رپورٹ: شہر اعتکاف 2023ء

محمد یوسف منہاجین

حرمین شریفین کے بعد دنیائے اسلام کی سب سے بڑی اعتکاف گاہ تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام ’’شہرِ اعتکاف‘‘ کے نام سے جامع المنہاج بغداد ٹاؤن میں سجائی جاتی ہے۔ 1990ء سے لے کر اب تک 30 سالانہ شہر اعتکاف آباد ہوچکے ہیں۔ جن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے ہزارہا معتکفین و معتکفات شریک ہوتے ہیں۔ اس شہرِ اعتکاف کا مقصد معتکفین کو تعلق باللہ، ربطِ رسالت، رجوع الی القرآن کی طرف متوجہ کرنا اور تزکیہ نفس، تصفیہ قلب، تہذیبِ اخلاق اور علمی، فکری اور روحانی تربیت کے ذریعے انفرادی و اجتماعی سطح پر اصلاحِ احوال کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ اس شہرِ اعتکاف کو قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی سرپرستی حاصل ہے جبکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی و فکری معیت اور ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی ہمہ جہتی نگرانی اس اجتماعی اعتکاف کا طرہ امتیاز ہے۔

شہرِ اعتکاف 2023ء (رمضان المبارک 1444ھ)

امسال بھی الحمدللہ تعالیٰ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام شہر اعتکاف بسایا گیا جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے ’’زوال پذیر معاشرتی اقدار اور قرآنی احکامات‘‘کے موضوع پر خصوصی خطابات ارشاد فرمائے۔ علاوہ ازیں چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے بھی تربیتی لیکچرز دیئے۔ 20 رمضان المبارک/ 11 اپریل 2023ء کو شہرِ اعتکاف کے آغاز پر چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر MQI ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور اور نائب ناظمِ اعلیٰ محمد جواد حامد نے معتکفین کو خوش آمدید کہا۔ بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہزاروں معتکفین و معتکفات کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

مہنگائی کے اس دور میں جہاں زندہ رہنا مشکل ہوگیا اور میسر اور دستیاب وسائل سے ضروریات کہیں بڑھ گئیں۔ اس صورتِ حال کے باوجود شہرِ اعتکاف میں تعداد پچھلے سال سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ طالبانِ حق اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اعمال و احوال، اخلاق اور زندگی کے اطوار سنوارنے کے لیے اس طوفان زدہ ماحول میں کثیر تعداد میں آئے ہیں۔ خواتین و حضرات کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت ان کے جذبۂ ایمانی اور طلبِ صادق کا ثبوت ہے۔ نیک عزم کے ساتھ اللہ کے دروازے پر سائل و منگتا بن کر بیٹھنے کا تمسک ہے کہ جس نے آپ کے لیے تمام رکاوٹیں دور کردی ہیں۔ اس شہر اعتکاف کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حسنِ عبادت و ریاضت بھی ہے، حسنِ معاملات بھی ہے، تعلیم و تربیت بھی ہے، بنیادی عقائد میں فکری پختگی بھی ہے، کیریئر کونسلنگ اور کریکٹر بلڈنگ بھی ہے، فقہ اور احکامِ شریعت کی تعلیم بھی ہے، تلاوتِ قرآن اور تجویدِ قرآن اور حلقاتِ التربیہ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان میں برکت اور رزق میں کشادگی عطا فرمائے۔ مرکزی انتظامیہ اور پاکستان بھر کے رفقاء، تنظیمات اور شرکاء اعتکاف خواتین و حضرات کو مبارکباد دیتا ہوں۔

  • اس شہر اعتکاف کی جملہ علمی، فکری اور روحانی سرگرمیاں www.minhaj.tv اور www.minhaj.org اور تحریک کے سوشل میڈیا پر موجود جملہ اکاؤنٹس سے براہ راست نشر کی گئیں۔ شہر اعتکاف کی اجمالی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:

1۔ فقیدالمثال انتظامات

منہاج القرآن کے زیر اہتمام اس شہرِ اعتکاف میں اندرون و بیرون ملک سے ہزارہا معتکفین شریک ہوئے۔ اِن ہزارہا معتکفین و معتکفات کی رہائش اور سحر و افطار کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔ ہزاروں خواتین معتکفات اور سیکڑوں معتکف بچوں کے لیے علیحدہ انتظامات کیے گئے ۔ معتکفین کی سہولت کیلئے شہر اعتکاف کو مختلف بلاکس میں تقسیم کیا گیا۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی طرف سے ایمرجنسی میڈیکل ایڈ سنٹر قائم کیا گیا ۔ جہاں ڈاکٹرز، ڈسپنسرز اور درجنوں افراد پر مشتمل معاون طبی عملہ نے 24 گھنٹے خدمات سر انجام دیں۔

  • شہراعتکاف کے جملہ انتظامات نائب صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور اور نائب ناظمِ اعلیٰ محترم محمد جواد حامد کی زیر نگرانی قائم درجنوں کمیٹیوں میں شامل سیکڑوں ممبران نے سرانجام دیئے۔ علاوہ ازیں جملہ نائب ناظمین اعلیٰ انجینئر محمد رفیق نجم (شمالی پنجاب)، علامہ رانا محمد ادریس (سنٹرل پنجاب)، سردار شاکر خان مزاری (جنوبی پنجاب)، نوراللہ صدیقی (نائب ناظم اعلیٰ میڈیا افیئرز)، احمد نواز انجم (نائب ناظم اعلیٰ بلوچستان)، مظہر محمود علوی (نائب ناظم اعلیٰ سندھ)، چودھری عرفان یوسف (نائب ناظم اعلیٰ KPK، گلگت بلتستان)، جی ایم ملک، سید الطاف حسین شاہ گیلانی، عبدالرحمن (ناظم مالیات)، ملک محمد فضل (ڈائریکٹر اکاؤنٹس)، میاں ریحان مقبول (PAT)، راجہ زاہد محمود (PAT)، جملہ مرکزی ناظمینِ دعوت، جملہ ناظمین تربیت، صدر یوتھ رانا وحید شہزاد، صدر MSM شیخ فرحان عزیز، علامہ غلام مرتضیٰ علوی، صدر علماء کونسل علامہ امداد اللہ خان قادری، ناظم علماء کونسل علامہ میر آصف اکبر، منہاج القرآن ویمن لیگ، محترمہ فرح ناز، محترمہ سدرہ کرامت اور جملہ سربراہان شعبہ جات، جملہ سربراہان مرکزی تعلیمی ادارہ جات،منہاج ٹی وی، سوشل میڈیا سیل، منہاج انٹرنیٹ بیورو اور دیگر شعبہ جات اور نظامتوں میں سے ہر ایک نے اپنے ذمہ عائد ذمہ داریوں کو احسن طور پر نبھایا اور اس سالانہ شہر اعتکاف کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مذکورہ قائدین اور ان کے زیر انتظام قائم جملہ کمیٹیوں کے ممبران کو اعلیٰ انتظامات پر مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔

2۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات

شہر اعتکاف میں تزکیہ نفس، تصفیہ قلب، اصلاحِ احوال اور روحانی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ امسال شہر اعتکاف 2023ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے ’’زوال پذیر معاشرتی اقدار اور قرآنی احکامات‘‘کے موضوع پر 9 خصوصی خطابات ارشاد فرمائے۔ شیخ الاسلام کے یہ خطابات منہاج ٹی وی، آفیشل یوٹیوب چینل ڈاکٹر قادری، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے روزانہ براہِ راست نشر کیے گئے۔ (اِن خطابات کے خلاصہ جات اس رپورٹ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)

3۔ تحریک میں درجہ ’’محسن‘‘ کا اجراء

امسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے رویۂ احسان پر گفتگو کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان کے لیے ایک نئے درجہ (rank) کا اجراء فرمایا۔ اس حوالے سے آپ نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ 1981ء سے لے کر آج تک تحریک منہاج القرآن کے کارکنان ’’رفقاء‘‘ تھے۔ اب 42 سال کے بعد رفقاء کے اندر ایک اور درجہ بنارہا ہوں۔ یہ درجہ رفقاء، اراکین اور وابستگان میں سب سے اعلیٰ درجہ ہوگا۔ جو ’’المحسنون‘‘یا ’’حلقہ محسنین‘‘ کہلائے گا۔ انگلش میں اسے The people of Moral and spiritual excellence کہیں گے۔

’’المحسنون‘‘ میں شامل ہونے کے لیے رفقاء کو جس پہلے درجہ میں شامل کیا جائے گا، وہ ’’الطالب الصادق‘‘ کا درجہ ہے۔ اس درجہ میں شامل لوگ اللہ کے رضوان اور خوشنودی کے طالب ہوں گے۔ اس درجہ میں تعلیم و تربیت کے لیے میں نے ’’ایھا الولد الصالح‘‘ کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’’اسلام، ایمان اور احسان‘‘ اور ’’سلوک و تصوف کا عملی دستور‘‘ بھی ’’الطالب‘‘ کو باقاعدہ پڑھاتے ہوئے اسے علمی، فکری اور روحانی تربیت دی جائے گی۔ اس سلسلہ میں ’’ھولآء الطالبون‘‘ کے نام سے ایک مزید رسالہ لکھنے کا بھی ارادہ ہے۔

’’الطالب‘‘ کے بعد بندہ اگلے درجہ ’’السالک الطریق‘‘ میں داخل ہوگا۔ یعنی طریق الی اللہ۔ اس درجہ میں شامل احباب کی تربیت کے لیے ایک رسالہ’’الرسالہ القادریہ فی سلوک الطریق الی اللہ‘‘ تحریر کیا ہے، جسے باقاعدہ درساً پڑھایا جائے گا۔

سالک کے درجہ کے بعد ’’محسن‘‘ کے درجہ میں داخل ہوں گے۔ محسن کے لیے ’’رسالہ الفتوۃ والاحسان‘‘اور ’’رسالہ معرفہ فی تحقیق التوحید‘‘ہوں گے جن میں ان کی رہنمائی کا سامان ہوگا۔ گویا ’’الطالب، السالک اور محسن‘‘ کے تین درجات ہوں گے۔

