مُؤسّسِ اَوّل، محسنِ تحریک، حاملِ معارِف، صاحبِ اَسرار، عارفِ ربانی، حاملِ فراستِ رحمانی، فریدِ ملّت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ 1918ء میں عُشاق و عُرفا کی دھرتی اور خطۂ مردم خیز جھنگ صَد رنگ میں پیدا ہوئے۔ اِبتدائی تعلیم جھنگ کے اِسلامیہ ہائی اسکول سے حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی علومِ شرعیہ و شرقیہ (درسِ نظامی) کی بھی تکمیل کی۔
حضرت فریدِ ملّت کثیر الجہات، جامع الکمالات اور مجموعۂ صفات و حسنات شخصیت تھے۔ اس فردِ فرید کی شخصیت اَوصاف و خصائص کی کہکشاں، محامد و محاسن کی دھنک، خوبیوں کا مرقّع اور للٰہیت کا پیکر تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ ظاہری و باطنی اور صوری و معنوی حیثیت سے ایک بہت بڑے اِنسان، اِنابت و خشیت کے سانچے میں ڈھلے ولی اللہ، اپنے دور کے مسلّمہ عالم اور محقّق، جیّد محدّث، فقیہ، علم العقیدہ کے متخصص، جامع العلوم و کامل الفنون، مجتہد، بے بدل خطیب، نغز گو شاعر، ادیبِ لبیب، شفیق و خلیق، کشادہ دل، وسیع النظر اور اَعاظمِ رِجال میں سے تھے۔ ان کی شخصیت کے اِتنے گوشے اور جہات تھیں، جس کا اِنسان کم ہی تصور کرسکتا ہے یا کم لوگوں کو اللہ تعالیٰ اِتنی نعائم اور نوازشات سے بہرہ یاب کرتا ہے۔ ہر کَہ و مَہ جو اُن سے شرفِ ملاقات کرتا اور اُن کی فکری و نظری مجالس سے مستفید و مستفیض ہوتا، عربی شاعر کا یہ شعر اُس کے حافظے کے گُل کَدے میں چٹکنے اور مچلنے لگتا:
لَیْسَ عَلَى اللهِ بِمُسْتَنْکَرٍ
أَنْ يَجْمَعَ الْعَالَمَ فِيْ وَاحِدٍ
”یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں جس کا اِنکار کیا جائے کہ اللہ رب العزت پوری دنیا ایک ہی فرد میں جمع کردے۔“
1۔ علمی مقام و مرتبہ
حضرت فریدِ ملّتؒ ایک وسیع المطالعہ، راسخ العقیدہ اور فکری واضحیت کی حامل یگانۂ روزگار نابغہ عبقری شخصیت تھے۔ علوم و فنون میں آپ کی دِقّت نظری اور پختگی کا عالم یہ تھا کہ اُس عہد کے اَجل علماء کسبِ فیض کے لیے آپ کے درِ علم پر نیاز مندانہ حاضری دیتے۔
حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری کو علم الحدیث، علم التفسیر، علم الفقہ واصولہ، علم التصوف والمعرفۃ، علم اللغۃ والأدب، علم النحو والبلاغۃ، علم الطب اور دیگر کئی اِسلامی علوم و فنون اور منقولات و معقولات پر کمال اور لائقِ رشک دسترس حاصل تھی۔
آپ نے حصولِ علم و معرفت کے لیے جھنگ سے سیالکوٹ، لکھنؤ اور حیدر آباد دکن کے علاوہ بیرون ملک حرمین شریفین، عراق، شام، ترکی اور ایران کے سفر بھی کیے۔ آپ نے ایک سفرنامہ بھی تحریر کیا، جس میں ایران، عراق، ترکی اور شام کے سفر کی رُوداد بیان کی ہے۔
(1) حضرت فرید ملتؒ کے شیوخ و اساتذہ
حضرت فرید ملتؒ نے جملہ اسلامی علوم و فنون کا درس اور اَسانید و اِجازات مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، بغداد، شام، لبنان، طرابلس، مغرب و شنقیط اور پاک و ہند کے ایسے جید شیوخ اور کبار علماء سے حاصل کیں جنہیں گزشتہ صدی میں اِسلامی علوم کا منبع اور سرچشمۂ معدن و مخزن اور سند و حجت تسلیم کیا جاتا تھا۔ وہ عدیم النظیر شیوخ و اساتذہ مستند و معتبر اَسانید کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ تک منسلک ہیں۔ آپ جن شیوخ و اساتذہ کے علمی فیضان سے مستفید ہوئے، ان میں سے چند ایک کے اَسماء گرامی یہ ہیں:
