سوال: سود کی جامع تعریف کیا ہے؟
جواب: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے:
لغت میں ربا کا معنی زیادتی، بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں:
الربا الزیادۃ علی راس المال لکن خصّ فی الشرع بالزیادۃ علی وجه دُون وجه.
اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں۔
(اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، ١: ١٨٧)
ائمہ لغت فرماتے ہیں:
الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُوْخذ به اکثر منه او تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذی لیس بحرام ان یَهبه الانسان یَسْتَدعی به ما هو اکثر او یُهدی الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو اکثر منها.
زیادتی دو قسم پر ہے: حرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے۔ جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دے دے۔
(ابن منظور، لسان العرب، ١٤: ٣٠٤)
ابو السعادات المبارک بن محمد الجزری لکھتے ہیں:
هو فی الشرع الزیادة علی اصل المال من غیر عقد تبایع.
(ابن الاثیر الجزری، النہایۃ، ٢: ١٩٢)
شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر، اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔
احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں:
هو القرض المشروط فیه الاجل و زیادۃ مال علی المستقرض۔
(جصاص، احکام القرآن، ٢: ١٨٩)
جس قرض میں مدتِ متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔
لہٰذا قرض میں دیئے ہوئے اصل مال پر جو اضافی رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے۔
اسلامی قوانینِ معیشت کے مطابق جس قرض کے ساتھ بھی قرض خواہ متعین مدت کے ساتھ معین رقم کا مطالبہ کرے گا، وہ سوائے سود کے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ ضرورت مند کے ساتھ ظلم اور اس کا استحصال ہے اور اسلام ایسے ظلم اور استحصال کے خاتمے کے لیے آیا ہے۔
اس کے مقابلے میں اسلام کا طرزِ معیشت خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہے، جس میں قرضِ حسنہ کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر مضاربہ کی صورت میں سرمایہ کاری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔
سوال: جنتری، فال یا ستاروں کی چال دیکھ کر بچوں کے نام رکھنا کیسا ہے؟
جواب: رسول اللہﷺ نے با معنی اور اچھا نام رکھنے کا حکم دیا ہے۔ امام طوسی روایت کرتے ہیں:
جَاء َ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا حَقَّ إِبْنِیْ هٰذَا؟ قَالَ (ﷺ) تَحَسَّنَ إِسْمُه، وَاَدَّبَه، وَصَنَعَه، مَوْضِعاً حَسَناً.
(محمد بن احمد صالح، الطفل فی الشریعۃ الاسلامیۃ:74)
ایک شخص رسول اکرمﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ(ﷺ) میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّکُمْ تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِاَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاء ِ آبَائِکُمْ فَاَحْسِنُوا اَسْمَائَکُمْ.
روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
(احمد بن حنبل، المسند،٥: ١٩٤، رقم:٢١٧٣٩)
مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرمﷺے نہ صرف اچھے ناموں کو پسند فرمایا بلکہ اچھے نام رکھنے کا حکم بھی دیا اور اسے بچے کا پیدائش کے بعد اولین حق قرار دیا۔ ستارے، جنتری یا فال کے ذریعے نام رکھنا توہم پرستی ہے اور شرعِ اسلامی میں توہمات کی کوئی حقیقت نہیں۔
سوال:اشیاء و افعال میں حرمت کے ثبوت کے ذرائع کیا ہیں؟
جواب: حرام کا لغوی معنی ممنوع، ناجائز اور روک دیا جانا ہے، ایسا فعل جس سے روکنا مقصود ہوتا ہے اس کو حرام کہا جاتا ہے۔
(إبراهیم مصطفی، المعجم الوسیط، 1: 169)
امام غزالی نے حرام کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
اَلْحَرَامُ هُوَ الْمَقُوْلُ فِيْهِ: أُتْرُكُوْهُ وَلَا تَفْعَلُوْهُ.
حرام وہ شے یا فعل ہے جس کے بارے میں ترک کر دینے اور نہ کرنے کا صریح حکم آیا ہو۔
(غزالی، المستصفی، 1: 45)
شیخ وھبہ زحیلی نے حرام کی تعریف اس طرح کی ہے:
اَلْحَرَامُ مَا طَلَبَ الشَّارِعُ تَرْكَهُ عَلَی وَجْهِ الْحَتْمِ وَالْإِلْزَامِ.
حرام وہ فعل ہے جس کو شارع نے حتمی اور لازمی طور پر ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہو۔
(وهبة الزحیلی، أصول الفقه، 1: 80)
شریعت میں حرام اشیاء کو صرف ان کے مَفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے حرام کیا گیا ہے، یہ فساد یا تو فعل کی ذات میں ہوتا ہے یا کسی خارجی امر کے ملنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر حرام کی دو اقسام ہیں:
1۔ حرام لذاتہ
2۔حرام لغیرهٖ
1۔ حرام لذاتہٖ وہ حرام ہے، جسے شارع نے اس کے ذاتی ضرر اور مفاسد کی وجہ سے حرام کیا ہے۔ ایسے ضرر اور مفاسد جو کسی حال میں بھی اس سے جدا نہ ہوتے ہوں۔ مثلاً زنا، چوری، قتل، شراب نوشی اور ایسے ہی دوسرے اُمور جو ذاتی طور پر حرام ہیں کیونکہ ان کے مفاسد ہمیشہ برقرار رہتے ہیں، کبھی مرتفع، معطل یا معدوم نہیں ہوتے۔
2۔ حرام لغیرہ وہ حرام ہے، جو اپنی اصل ذات کے اعتبار سے مشروع ہو، کیوں کہ اس میں کوئی ضرر اور فساد نہیں ہوتا ہے، یا اس کی منفعت غالب ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز مل گئی ہو، جو اس کے حرام ہونے کا تقاضا کرے۔
مثلاً غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنا، جمعہ کی اذان کے بعد بیع کرنا، عیدین کے دن روزے رکھنا، حرام ہیں، یہ امور اپنی اصل کے اعتبار سے حرام نہیں، بلکہ نماز، بیع اور روزہ اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع اعمال ہیں، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، مگر بالترتیب مغصوبہ زمین، اذان ہو جانے اور عیدین کے ایام کی وجہ سے حرام ہو گئے ہیں۔ اس لیے اس حرمت کو ’حرمت لغیرہ‘ اور عمل کو ’حرام لغیرہ‘ کہا جائے گا کیونکہ کسی اور خارجی سبب نے فی نفسہ کسی جائز عمل کو حرام بنا دیا۔ لہٰذا یہ ’حرمت مؤقت اور عارضی‘ ہوتی ہے۔
حرام کے ثبوت کے ذرائع
حرام کے ثبوت کے درج ذیل پانچ ذرائع ہیں:
(1) لفظِ حرام اور اس کے مشتقات
وہ امور جنھیں قرآن مجید میں یا احادیث مبارکہ میں لفظ حرام یا اس کے مشتقات کے ساتھ بیان کیا جائے۔ مثلاً سورۃ النسآء کی آیت 34 میں حُرِّمَتْ (حرام کر دی گئی ہیں) کا لفظ آیت میں مذکورہ عورتوں کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔
(2) نفی حلت
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ.
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے۔
(البقرة، 2: 230)
اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں ہے:
لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِیءٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِطِيْبِ نَفْسٍ مِنْهُ.
(احمد بن حنبل، المسند،5: 72، رقم:20714)
ایک مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے ولی کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔
مندرجہ بالا نصوص میں فَلَاتَحِلُّ اور لَایَحِلُّ کے الفاظ حلال ہونے کی نفی کر رہے ہیں۔ اس لیے تیسری طلاق کے بعد بغیر حلالہ کے بیوی حرام ہے اور کسی مسلمان کی مرضی کے بغیر اس کا مال کھانا بھی حرام ہے۔
(3) صیغہ نہی
ایسا صیغۂ نہی جو ایسے قرینہ سے خالی ہو، جو اس کو حرمت سے پھیر دے۔ مثلاً:
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ.
(بنی إسرائیل، 17: 31)
’’اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو۔‘‘
یہاں لَاتَقْتَلُوْا (قتل مت کرو) یہ صیغۂ نہی ہے، جس سے فعل کا حرام ہونا ثابت ہو رہا ہے۔
(4) لفظِ اجتناب
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ.
سو تم بتوں کی پلیدی سے بچا کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو۔
(الحج، 22: 30)
اس آیت میں فَاجْتَنِبُوْا (پس تم پرہیز کرو) کے لفظ سے بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کا حرام ہونا ثابت ہو رہا ہے۔
(5) عقوبت کا تعین
جس پر دنیوی یا اخروی سزا کا بیان ہو، وہ حرام ہے مثلاً:
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً.
(النور، 24: 4)
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں، تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اَسّی (80) کوڑے لگاؤ۔
اسی طرح ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا.
(النساء، 4: 10)
بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں (صرف) آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے۔
مذکورہ بالا آیات میں چونکہ جھوٹی تہمت لگانے پر اَسی (80) کوڑے مارنے کا حکم ہے، جو کہ دنیوی سزا ہے اور یتیموں کے مال کھانے والوں کے لیے جہنم کی آگ کی وعید ہے، جو کہ اُخروی سزا ہے۔ چونکہ ان دونوں اَفعال پر سزا کا بیان ہے، اس لیے یہ اور اس قسم کے باقی اَفعال حرام ہوں گے۔