درجہ محسن تک پہنچنے کے لیے پہلے درجہ ’’الطالب‘‘ میں داخل ہونا ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ جن کے دل میں میری اس گفتگو کو سن کر عباد محسنین میں شامل ہونے کا ارادہ و جذبہ پیدا ہوجائے تو وہ نام لکھوادے۔ نام لکھوانے کے بعد ہر شخص اپنے معاملات کی خود نگرانی کرے کہ اعتکاف کے دس دنوں میں جو کچھ اس نے سنا، اس پر کس حد تک عمل پیرا ہوسکا۔ اس طرح اپنی رپورٹ تیار کریں۔ یہ اپنے آپ کو جاننے کا ایک پیمانہ ہے۔ یعنی غصے پر کتنا قابو پایا۔ ۔ ۔ عفوودرگزر کتنا کیا۔ ۔ ۔ ؟ سخاوت اور ادب و احترام کتنا آیا۔ ۔ ۔ ؟ دوسروں کو نفع پہنچانا اور ان کی مدد کرنا کتنا آیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ الغرض اس طرح اپنے آپ کو جانچیں اور جب آپ خود محسوس کریں کہ رویۂ احسان پر میں اس حد تک عمل پیرا ہوگیا ہوں، تو اس حوالے سے ایک رپورٹ مرکز بناکر بھیجیں۔ اس پر مرکز آپ کے فیملی ممبران، دیگر رفقاء سے آپ کے احوال کی خبر لینے کے بعد آپ کو درجہ بہ درجہ طالب سے سالک اور پھر محسن کے درجہ پر فائز کرے گا۔

یہ ایک مکمل مرحلہ ہوگا جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد ہی کسی کو اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ اس کی کوئی فیس نہیں ہے بلکہ صرف کردار سازی ہے۔ رفاقت کے مقام سے بلند کرکے آپ کو اللہ کے عبادالمحسنین میں شامل کرنا ہے۔ اس کے لیے پچھلے سال کے اعتکاف دس کے دس لیکچرز بار بار سنیں۔ اس سال کے لیکچرز بھی بار بار سنیں، اپنامحاسبہ کریں اور پھر اپنا جائزہ لیں۔

  • اس موقع پر شیخ الاسلام نے محترم حاجی عبدالغفور صاحب (لندن) کو تحریک میں محسن اول ڈیکلیئر کیا۔

4۔ ’’آداب صحبت اور اصلاحِ احوال‘‘ کے عنوان سے منعقدہ تربیتی نشستوں سے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے خطابات

منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں ’’آدابِ صحبت اور اصلاحِ احوال‘‘ کے عنوان سے منعقدہ خصوصی تربیتی نشستوں سے خطابات کیے۔ ان نشستوں کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے چیئرمین سپریم کونسل نے کہا کہ اس سلسلہ وار گفتگو میں ہم اس موضوع کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں سلوک، تصوف اور اصلاحِ احوال اور صحبت کے آداب کو سیکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ جب ہم 10 دن کے بعد یہاں سے جائیں تو یہ کلمات ہمارے باطن میں سرایت کرچکے ہوں اور ہمارے قلوب و اذہان کی وادی میں داخل ہوچکے ہوں اور ان کے سبب وہاں ایسا نور بن جائے کہ وہ نور ہمارے ظاہر کو بھی منور کردے اور باطن کو بھی اجلا کردے۔ اس سلسلہ وار گفتگو میں ہم چند کتب کا مطالعہ کریں گے، جن میں امام ابی عبدالرحمن السلمیؒ کی کتب؛ آداب الصحبۃ، طبقات الصوفیہ، جامع آداب الصوفیہ، عیوب النفس، کتاب الوصیۃ، مناہج العارفین شامل ہوگی۔ علاوہ ازیں امام غزالی کی کتاب ایھا الولد بھی زیر مطالعہ رہے گی۔

صحبت کیا ہے؟ آداب اور اخلاق کیا ہیں؟ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امام سلمی فرماتے ہیں کہ اگر دنیا میں کامیاب ہونا ہے اور دنیا کے خطرات اور آلائش سے محفوظ رہنا ہے تو کسی اہل اللہ کی صحبت اختیار کرلو اور اگر اہل اللہ میں سے کوئی مل جائے تو اُن کی صحبت میں بیٹھنے کی عادت بنالو۔ آنا جانا اور بات ہے مگر کسی کا ہوجانا اور ہے۔ عادت کا مطلب ہے کہ جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہوجائے۔ جب عادت بن جائے گی تو بری عادات ختم ہوجائیں گی۔

فلاح کے حصول کے لیے دوسرا کام یہ کر کہ شرپسند لوگوں کی صحبت سے محفوظ رہاکر۔ یعنی نیک کام کرنے، اخیار و ابرار کی صحبت اپنانے کے ساتھ بری صحبت سے پرہیز بھی کرنا ہوگا۔ جس طرح ڈاکٹر کی بتائی گئی ادویات اس وقت اثرات مرتب کریں گی جب اس کے بتائے ہوئے پرہیز کو بھی اختیار کیا جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جو بندہ جس قوم سے مشابہت رکھتا ہے، وہ ان ہی میں سے ہوجاتا ہے۔ گویا اب بندے پر منحصر ہے کہ اگر وہ اللہ کے فقیروں، محبوبوں اور مقربان الہٰی کی مشابہت رکھے گا، ان کی صحبت اختیار کرے گا، ان جیسے اعمال کرے گاتو ان میں اٹھایا جائے گا اور اگر اللہ کے نافرمان بندوں کی مشابہت اختیار کرے گا، ان جیسے اعمال کرے گا تو ان ہی میں اٹھایا جائے گا۔

امام سلمی نے ایک اور حدیث مبارک بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اے بندے تو مومن کے سواء کسی کی صحبت اختیار نہ کر اور متقی کے علاوہ کوئی تیرا کھانا نہ کھائے۔ ‘‘اس لیے کہ الرجل علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل۔ ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس دیکھ کہ تیرا دوست کون ہے۔ ‘‘

متقی کے علاوہ کسی کو کھانا نہ کھلانے کا مطلب ہے کہ انسان اسی کو کھانے پر بلاتا ہے جس کے ساتھ اس کا یارانہ ہوتا ہے، جس سے وہ بے تکلف ہوتا ہے، جس سے اپنے دل کا حال بیان کرسکتا ہے۔ اگر وہ اللہ والا ہوا تو تیرے باطن اور روح کو دنیا کی غلاظت سے بچالے گا اور اگر وہ دنیا دار اور اللہ کا نافرمان ہوا تو اس کی صحبت کا ایک لمحہ بھی تیرے تمام نامہ اعمال کو تباہ کردے گا۔

  • ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے دوران اعتکاف اس عنوان کے تحت پانچ منفرد موضوعات پر خطابات کیے۔ یہ خطابات تحریک کے جملہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔

5۔ ’’سبل العشاق (عشاق کے راستے) ‘‘کے عنوان سے منعقدہ تربیتی نشستوں سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے خطابات

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے شہرِ اعتکاف میں ’’سبل العشاق (عشاق کے راستے)‘‘ کے عنوان سے منعقدہ تربیتی نشستوں سے خطابات کیے۔ ان تربیتی نشستوں کے لیے ’’سبل العشاق‘‘ کے عنوان کو منتخب کرنے کا سبب اور ان نشستوں کی غرض و غایت سے آگاہ کرتے ہوئے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ ہر دور میں فتنے اپنے عروج پر رہے ہیں اور ہر دور میں ایمان کی حفاظت کا ذریعہ اہل اللہ اور صوفیاء ہوتے جن کی صحبتوں میں جاکر لوگ آباد ہوتے اور اپنے ایمان کی حفاظت کا سامان کرتے۔ اگر ہم پورا سال اعمال صالحہ کرتے رہیں تو وہ اعمال ہمارے ایمان میں اضافہ کا موجب تو بنیں گے مگر حفاظت کا موجب نہ بنیں گے۔ اس لیے کہ شیطان کا کوئی بھی سخت حملہ ہمارے ایمان کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ جس امر میں ایمان کی حفاظت ہے، وہ صرف اللہ والوں کی صحبت ہے۔ اللہ والوں کی صحبت میں آکر جب بھی وقت گزاریں گے تو وہی ایمان کی حفاظت کی ضمانت ہے۔

منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام شہر اعتکاف بھی دراصل اسی طرح کا ایک موقع ہے جہاں ہم دین کی سمجھ کے لیے آتے ہیں۔ شہر اعتکاف بھی دراصل اہل اللہ کی صحبت اورمجلس میں آکر بیٹھنا ہے جس میں ہم اپنے ایمان و اسلام کی حفاظت کو یقینی بنانے آتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تعلیماتِ اسلام کے نور سے ہمارے باطن کو روشن کرتے ہیں۔ یہ دس دن حصولِ علم اور تزکیۂ نفس کے ہیں۔ یہ دس دن دراصل ریفریشر کورس ہے جہاں سے ہم علمِ دین سیکھ کر اپنی آئندہ زندگی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق گزارنے کا عہد کرتے ہیں۔

وارثانِ علوم نبوی، اہل اللہ، بزرگانِ دین کی زندگیوں کے اندر ایسے لاتعداد واقعات ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی محبت، اطاعت و خشیتِ الہٰی، خشوع و خضوع، تقویٰ و ورع پر مبنی ہیں۔ قرآن مجید کے اندر انبیاء کرام اور اہل اللہ کے واقعات کے بیان کا مقصد ہمیں ان پاک طینت لوگوں کےساتھ جوڑنا ہے اور ان کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی کو بسر کرنا ہے۔ اعتکاف کے دنوں میں سُبُل العشاق کے ٹائٹل کے تحت دراصل ان پاکیزہ نفوس کے واقعات سے اپنے لیے ہدایت کی روشنی حاصل کرنا ہے۔ ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد متحرک ہونا، آمادہ منزل ہونا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رغبت و شوق کو بڑھانا ہے۔ یہ واقعات ہمارے قلب و روح پر ایک خاص قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ واقعات اور ان واقعات کے اندر پیدا ہونے والی کیفیات ہمارے باطن میں پائے جانے والے نیکی کے جوہر کو متحرک کرتی ہے اور ہمیں تقربِ الہٰی کی منزل کی طرف آمادہ کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بزرگوں کے واقعات سن کر ہم ان سے استفادہ کریں اور اپنی زندگیوں کے اندر ان ہی رونقوں کو پھر سے بحال کریں اور ان رتوں کو پھر سے زندہ کردیں۔ اس زمانے نے ہمارے باطن کو خزاں آلودہ کردیا ہے، دنیا داری اور دنیا داری کے افکار اور رغبتوں کا غلبہ ہے۔ ان حالات میں ان بزرگوں کے واقعات سنتے جائیں اور اپنے خیالات کو انہی ادوار میں لے جائیں، قرونِ اولیٰ میں جینا شروع کردیں، جیسے ہم ان کے سامنے ہیں اور ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کہ اس دنیا نے اللہ کے غم اور اس کی محبت کے جذبات کو ختم اور فنا کردیا ہے۔ پھر سے ان ہی تذکروں کو پڑھ کر ان رتوں کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس عنوان کے تحت ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں چھ منفرد موضوعات پر اظہارِ خیال کیا اور صحابہ کرامl، تابعین، تبع تابعین، اسلاف اور ائمہ کے واقعات بیان کرتے ہوئے معتکفین کی علمی و روحانی تربیت کی۔ ان کے خطابات تحریک کے جملہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ملاحظہ کریں۔

6۔ تربیتی حلقہ جات، فقہی نشستیں اورمحافلِ قرأت و نعت کا انعقاد

  • شہرِ اعتکاف میں حسبِ معمول معتکفین کی علمی و روحانی تربیت کے لیے باقاعدہ علمی اور تربیتی و تدریسی حلقہ جات کا انعقاد کیا گیا۔ تربیتی حلقہ جات میں نظامتِ تربیت اور نظامتِ دعوت کے اسکالرز و معلمین نے قرآنیات، فقہ اور قرأت و تجوید کے موضوعات پر لیکچرز دیئے اور تجوید، عربی گرائمر اور بنیادی فقہی مسائل بارے آگاہی دی۔ علاوہ ازیں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام قائم ہونے والے 25 ہزار مراکزِ علم میں پڑھائے جانے والے نصاب کے لیے معلمین کی ٹریننگ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ان حلقہ جات کے لیے نظامتِ تربیت اور شعبہ کورسز کی طرف سے معکتفین کی علمی و فکری تربیت کا ساماں کیا جاتا رہا۔
  • شہرِ اعتکاف میں مفتی اعظم منہاج القرآن محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی کی فقہی نشستیں حسبِ سابق روزانہ منعقد ہوئیں۔ جس میں معتکفین کی طرف سے پوچھے گئے فقہی سوالات کے جواب محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے ارشاد فرمائے۔
  • شہر اعتکاف میں امسال بھی تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام اور شیڈول کے مطابق ہر رات محافلِ قرأت و نعت کا اہتمام کیا گیا۔ اِن محافل میں ملک کے نامور قراء حضرات نے تلاوتِ قرآن کی سعادت حاصل کی اور معروف ثناء خوانان نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ اِن محافل میں نقابت کے فرائض صفدر علی محسن، تسلیم احمد صابری، محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی اور نظامتِ دعوت و تربیت کے ناظمین نے سرانجام دیئے۔

7۔ تحریک کے مختلف فورمز اور نظامتوں کے زیر اہتمام تربیتی نشستوں کا انعقاد

شہر اعتکاف میں تحریک منہاج القرآن کے ذیلی فورمز اور نظامتوں نے بھی اپنے اپنے فورم، نظامت اور شعبہ سے متعلقہ احباب کی تربیت کے لیے علمی و فکری نشستوں کا اہتمام کیا۔ اس ضمن میں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن یوتھ لیگ، شعبہ فہم دین کے زیراہتمام شہراعتکاف میں متعدد نشستوں کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور اور جملہ نائب ناظمین اعلیٰ، صدر یوتھ، صدر MSM اور دیگر مرکزی قائدین نے متعدد موضوعات پر لیکچرز دیئے۔

  • علاوہ ازیں منہاج القرآن کے تعلیمی و تربیتی اداروں اور مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کے حوالے سے بھی معتکفین کو بریفنگز دی گئیں کہ کس طرح یہ مرکزی شعبہ جات اور تعلیمی ادارہ جات معاشرے میں توازن و اعتدال کو فروغ دینے اور قرآن مجید، احادیث نبویہ اور سیرتِ مصطفی ﷺ کے نور کو عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

8۔ شہر اعتکاف میں خواتین اور بچوں کے لیے اعتکاف کا خصوصی اہتمام

  • حسبِ سابق ہزاروں خواتین بھی امسال شہر اعتکاف کا حصہ تھیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کی اسکالرز کے زیرِ نگرانی ان خواتین کے لیے تربیتی حلقہ جات بھی منعقدہوئے۔ ان تربیتی حلقہ جات میں قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کے بنیادی اصول، عملی مشق کے ذریعے نماز پڑھنے کا طریقہ، بنیادی فقہی مسائل، روزمرہ معاملات کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات اور حقوق العباد کے موضوع پر تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ صدر منہاج القرآن ویمن لیگ انٹرنیشنل محترمہ ڈاکٹر غزالہ حسن قادری، محترمہ فضہ حسین قادری، محترمہ فرح ناز، محترمہ سدرہ کرامت اور منہاج القرآن ویمن لیگ کی مرکزی ٹیم کی عہدیداران مختلف تربیتی نشستوں کے ذریعے معتکفات کی علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت میں مصروف عمل رہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن ویمن لیگ کی جملہ عہدیداران اور اعتکاف میں شریک ہزارہا خواتین کو خصوصی مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا کہ آج کے نامساعد حالات کے باوجود خواتین کا اس قدر کثیر تعداد میں اعتکاف کرنا ان کی دین اسلام سے محبت و وابستگی کا اظہار ہے۔
  • امسال بھی منہاج القرآن ویمن لیگ کے ذیلی فورم ایگرز کے زیر اہتمام کڈز اعتکاف کا الگ سے اہتمام کیا گیا جس میں سیکڑوں بچوں اور بچیوں نے خصوصی شرکت کی۔ کڈز اعتکاف بچوں کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کا ایک جامع پروگرام ہے۔ جس میں 7 سال سے لے کر 10 سال کی عمر تک کے بچے شریک ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کے انداز، فرض و مسنون عبادتیں، آداب اور سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں سیرت و اخلاق سنوارنے کے متعلق تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف میں سیکڑوں بچوں کی شرکت پر منہاج القرآن ویمن لیگ، ایگرز اور ان بچوں کے والدین کو خصوصی مبارکباد دی جو اپنے بچوں کے ایمان کو محفوظ بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔

9۔ جملہ طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا شہرِ اعتکاف کا دورہ

زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد میں سے کثیر افراد نے ہر روز شہر اعتکاف کا دورہ کیا۔ ان میں علماء، مشائخ، سیاستدان، وکلاء، صحافی حضرات، اساتذہ اور طلبہ نمایاں ہیں۔ بالخصوص علماء و مشائخ کی ایک کثیر تعداد محترم علامہ امداداللہ قادری، محترم علامہ میر آصف اکبر اور منہاج القرآن علماء کونسل کی دعوت پر شیخ الاسلام کے خطابات کو سننے کے لیے خصوصی طورپر تشریف لاتی رہی۔

10۔ سالانہ عالمی روحانی اجتماع 2023ء

تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 27 ویں شب رمضان، لیلۃ القدر کا عالمی روحانی اجتماع جامع المنہاج بغداد ٹاؤن لاہور میں منعقد ہوا۔ روحانی اجتماع کی تقریب شہر اعتکاف سے منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کی گئی۔ شہر اعتکاف میں جملہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد بالخصوص علماء و مشائخ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں ہزاروں معتکفین و معتکفات اور ملک بھر سے عشاقان مصطفیٰ کی بڑی تعداد بھی عالمی روحانی اجتماع میں شریک تھی۔ چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور، نائب صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، جملہ مرکزی نائب ناظمین اعلیٰ، ناظمین، سربراہان فورمز و شعبہ جات اور رفقاء و کارکنان تحریک بھی اجتماع میں شریک تھے۔ قراء حضرات نے تلاوتِ قرآن اور نعت خوانان نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ سالانہ عالمی روحانی اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’دعا‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب ارشاد فرمایا۔ (اس خطاب کا خلاصہ رپورٹ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)

11۔ اعتکاف کے موقع پر شائع ہونے والی نئی کتب

امسال عالمی روحانی اجتماع کے موقع پر تعلیم و تربیت اور اصلاحِ احوال کے باب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری،ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی نئی کتب زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظرِ عام پر آئیں۔ علاوہ ازیں حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کا ’’سفرنامہ‘‘ اور شیخ حماد مصطفی المدنی کی زیرِ ادارت سہ ماہی انگلش میگزین (online) بھی منصۂ شہود پر آیا۔ ڈائریکٹر فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ محمد فاروق رانانے اس موقع پر درج ذیل کتب کا تفصیلی تعارف پیش کیا:

(1) اَلنَّهْضَة (Renaissance): نشأۃ ثانیہ

  • شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے بطور ایڈیٹر انچیف النهضة میگزین کا اجرا کیا ہے جس کا پہلا شمارہ اِسی ماہِ رمضان المبارک میں online شائع ہوا ہے۔ منہاج القرآن کی تاریخ میں انگریزی زبان میں شائع ہونے والا یہ پہلا بین الاقوامی معیار کا سہ ماہی تحقیقی میگزین ہے۔

(2) اَلْاِکْتِمَال فِی نْشْأَةِ عِلْمِ الْحَدِیْثِ وَطَبَقَاتِ الرِّجَال

  • یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اصول الحدیث پر عربی زبان میں مرتب کردہ سلسلۂ کتب میں سے ایک منفرد کتاب ہے۔

(3) تصوف اور لزومِ قرآن و سنت

(4)حسنِ اَدب

(5) یزید کے کُفر اور اُس پر لعنت کا مسئلہ (جدید اضافہ شدہ ایڈیشن)

(6) سلسلہ تعلیماتِ اِسلام: (17) حقیقتِ بدعت (اِزالۂ اِشکالات)

7. The Principle of Change in Islamic Law by Huzoor Shaykh-ul-Islam

(8) الروض الباسم من خلق النبي القاسم

  • شیخ الاسلام کی کتاب حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کے حسین تذکرہ پر تین جلدوں پر مشتمل ہے۔
  • (9) سفر نامہ حضرت فریدِ ملتؒ

  • حضرت فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کے اسفار ميں سے ایک اہم سفر نامہ جو آپ نے ایران، عراق، ترکی اور شام کے اہم مقامات کی زیارت کے لیے کیا۔ اس میں حضرت فرید ملتؒ کا تفصیلی تعارف اور اس موضوع پر جامع مقدمہ بھی شامل ہے۔
  • (10) سوشل میڈیا اور ہماری زندگی (فوائد و نقصانات) اَز ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

    (11) اِستحکامِ جماعت اور فکری وحدت اَز ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

    (12) اَسرارِ قرآن (رُشد و ہدایت کا اُلوہی نصاب) اَز پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

    (13) غصہ اور ڈپریشن (اِسلام اور جدید اَفکار کے تناظر میں) اَز پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

    (14) نصاب برائے مراکزِ علم (پہلا سمسٹر)

  • یہ آئندہ پانچ سالوں میں تحریک کے زیر اہتمام ملک بھر میں 25 ہزار مراکز علم کے لیے پہلے سمسٹر کا نصاب ہے۔
  • خطابات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

    شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’زوال پذیر معاشرتی اقدار اور قرآنی احکامات کے موضوع پر جو خطابات ارشاد فرمائے، ان خطابات کے خلاصہ جات نذرِ قارئین ہیں:

    1۔ پہلا خطاب: موضوع: باب مدینۃ العلم اور علم و حکمت

    21 رمضان المبارک حضرت سیدنا علی المرتضیٰg کے یوم شہادت کی مناسبت سے آج ہم علم و حکمت کی اہمیت و فضیلت کو ان کے اقوال کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ تحریک منہاج القرآن کے اہداف میں علم کو زندہ کرنا، پھیلانا اور علم کے کلچر کو زندہ کرنا اور ہر شخص کو علم کے ساتھ جوڑنا بنیادی ہدف ہے۔ اگر ہم اس پر فوکس نہیں کرتے تو گویا ہم نے تحریک کے مقصد کو نہیں سمجھا۔ علم نور ہے،نور کے بغیر زندگی اور ماحول ظلمت ہوتی ہے۔ ہماری زندگی کی الجھنوں کی وجہ علم کی کمی، فقدان اور جہالت ہے۔ زندگی لوگوں کے ساتھ رویوں، افکار، نظریات، خیالات سے عبارت ہے اور یہ سب علم سے جنم لیتا ہے۔ علم نہیں تو فکر و نظریہ نہیں اور فکر ونظریہ نہیں تو زندگی کا مقصد نہیں اور مقصد نہیں تو کوئی رویہ قابلِ تعریف نہیں۔

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.

    (الزمر،39:9)

    ’’ کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔ ‘‘

    اللہ سب کو برابر دیکھتا ہے مگر یہ برابری ربوبیت میں ہے، اس کے علاوہ بہت سے اسباب ہیں جو فضل کی وجہ سے ملتے ہیں، ان اسباب میں سے ایک فضیلت علم ہے۔ علم سے معمور زندگی اور علم سے محروم زندگی برابر نہیں ہوسکتی۔ جن کو جتنا درجہ علم میں بڑا دیا، انھیں اتنی زیادہ فضیلت دی۔

    حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

    انا مدینة العلم وعلی بابھا.

    ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہے۔ ‘‘

    حضور ﷺ نے اپنے اس فرمان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے شہر علم کا دروازہ قرار دیا ہے اور واضح فرمادیا کہ جو میرے شہر تک آنا چاہے وہ علی کے علم کی طرف آئے۔

    حضور نبی اکرم ﷺ کے علم کے فیض اتم حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، اس لیے آپ بھی حضور ﷺ کے کلمات سَلُوْنِیْ عَما شِئْتُم کے کلمات ارشاد فرماتے کہ مجھ سے پوچھ لو جو کچھ تم پوچھنا چاہتے ہو۔ حضور ﷺ کی امت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد کسی نے یہ جملہ نہیں بولا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (مجھ سے پوچھ لو، قبل اس کے کہ مجھے تم نہ پاؤ۔ مجھ سے آسمان کے راستوں،کناروں، گزر گاہوں کا پوچھ لو۔ میں زمین کے راستوں سے زیادہ آسمانی گزرگاہوں کو جانتا ہوں۔ ‘‘ یہ اشارہ اخروی علم کی طرف تھا کہ مجھے اس کثرت سے اخروی علم ملا ہے۔ ( اس موضوع کی مزید تفصیل کے لیے میری کتاب القول القیم فی باب مدینۃ العلم سے پڑھ لیں۔ )

  • حضور ﷺ کو اللہ نے جوامع الکلم کا معجزہ عطا فرمایا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کے جوامع الکلم کا فیض امت میں سب سے بڑھ کرملا۔ اس کے چند نمونے ملاحطہ ہوں۔ اس سے ہمیں اپنے اعمال و احوال کی اصلاح کا سبق اور ہدایت و نصیحت ملے گی۔ فرمایا:
  • علم ایک ایسا وجود ہے کہ جس کا سر تواضع وانکساری ہے۔ یعنی صاحبِ علم کو متواضع و منکسر المزاج ہونا چاہیے جس میں تواضع نہیں اس کا علم سرکٹا ہے۔ علم بڑائی اور تکبر نکال دیتا ہے۔ علم کی توقیر طرزِ تکلم، لب و لہجہ ، لباس، باڈی لینگوئج میں نظر آنی چاہیے۔ اسلاف علم پہنچاتے تو ادب کو ملحوظ رکھتے۔ آج ہم مجالس علم میں ادب سے محروم ہیں۔ علم، تواضع، تعظیم و تکریم، وضع داری دیتا ہے۔ اگر اٹھنے بیٹھنے اور کلام میں وضع داری نہیں ہے تو وہ علم دوسروں کو فائدہ نہیں دیتا۔ اس لیے کہ جو علم ، درس دینے والے کو نہ بدل سکا، اس نے سننے والوں کو کہاں بدلنا ہے۔

    فرمایا: علم کی آنکھ، حسد سے پاک ہونا ہے۔ یعنی اگر عالم ہوکر دوسروں سے حسد کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ نابینا ہے۔ فرمایا: علم کا کان؛ فہم و فراست ہے۔ علم کی زبان؛ صدق و صداقت ہے۔ علم کا دل؛ نیت کا نیک ہونا ہے۔ علم کی عقل؛ معرفت ہے۔ علم کے ہاتھ؛ رحمت وشفقت ہیں یعنی صاحبِ علم پیکر رحمت و شفقت ہوتا ہے۔ علم کے پاؤں؛ علماء کی زیارت ہیں۔ یعنی اہل علم، صالحین کی زیارت کے لیے سفر کرتے ہیں۔

    فرمایا: علم کی اہمیت؛ سلامتی و عافیت ہے۔ علم کی حکمت؛ پرہیزگاری ہے۔ علم کا ٹھکانہ؛ نجات ہے۔ یعنی دنیا میں ذلت سے نجات اور آخرت میں عذاب سے نجات ہے۔ علم کی سواری؛ وقار و تمکنت ہے۔ یعنی علم وقار دیتا ہے اور ذلت سے نکال دیتا ہے۔ فرمایا: جو علم صرف زبان پر رہے، وہ بے قدر ہوتا ہے۔ علم وہ ہے جو انسان کے اعضاء و جوارح سے بولے اور علم سے انسان کی سیرت و کردار بدل جائے۔

    2۔ دوسرا خطاب: موضوع: ’’والدین کے حقوق اور واجبات‘‘ (قرآن مجید کی روشنی میں)

    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً....

    (بنی اسرائیل،17: 23۔ 25)

    اس آیت میں اللہ کے حکمِ توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے ساتھ احسن اور بھلائی کا رویہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ وہ لوگ جو معاشرے پر اثرات رکھتے ہیں اور چھوٹوں کی تربیت کرنا جن کی ذمہ داری ہوتی ہے، والدین ان تمام طبقات میں سب سے بلند و بالا ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش سے قبل سے لے کر بچے کی جوانی تک والدین کا ہر لمحہ بچے کے لیے احسان ہوتا ہے۔ والدین سے بڑھ کر بچوں پر کوئی احسان کرنے والا نہیں۔ اس لیے اللہ نے والدین کے ساتھ بچوں کو بھی احسان کا حکم دیا۔ افسوس ہمارا معاشرہ بداخلاق لوگوں کا ہجوم بن گیا ہے اور یہ عمل ختم ہوگیا۔ ماڈرن ٹیکنالوجی نے شرم و حیاء اور تمام اقدار ختم کردی ہیں جبکہ والدین کے ساتھ بولنے،اٹھنے بیٹھنے، چلنے میں بھی ادب کا حکم ہے۔ والدین منبع و سرچشمہ ہیں جن سے احسان، بھلائی، ادب و تکریم کا کلچر جنم لیتا ہے۔ جو اولاد والدین کے ساتھ عزت و تکریم اور احسان کا رویہ نہیں رکھتی، وہ کسی سے احسان نہیں کرتی۔ جس معاشرے میں والدین کے ساتھ احسان نہیں ہے، اس معاشرے میں احسان و بھلائی کا کلچر ختم ہوجاتا ہے۔

    مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے توحید و عبادت کے فوری بعد والدین کے ساتھ احسان و سلوک کا حکم دیا۔ یہاں دو چیزیں توجہ طلب ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی دعوت اور شرک نہ کرنے کا ذکر کرکے فوری طور پر وبالوالدین احسانا فرمایا اور درمیان میں فاصلہ نہیں آنے دیا۔ یعنی خالقیت و ربوبیت کے ساتھ ظہور کے مرتبہ میں والدین کے حق والدیت کو جوڑ دیا۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ میری عبادت کا استمرار و تسلسل والدین کےساتھ حسنِ سلوک کرنا ہے۔ جو والدین کا نافرمان ہے، وہ اللہ کا عبادت گزار نہیں کہلاسکتا۔ خواہ وہ جو کچھ مرضی نیک اعمال کرتا پھرے۔ جس طرح اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمام نعمتیں عطا فرمائیں، وہ خالق و مالک ہے اور جس طرح اس کے رب ہونے میں کوئی اس کے مساوی نہیں، اسی طرح والدین کے ساتھ کوئی مساوی نہیں۔ آیت میں احسانا حال کے طور پر بیان ہوا ہے۔ یہاں واحسنوا بالوالدین (والدین کے ساتھ احسان کرو) نہیں فرمایا بلکہ فرمایا: والدین کےساتھ اس طرح ہوجاؤ کہ سراپا احسان و سلوک ہوجاؤ۔ والدین کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ سلوک کرتے کرتے پیکرِ احسان ہوجاؤ۔

    اللہ تعالیٰ نے بالوالدین احسانا فرمایا ہے، الی الوالدین احسانا نہیں فرمایا۔ الی آجاتا تو احسان کرنے والے اور جس پر احسان کررہے ہیں، اس میں فاصلہ آجاتا ہے جبکہ باء میں وصل ہوجاتا ہے کہ احسان میں فرق اور فاصلہ نہ آئے۔ اگر احسان ساتھ جڑا رہے اور کبھی جدا ہی نہ ہو تو باء آتا ہے اور اگر کبھی احسان ہو اور کبھی نہ ہو تو الیٰ آتا ہے۔ قرآن مجید کے بقیہ تمام مقامات پر جہاں بھی احسان آیا ہے، وہ الیٰ کے ساتھ آیا ہے۔ اس سے واضح کرنا مقصود یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا رویہ ہمیشہ جڑا رہے۔

    دوسری طرف والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کو ان کے بچپن میں باادب اور نیک بنانے کی طرف توجہ دیں۔ اب اگر اولاد کو اس قابل بنایا ہوگا، تب ہی وہ والدین کے لیے آخرت میں ذریعہ نجات ہوگی۔

    • اس موقع پر شیخ الاسلام نے مذکورہ آیت کے تحت کئی تفسیری نکات بیان فرمائے۔ اس موضوع پر خطاب کے دوران شیخ الاسلام نے تمام معتکفین و معتکفات کو والدین کی عزت و احترام کے لیے علامتی طور پر کھڑا کیا اور ان سے وعدہ لیا کہ وہ والدین کی نافرمانی نہیں کریں گے۔

    3۔ تیسرا خطاب: موضوع: والدین کے حقوق و واجبات (احادیث نبویہ کی روشنی میں)

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰهُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.

    (الاحقاف،46: 15)

    اوزعنی کا معنی الھمنی ہے کہ مجھے اس امر کا فہم اور توفیق دے کہ میں اس امر کی اہمیت سمجھوں اور اس پر عمل کروں۔ اس آیت میں اعمال صالحہ کی دعا سے پہلے والدین کے لیے دعا ہے اور بعد میں اپنی اولاد کے لیے دعا ہے۔ دونوں کے درمیان اعمال صالحہ کا ذکر ہے۔ مراد یہ ہے کہ میری نیکی کو دیکھ کر میری اولاد نیک ہوجائے۔ جو والدین چاہیں کہ ان کی اولاد نیک بنے تو وہ خود نیک بنیں۔ ان کی سیرت اولاد کے اندر آئینہ بن کر ظاہر ہوگی۔ جس اولاد نے عمر بھر گھر میں برے اخلاق دیکھے، ان سے اچھے اعمال و اچھے اخلاق کی توقع کیسے کرسکتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے دل و دماغ پر اچھے نقوش چھوڑیں۔ ہم بچوں کے بچپن کو لاڈ پیار میں ضائع کرتے ہیں اور نسلیں تباہ کردیتے ہیں۔ آیت مبارکہ میں وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ’’میرے لیے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ ‘‘ کے چارمعانی ہیں:

    1. میرے والدین میرے لیے جس طرح تھے، مجھے اپنی اولاد کے لیے بھی اس طرح کا بنادے۔
    2. جس طرح میر ادل اپنی اولاد کے لیے تڑپتا ہے، اسی طرح ان کو بھی ہمارے لیے محبت کرنے والا بنادے۔
    3. میری اولاد کو میرے لیے اسی طرح احسان کرنےو الا بنادے جس طرح میں اپنے والدین کے لیے ہوں۔
    4. مجھے اپنی اولاد کی تربیت کی اسی طرح کی توفیق دے جس طرح میرے والدین نے میری تربیت کی۔

    ہم پر واجب ہے کہ جس طرح ہمارے ولدین نے ہمارے لیے کیا، اسی طرح ہم بھی اپنی اولاد کو نیک سیرت و اخلاق منتقل کریں۔ والدین کے ساتھ بدسلوکی کی سزا اسی دنیا میں اللہ دیتا ہے۔ بقیہ ہر عمل کی سزا قیامت کے دن تک موخر ہوسکتی ہے۔ مگر نافرمانی والدین کی سزا موخر نہیں ہوتی۔

    حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے فرامین کے ذریعے والدین سے حسنِ سلوک کی تلقین کی۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا: ای العمل احب الی اللہ؟ اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا: والدین کےساتھ نیکی کرنا۔ عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا درجہ جہاد سے بھی پہلے رکھا۔

    ’’ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمھارے والدین زندہ ہیں؟ عرض کیا: جی ہاں فرمایا: جاؤ، ان کی خدمت کرو، یہی جہاد ہے۔ ‘‘ اندازہ کریں وہ زمانہ جہاد کا تھا۔ جہاد کا ماحول تھا، ہر ایک پر لازمی تھا کہ وہ جہاد کرے۔ مگر آپ ﷺ اسے والدین کی خدمت کی تلقین کررہے ہیں۔

    اندازہ لگائیں کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں اور ہمیں کیا سکھایا جارہا ہے۔ ہمیں رسمیات، عملیات، فسادات کا دین سکھایا گیا ہے۔ اس سے ہمارے اندر گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ اس سے ہم دین کی ترجیحات کو نہیں جانتے۔ ہمارے اندر وسعت نہیں ہوتی۔ یہ اعتکاف گاہ عبادت اور دین کے صحیح تصور اور تعلیمات کے حصول کے لیے ہے۔ کئی لوگ گھر میں والدین کی خدمت نہیں کرتے، ان کی نافرمانی کرتے ہیں مگر باہر نیکیاں کررہے ہیں۔ یہ سارے اعمال رائیگاں جائیں گے۔ جس نے والدین کو دکھ پہنچایا اور باہر نیکی کی تو اس نے سب سے بڑے واجب کو ترک کیا۔ اسے کوئی نیکی کیسے بچائے گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے باپ دادا کی تعظیم کرو، تمہاری اولادیں تمہاری تعظیم کریں گی۔ تم دوسروں کی عورتوں کی عزت کو محفوظ کرو، اللہ تمہارے گھر کی عورتوں کی حفاظت کرے گا۔ ‘‘

    جس معاشرے میں آداب و اخلاق نہ ہوں، وہ معاشرہ جانوروں کا معاشرہ ہے۔ والدین کی نافرمانی بڑے گناہوں میں سے بڑا گناہ ہے۔ نافرمان اولاد مرنے سے قبل اپنے والدین کی نافرمانی کی سزا دنیا میں دیکھ لے گی اور اس کی اولاد اس کو وہ سزا دے گی جو وہ اپنے والدین کے ساتھ سلوک کرتارہا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر روز اپنے والدین کی خیریت پوچھتا ہے، اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں۔ حضرت ابوامامہؓ نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ والدین کا حق کیا ہے؟ فرمایا: والدین؛ اولاد کی جنت اور دوزخ ہوتے ہیں۔ اولاد؛ والدین کے ذریعے جو بھی دروازہ کھولنا چاہے، ان سے حسن سلوک اور عدم حسن سلوک سے کھول سکتا ہے۔ ‘‘ اگر والدین کے ساتھ رویہ سنور جائے تو بقیہ معاشرتی رویوں، رشتوں اور قدروں کو سنوارنا آسان ہوجاتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک معاشرہ کی خیر اور بھلائی کی بنیاد ہے۔

  • اس موقع پر شیخ الاسلام نے والدہ اور والد دونوں کے الگ الگ حقوق بھی تفصیلاً ذکر فرمائے۔
  • 4۔ چوتھا خطاب: موضوع: رویۂ احسان (ہر ایک سے بھلائی)

    جب اسلامی احکامات نازل ہوئے تو اہلِ ایمان کو فکر مندی لاحق ہوگئی کہ ماضی میں جو اعمال کیے، ان کا کیا بنے گا؟ تحویل قبلہ سے قبل 15ماہ مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی، تحویل قبلہ کے بعدکئی لوگوں کو پچھلے 15 ماہ کے بارے میں فکری مندی ہوگئی۔ ان کی اس فکر مندی پر اللہ نے حکم دیا کہ اللہ تمھارے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔ قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی حکم نازل ہوتا ہے، اسی وقت سے وہ امر ونہی اور شریعت کا اصول بنتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو اس طرح کی فکر مندی اور تشویش ہوتی ہے تو یہ بذاتِ خود ایمان ہے۔ اگر انسان گناہ، ظلم اور زیادتی کرے اور اسکی پرواہ بھی نہ ہو کہ میں یہ کیا کررہا ہوں تو اس کو مردہ ضمیر کہتے ہیں۔ جبکہ فکر مندی اور تشویش ہونا ایمان ہے۔

    قرآن مجید کی سورۃ المائدہ کی آیت 93 میں یکے بعد دیگرے ایمان، عمل صالح اور تقویٰ کا ذکر چار مرتبہ کیا گیا ہے۔ اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ ایمان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ ایمان ہمیشہ ترقی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح عمل صالح بھی ترقی کرتا ہے۔ ہر شخص سے اس کے ایمان کے مطابق عمل درکار ہے۔ یہ نہیں کہ ہر ایک سے ایک ہی طرح کا عملِ صالح درکار ہے بلکہ جس کا درجۂ ایمان جس قدر مضبوط ہے، عملِ صالح بھی اس سے اسی قدرمضبوط درکار ہے۔ ایمان، تقویٰ اور عملِ صالح آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو انسان کو روحانی ترقی دیتے ہیں۔ جوں جوں ایمان بلند ہوتا چلا جاتا ہے، توں توں تقویٰ اور عملِ صالح بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مومن؛ ایمان، تقویٰ اور عملِ صالح کے باب میں ایک جگہ نہیں رکتا۔ اگرنیکی کی اور اس جگہ رک گئی اور انسان کو اسے اونچا کرنے کی فکر نہ ہو تو پھر نیکی، نیکی نہیں رہتی۔ سورۃ المائدہ کی آیت 93 میں ایمان، تقویٰ اور عمل صالح کو چار مرتبہ بیان کرنے کے بعد فرمایا واحسنوا اور احسان کیا کرو۔ گویا ایمان، تقویٰ اور عمل صالح جب ترقی کرکے اپنے آخری مرتبہ کو پہنچیں تو اس کو احسان کہتے ہیں۔ جب بندہ پیکرِ احسان ہوجائے تو وہ بھلائی کا چشمہ بن جاتا ہے۔ اس کا ہر عمل اور سوچ بھلائی پر مبنی ہوتی ہے یعنی اس کے زبان، ہاتھ اور سوچ سے شر ہو ہی نہیں سکتا۔

    آج کا پیغام سراپا بھلائی بننے کے لیے کوشش کرنا ہے۔ سراپا احسان ہونے کی مثال اسی طرح ہے کہ جیسے چراغ سے کبھی اندھیرا نکل ہی نہیں سکتا۔ پس انسان مانند چراغ بن جائے۔ بلب اور چراغ کی جہات ہیں، اسی طرح انسان کی بھی جہات ہیں۔ ایک جہت سوچ ہے کہ سوچ میں بھی برائی نہیں آسکتی۔ ایک جہت زبان ہے کہ اس کی زبان سے بھی برائی نکل نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللهَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللهُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا.

    (الاحزاب:35)

    ہم مراسم کے دین پر عمل پیرا ہیں جبکہ اللہ نے اس آیت میں جو ترتیب بیان کی اس سے ترجیحات کا تعین ہوگیا۔ اللہ نے ذکر کو آخر میں بیان کیا جبکہ ہم الٹ ہوگئے ہیں کہ ہم پہلے ذکر کرتے ہیں اور اس سے پہلے مذکور چیزوں؛ اسلام، ایمان، فرمانبرداری، صدق، صبر، عاجزی، صدقہ و خیرات اور عزت و عصمت کی حفاظت پر عمل نہیں کرتے۔ اس ترتیب نے اعلان کردیا کہ مذکورہ چیزوں کو اپنانے والے جب ذکر کرتے ہیں تو ان کا ذکر اپنی مثال آپ ہوتا ہے اور پھر اس کو دیکھنے سے ہی اللہ یاد آجاتا ہے۔ اس کے وجود میں سے اللہ کی یاد پھوٹتی ہے۔ ان مذکورہ تمام چیزوں کا مجموعہ احسان ہے۔ اس ترتیب کے مطابق ان چیزوں کو اپنانے والا پیکر احسان و بھلائی ہوجاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

    وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ.

    (فصلت،41: 34)

    ’’ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو۔ ‘‘

    اس آیت میں بھی اسی تصورِ احسان کو واضح کیا گیا کہ برائی اور بھلائی برابر نہیں ہوسکتے۔ ہم بھلائی اور برائی کے mixture ہیں۔ وہ برائی و بدی جو ہمارے مزاج سے نکلتی ہے، ہم اس کو بدی و برائی سمجھتے ہی نہیں۔ ہم نے صرف رسمی عبادات کو نیکی کا نام دے رکھا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب بھی کوئی دوسرا ہم سے برائی کرے تو اس کو اچھی طریقے سے دور کریں۔

    ہمارے عقیدہ و مسلک میں امید کو اتنا غالب کردیا گیا کہ ہم تقویٰ اور نیکی کی اہمیت سے ہی غافل ہوگئے ہیں۔ ہر کوئی جنت کے ٹکٹس بانٹ رہا ہے اور بیڑے پار کررہا ہے۔ ہم اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ عمرہ و حج سے سمجھتے ہیں کہ ہم بخشے گئے۔ اعراس میں چلے گئے تو بخشش ہوگئی۔ رفقا بن گئے تو جنت مل گئی، ایسا نہیں ہوتا۔ دین مذاق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور ﷺ 23 سال صحابہl کی تربیت نہ کرتے بلکہ ایک ہی عمل سے انھیں جنت دے دیتے۔ صحابہ کرامl نے ہر شعبہ میں محنت کی، تب وہ جنت کی طرف گئے۔ جنت کا ملنا ایک مکمل پیکج ہے جبکہ ہم نے موسمی دین اپنا رکھا ہے ۔

  • اس موقع پر شیخ الاسلام نے کئی دیگر آیات کی روشنی میں بھی ’’احسان‘‘ کے مفہوم کو واضح کیا۔
  • 5۔ پانچواں خطاب: موضوع :رویۂ احسان ( ہر ایک سے بھلائی) (دوسرا حصہ)

    اللہ رب العزت نے فرمایا:

    هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ.

    (الرحمن، 55: 60)

    ’’ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘

    اس آیت میں اللہ نے عظیم خوشخبری دی کہ جو لوگ احسان کی روش اپنالیں تو ان کو اس کا بدلہ احسان کی صورت میں ملتا ہے۔ احسان کرنے والوں کو بتایا جارہا ہے کہ جب تم اپنی بساط کے مطابق اپنی زندگی میں احسان کا عمل، رویہ، برتاؤ اپنالو گے تو میں اس کی جزا دینے والا ہوں اور اس کی جزاء یہ ہے کہ میں اپنی شان کے لائق تم پر احسان کروں۔ اللہ نے احسان کے رویہ کو اتنا جامع اور ہمہ گیر بنایا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ اور معاشرے کے تمام افراد اور طبقات حتی کہ اللہ کی جمیع مخلوقات پر اس کا احاطہ ہے۔ یہ امر ذہن میں رہے کہ احسان کسی ایک وقت کا عمل نہیں ہے۔ کسی ایک وقت میں کی گئی نیکی اور بھلائی کا عمل عرفاً احسان ہی کہلاتا ہے لیکن یہ نیکی؛ بھلائی اور اچھائی کے معنی میں ہے لیکن وہ احسان جس کے ذریعے بندہ محسن بنتا ہے، وہ ایک وقت کی نیکی، بھلائی اور اچھائی نہیں ہے بلکہ وہ آدمی کی پوری کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ آدمی ہمہ وقت محسن رہتا ہے، اس کی طبیعت، مزاج، سوچ، کلام، فعل و عمل، اخلاق، برتاؤ میں احسان پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی چشمۂ احسان ہوتی ہے۔ اس کے پورے وجود سے شر صادر ہی نہیں ہوسکتا بلکہ خیر ہی خیر ہر ایک کو ملتی ہے۔

    قرآن مجید میں احسان کے دائروں کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام سورۃ النساء کی آیت 36 ہے۔ جس میں احسان کے درج ذیل چھ دائرے اللہ نے بیان فرمائے:

    1. اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرنا

    2. والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا

    3. اپنے اقارب و رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرنا

    4. تمام محروم و کمزور طبقات کے ساتھ بھلائی

    5. تمام انسانی طبقات یعنی ہر انسان کے ساتھ بھلائی

    6. ہر مخلوق (نباتات، حیوانات) سے بھلائی

    یعنی ہم کسی بھی سطح پر کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتے۔ اگرمومن ہیں تو پھر محسن بننے کے لیے کائناتِ ارضی کے ہر وجود کے ساتھ بھلائی کرنا ہوگا۔ یہ تمام دائرے بیان کرکے فرمایا کہ جو شخص احسان کی طبیعت رکھتا ہے وہ ان طبقات کے لیے محبت، احسان، اخلاق کا پیکر بن جائے گا اور جس کی طبیعت میں احسان نہیں، وہ تکبرکرنے والا، مغرور، لوگوں سے بے نیاز ہے، اپنے اندر محصور ہے، اسے اپنے سوا دنیا میں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

    سب سے پہلا احسان انسان کا اپنی ذات کے ساتھ ہے۔ انسان جب محسن ہوتا ہے تو سب سے پہلے اپنے آپ پر احسان کرنا اس پر واجب ہے۔ جب انسان احسان کو اپنے طرزِ فکر اور کردار و سیرت کے طور پر اپنالیتا ہے تو غربت، پریشانی، بے روزگاری، مہنگائی، فقر، محتاجی کی حالت میں رضا کا پیکر بن جاتا ہے، صبر اختیار کرتا ہے، قناعت، ورع اور پرہیزگاری پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ نتیجتاً اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ یہ طرز عمل دراصل اس کا اپنی جان پر احسان کرنا ہے۔ اس کے برعکس جن کے اندر رضا، صبر، قناعت، ورع نہیں ہے، وہ مشکل حالات میں شور شرابا، گلہ و شکایت کرے گا۔ اس کے اندر سو طرح کی اخلاقی برائیاں آجائیں گی۔ نتیجتاً اللہ کی رحمت و قربت سے محروم ہوجائے گا۔ گویا احسان حاصل کرنے سے پوری زندگی کی حالت اور سوچنے تک کا انداز بدل جاتا ہے۔ وہ ایک نیا انسان بن جاتا ہے اور اس رویے کے نتیجے میں اللہ کی رحمت نصیب ہوتی ہے۔

    احسان کے ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ ہمیں دنیاوی رشتے نبھاتے ہوئے جب مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اس وقت پتہ چلتا ہے کہ ہم احسان میں کہاں کھڑے ہیں۔ جہاں ہمیں ان رشتوں کو نبھانے میں کوئی مسئلہ و پریشانی ہی نہیں، وہاں ہمارا امتحان نہیں ہے۔ امتحان اس وقت ہوتا ہے جہاں اس معیار کو قائم رکھنے میں مشکل آتی ہے۔ سب سے اعلیٰ امتحان انسان کے احسان کا اس وقت ہوتاہے کہ دیکھا جائے کہ وہ قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے یا بدسلوکی کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہاں مشکلات ہوتی ہیں۔

    ہماری طبیعتوں میں اعتدال نہیں رہا۔ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں دین کا صحیح تصور نہیں دیا گیا۔ تربیت نہیں کی گئی، مربی اورمعلمین اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہیں دے سکے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں روحانی اور اخلاقی قدروں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ طبیعتوں اور مزاج میں جو محبت، اخلاص، شفقت، نرمی اخلاق آنا تھا، وہ تمام تہہ و بالا ہوگیا ہے۔ جس سوسائٹی میں حرام و حلال اور حیا و بے حیائی کا فرق ختم ہوجائے وہاں اقدار کہاں بچیں گی۔

    پس اس احسان کے عمل سے تمام معاشرتی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ احسان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کریں، طبیعتوں میں وسعت، فراخی، اعتدال اور توازن لائیں۔ نیتوں کو خالص کریں، احسان کو عادت بنائیں۔ باطن، دل، مزاج اور طبیعت احسان کا وطن بن جائے۔ بولنا، دیکھنا، سننا، رائے قائم کرنا،برتاؤ کرنا، سوچنا احسان پر مبنی ہو۔ ایسے لوگوں کو اللہ اپنے نور پر قائم کردیتا ہے اور پھر وہ بندہ جدھر جائے گا، نور بکھیرتا چلا جائے گا۔

    6۔ چھٹا خطاب: موضوع: نرم گفتگو اور شائستہ کلامی

    اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

    وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.

    (البقرہ،2: 83)

    ’’ اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔ ‘‘

    اس آیت میں مذکور یہ بنیادی تعلیم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ شروع سے ہر زمانے میں انسانیت کو دیتا چلا آرہا ہے۔ اس سے نرم گفتگو اور شائستہ کلامی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ خطاب بظاہر بنی اسرائیل کو ہے مگر امتِ مسلمہ کو بھی یہی تعلیمات دی جارہی ہیں۔ حضرت موسیٰ و حضرت ہارونd کو فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا:قولا لہ قولا لینا کہ بے شک فرعون سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے مگر جب اس سے کلام کرو تو نرم انداز میں گفتگو کرنا۔ شاید نرم گفتگو اس کے لیے نصیحت قبول کرنے یا مجھ سے ڈرنے کا باعث بن جائے۔ پیغام یہ ہے کہ نرم گفتگو ہر پہلو سے کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے۔ نرم گفتگو کی جائے تو کبھی نہ کبھی مخاطب کا دل متوجہ ہوجائے گا۔ تلخ کلامی کے جواب میں نرم گفتگو کرنا، امتحان ہے۔ داعی کے لیے تو نرم گفتگو کرنا ایک لازمی امر ہے۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ھی احسن کے مصداق حکمت کے ساتھ دعوت دیں، مخاطب کے مزاج، ذہنی سطح کے مطابق بات کریں۔ دل میں بات اتارنی ہے تو موعظہ حسنہ کریں۔ موعظہ (نصیحت) جو خود خیر ہے، اس خیر کو بھی حسنہ یعنی خیر سے کرنے کا حکم ہے۔ حتی کہ اگر تکرار ہوجائے، اختلاف ہوجائے تو اس موقع پر احسن گفتگو کرنے کا حکم دیا۔ گویا حکمت کے بعد حسنہ اور اب اَحسن یعنی بہت زیادہ عمدہ اور خوبصورت طریقہ کو اپنانے کا حکم ہے۔ آج ہمارا طرزِ عمل اس سے بالکل مختلف ہے۔ اللہ کا حکم کیا ہے اور ہم اس کے برعکس گالم گلوچ، تکفیر تک آجاتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

    وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.

    (الفرقان،25: 63)

    یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ نرمی چال چلن میں بھی نظر آئے۔ بندے کا چلن (کردار) اس کی چال سے واضح ہوجاتا ہے۔ پھر فرمایا کہ جب مخالف برے طریقے سے بات کرتے ہیں تو عبادالرحمن گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتے بلکہ خاموشی اختیار کرتے ہیں وہ لوگ جو ہر برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں اور لغو و بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے درگزر کرتے ہیں تو قرآن مجید کے مطابق انہیں ہر اجر پانے والے سے دوہرا اجر ملے گا۔ یہ علماء کے لیے لائحہ عمل ہے کہ جس کسی بات میں clash کا خطرہ ہو تو اس میں سے شائستگی سے گزر جایا کریں۔

    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ کوئی ایک عمل بتادیں کہ میں وہ کروں اورجنت میں چلا جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

    1. افشوا السلام (سلامتی پھیلاؤ)۔ یعنی محبت ، لطف، شفقت کرو، نرم گفتگو، شائستگی سے کلام کرو۔

    2. اطعم الطعام (کھانا کھلاؤ)

    3. وصل الارحام (خونی رشتوں کو ملاؤ)

    4. رات کے کچھ اوقات میں جاگو، جب لوگ سوئے ہوئے ہیں۔

    گویا حضور ﷺ نے کردار کا ایک مکمل پیکج عطا فرمادیا۔ ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے فرمایا:

    دوزخ سے اپنے آپ کو بچاؤ اگرچہ آدھی کھجور کا صدقہ دے کر ہی کیوں نہ ہو اور اگر آدھی کھجور بھی نہیں تو نرم کلامی اور اچھا کلام کرو، یہ بھی دوزخ کے آگ سے بچانے کا سبب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:والکلمۃ طیبہ صدقہ۔ اچھا کلام بھی صدقہ ہے۔

    ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ما الاسلام؟ اسلام کیا ہے؟ صحابہؓ کے اس طرح کے سوال دراصل اسلام کی روح اور اس کی جڑ کو جاننے کی خاطر ہوتے تھے۔ فرمایا: طیب الکلام واطعام الطعام۔ اچھا کلام اور کھانا کھلانا اصل اسلام ہے۔

    ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر یہی دو چیزیں جو اصل اسلام ہیں، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اطعام الطعام سے مراد سخاوتِ نفس ہے۔ آج ہماری سوسائٹی میں یہ چیزیں موجود ہی نہیں۔ نجانے ہم کس ایمان اور اسلام کو اپنائے ہوئے ہیں۔ برے لفظ اور سخت الفاظ، گالیاں، اپنی ڈکشنری اور عادت سے نکال دیں۔ ایک ہی ڈکشنری تیار کریں جس میں ہر لفظ نرم، محبت، شفقت، لطف و کرم پر مشتمل ہو۔

    7۔ ساتواں خطاب: موضوع: دعا (برموقع عالمی روحانی اجتماع)

    وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ.

    (البقرہ،2: 186)

    دعا کے حوالے سے چند ایسے گوشوں اور پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے جس سے دعا کا ایک منفرد پہلو سامنے آئے گا۔ اس آیت میں دعا کے راز کی خبر عیاں ہوتی ہے۔ سب سے پہلا غور طلب پہلو اس آیت میں یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ نے اپنا ذکر سات مرتبہ کیا ہے مگر یہ ذکر واحد متکلم کی ضمیر کے ساتھ ذکر کیا۔ وہ سات مقامات یہ ہیں:

    عبادی (میرے بندے): اللہ نے الناس نہیں کہا کہ لوگ سوال کریں، اس لیے کہ اس معنی میں بُعد ہے، قربت نہیں ہے۔ لوگ کہنا اور بندے کہنے میں فرق ہے۔ بندہ کہنے سے بندگی کا تصور آتا ہے اور بندگی کے تصور سے قربت کا تصور ہے۔ اسی طرح العباد بھی نہیں کہا کہ بندے سوال کریں بلکہ عبادی کہا کہ میرے بندے سوال کریں۔

    عَنِّیْ (میرے متعلق )

    فَاِنِّیْ (بے شک میں)

    اُجِیْبُ (میں جواب دیتا ہوں)

    دَعانِ (مجھے پکارتا ہے)

    فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ (میری فرمانبرداری اختیار کرو)

    وَالْیُوْمِنُوْا بِیْ (مجھ پر پختہ یقین رکھیں)

    صیغہ واحد متکلم کے استعمال کی سات مرتبہ استعمال کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس طرزِ اسلوب کے ذریعے وہ بندوں کو اپنے قریب سے قریب کرتا چلا جاتا ہے۔ گویا سات مرتبہ اس طرح ذکر کرکے بندے کو سات درجے اپنے قریب کرتا ہے اور سات پردے جو بندے کے درمیان حائل تھے، جنہوں نے بندے کو دور کررکھا تھا، وہ یکے بعد دیگرے ان سات حجابات کو اٹھا دیتا ہے۔ یہ سات پردے اٹھا کر وہ بندے کو اس بات کا حقدار بنادیتا ہے کہ وہ عبادی (میرے بندے) کہلائیں۔ وہ پردے اٹھا کر بندوں کو اپنی بارگاہ میں حضوری کا احساس دینا چاہتا ہے۔ یعنی جب اس سے دعا کرو تو دوری اور غیاب سے نکل کر حضوری میں آجاؤ۔

    دعا میں اگر دوری رہے تو وہ شرفِ قبولیت نہیں پاتی اور اگر دعا سرتاپا حضوری بن جائے تو دعا مقبولیت میں بدل جاتی ہے۔ اللہ کے بندے کسی حال میں دعا ترک نہیں کرتے۔ دعاکے اندر بے شمار راز ہیں۔ دعامیں قربت ہے۔ دعا حضوری کا ایک دروازہ ہے۔ دعا حضوری اور قربت کے دروازے کھولتی ہے۔ ہم دعا کو اپنی حاجات کے زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ اللہ نے وہ نقطہ نظر تبدیل کیا۔ دعا کو اپنے نقطہ نظر سے نہ دیکھو بلکہ دعا کو اس مولا کی قربت اور حضوری کی نگاہ سے دیکھو۔ دعا بذات خود مولا کے ساتھ بندے کی دوری کو ختم کرتی ہے اور قربت میں لاتی ہے۔ اس لیے حدیث مبارک میں دعا کو افضل العبادہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ عبادت قربت کا دروازہ کھولتی ہے۔ حضور ﷺ نے کبھی دعا کو بذاتِ خود ’’عبادت‘‘ کہا اور کبھی عبادت کا مغز اور جوہر قرار دیا۔ لہذا ہمہ وقت اللہ کے حضور دعا کرتے رہا کریں، سمجھ میں کچھ آئے نہ آئے کہ کیا مل رہا ہے اور کیا نہیں مل رہا۔ صرف یہ تصور رکھیں کہ دعا بذات خود بندے کو اللہ کے قریب لارہی ہے۔ دعا کی قبولیت کی کچھ شرائط ہیں، انھیں دعا کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے:

    1۔ ہمہ وقت اللہ کی فرمانبرداری و اطاعت

    2۔ کامل ایمان و یقین

    3۔ بندہ خونی رشتوں کا قاطع نہ ہونا۔

    4۔ رزقِ حلال

    5۔ قلب غافل نہ ہو

    6۔ اللہ سے اچھی گمان رکھنا

    7۔ حضوری قلب اور خشوع و خضوع

    8۔ استعجال (دعا میں جلدی نہ کرے یعنی یہ طلب نہ کرے کہ میری دعا فوری طور پر قبول ہو۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ فوری قبول کرے یا قبولیت کو موخر کردے۔ یہ اس کا فیصلہ ہے۔

    9۔ ظلم کی تلافی کرنا/ حق تلفی کی تلافی کرنا

    پس بندے کو چاہیے کہ دعا میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرے۔ ان شرائط کو پورا کریں گےتو دعا کسی نہ کسی صورت میں قبول ہی قبول ہے۔ اگر ہم سراپا دعا بن جائیں تو اللہ کی قربت نصیب ہوجاتی ہے۔ زبان اور دل کو یکجا کریں۔ دھیان اور یکسوئی دعا میں پیدا کریں۔ اللہ کی طرف رجوع خالص کریں تو اللہ دعا کو شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے۔

    8۔ آٹھواں خطاب: موضوع: معاشی تعاون اور معاشرتی توازن

    مَآ اَفَآءَ اللهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.

    (الحشر،59: 7)

    اس آیت میں اللہ نے مالِ فئے اور دوسرے مقام آیت انفال میں مال غنیمت کی تقسیم کے حوالے سے معاشرے کے مختلف طبقات کا ذکر کیا۔ اس مال میں سے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے لیے فرماکر پوری امت کے ان تمام طبقات کے لیے حصہ واضح فرمادیا جو معاشی تنگدستی کا شکار ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقات میں مال تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا کہ دولت صرف اغنیاء کے درمیان ہی گھومتی نہ رہے بلکہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر پورا معاشرہ اس سے فیض یاب ہو اور فائدہ اٹھائے۔

    اگر دولت سے محروم معاشرہ فیض یاب نہیں ہوتا تو دولت کے احتکار اور ارتکاز کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت احتکار اور اکتناز کا نظام چل رہا ہے۔ دولت پر اس وقت 20 فیصد لوگ قابض ہیں اور 80 فیصد لوگ محرومی و محتاجی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ لوگ جو اس طرح مال و دولت کو جمع کرتے اور اس کا خزانہ بناتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، اللہ نے اس دولت کو ان کے لیے ہلاکت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ اعتدال و توازن کے خلاف ہے۔ اللہ نے دولت کو غرباء اور مساکین پر خرچ کرنے کو ان کا حق انھیں لوٹانے سے تعبیر فرمایا۔ مراد یہ ہے کہ مال و دولت معاشرے میں رائج ظالمانہ نظام کی وجہ سے اصل لوگوں کی بجائے دوسرے لوگوں کے پاس چلا گیا ہے، اب حکم دیا جارہا ہے کہ انھیں ان کا مال لوٹا دو۔

    آج ہمارے معاشرے میں طاقت اور دولت کا گٹھ جوڑ ہے۔ اگر ریاست کفالت نہ کرے تو ذمہ داری امراء پر آجاتی ہے۔ آج ریاست میں طاقت ور افراد نے اپنے حق میں قوانین بنارکھے ہیں اور ان کے فکرو شعور میں دور دور تک بھی غرباء کو کچھ دینے کے لیے نہیں ہے۔ معاشی عدمِ توازن اور عدمِ مساوات، ناجائز اور ظالمانہ نظام کی وجہ سے غرباء کا حق چھن کر امراء کے پاس آگیا ہے۔ اسلام نے تو مال وراثت میں سے بھی مساکین اور یتامیٰ کے لیے حق رکھا ہے جو اس مال کے حقیقی وارث بھی نہیں ہیں۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہمارے مال میں غرباء کا حق ہے۔ محروم طبقات کا حق کتنا ہے؟ اس حوالے سے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مالداروں پر ان کے سرمایہ میں غریبوں پر خرچ کرنا اس حد تک فرض کردیا ہے کہ جس سے ان غرباء اور مساکین کی ضرورت پوری ہوجائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پھر اس معاملہ کے لیے معمولی معمولی چیزوں کو بھی واضح کیا اور فرمایا کہ جس کے پاس دو بندوں کا کھانا ہے وہ تیسرے کو ملائے اور جس کے پاس پانچ کا کھانا ہے وہ چھٹے کو ملائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے، دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہے۔ گویا حضور ﷺ نے مختلف معیارات قائم فرمائے جو اس طرح کی احادیث سے معلوم ہوتے ہیں۔

    لوگوں پر خرچ کرنے کا معیار یہاں تک قائم فرمادیا کہ قرآن میں ہے کہ یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں فرمادیں جو اضافی ہے یعنی زائد ہے وہ خرچ کردیں۔ گویا حالات کے مطابق ہمیں معاشرے کے محروم طبقات کے لیے اپنی مال و دولت کو خرچ کرنا ہوگا۔

    یاد رکھیں کچھ مخصوص اعمال سرانجام دینے کا نام ہم نے نیکی رکھ لیا ہے۔ مگر قرآن نے (البقرہ،2: 177) میں نیکی کا الگ تصور دیا۔ اس آیت میں اللہ نے نیکی میں ظاہر پرستی اور رسم پرستی کے تصور کو ختم کردیا اور نیکی کو ایک مکمل پیکج کی صورت میں واضح فرمادیا۔ ایک طرف اعتکاف، میلاد، عرس، محرم، اولیاء کے ایام منانا اور دوسری طرف زندگی دین کے عملی تصور سے خالی ہو تو یہ مراسم نفع نہیں دیتے۔ یہ مواقع تو دین کو یاد دلاتے ہیں اور دین کا پیغام دیتے ہیں۔ ہم ان کو منالیتے ہیں اور اصل روح کو فراموش کردیتے ہیں۔ ایمان کی شرائط کے ذکر کے بعد اللہ نے مال کے خرچ کرنے کا حکم دیا کہ جو لوگ ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں، ان کو دینا نیکی کے تصور کو مکمل کرتا ہے۔ اس کے بعد پھر نماز، زکوٰۃ، ایفائے عہد، صبر کا حکم دیا۔ اس آیت میں دس شرائط بیان کیں۔ پہلی پانچ شرائط ایمانی اور اعتقادی ہیں جبکہ دوسری پانچ شرائط عملی ہیں۔ جو ان دس شرائط کو پورا کرتے ہیں، قرآن نے ان ہی لوگوں کو ایمان کے دعویٰ اورنیکی کے شعورمیں سچا اور حقیقی متقی قرار دیا ہے۔

    9۔ نواں خطاب: موضوع: اجتماعی اخلاقیات

    قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کی تعلیمات پر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا دیا ہوا تصور روحانیت خلقِ حسن پر قائم ہے یعنی قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات میں مذکور جمیع روحانیات کی اساس اور بنیاد اخلاقیات پر قائم ہے۔ اسی طرح جہاں اخلاقیات کا ذکر آیا ہے اور خلقِ حسن کے جس پہلو کو بھی بیان کیا ہے اس کی روح اور مغز روحانیت ہے۔ روحانیت، اخلاقیات سے جدا نہیں ہے اور اخلاقیات، روحانیت سے جدا نہیں ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ دین میں عبادت کا کوئی بھی ایسا تصور نہیں جس میں اخلاقیات کا کوئی تصور نہ ہو اور دین میں کوئی ایک ایسا خلق نہیں جو روحانیت کے ساتھ معمور نہ ہو۔ مگر ہم ان چیزوں کو اس لیے سمجھ نہیں پاتے کہ ہمارے تصورات درست نہیں ہیں۔ ان میں ابہامات اور شکوک و شبہات ہیں، ان کی اساسیات ہمیں معلوم نہیں، درستگی کا راستہ معلوم نہیں۔ درست اور غلط کی حدود معلوم نہیں۔

    وہ کیا شرائط و آداب اور قواعد و ضوابط ہیں جو اس عمل کو نیکی اور عبادت بناتے ہیں، مقبول بناتے ہیں، ہمیں ان شرائط اور آداب کی خبر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تعلیم نہیں اور ہم تعلیم و تربیت کے لیے وقت صرف نہیں کرتے اور جس کی ذمہ داری تھی وہ بوجوہ نبھانے سے قاصر ہیں، وہ نبھانا نہیں چاہتے یا نبھاسکتے نہیں، الگ الگ اسباب ہیں، جن کی وجہ سے ہم نے امت مسلمہ اور اگلی نسلوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

    حقیقت میں ہم سوئے ہوئے ہیں، ہماری آنکھیں بیدار ہیں مگر دل غفلت میں ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائے۔ آج بیدار ہونا ہمارے حق میں ہے، اگر ہم آج بیدار نہ ہوئے تو جلد ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ جب ہمارے اختیار اور خواہش کے بغیر ہمیں بیدارکردیا جائے گا مگر اس وقت کی بیداری ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ اس بیداری میں ہم بے بس ہوں گے اور یہ بیداری موت کے بعد یوم حشر کی بیداری ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس وقت کے آنے سے قبل بیدار ہوں اور عقلمند بنیں۔

    ہم نے دانش مندی اور عقلمندی کے غلط معیار اپنی زندگی میں قائم کررکھے ہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ہاں دانش مند اور عقلمند وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے۔ جو نافرمان ہیں، وہ سب نادان ہیں۔ نافرمانی کی راہ اختیار کرکے دراصل وہ حقیقی نفع اور نقصان کی راہ بھول گیا، اس لیے وہ نادان ہے۔ جسے خیر اور شر کی تمیز نہ رہے، وہ نادان ہوتا ہے۔

    اسی طرح ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں علم ہے اور ہم جانتے ہیں۔ یہ بھی ہمارامغالطہ ہے۔ یاد رکھ لیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں علم کسی ایسی چیز کا نام نہیں جو صرف زبان یا قلم سے ادا ہو بلکہ جو علم ہماری زندگی میں عمل میں منتقل نہ ہو، وہ علم نہیں، اس لیے کہ وہ علم نافع نہیں ہے اور جو علم نافع نہیں، اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے علم کا درجہ نہیں دیا۔ اس لیے اللہ نے فرمایا:

    اِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا.

    (فاطر،35: 28)

    ’’ بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔ ‘‘

    گویا عالم صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں اللہ کی خشیت مل جاتی ہے یا خشیت پالینے والے ہی صاحبانِ علم ہوتے ہیں۔ پس عمل کے بغیر جتنا مرضی علم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیں، ایک قدم بھی راہ حق پر اللہ کی طرف نہیں چل سکتے۔ اللہ کے ہاں ہمارا قرب اور بُعد ہمارے ظاہر سے متعین نہیں ہوتا بلکہ قرب کا فیصلہ باطن سے ہوتا ہے۔ اللہ کے ہاں قرب و بعد مسافتوں کے نہیں بلکہ دل کی حالتوں کے ہوتے ہیں۔ اس لیے شرط یہ ہے کہ ہمارے اعضاء شریعت کی حدود میں رہیں، اعمال احکام شریعت کے خلاف نہ ہوں، اس لیے کہ یہ دل کو راہ دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے قرب کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو اللہ کے قریب ہونا چاہے وہ اپنے نفس سے دور ہوجائے۔ اس لیے کہ نفس کبھی ہمیں اللہ کے قریب نہیں ہونے دے گا۔ اللہ کے ہاں قدرو منزلت کی جگہ نفس نہیں بلکہ قلب و روح ہے مگر افسوس کہ ہم ہمہ وقت نفس کی مانتے اور اس کی پیدا کردہ خواہشات کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں۔

    قلب و باطن کی اصلاح اور عقیدہ و نیت میں اخلاص دراصل ہمارے ایمان کی عمارت کی بنیاد ہیں۔ اگر بنیاد مضبوط ہوتو اوپر قائم عمارت میں کسی جگہ خرابی آجائے تو اسے دور اور بہتر کیا جاسکتا ہے لیکن اگر بنیاد مضبوط نہ ہو اور اس پر قائم عمارت خواہ کتنی ہی مضبوط اور خوبصورت کیوں نہ ہو، اس کو قائم و دائم نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کا ازالہ اور تلافی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اپنے تمام تر اعمال کی بنیاد خالصتاً لوجہ اللہ رکھیں۔