے الگ کرلیا ہے اور دنیا سے بے رغبت ہوگیا ہوں۔ یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں نے اپنی ذات کو دنیا سے نکال دیا ہے بلکہ وہ دنیا میں رہ رہے ہیں، فرائض بھی ادا ہورہے ہیں لیکن کیا یہ ہے کہ خود کو دنیا سے نہیں بلکہ دنیا کو خود سے نکال دیا ہے۔ یہ تصوف ہے کہ خود دنیا سے نہ نکلو، خود دنیا میں رہو، لیکن دنیا خود میں نہ رہنے دو۔ تم دنیا میں رہو، دنیا میں چلو پھرو، کھاؤ پیو، شادی بیاہ، کاروبار، تجارت، حلال و حرام کا فرق، فرائض کی ادائیگی سب کچھ سنت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق دنیا میں کرتے رہو، خود دنیا میں رہو لیکن دنیا کو خود میں نہ رہنے دو۔
- حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے دوسرا جملہ یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ! جب سے دنیا کو اپنے نفس اور من سے نکال دیا ہے۔تب سے راتوں کو بیدار رہتا ہوں اور دن کو پیاسا رہتا ہوں۔ دن کو پیاسا کس شے کے لیے رہتا ہوں؟ اس شے کے لیے کہ پھر رات آئے یعنی رات کے لیے پیاسا رہتا ہوں۔ اس لیے کہ رات کی بیداری میں جو کچھ پیتا ہوں اس کا مزہ دن بھر بے قرار رکھتا ہے۔ جب رات کے اندھیرے چھا جاتے ہیں اور ہر کوئی سو جاتا ہے تو میں اپنے محبوب کے ساتھ ہوتا ہوں، وہ پیا مجھے پلاتا ہے، مجھے سیراب کرتا ہے، پردے اٹھادیئے جاتے ہیں، ساری رات سر سجدے میں ہوتا ہے اور میرا قلب محبوب کی دہلیز پر ہوتا ہے۔ میرا محبوب مجھ سے کلام کرتا ہے، مجھے قریب کرتا ہے، مجھ سے کہتا ہے کہ اے بندے! کیا چاہتا ہے؟ میں اس کی آواز سنتا ہوں، اس سے سرگوشی کرتا ہوں، اس سے کلام کرتا ہوں اور اس کے حسن کا دیدار کرتا ہوں۔ رات بھر اس کے شرابِ عشق کے جام پیتا ہوں، ساری رات جاگ کر سیرابی میں گزرتی ہے۔ جب دن چڑھ جاتا ہے، ہر کوئی جاگ پڑتا ہے تو میں پیاسا ہوجاتا ہوں۔ شام کے ڈھلنے تک دن بھر پیاسا رہتا ہوں اور اس انتظار میں رہتا ہوں کہ وہی رات پھر آئے اور محبوب سے کلام کروں۔
اللہ والوں کی رات ملاقات کے لیے ہوتی ہے اور ان کی مناجات اس کی بارگاہ میں لاڈ ہوتے ہیں، اس کی پیاس انہیں دن بھر بے قرار رکھتی ہے۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی یہ کیفیت تصوف اور اہل تصوف کی پہچان ہے۔
- تیسرا جملہ حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ:
کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی عَرْشِ رَبِّیْ بَارِزًا.
’’ جب یہ حالت ہوگئی ہے تب سے گویا عرش الہٰی کو آنکھوں کے سامنے بے حجاب دیکھتا ہوں‘‘۔
جب حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری کیفیت و حال بیان کردیا تو آقا علیہ السلام نے فرمایا: یَا حَارِثُ! عَرَفْتَ فَالْزَمْ. حارث تو پہچان گیا، تو راز کو جان گیا، یعنی تو عارف ہوگیا۔ اب تو مومن سے عارف بن گیا، لہٰذا اب اسی حال کو مضبوطی تھام لینا۔
ذکر اور مذکور کے مابین تعلق
جو لوگ صاحبِ بقا ہوتے ہیں، ان کی ہر ادا کو بقا ہوتی ہے حتی کہ ان کے ذکر کو بھی بقا ہوتی ہے۔ ذکر کا مذکور کے بغیر کوئی وجود نہیں ہوتا، ذکر تبھی ہوگا جب کوئی مذکور بھی ہوگا۔ ذکر ہوتا ہی تب ہے جب مذکور موجود ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ذکر کو تو بقا ہو مگر مذکور فنا ہو؟ ذکر کو بقا اسی وقت مل سکتی ہے جب مذکور بھی باقی ہو۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ. ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰـفِلِیْنَ. اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ.