1۔ محدّث الحرم الشیخ السید علوی بن عباس المالکی المکی
2۔ الشیخ المعمّر حضرت ضیاء الدین احمد القادری المدنی
3۔ الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنی
4۔ الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی
5۔ امام عبد الباقی بن علی محمد الانصاری لکھنوی المدنی
6۔ الشیخ عبد الہادی بن علی الانصاری المحدّث لکھنوی
7۔ محدثِ اعظم علامہ محمد سردار احمد قادری
8۔ الشیخ علامہ ابو البرکات سید احمد قادری
9۔ شیخ الحدیث مولانا غلام فرید
10۔ مولانا محمد یوسف سیالکوٹی
11۔ مولانا عبد الحی فرنگی محلی
12۔ مولانا بدر عالم میرٹھی
13۔ مولانا عبد الشکور مہاجر مدنی
14۔ حکیم عبد الوہاب نابینا انصاری
15۔ شفاء الملک حکیم عبد الحلیم لکھنوی
(2) اَندازِ تدریس اور ذوقِ مطالعہ
حضرت فریدِ ملّتؒ عملی زندگی میں شعبۂ طب سے وابستہ تھے، مگر آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ زندگی بھر بلا تعطل جاری رکھا۔ جہاں جاتے اپنے نظام الاوقات میں سے دو سے تین گھنٹے علوم و فنون کی تدریس و ترویج کے لیے وقف کرتے۔ اِرد گرد اور دور و نزدیک سے آنے والے تشنگانِ علم اکثر منتہی طلبہ ہوتے جو آپ سے علوم و فنون کی اُمہات الکتب کے اَسباق پڑھتے۔
حضرت فریدِ ملّتؒ اپنے وقت کا کثیر حصہ صرفِ مطالعہ اور نذرِ کتب بینی کرتے۔ دورانِ مطالعہ جہاں کہیں اِعتقادی و فکری نکتہ ملتا اسے کتاب کی ابتداء میں نوٹ فرما لیتے۔ آپ ہر سفر میں نادر و نایاب اور نہایت مفید کتب خرید کر لاتے۔ آج وہ تمام علمی ذخیرہ آپ کے نام سے منسوب تحقیقی اِدارے ”فریدِ ملّتؒ ریسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi)“ کی لائبریری کی زینت ہے۔
(3)مجالسِ علم میں آپ کا مقام اور اہلِ علم کے ہاں آپ کی قدر
حضرت فریدِ ملّتؒ کے علمی مقام کا اندازہ اِس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا جن جن مقامات و اِجتماعات میں جانا ہوتا، آپ کا کلیدی خطاب بہ طور مہمانِ خصوصی مجلس کے آخر میں ہوتا۔ شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی آپ کا خصوصی اِکرام فرماتے تھے۔ اُن کی زیرِ صدارت منعقدہ تقاریب و مجالس میں آپ ہی کا خطاب باصواب خصوصی ہوتا۔ یہاں ہم ان اکابر مشائخ اور علماء کا تذکرہ کرتے ہیں جن کے ساتھ اکثر آپ کی علمی و فکری نشستیں رہتی تھیں:
(1) حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ
(2) حضرت خواجہ فخر الدین سیالویؒ
(3) غزالیِ زماں حضرت سید اَحمد سعید کاظمیؒ
(4) علامہ قطب الدینؒ
(4) مولانا عبد الغفور ہزارویؒ
(6) صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ آلو مہار شریفؒ
(7) مولانا محمد عمر اِچھرویؒ
(8) مولانا عبد الرشید رضویؒ
(9) مولانا عبد الستار خان نیازیؒ
(10) خواجہ فخر الدین سیالویؒ
(11) مولانا اَحمد بخش ضیائیؒ
