حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص نبوت میں سے ایک نمایاں ترین خصوصیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا دین قیامت تک کل انسانیت کے لیے ہدایت و نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پوری انسانیت کے لیے مبعوث ہونے کا پیغام بڑی وضاحت کے ساتھ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بیان فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘
(سبأ، 34: 28)
ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ.
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔ ‘‘
(توبه، 9: 33)
اللہ تعالی نے تمام کائنات کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا.
’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔ ‘‘
(الأعراف، 7: 158)
ان تمام آیات کی اتباع میں ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا بھر تک پہنچانے کے لیے مختلف قوموں اور مختلف مذاہب کے سرکردگان کی طرف مراسلات و مکتوبات روانہ فرمائے۔ اِن مراسلات و مکتوبات کے اندر ہر ایک کو واضح انداز میں اسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے لکھا کہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرنے کا وبال نہ صرف اس لیے پڑے گا کہ تم نے اپنی ذات کے لیے انکار کر دیا بلکہ تمہارے انکار کی وجہ سے تمہاری قوم بھی ہدایت سے دور رہے گی۔ جس کی ضلالت و گمراہی کا وبال بھی تم پر ہی پڑے گا۔
اپنے عقیدہ و نظریہ کے فروغ کے لیے مراسلات ومکتوبات بھیجنے کی نظیر دنیا کے کسی سابقہ مذہب کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔
صلح حدیبیہ کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کی طرف سے ہونے والے ممکنہ حملوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو جب حکمت عملی کے تحت ایک معاہدہ کے ذریعے روک دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فروغِ اسلام کے لیے مختلف ممالک کے بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کی طرف دعوتِ حق دے کر اپنے سفیروں کو روانہ فرمایا۔ اس سلسلہ میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطور سفیر منتخب کیا گیا جو متعلقہ علاقوں، اقوام کے رسم و رواج، زبان اور کلچر سے بخوبی واقف تھے۔ اس امر کا لحاظ اس لیے رکھا گیا تاکہ وہ اسلام کے پیغام کو بخوبی اُن اقوام اور ممالک تک پہنچاسکیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دنیا کے مختلف بادشاہوں اور امراء و رؤساء کے نام خطوط لکھے تو ان پر مہر ثبت کرنے کے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی تیار کی گئی جس پر تین الفاظ درج تھے۔ سب سے اوپر والی سطر میں لفظ ’’اللہ‘‘ لکھا تھا، دوسری سطر میں لفظ ’’رسول‘‘ لکھا تھا اور تیسری سطر میں لفظ ’’محمد‘‘ لکھا گیا تھا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام سفراء وہ عظیم المرتبت ہستیاں تھیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی جانوں پر دین اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق کو مقدم رکھا اور تبلیغ اسلام کے لیے اپنا حق ادا کیا۔ ان صحابہ کرام l کی فضیلت وعظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مراسلات ومکتوبات نبوی لے کر پہاڑوں اور صحراؤں کو طے کرتے ہوئے اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دین اسلام کی ترویج کے لیے متعلقہ لوگوں تک یہ مکتوباتِ نبوی بے خوف و خطر لے کر گئے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفراء کے اسمائے گرامی
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالی نے مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے، تم میری طرف سے اسے دوسروں تک پہنچاؤ۔ اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے۔
بعد ازاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف صحابہ کرام کو دیگر اقوام وممالک کی طرف دین اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے خطوط دے کر بھیجا۔ ان سفراء صحابہ کے نام اور جن کی طرف ان کو بھیجا گیا ان کا اجمالی جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
- تاریخ اسلام کے سب سے پہلے سفیر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے جنہیں 5 ہجری میں حبشہ کی طرف سفیر بناکر بھیجا گیا۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اوّل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا۔ نجاشی اول نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔
- حضرت عمرو بن امیہ کنانی رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی ثانی کو 6 ہجری کے اَواخر میںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا۔ اس نے خط لے کر اپنی آنکھوں پر رکھا، اپنے تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اسلام کو قبول کیا۔
- حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم ہرقل کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ ہرقل نے آپ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے واضح انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات و خصائل ذکر فرمائے۔ ہرقل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور اسلام لانے کا ارادہ کیا مگراس کے حواریوں نے اس کی رائے سے اتفاق نہ کیا ہرقل نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو کہا:
اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوںگا تو ضرور ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا اور اگر میں ان کی بارگاہ میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھونے کی سعادت حاصل کرتا۔ (صحیح بخاری)
اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خط میں لکھا کہ ’’بے شک میں مسلمان ہوں لیکن میں اپنے لوگوں کی وجہ سے مغلوب ہوں اور واضح طور پر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتا‘‘۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تحائف بھی بھیجے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ اس کا خط لے کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا ہے، وہ مسلمان نہیں ہوا بلکہ اپنی نصرانیت پر قائم ہے۔
(سهیلی، الروض الانف، ج4، ص: 300)
حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ابرویز بن ہرمز فارس کے بادشاہ کی طرف 7 ہجری کے اوائل میں دعوت نامہ لے کر گئے۔ اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط مبارک کو پھاڑ دیا۔
- حضرت حاطب بن ابی بَلتعہ رضی اللہ عنہ کو مصر کے بادشاہ مُقَوقَس کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں روانہ کیا گیا۔
- حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کو حارث بن شمر الغسانی (جو شام میں غسّانہ کا بادشاہ تھا) کی طرف روانہ کیا گیا لیکن اس نے اسلام قبول نہ کیا۔
- حضرت سلیط بن عمرو العامری رضی اللہ عنہ کو 6 ہجری کے اواخر میںیمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا۔
- حضرت عمرو بن العاصی القُرشی رضی اللہ عنہ کو عُمان کے بادشاہ جُلُندی کے دوبیٹوں جیفر اور عبد کی طرف 8ہجری کے اواخر میں مکتوب دے کر بھیجا گیا۔ یہ دونوں مشرف بااسلام ہوئے۔
- حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی العبدی کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ یہ بھی مشرف بااسلام ہوا۔
- حضرت الحارث بن عُمیر الازدی رضی اللہ عنہ کو 8 ہجری میں شام میں بُصری کے بادشاہ کی طرف بھیجا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سفیر کو بُصری کے بادشاہ کے پاس پہنچے سے پہلے ہی شرحبیل بن عمر غسانی نے مؤتہ کے مقام پر شہید کر دیا۔ ان کے قتل کی وجہ سے ہی اس مقام پر غزوہ مؤتہ ہوا۔
- 9 ہجری میں حضرت مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو یمن کے بادشاہ حارث بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا۔
- حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کو یمن کے رؤساء ذو الکلاع اور ذو عمرو کی طرف 11 ہجری کو روانہ کیا گیا۔ یہ دونوں بھی مشرف با اسلام ہوئے۔
- 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل الانصاری رضی اللہ عنہ کو حارث، شرحبیل، نُعیم بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا اور یہ تینوں مشرف بااسلام ہوئے۔
- حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو الحارث بن عبد کُلال کے بھائیوں کی طرف 9 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بااسلام ہوئے۔ ۔
- حضرت عمرو بن حزم الانصاری رضی اللہ عنہ کو نجران کے ابن کعب اور الحارث کے بیٹوں کے طرف 10 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بااسلام ہوئے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان پندرہ سفراء میں سے ایک کو راستے میں شہید کر دیا گیا۔ بادشاہوں میں سے ایک نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب پھاڑ دیا۔ فارس کے بادشاہ ابرویز بن ہرمز اور شام میں غسانہ کا بادشاہ الحارث بن شمر الغسانی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہ کیا اور سختی اور دھمکی کے ساتھ اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جن ملوک ورؤساء کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سفراء کو بھیجا، اُن میں سے چار اپنے اپنے دین پر قائم رہے۔ اس کے علاوہ باقی سب نے اور اُن کے پیروکاروں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسی وجہ سے ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگئی تھی۔
سفراءِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائل
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا ارادہ فرمایا اور مختلف اقوام وممالک کے بادشاہوں، امراء، رؤساء کی جانب خطوط بھیجے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کے لیے نہ صرف حسین افراد کا انتخاب فرمایا بلکہ ایسے اصحاب کو بھی ترجیح دی جو فصیح اللسان تھے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ سفیر تھے جو سب صحابہ کرامlسے حَسین تھے اور جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر آپ رضی اللہ عنہ کی شکل میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔
ابن حجر عسقلانی، الاصابه فی تمییز الصحابه، ج2، ص: 385
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفیروں کو چونکہ یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ اُن کے قلوب واَذہان علوم نبویہ سے معطر ومطہر تھے، اسی وجہ سے ان میں علم، تحمل اوروبردباری کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت اور قادر الکلامی بدرجہ اتم موجود تھی اور وہ مخالف کو دلائل مسکتہ سے قائل کرنے میں کمال رکھتے تھے۔
علامہ سہیلی اپنی کتاب ’’الروض الانف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ قیصر روم کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اُسے فرمایا:
’’اے قیصر! مجھے اس ذات نے بھیجا ہے جو تم سے بہتر ہے، جسے اس ذات نے پوری کائنات کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے جو تمام لوگوں سے بہتر ہیں۔ سو تم میری بات عاجزی سے سنو، پھر اس کا جواب مخلصانہ مشورے سے دو۔ کیونکہ اگر تم عاجزی نہیں کرو گے، سمجھو گے نہیں اور اگر تم نے مخلصانہ مشورہ نہ لیا تو تم انصاف نہیں کر پاؤ گے‘‘۔
قیصر نے کہا: لاؤ کیا ہے ؟ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس ذات کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کے لیے مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے، اور میں تمہیں اس ذات کی طرف بلاتا ہوں جس نے اس وقت بھی آسمانوں اور زمین کے نظام کی تدبیر فرمائی جب مسیح علیہ السلام ابھی اپنی ماں کے شکم میں تھے اور میں تمہیں اس نبی آخر الزمان کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کی آمد کی بشارت موسی علیہ السلام نے اور ان کے بعد عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور تمہارے پاس اس کے متعلق جو علم موجود ہے وہ اس سلسلہ میں کافی ہے اور اس خبر پر یقین کے لیے اطمینان بخش ہے۔ اگر تم نے اس دعوت کو قبول کر لیا تو تمہارے لیے دنیا اور آخرت میں سرفرازی ہے ورنہ آخرت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور دنیا کا حصہ تم پالو گے۔ اور جان لو کہ تمہارا ایک مالک وپروردگار ہے جو ظالموں، جابروں کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اور عظیم نعمتوں کو بدل دیتا ہے‘‘۔
قیصر نے مکتوبِ گرامی کو لے کر اپنی آنکھوں اور سر پر رکھا اس کے بعد اسے چوما اور پھر کہا:
بخدا! میں ہر خط کو پڑھتا ہوں اور ہر عالم سے سوال کرتا ہوں، میں نے اس مکتوب میں خیر ہی خیر دیکھی ہے۔ آپ مجھے مہلت دو تاکہ میں غور کروں کہ مسیح علیہ السلام کس کے لیے نماز پڑھتے تھے۔ مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں آج تمہیں ایسا جواب دوں کہ کل اس سے بہتر جواب دے سکوں اور میں اپنے سابقہ جواب کی وجہ سے نقصان پاؤں اور فائدہ نہ پاؤں۔ تم ٹھہرو یہاں تک کہ میں کسی فیصلہ پر پہنچ سکوں‘‘۔
وہ اسی حال میں رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔
(سهیلی، الروض الانف، 4: 388)
- حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ 7 ہجری کے اوائل میں فارس کے بادشاہ ابرویز کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعوت نامہ لے کر گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کے ساتھ روم کی طرف روانہ کیا۔ ان کے 80 آدمیوں کورومیوں نے قید کر لیا۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو رومیوں نے دینِ اسلام چھوڑنے اور کفر اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ان کے کئی حربے استعمال کرنے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ روم کے بادشاہ نے کہا:
’’اے عبد اللہ بن حذافہ! اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو رہا کر دوں گا۔‘‘
آپ نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ یہ اللہ کا دشمن ہے مگر حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ میں مسلمان قیدیوں کو رہا کروانے کے لیے اس کے سر کا بوسہ لے لیتا ہوں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور مسلمان قیدیوں کو رہائی دلواکر واپس مدینے پہنچے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو رہا کروا کر سیدنا عمر بن خطاب کی بارگاہ میں پہنچے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’آج ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سر کا بوسہ لے اور اس کی ابتداء میں کرتا ہوں۔‘‘
(عسقلانی، تهذیب التهذیب، ج5، ص: 162)
خلاصۃ الکلام
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پُر اَمن اور مبنی بر حکمت اس دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایک مختصر مدت میں اسلام خطہ عرب و عجم میں پھیل گیا۔ اسلام کی اس تبلیغ واشاعت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان جانثار سفراء صحابہ کرام l کا خاص کردار ہے جنہیں اسلام کی ترویج واشاعت کی سعادت نصیب ہوئی۔