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔ پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لیے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے۔‘‘
(التین، 95: 4-6)
ان آیات میں انسان کو اعلیٰ شکل میں بنانے کا ذکر ہے اور پھر اسے دنیا میں اتار دینے کا ذکر ہے۔ پھر اس بات کا ذکر ہے کہ دنیا کے گھٹیا ماحول اور کم تر لوگوں میں رہ کر بھی ہر کوئی گھٹیا نہ بنا بلکہ جو ایمان کی حقیقت کو پاگئے وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہوگئے۔ وہ رہے تو اس دنیا میں مگر خود کو اس دنیا سے کاٹ کر رکھا۔ وہ فرش پر رہے مگر عرشی رہے اور حقیقتِ ایمان کی منزلوں پر فائز ہوگئے۔ وہ لوگ جب نیچے اترے تھے تو اَحسنِ تقویم تھے اور جب بشری و نفسانی شہوات و خواہشات اور دنیا کی زینتوں میں الجھائے گئے تو اَحْسَن سے اَسْفل ہوگئے۔ بنائے تو اَحْسَن گئے تھے مگر الجھائے گئے تو اَسْفَل ہوگئے۔ جب اسفلوں میں سے بچائے گئے تو مومن ہوگئے۔ پھر جو اِن مومنوں سے بھی بلند کئے گئے تو وہ صالحین ہوگئے۔ ان کے لیے فرمایا:
فَلَهُمْ اَجْرٌ.
ان کے لیے اجر ہے، یعنی یہ ماجور ہوگئے۔ اجر پانے والے ہوگئے مگر بات یہاں تک نہ رکی بلکہ فرمایا: اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْن، یہ صرف ماجور نہیں ہوئے بلکہ ماجور غیر ممنون ہوئے یعنی ایسے ماجور ہوئے کہ ان کا اجر اور انعام و اکرام کبھی ختم نہیں ہوگا۔
بتانا یہ چاہتا ہوں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جس کو اجر دیا جارہا ہو وہ خود تو ختم ہو جائے مگر اس کا اجر کبھی ختم نہ ہو یعنی اجر تو کبھی ختم نہ ہورہا ہو اور وہ خود کبھی کا ختم ہوگیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ جس کو اجر دیا جارہا ہے اگر وہ خود کبھی کا ختم ہوچکا ہے تو اجر کس کو دیا جارہا ہے؟ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ، حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ اولیاء کرام خود اگر (استغفراللہ العظیم) ختم ہوچکے ہیں تو نہ ختم ہونے والا اجر کس کو دیا جارہا ہے؟
دراصل اللہ رب العزت نے اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ کے الفاظ فرما کر راز یہ بتایا ہے کہ جن کا اجر ختم ہونے والا ہو تو وہ بھی ختم ہونے والے ہوتے ہیں اور جن کا اجر کبھی ختم نہ ہونے والا ہو تو وہ بھی کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ماجور غیر ممنون ہو تو اجر غیر ممنون بنتا ہے۔ ماجور دائمی رہنے والا ہو تو اجر کو بھی بقا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ماجور فنا ہوگیا ہو اور اجر کی بقا چل رہی ہو۔
دنیاوی مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن تب تک ملتی ہے جب تک آدمی زندہ ہو۔ فوت ہوجائے تو بعض ملازمتوں میں لکھا جاتا ہے کہ اس کی بیوی کو ملتی رہے گی اور وہ بھی فوت ہوجائے تو پنشن نہیں ملتی۔ پنشن ریاست کی طرف سے اجر ہوتا ہے جو کسی کے فوت ہوجانے کے بعد نہیں ملتا۔ بلاتشبیہ و بلامثال اجر غیر ممنون ربِّ کائنات کی طرف سے ہے، جس کا ملنا اس بات کا عکاس ہے کہ جس کو اجر دیا جارہا ہے، وہ ابھی زندہ ہے۔ اس لیے کہ اگر مرگیا ہوتا تو اجر غیر ممنون نہ ملتا۔ جو لوگ دنیا کو دل سے نکال دیتے ہیں اور پھر خود کو خود سے نکال کر الگ کرلیتے ہیں تو گویا بالفاظ دیگر وہ خود کو فنا سے جدا کردیتے ہیں اور جب وہ فنا سے جدا ہوتے ہیں تو صاحب بقا ہوتے ہیں۔
مقام تفرقہ، جمع اور جمع الجمع
جب تک کوئی بندہ خود کو خود سے جدا نہیں کرتا تو تصوف میں اس حال کو ’’تفرقہ‘‘ کہتے ہیں۔