یہ اُس دور کے کوہ قامت اَکابر علماء تھے جن کے ساتھ حضرت فریدِ ملّت ہر وقت ہم مجلس رہتے۔ جب بھی ان میں سے کوئی ایک خطاب کے لیےجھنگ تشریف لاتا یا جھنگ کے گرد و نواح میں ان کا وُرُودِ مسعود ہوتا تو وہ منتظمین کے سامنے یہ شرط رکھتے کہ جھنگ میں قیام کے دوران ہماری رہائش کا اِنتظام حضرت فریدِ ملّت کے درِ دولت میں کروا دیں؛ تاکہ جھنگ میں بسر ہونے والی ایک دو راتیں اُن سے کسبِ فیض میں بسر ہوں، اِن غنیمت ساعتوں میں ان سے مذاکرۂ علم ہو اور ان کی صحبت و معیت اور مجلس میں گزرے لمحات بیش قیمت ہو جائیں۔ نیز اس بابرکت وقت میں مختلف کتب اور علوم کے عطر و عنبر سے مشامِ جان کو معطر کرنے کی سعادت سے فیض اندوز ہوسکیں۔
بعد کے زمانے کے اکابر علماء اور بلند پایہ شخصیات بھی اکثر اَوقات حضرت فریدِ ملّت سے اَخذِ فیض کے لیے حاضر ہوتیں۔ مختلف علمی موضوعات پر طویل نشستیں ہوتیں اور مذاکرہ ہاے علم ہوتے تھے۔ مجاہدِ ختمِ نبوت مولانا عبد الستار خاں نیازی خصوصی وقت لے کر آپ کی زیارت، خدمت اور صحبت میں کچھ دن گزارنے کےلیے آئے اور حضرت فریدِ ملّت کے ہاں قیام کیا۔ انہوں نے آپ سے اِکتسابِ فیض کیا اور کچھ وظائف اور اجازات بھی لیں۔ اِسی طرح حضرت پیر کرم شاہ صاحب الازہریؒ کا بھی آپ کے ساتھ بے پناہ فکری و نظری اور قلبی تعلق تھا۔
(4) قوتِ حافظہ اور زبان و بیاں پر مہارتِ تامہ
حضرت فریدِ ملّت بے پناہ قوتِ حافظہ اور ذہانت و فطانت کے مالک تھے۔ دوران خطاب موضوع سے متعلقہ کتب کے حوالہ جات اور طویل عبارات صحت کے ساتھ بلا توقّف بیان فرماتے۔ آپ عربی و فارسی زبانوں کے قواعد سے واقف تھے اور ان زبانوں میں اَہلِ زبان کی طرح بڑی روانی سے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتے۔ قادر الکلامی کا یہ عالم تھا کہ پنجاب یونی ورسٹی میں طب کے اِمتحان میں آپ نے نبض کے موضوع پر چالیس صفحات پر مشتمل مقالہ عربی میں سپردِ قلم و قرطاس کیا۔
حضرت فرید ملّتؒ جہاں بہترین مدرّس تھے وہاں ایک مؤثر القلوب اور ساحر البیان خطیب بھی تھے۔ آپ کی تقریر صرف دلائل و براہین سے مزین نہ ہوتی بلکہ موضوعِ زیرِ گفت گُو پر وارِد اِشکالات و اِعتراضات کا ایسا شافی و مسکت جواب دیتے کہ سامعین قلبی و ذہنی سطح پر بشاشت اور طمانیّت محسوس کرتے۔
(5) شعر و ادب اور نعتیہ شاعری میں مقام
حضرت فریدِ ملّت ایک صاحبِ طرز ادیب اور قادر الکلام حاضر طبع شاعر بھی تھے۔ آپ طویل عرصہ لکھنؤ اور حیدر آباد دکن میں قیام پذیر رہے اور وہاں کی شعری و ادبی فضاؤں میں آپ کا شعری ذوق صیقل ہوتا رہا۔ آپ شاعری میں امیر مینائی کے بھتیجے شکیل مینائی سے اِصلاح لیتے تھے۔ آپ کے کلام کا مجموعہ ”دیوانِ قادری“ کے نام سے ایک بیاض میں موجود تھا، لیکن شومئی قسمت کہ اس کا بیشتر حصہ زمانے کی دَسْت بُرْد کی نذر ہوگیا۔ اس دیوان میں شامل ”سلام بہ حضور خیر الانام “ سے آپ کے بلند اور اَعلیٰ درجہ شعری ذوق اور بے پناہ اور بے کراں عشقِ رسول کا اِظہار ہوتا ہے۔
مجھے تو اب کوئی آکے پہلے سکونِ قلب و جگر بتا دے
کہ سازِ ہستی کی کشمکش تو رہے گی پیچھے بہ تا قیامت
2۔ فنِ طب کے عظیم محقّق
