قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے 8 فروری بروز جمعرات نیب آفس لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک ایک ہے لٹیرے بہت ہیں جنہوں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا، کرپشن کینسر کی طرح سرایت کر گئی، چند دنوں میں کروڑ پتی بننے والوں کو سوچنا چاہیے کفن کی کوئی جیب نہیں ہوتی۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ملک 84ارب ڈالر (90 کھرب روپے) کا مقروض ہے، نظر نہیں آتا یہ 84 ارب ڈالر کہاں خرچ ہوئے؟ چیئرمین نیب نے کہا کہ کرپشن اور بدعنوانی کے کیسز میں پنجاب کے سرکاری ادارے تعاون نہیں کررہے، جب حساب مانگتے ہیں تو سازش کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا عدم تعاون کو اب تک برداشت کیا مزید نہیں کریں گے، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا بھی مکمل احتساب ہو گا۔ چیئرمین کی گفتگو مبنی بر حقیقت ہے جب تک حکومتی سرپرستی اور سہولت کاری نہ ہو قومی خزانے کی کوئی ایک پائی بھی خوردبرد نہیں کر سکتا۔ یہ ایک بہت بڑی بدنصیبی ہے کہ جنہیں قوم منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتی ہے ان کے سپرد قومی خزانہ کرتی ہے کہ وہ اس کی پائی پائی کا تحفظ بھی کریں گے اور ایمانداری،مساوات کے ساتھ خرچ کرینگے مگر عوام کے ٹیکسوں کے خون پسینے کی کمائی کو برسراقتدار طبقہ شیرِ مادر کی طرح غٹا غٹ پی رہا ہے اور جن احتساب کے اداروں نے محاسبہ کرنا ہے انہیں عضو معطل بنا دیا گیا اور جو ریاستی عہدیدار آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری انجام دینے کی کوشش کرتا ہے، کرپٹ اشرافیہ اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتی ہے اور احتساب کے عمل کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر احتساب سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔
2014ء میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اشرافیہ کے ماورائے آئین و قانون طرز حکمرانی ،کرپشن، لوٹ مار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، عوامی شعور کو بیدار کیا اور کرپٹ ایلیٹ کا قبلہ درست کرنے کیلئے احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا تو کرپٹ اشرافیہ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا کر دیا، 100 لوگوں کو چھلنی، 14 کو شہید کر دیا۔ اب تک جس ادارے، فرد اور شخصیت نے بھی اشرافیہ کو للکارا ہے، اسے صرف دھمکیوں کا سامنا رہا مگر پاکستان عوامی تحریک واحد جماعت ہے جس کی قیادت اور کارکنوں کو صرف دھمکیاں نہیں دی گئیں بلکہ عملاً لاشیں گرائی گئیں، بدترین میڈیا ٹرائل کروایا گیا، دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات درج کیے گئے، ہزاروں کو حبس بے جا میں رکھا گیا ،سینکڑوں کو جیلوں میں بند کیا گیا، درجنوں مقدمات تاحال زیر سماعت ہیں۔ اس سب کے باوجود پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 2014ء کے دھرنے میں پوری قوم کو بتایا کہ پاکستان کو کس طرح لوٹا جارہا ہے اور کون کون لوٹ رہا ہے؟ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کس طریقے سے لانچیں بھر بھر کے کرپشن کا پیسہ بیرون ملک بھجوایا جاتا ہے اور کس طرح مخصوص وقت میں مخصوص فلائٹس پر بریف کیسوں میں لوٹی گئی دولت بیرون ملک پہنچائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے دو ٹوک انداز میں قوم اور اداروں کو آگاہ کیا کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے اور پارلیمنٹ کا تقدس بحال کرنا ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو اس کی روح کے مطابق نافذ کریں۔ 2014ء میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اشرافیہ کی لوٹ مار کے جتنے بھی اعداد و شمار دئیے وہ آج حرف بہ حرف درست ثابت ہو چکے ہیں اور انہیں الزامات کے تحت عدالتوں سے فیصلے آرہے ہیں اور لٹیروں کے پاس ناجائز اثاثوں کی کوئی منی ٹریل نہیں۔ اشرافیہ کی کرپشن پر عدالت سے فیصلہ بھی آچکا اور جس کے خلاف دھرنا دیا گیا وہ جھوٹ بولنے پر نااہل بھی ہو چکا اور اس پر کرپشن پر ریفرنسز بھی فیصلوں کے اعتبار سے آخری مراحل میں ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم کو آئین کے آرٹیکل 62، 63 کا جوسبق یاد کروایا تھا پاکستان کا سب سے بڑا جھوٹا شخص اسی آرٹیکل کے تحت عوامی اقتدار سے کک آؤٹ ہوا اور بقیہ بھی اپنی باری پر انشاء اللہ کک آؤٹ ہونگے۔