جب بندہ خود کو خود سے جوڑے رکھے تو وہ اُدھر سے جدا رہتا ہے اور اگر خود سے جدا ہوجائے تو اُدھر مل جاتا ہے۔ جب اُس سے مل گیا تو اس حال کو تصوف کی اصطلاح میں ’’جمع‘‘ کہا جاتا ہے۔
تفرقہ اور جمع صوفیاء و اولیاء کا بھی ہے اور جمع اور تفرقہ اقطاب اور اغیاث کا بھی ہے۔ ہر ایک کا تفرقہ ان کے درجے کے مطابق ہے۔ا قطاب،ا غیاث کا ’’تفرقہ‘‘ ہمارے جیسوں کی ’’جمع‘‘ سے اونچا ہے۔ جس کا مرتبہ جتنا اونچا ہے اس کا چھوٹا حال بھی چھوٹوں کے بڑے حال سے اونچا ہوتا ہے۔ نبیوں کے حال کے اندر بھی ان کی شان اور مرتبے کے لائق کبھی ’’تفرقہ‘‘ ہوتا ہے اور کبھی ’’جمع‘‘ ہوتا ہے۔
جب اِدھر سے کٹ گیا اور اُدھر سے ملاپ ہوگیا تو یہ مقام جمع ہوگیا اور جب اس سے مل کر خود سے بھی جدا ہوجاتا ہے، خود، خود نہیں رہتا، خود میں نہیں رہتا، خود سے دور ہوتا ہے، خود سے الگ ہوتا ہے تو یہ مقام ’’جمع الجمع‘‘ ہے۔
قرآن مجید میں سیدنا داؤد علیہ السلام کے لیے فرمایا:
وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ.
’’اور داؤد ( علیہ السلام ) نے جالوت کو قتل کر دیا۔‘‘
(البقره، 2: 251)
دوسری طرف جب اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کو کنکریاں ماریں تو اس کو اللہ رب العزت نے بیان کیا مگر انداز مختلف تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے بھی مارا، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مارا۔ اِدھر کہا کہ داؤد نے مارا مگر جب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کنکریاں ماریں تو خدا نے کہا:
وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ ﷲَ رَمٰی.
’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔‘‘
(الانفال، 8: 17)
اِذْ رَمَیْتَ میں ’’تفرقہ‘‘ کا اشارہ ہے۔ جیسے فرمایا تھا: ’’داؤد نے مارا‘‘۔ یہ مقام تفرقہ تھا۔ پھر فرمایا:وَمَا رَمَیْتَ
’’وہ تونے نہیں ماری تھیں‘‘
وَمَا رَمَیْتَ نے اِذْ رَمَیْتَ کو منسوخ کردیا۔وَمَا رَمَیْتَ کے الفاظ کے ذریعے نفی نے ’’تفرقہ‘‘ کو مٹا کر مقام ’’جمع‘‘ پر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاکر کھڑا کردیا۔ اِذْ رَمَیْتَ مقامِ ’’تفرقہ‘‘ کا بیان تھا، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حالِ جمع بیان کیا تو اس میں کہا:وَمَا رَمَیْتَ ’’وہ تو نے نہیں ماریں‘‘۔ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مارنے کی نفی ہوئی۔ پھر کس نے ماری؟ تیسرا مقام پر فرمایا کہ اب ہم تجھے ’’جمع‘‘ سے اٹھاکر ’’جمع الجمع‘‘ پر رکھتے ہیں کہ سنو!وَلٰکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی یعنی وہ کنکریاں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں بلکہ خدا نے ماریں۔اللہ تعالیٰ نے وَمَا رَمَیْتَ کہہ کر تفرقہ مٹادیا، وَمَا رَمَیْتَ کہہ کر اِذْ رَمَیْتَ کو مٹادیا اور وَمَا رَمَیْتَ کو بھی وَلٰکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی کہہ کر مٹادیا تاکہ سوال ہی نہ رہے کس نے ماریں۔ خدا تفرقہ بھی مٹادے، جمع بھی مٹادے اور جمع الجمع پر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ خود آجائے؛ مگر افسوس! ہم جہالت کے باعث مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کرتے چلے جائیں۔
محمد محمد پکیندے گزر گئی
احد نال احمد ملیندے گزر گئی
دوسرے مقام پر فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ.
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں‘‘۔
یہ مقام تفرقہ ہے۔ پھر فرمایا: اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰه.