حضرت فریدِ ملّتؒ کو علم الطب (Medical Sciences) میں بھی کمال مہارت حاصل تھی، خصوصاً نبض شناسی میں انہیں محیّر العقول حد تک ملکہ حاصل تھا۔ آپ دینی اور طبی تعلیم کے حصول کے لیے سیالکوٹ کے معروف عالم دین اور حاذق طبیب مولانا محمد یوسف سیالکوٹی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اِکتساب علم و ہنر کیا۔ میٹرک کے بعد انہی کی ترغیب پر آپ لکھنؤ تشریف لے گئے۔
- آپ نے لکھنؤ میں فرنگی محل جیسے معروف علمی مرکز میں داخلہ کے ساتھ ساتھ منبع الطب کالج میں بھی داخلہ لیا۔ یہاں آپ کو ڈاکٹر عبد العزیز لکھنوی (ایم آر اے ایس لندن)، پرنسپل منبع الطب کالج لکھنؤ مولانا حکیم محمد ہادی رضا لکھنوی اور مولانا حکیم محمد حسین رضا لکھنوی جیسے اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ آپ نے 3 فروری 1934ء مطابق 21 شوال 1352ھ کو طب میں اِبتدائی ڈپلومہ حاصل کیا۔
- آپ نے تکمیل الطب کالج لکھنؤ میں بھی داخلہ لیا۔ کالج کے پرنسپل شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی تھے، جو متحدہ ہندوستان کے دورِ اواخر کے بہت بلند پایہ حکماء و اَطبّاء حکیم محمد اجمل خان دہلوی اور حکیم نابینا اَنصاری کے ہم سَر تھے۔
- لکھنؤ میں قیام کے دوران حضرت فرید ملّت کو طبِ قدیم اور طبِ جدید کے دو بڑے اِداروں سے بہ یک وقت اِکتسابِ علم کا زرّیں موقع میسر آیا۔ یہاں قائم طبیہ کالج اور کنگ جارج میڈیکل کالج کے ذہین و ذکی طلبہ کو یہ سہولت اور اِجازت حاصل تھی کہ طبیہ کالج کے فہیم و فریس طلبہ کنگ جارج میڈیکل کالج سے میڈیکل سائنس کے بعض مضامین کی کلاسز میں بیٹھتے اور میڈیکل کالج کے بعض طلبا طبیہ کالج کی بعض کلاسوں میں شامل ہوتے۔ چنانچہ آپ نے کنگ جارج میڈیکل کالج سے بھی میڈیکل کی ڈگری لی اور طبیہ کالج لکھنؤ سے طبِ یونانی میں تخصّص کیا۔ آپ نے فاضلِ طب و الجراح کی سند (Qualified Degree of Physician & Surgeon) اَوّل پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔
- مرض کی تشخیص کے سلسلے میں نبض شناسی کو دورِ قدیم سے ہی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حکیم عبد الحلیم لکھنوی نے نبض شناسی میں تخصّص کے لیے آپ کو اُس دور کے عظیم نباض حکیم عبد الوہاب المعروف حکیم نابینا اَنصاری کے پاس ایک خصوصی تعارفی خط کے ساتھ بھیجا۔ حکیم نابینا اَنصاری دہلی کے رہنے والے تھے اور نظام حیدر آباد دکن کے ہاں افسر الاطباء (Medical Officer) کے عہدے پر فائز تھے۔ حضرت فرید ملّت حیدر آباد دکن تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچنے پر حکیم نابینا اَنصاری نے آپ کا انٹرویو اور ٹیسٹ لیا جس میں کامیابی کے بعد آپ کو اپنے مستفیدین کے خاص حلقہ میں شامل کر لیا۔ جب حکیم صاحب حیدر آباد دکن سے دہلی واپس آئے تو حضرت فرید ملّت بھی ان کے ہمراہ آگئے اور پورا ایک سال وہاں مقیم رہ کر نبض شناسی میں وہ تبحر حاصل کیا کہ اُن ایسا ماہر نباض ان کے معاصرین میں ڈھونڈے سے بھی نہ ملا۔
- حضرت فرید ملّتؒ جب لاہور تشریف لائے تو حمایتِ اسلام طبیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ یہاں سے زُبدۃ الحکماء کا اِمتحان اَوّل پوزیشن میں پاس کیا اور پنجاب یونی ورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ مذکورہ امتحان میں آپ نے فنِ نبض شناسی پر چالیس صفحات پر مشتمل عربی زبان میں ایک مقالہ اِرتجالاً لکھا۔ اس مقالہ میں فنِ نبض شناسی پر جامع اور مبسوط بحث کی۔ ممتحن حضرات نے جب یہ مقالہ پڑھا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ تحسینی الفاظ میں یہ لکھنے پر مجبور ہوئے: ”اِس مقالہ کا بہ نظرِ تعمق ہمہ جہتی جائزہ لیتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ یہ کسی طالب علم کا مقالہ ہے یا اس فن کے کسی ماہر امام کی تصنیفِ لطیف“۔
- حضرت فرید ملّتؒ نے فنِ طب پر درج ذیل چار کتب تصنیف فرمائیں:
(1) شفاء الناس (زمانہ طالب علمی کے فوراً بعد لکھی)
(2) بیاض فریدی
(3) زُبدۃ المجربات
(4)فرید الفرید
3۔ حضرت فریدِ ملّت: عصرِ حاضر کی اِحیائی تحریک کے داعیِ اَوّل
حضرت فریدِ ملّتؒ کے دل میں تجدیدِ دین اور اِحیاءِ اِسلام کی تڑپ بہ درجہ اَتم موجود تھی۔ آپ کو ہر وقت اُمتِ مسلمہ کے عروج و اقبال کی فکر دامن گیر رہتی اور اس کے لیے ہر سطح پر کوشاں رہتے۔
(1) علمی کاوشیں
دریں چہ شک اُمتِ مسلمہ کے دورِ زوال کا آغاز تعلیمی اِنحطاط سے ہوا۔ حضرت فریدِ ملّتؒ کو اس امر کا شدت سے اِحساس تھا، اس لیے آپ نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ آپ تحقیق و تصنیف کے فن میں طاق اور ماہر تھے۔ اِس فن سے شیفتگی، لگن اور والہیت کا جذبہ آپ نے اپنے بلند اِقبال صاحبزادے کو بھی اپنی نگاہِ فیض رساں سے ودیعت کیا۔
(2) عملی کاوشیں
اِحیاءِ اِسلام کے لیے آپ کی کاوِشیں صرف علمی و تحقیقی میدان تک ہی محدود نہ تھیں، بلکہ آپ نے عملی میدان میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ آپ سیاسی و مذہبی ہر دو محاذوں پر فعال و متحرک رہے۔ آپ بہ کثرت علماء و مشائخ سے رابطہ میں رہتے۔ اسی ضمن میں آپ نے دو مرتبہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ کی خدمت میں حاضری دی۔
(1) تحریک پاکستان میں عملی کردار
حضرت فریدِ ملّت نے بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں قیامِ پاکستان کی تاریخ ساز جد و جہد میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ قیامِ پاکستان کے لیے سرگرمِ تگ و تاز رہے اور قیامِ پاکستان کی حامی طلبہ تنظیموں کے پروگراموں میں بھی جوش و جذبہ سے حصہ لیتے رہے۔ آپ نے حیدر آباد دکن اور لکھنو میں قیام کے دوران آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کی آزادی کے لیے کی جانے والی کاوشوں میں عملی طورپر مثالی اور مابہ الامتیاز کردار ادا کیا۔