ہم بات کررہے تھے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کی گفتگو کی جنہیں شریف جونیئر نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، جن کے دامن صاف ہوتے ہیں وہ اپنی صفائیاں دیتے ہیں، دھمکیاں نہیں۔ شریف برادران اور ان کے حواری سمجھتے ہیں کہ وہ اَن ٹچ ایبل ہیں وہ آئین، قانون سے بالا ہیں، ان کی حرمت پارلیمنٹ اور اداروں سے زیادہ ہے۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے حکم پر جب جے آئی ٹی نے کام شروع کیا تو ن لیگ کے سینیٹرز، وزراء، اراکین اسمبلی نے کھلے عام سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ نہال ہاشمی تو ہر حد پار کر گئے اور انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران اور ججز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پر اور ان کے بچوں پر پاکستان کی زمین تنگ کر دی جائیگی۔ وہی نہال ہاشمی آج کل جیل میں ہیں۔ کرپشن پاکستان کے کسی بھی حصے میں ہو لوٹ مار میں کوئی بھی ملوث ہو ریاست کو پوری طاقت کے ساتھ ایسے سنپولیوں کو اژدھا بننے سے پہلے کچل دینا چاہیے۔ حکمرانوں کو قومی خزانہ امانت کے طور پر سونپا جاتا ہے کہ وہ پائی پائی کا ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ استعمال کریں اور قومی دولت کی حفاظت کریں مگر بدقسمتی سے 1985ء کے بعد شریف برادران کی اقتدار میں آمد سے ترقیاتی فنڈز کے نام پر کرپشن، کمیشن اور کک بیکس کا ایسا دروازہ کھولا گیا جس نے پاکستان کی معیشت کی چولیں ہلا دیں اور سوسائٹی کو تہذیب و اخلاقیات سے عاری کر دیا اور آج اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان 84 ارب ڈالر کے قرضوں کے بوجھ تلے ہے۔ حقیقت میں یہ قرضہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے مگر حکومتی معاشی شعبدہ باز اصل اعداد و شمار اپنی چرب زبانی اور فائلوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔چیئرمین نیب نے پنجاب کے سرکاری اداروں کو بے ضابطگیوں کی تحقیقات میں تعاون نہ کرنے پر بطور خاص نشانہ بنایا اور کہا کہ بے ضابطگیوں کا ریکارڈ مانگیں تو کہا جاتا ہے سازش ہورہی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کتنے شفاف اور اداروں کا احترام دل میں رکھتے ہیں اس کا اندازہ ان کے ایک بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے 21 جنوری 2018 ء کے دن آشیانہ بے ضابطگی کیس میں نیب کی پیشی بھگتنے کے بعد دیا ’’ خادم اعلیٰ کا کہنا تھا نیب کا اصل چہرہ کیا ہے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال مجھ سے جو اتنی محبت کررہے ہیں یہ سب کچھ بتاؤں گا‘‘۔ نواز شریف نااہلی کے بعد کہتے ہیں کہ میرے سینے میں بہت راز ہیں اور وہ کسی روز یہ راز اگل دیں گے۔ شہباز شریف کہتے ہیں سب کچھ بتا دوں گا مگر عدالتیں اور احتساب کے ادارے ان سے جو پوچھنا چاہتے ہیں یہ وہ بتاتے نہیں اور سوالوں پر ان کی چیخیں آسمان تک سنائی دیتی ہیں۔ نہال ہاشمی ہو، دانیال ہو، طلال ہو، نواز شریف ہو، شہباز شریف ہو جس سے بھی منی ٹریل کا پوچھا گیا اس نے سر آسمان پر اٹھا لیا۔ پاکستان کی جیلیں، حوالاتیں ایسے قیدیوں سے بھری پڑی ہیں جنہیں معمولی چوری، معمولی جرم پر گرفتار کیا گیا اور سزائیں دی گئیں مگر پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ایوانوں میں بیٹھے ہیں اور عوام کی دولت کو لوٹ کر عوام کی دولت سے ہی ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں، سرکاری پروٹوکول میں گھوم رہے ہیں۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ’’ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے تھے کہ جب ان میں سے کوئی شریف چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب ان میں سے کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کر دیتے تھے‘‘۔ اداروں کو آئین پاکستان ،قانون اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہر شریف کے خلاف بلا تمیز سخت کارروائی کرنا ہو گی۔ اشرافیہ جس دولت کو بے دردی کے ساتھ خوردبرد کررہی ہے، اللوں تللوں میں اڑا رہی ہے یہ پیسہ غریب مریض کی دوائی کا ہے، صاف پانی کا ہے، بھوکے کی روٹی کے نوالے کا ہے، غریب کے بچے کی تعلیم کا ہے، مظلوم کے انصاف کا ہے۔ مذکورہ بالا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکمت، دانائی، سبق، وارننگ اور نصیحت سے بھرا ہوا ہے۔ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی امتوں کی تباہی اور بربادی کا بڑا سبب بیان فرمایا کہ وہ چوری پر شریف کو یعنی صاحبِ حیثیت، صاحبِ اختیارو وسائل، صاحبِ ثروت، صاحبِ اثرو رسوخ کو چھوڑ دیتے تھے اور کمزور کی کڑی گرفت کرتے تھے۔ اسلامیان پاکستان اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پلے باندھ لیں، اگر اشرافیہ کی چوریوں اور سینہ زوریوں کے خلاف انہوں نے آواز بلند نہ کی ،ان کا راستہ نہ روکا ، ان کے ظلم و بربریت پر مبنی طرز حکمرانی کو چیلنج نہ کیا، ان کی قتل و غارت گری کے سامنے انقلاب کا بند نہ باندھا تو پھر بربادی مقدر بن کر رہے گی۔ دنیا کی ہر حقیقت تبدیل ہو سکتی ہے مگر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زبان سے اداہونے والے حقائق اور نتائج میں رتی برابر تبدیلی نہیں ہو سکتی۔