’’وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں‘‘۔
چودہ سو صحابہ میں سے ہر کوئی دیکھ رہا تھا کہ ہمارے ہاتھ نیچے تھے اور سب سے اوپر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ تھا مگر اللہ فرمارہا ہے کہ وہ اللہ سے بیعت کررہے تھے۔ یہ مقام جمع ہے۔ پھر فرمایا: یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ’’ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے‘‘، یعنی وہ ہاتھ جو تم مصطفی کا دیکھ رہے تھے، وہ خداکا ہاتھ تھا۔ یہ مقامِ ’’جمع الجمع‘‘ ہے۔
گویا جب بندہ خود کو دنیا سے الگ کرتا ہے اور پھر خود کو خود سے جدا کرتا ہے تب وہ خد اسے اپنا ملاپ کرتا ہے۔ اِدھر فراق ہوتا تو اُدھر ملاپ ہوتا ہے۔ فنا سے نکلتا ہے تو بقا میں داخل ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ یار محمد فریدی فرماتے ہیں:
خدا کوں ڈیٹھوسیں محمد دے اولے
محمد کوں ڈینڈے ڈیکھیندے گذر گئی
کوئی اعتراض کرے کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اولا‘‘ کیا ہے؟ تو سنو! اس کا جواب یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ اور اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰه کے اندرموجود ہے۔ گویا اللہ رب العزت نے خود کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردے میں ظاہر کیا اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا مخفی رکھا کہ کسی پردے میں بھی ظاہر نہ کیا۔ آج چودہ صدیاں گذر گئیں، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سمجھ کسی کو نہ آئی۔ ابوجہل نے دیکھا تو کہہ دیا اَنْتَ بَشَرٌ مِّثْلُنَا ’’آپ ہماری طرح بشر ہیں‘‘۔ جس نے جو بولی بولی، اس نے بھی اسی بولی میں بتادیا۔ جب ابوجہل، ابولہب، کافر و مشرک اور نہ سمجھنے والے سامنے تھے، جب ان سے خطاب کیا تو ان کے لیے آیت اتری: قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ’’ہاں تمہاری مثل ہوں‘‘۔ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ جب نہ ماننے والے اور اپنی مثل جاننے والے سامنے تھے تو مثل کی بولی بول دی۔ اس ٹولے کے لوگ جو اس ’’اُولے‘‘ کو نہیں سمجھے، آج تک مثل کی بولی بولتے ہیں اور جب سامنے ابوبکر و عمر، عثمان و علیl تھے، عارف و عاشق صحابہ تھے تو ان سے کہا: اَیُّکُمْ مِثْلی (تم میں کون ہے میری مثل؟) لَسْتُ مِثْلُکُمْ (میں تمہاری مثل نہیں ہوں)، لَسْتُ کَهَیْئَتُکُمْ (میں تم میں سے کسی کی مثل پر نہیں ہوں)۔
اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیُسْقِیْنی.
’’میں اپنے رب کے پاس رات گزارتا ہوں، وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے‘‘۔
مثل کہنے والوں کو مثل کہہ دیا اور عدمِ مثل کہنے والوںکو عدمِ مثل کہہ دیا مگر اصل بات ’’اولے‘‘ میں رہی۔
عالِم اور عارف وہ ہوتا ہے کہ جب وہ علم اور معرفت کے سمندروں میں پہنچتا ہے اور علم و معرفت کے غوطے لگاکر نکلتا ہے تو اس سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ علم یہ ہے کہ کچھ علم نہیں ہے۔۔۔ خبر یہ ہے کہ کچھ خبر نہیں ہے۔۔۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ مجھے کوئی علم نہیں ہے۔۔۔ بس اتنی سی بات ہے جو جاننے کا ڈھنڈورا پیٹے، سمجھو نہیں جانتا اورجو جان لیتا ہے وہ شور نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو جھگڑتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اس حال و مقام کا نہ ذائقہ چکھا اور نہ ہی اس نور کا مشاہدہ کیا۔ جھگڑے، مناظرے، فرقے، مسلک، اختلاف یہ سب اس لیے ہیں کہ یار کو دیکھا نہیں، جو دیکھ لیتے ہیں وہ جھگڑتے نہیں۔ محبوب کے ہاتھوں کو چومنے والے اور وہ جن کو محبوب پلاتا ہے، انہی کو ہی حقیقت کی سمجھ آتی ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں ایسے اولیاء، صلحاء، عرفاء اور عاشقوں کی نسبت، سنگت اور تعلق میں زندہ رکھے، اسی میں موت عطا کرے اور قیامت کے دن ہم سب کو ان کی شفاعت عطا کرے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم