آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں سالانہ اجلاس 22 تا 24 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک آج کل کے گریٹر اقبال پارک میں قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر نواب شاہنواز خان آف ممدوٹ تھے جبکہ سیکرٹری میاں بشیر احمد تھے۔ اجلاس کے تمام انتظامات مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم مسلم نیشنل گارڈز نے سرانجام دئیے۔ اجلاس کے مصارف پورے کرنے کیلئے 20 ہزار روپے کا چندہ جمع کیا گیا تھا جبکہ پونے 11 ہزار روپے خرچ ہوئے، باقی رقم مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع کروا دی گئی۔ اجلاس کا سٹیج حاجی الف دین معمار نے تعمیر کیا تھا، سٹیج پر آویزاں بینر پر علامہ اقبال کا یہ شعر لکھا تھا:
جہاں میں اہل ایمان صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے
اجلاس کے دوران قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ڈیوس روڈ پر واقع ’’ممدوٹ ولا‘‘ میں قیام کیا۔ اجلاس کا طے شدہ وقت ڈھائی بجے تھا، قائداعظم بھی اسی وقت پنڈال میں تشریف لائے تھے اس اجلاس میں ایک لاکھ افراد شریک تھے۔ تلاوت کلام پاک سے آغاز کے بعد میاں بشیر احمد کی معرکۃ الآرا نظم ’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘ انور غازی آبادی نے پڑھ کر سنائی۔ قائداعظم نے اس اجلاس میں فی البدیہہ اور برجستہ تقریر کی۔ ان کے خطبہ صدارت کا دورانیہ دو گھنٹے تھا(بحوالہ تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ سرسید رحمۃ اللہ علیہ سے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ تک: مصنف آزاد بن حیدر)
23مارچ 1940ء کا دن تحریک پاکستان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اسی دن لاہور میں موجودہ گریٹر اقبال پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس میں شریک مسلمانان ہند نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک آزاد اسلامی مملکت حاصل کریں گے۔ یہ اجلاس جس میں تاریخی قرارداد منظور کی گئی۔ 22 مارچ 1940 کو شروع ہو کر 24 مارچ 1940 تک تین دن جاری رہا۔ اس اجلاس میں برصغیر پاک و ہند کی ممتاز مسلم لیگی قیادت نے الگ وطن کی قرارداد کی حمایت کی اور خطابات کئے۔ اجلاس میں ہندوستان اور موجودہ پاکستان سے ایک لاکھ لوگ جمع ہوئے۔ اس اجلاس میں ہونے والے خطابات کا ایک ایک حرف آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان خطابات کا لب لباب یہ ہے کہ تمام قائدین آزاد وطن کیلئے پر عزم ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ کے مضمرات سے پوری طرح با خبر تھے اور آئندہ کی آزاد مملکت کے خدو خال کے حوالے سے انکے نظریات اور خیالات ہر قسم کے ابہام سے پاک تھے اور انتہائی مؤثر انداز میں آزادی کا پیغام عام آدمی کے دل و دماغ میں اتار رہے تھے۔ جب قیادت مخلص، دردمند، مسائل اور جغرافیہ سے مکمل طور پر آگاہ ہو اور منزل کا راستہ اسکے دل و دماغ میں نقش ہو تو پھر مقصد کے حصول میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہ سکتی۔ تحریک پاکستان کی قیادت کو اللہ نے اسی شرح صدر سے نواز رکھا تھا اور برصغیر پاک و ہند کی مسلم قیادت کی سربراہی بھی ایک ایسی ہستی کو عطا کررکھی تھی جسے دنیا قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اللہ نے قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کو ایک روشن خیال دماغ اور درد مند دل سے نوازا۔ بر صغیر پاک و ہند کی جملہ قیادت کی بصیرت ایک طرف اور قائداعظم کی بصیرت اور شہ دماغی ایک طرف تھی۔
ہر سال 23 مارچ یوم پاکستان کے طور پر منایا جا تا ہے اور روایتی بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔ مگر 23 مارچ 1940ء کے اصل پیغام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ اصل پیغام یہ ہے کہ قیادت اپنے عوام کی خواہشات، مسائل، دوستوں اور دشمنوں کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ عزائم سے آگاہ ہو اور اسکی نظر اپنے اہداف پر جمی ہو۔ تحریک پاکستان کے دوران ایک ایسے مسلمان عالم اور فاضل بھی تھے جن کا نام مولانا ابو الکلام آزاد تھا جن کے علم زبان و بیان سے ایک دنیا واقف تھی مگر ابو الکلام آزاد اپنی تمام تر ’’بو کلامی‘‘ کے باوجود مسلمانوں کو غلام ہندوستان کے اندر رہنے پر قائل نہ کر سکے اور اسکے بر عکس قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جن کو اسلامیان بر صغیر کی زبان اردو پر دسترس بھی حاصل نہ تھی اسکے باوجود انکے نقطہ نظر، صادق الکلامی اور اخلاص کے سحر میں کروڑوں مسلمان مبتلا تھے۔ دنیا کے ہر بڑے اور عظمت والے انسان میں ایک خوبی مشترک ملے گی کہ وہ سچا اور راست گو ہوتا ہے۔ ایک عظیم انسان جھوٹ سے کوسوں دور ہوتا ہے، یہی خوبی قائداعظم میں بھی تھی۔ پاکستان بنانے والی قیادت کا پاکستان بنانے سے قبل متمول اور صاحب علم افراد اور خاندانوں میں شمار ہوتا تھا اور یہ غیور قیادت جانتی تھی کہ پاکستان بننے کے بعد انہیں اپنی جاگیروں اور اعزازات سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں اور معاشی، سیاسی، سماجی اعتبار سے بے پناہ مسائل سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے مگر اس قیادت کے دل اور دماغ میں صرف ایک ہی خیال اور مطالبہ تھا کہ بر صغیر کے کروڑوں بے بس اور لا چار مسلمانوں کو آزادی کی نعمت ملے اور وہ غاصب ہندو اور انگریز کے تسلط سے نجات حاصل کریں۔
یہاں ایک تاریخی مغالطے کی اصلاح بھی ناگزیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد میں آزاد مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا مگر جسے بعد ازاں طنزاً ہندو پریس نے قرارداد پاکستان کا نام دیا اور یہ قرارداد پھر اسی نام سے مشہور ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ قرارداد میں پاکستان کا لفظ استعمال نہیں ہوا تاہم اسی اجلاس میں بیگم محمد علی جوہر نے اپنی تقریر میں اسے پاکستان کا Resolution کہا اور پھر مسلم لیگ نے اسی نام سے تحریک پاکستان کی جدوجہدکو آگے بڑھایا۔ اگر ہندو پریس نے طنزاً اسے قرار داد پاکستان کہا تو یہ نام ان کا اخذ کردہ نہیں تھا، اس سے قبل چوہدری رحمت علی نئی مملکت کیلئے لفظ پاکستان کا استعمال اور تشہیر کر چکے تھے۔ یہ ایک تاریخی صداقت اور اعزاز ہے کہ 23مارچ کے اجلاس میں پہلی بار پاکستان کا لفظ استعمال کرنیوالی بھی خاتون تھیں اور پہلی بار سول سیکرٹریٹ پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے والی بھی خاتون تھیں اور پہلے آمر کے خلاف جمہوری جدوجہد کرنے والی بھی خاتون تھیں۔ بیگم محمد علی جوہر، صغریٰ اور فاطمہ جناح، تحریک پاکستان اور پاکستان کا فخر ہیں۔
آئیے اب اس بات کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں اجلاس میں مسلم قیادت نے کس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور وہ آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے کس قدر واضح روڈ میپ رکھتے تھے۔
- 23 مارچ 1940ء کے اجلاس کا 22 مارچ کو خطبہ استقبالیہ سر شاہ نواز خان ممدوٹ نے پیش کیا۔ انہوں نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ یورپی ممالک ایک مذہب، ایک جیسی ثقافت اور بود و باش رکھتے ہیں اسکے باوجود ایک دوسرے کے تسلط کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہم رنگ، نسل، مذہب، ثقافت ہر طرح کے امتیاز کے ہوتے ہوئے کسی کا غلبہ کیسے قبول کر لیں؟انہوں نے خطبہ استقبالیہ میں یہ تاریخی کلمات بھی کہے کہ ایک مقبول عام حکومت کو عمدہ اور موثر طور پر چلانے کیلئے اکثریت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کو مطمئن کرے اور ہر ممکن طریقے پر انکے اندر اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ صرف اس ایک جملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان فطرتاً اور طبعاً اعتدال پسند اور رواداری کی اعلیٰ انسانی، اسلامی روایات کے حامل ہیں۔ قیام پاکستان کے قبل بھی وہ اقلیتوں کے احترام کو مملکت کے استحکام کی ضمانت سمجھتے تھے۔
- قرار داد پاکستان شیر بنگال مولوی فضل حق نے پیش کی۔ قرارداد پیش کئے جانے کے بعد پہلا خطاب صوبہ یو پی سے تعلق رکھنے والا چوہدری خلیق الزمان نے کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ اکثریتی فرقہ (ہندو)جس نے ظلم کیا، ان حالات کا وہ خود ذمہ دار ہے۔ میں کہا کہ میں مولانا ابولکلام آزاد سے وہاں بالکل اختلاف کرتا ہوں جہاں انہوں نے یہ کہا کیونکہ مسلمان اپنی مدافعت کیلئے کافی مضبوط ہیں اس لئے انہیں علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔
- پنجاب کی نمائندگی مولانا ظفر علی خان نے کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں قرارداد کی منظوری پر مسرت بھرے انداز میں کہا کہ میں آج یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے ایک آزاد ہندوستان میں بول رہا ہوں۔ گویا محض با ضابطہ مطالبہ پر ہی انہیں آزادی کی منزل دکھائی دے گئی۔ انہوں نے ایک حقیقت بھی بے نقاب کی اور کہاکہ کانگریس آزادی کے حصول کی مطلق خواہش مند نہیں ہے۔ اسکی خواہش صرف اقلیتوں کو دبا کر رکھنا ہے۔
- صوبہ سرحد (کے پی کے) کی نمائندگی سردار اورنگزیب خان نے کی اور قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ صوبہ سرحد ہندوستان کا دروازہ ہے۔ ہندو صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اس قرارداد کی حمایت پر مبارکباد دیتا ہوں۔ سردار اورنگزیب خان نے یہ تاریخی کلمات کہے ’’ہم برطانوی جمہوریت نہیں چاہتے‘‘ جو سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ سروں کو گن لیا جائے؟
- صوبہ سندھ کی نمائندگی سر عبد اللہ ہارون نے کی اور قرارداد کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ یہ امر واقعہ ہے کہ مسلمان سندھ کے راستے ہندوستان میں آئے۔ یہ مسئلہ سندھ کے مسلمانوں کے سامنے سب سے پہلے آیا جو اب مسلم لیگ کے سامنے ہے۔
- صوبہ بہار کی نمائندگی خان بہادر نواب سید محمداسما عیل نے کی۔ بلوچستان کی نمائندگی قاضی محمد عیسیٰ نے کرتے ہوئے کہا کہ جب مسلمان آزادی حاصل کر لیں گے تو ان صوبوں کے مسلمانوں کو جو اقلیت میں ہیں کبھی فراموش نہیں کرینگے۔ ان کے اختیار میں جو کچھ بھی ہوگا، اس سے وہ ان کی مدد کرینگے۔ صوبہ سرحد کے مسلمانوں کی طرح بلوچستان کے مسلمان بھی ہندوستان کے دربان ہیں۔ اس لئے کہ وہ درہ بولان پر پہرہ دیتے اور انکی حفاظت کرتے ہیں۔ اس لئے ہم پر فرض ہو گا کہ ہم بطور دربان اپنے ان مسلمان بھائیوں کی پوری پوری حفاظت کریں۔
قاضی عیسیٰ 17جولائی 1914ء کو پشین بلوچستان میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام قاضی جلال الدین تھا، انہوں نے قانون کی اعلیٰ تعلیم انگلستان سے حاصل کی اور بار ایٹ لاء کی ڈگری لی۔ قائد اعظم سے پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے قاضی عیسیٰ کہتے ہیں ایک موقع پر دوست کے ہاں شکار کھیلنے گیا تو انہوں نے میری ملاقات ایک دبلے پتلے، گورے چٹے اور پر کشش شخصیت کے حامل آدمی سے کروائی۔ یہ قائد اعظم سے میری پہلی ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات میں ہی قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سوال کیا بلوچستان میں مسلم لیگ ہے تو میں نے جواب دیا میں ابھی انگلینڈ سے آیا ہوں میراخیال ہے وہاں مسلم لیگ نہیں ہے۔ یہ سن کر قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بے ساختہ کہا: وہاں مسلم لیگ کیوں نہیں ہے؟ آپ خود کیوں مسلم لیگ کا کام شروع نہیں کرتے؟اور پھر اگلے دن قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کھانے پر مدعو کر کے طویل گفتگو کی اور میں سیاحت کا پروگرام ادھورا چھوڑ کر بلوچستان واپس آ گیا اور مسلم لیگ کا کام شروع کر دیا۔
قاضی محمد عیسیٰ کی کوششوں سے تحریک پاکستان کا پیغام ہر گھر تک پہنچ گیا اور حالات اتنے موافق ہو گئے کہ جون 1939ء میں بلوچستان کی تاریخ کی پہلی مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد کامیابی سے ممکن ہوگیا۔ یہ تھی بانی پاکستان کے دل میں اپنی قوم کی آزادی کی لگن۔ قاضی محمد عیسیٰ اکثر کہتے تھے کہ محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جو کچھ کرتے ہیں، ذاتی پسند و ناپسند سے کرتے ہیں یعنی انہیں کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔ بانی پاکستان جب بھی بلوچستان جاتے تو قاضی عیسیٰ انکی کار ڈرائیو کرتے اور اسکا فخریہ اظہار کرتے۔ بانی پاکستان سے محبت رکھنے والے بلوچوں کے بزرگ آج کے بلوچستان کے حالات دیکھتے ہوں گے تو ان کی روحیں کس کرب سے گزرتی ہونگی۔ پورے پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کی حفاظت اور مدد کا ذمہ اپنے سر لینے والا بلوچستان آج مدد کیلئے دوسروں کا دست نگر بنا دیا گیا۔ وہ بلوچستان آج اپنے اور غیروں کی بے وفائی، کج ادائی اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔
بہرحال 23 مارچ کے تاریخ اجتماع میں بانی پاکستان نے طویل اور چشم کشا خطاب کیا۔ انہوں نے برصغیر کے حالات، نہرولیڈر شپ کے دوغلا پن، انگریز کی مکاری اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں تفصیل سے بات کی اور گائیڈ لائن دی۔ بانی پاکستان نے اس اجلاس میں اپنے خطبہ صدارت میں 1935ء کے ایکٹ کے مکمل خاتمے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ اعلانات کیلئے حکومت برطانیہ کی طرف دیکھیں جب کہ ہندوستانی قیادت حکومت برطانیہ کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروا رہی تھی۔ اسی تاریخی اجلاس میں بانی پاکستان رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ فلسطین کے اوپر تفصیل سے بات کی اور کہا کہ برطانوی حکومت واقعتا اور حقیقی معنوں میں فلسطینی عربوں کے مطالبات پورے کرے۔
23 مارچ 1940ء کے بانی پاکستان کے خطاب کا لب لباب یہ تھا کہ اب ہم کسی ہندو مسلم اتحاد کے جال میں نہیں پھنسیں گے اور آزادی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرینگے۔ بانی پاکستان کا یہ خطاب ان کے وسیع عالمی جغرافیائی مطالعہ اور زمینی حقائق کے عمیق علم سے مزین تھا۔ بلا شبہ قیادت کا حق اسے ہی ہے جو حالات و واقعات، پس منظر اور پیش منظر سے پوری طرح آگاہ ہو اور امت کی قیادت کے فریضہ کی ادائیگی کا اہل ہو۔ قیام پاکستان کیلئے سندھ، بلوچستان، سرحد، پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں، اب پاکستان کو اغیار کی بد نظری سے بچانے کیلئے اسی اتحاد کی ضرورت ہے جس کے ایمان افروز مناظر 23 مارچ 1940ء کے دن مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں دیکھے گئے۔ داخلی انتشار کی ایک سزا ہمیں بنگال کے بازو کٹ جانے کی صورت میں مل چکی، اب دشمن باقی اکائیوں کو توڑنے اور کمزور کرنے کے درپے ہے۔ آج ہم بانی پاکستان کی صفات والے لیڈر سے تو محروم ہیں لیکن ایک اللہ، ایک قرآن، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اکٹھے ہو کر ایک پاکستان کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ پاکستان ایک نعمت ہے اور اس کی حفاظت ایمان اور آزادی کی حفاظت ہے۔