لکھنو میں قیام کےدوران زمانہ طالب علمی میں آپ ایک student leader کے طور پر اُبھرے۔ اُس زمانے میں آزادیِ ہند کی فکر زور پکڑ رہی اور تحریکِ پاکستان کی سوچ بال و پر حاصل کر رہی تھی۔ اس کا آغاز لکھنو سے ہوا تھا کیوں کہ 1910ء سے لے کر 1936ء تک آل اِنڈیا مسلم لیگ کا مرکزی دفتر لکھنو میں رہا اور اِس کے تمام مصارِف کی نگرانی اور اِنتظامی ذمہ داریاں فرنگی محل لکھنو کے ایک عظیم عالم دین مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے پاس تھیں۔ اُن کی مدد کرنے والے راجہ صاحب محمود آباد اور دیگر چند لوگ تھے۔ فرنگی محل کے علماء کا اِس سلسلے میں بڑا تعاون تھا۔ چوں کہ دس سال تک حضرت فریدِ ملّت کے تمام تعلیمی مرحلے وہاں طے پائے، لہٰذا وہ اُس دفتر سے منسلک تھے۔ یہاں فکر کا چشمہ پھوٹ رہا تھا اور آپ اُس سے فیض یاب و سیراب ہو رہے تھے۔ یوں اُنہوں نے آزادی کی تحریک میں ایک نوجوان راہ نُما کے طور پر مثالی، نمایاں اور قابلِ تقلید خدمات انجام دیں اور قابلِ ذکر معرکے سَر کیے۔
(2) حکیم الامت علامہ محمد اِقبال سے ملاقاتیں
قیامِ لکھنو کے دوران حضرت فریدِ ملّت کے لیے ایک نوجوان لیڈر کی حیثیت سے بلند پایہ شخصیات سے قریبی تعلق اور ذاتی مراسم قائم کرنے کے مواقع اَرزاں ہوئے۔ آپ لکھنو سے حکیم الامت علامہ محمد اِقبال سے ملاقات کے لیے لاہور تشریف لاتے۔ اگر علامہ اقبال کا لکھنؤ جانا ہوتا تو آپ علامہ اِقبال سے ملاقاتیں کرتے۔ بعد ازاں 1937ء میں جب حکیم الامت شدید علیل تھے اور بہ وجہِ ضعف و نقاہت ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ مسدود ہوچکا تھا، اُن دِنوں بھی حضرت فریدِ ملّت نے ان سے ملاقات کی۔ حکیم الامت نے ان کی اِرادت و عقیدت اور ذوق و اِشتیاق کے پیشِ نظر علالتِ طبع کے باوجود ملاقات سے انکار نہیں کیا بلکہ حضرت فریدِ ملّت کو ڈیڑھ گھنٹے طویل ملاقات کا شرف عطا کیا۔
(3) آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اِجلاس میں شرکت
حضرت فریدِ ملّت نے اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر اِحسان صابری قریشی کے ہمراہ 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے منٹو پارک لاہور میں منعقدہ تاریخی اجلاس میں شرکت کی۔ آپ اس سہ روزہ اِجلاس میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر لکھنؤ سے تشریف لائے۔ آپ تینوں دن جلسہ کی اَوّلین صف میں موجود رہے۔
(4) 1945-1946ء کے اِنتخابات میں اَن تھک جدّ و جہد
حضرت فریدِ ملّت مستقل مزاجی اور تسلسل سے تحریکِ پاکستان میں متحرّک اور مصروفِ عمل رہے۔ آپ نے 1945ء/1946ء کے عام اِنتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے بھرپور تگ و دَو کی، جن کے نتیجے میں مسلم اکثریتی علاقے اور ریاستیں پاکستان کا حصہ بن گئیں اور اِس طرح ایک خطِ تقسیم منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا اور مملکتِ پاکستان معرضِ وجود میں آئی۔ اُن انتخابات میں مسلمانوں کو دو قومی نظریے پر motivate کرنے میں، مسلمانوں کے لیے الگ خطۂ سلطنت اور مملکت کے حصول کی جد و جہد میں انہوں نے قائدانہ کردار (leading role) ادا کیا۔
(5) تقسیمِ ہند کے دوران مہاجرین کے لیے خدمات
14 اگست 1947ء کو جب آزادیِ پاکستان کا اعلان ہوا تو برصغیر کے کونے کونے سے مسلمانوں نے کثیر تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ اِن درد ناک حالات میں حضرت فریدِ ملّت دوسرے مسلمان رضا کاروں کے ساتھ مل کر مہاجرین کی مدد کے لیے میدانِ عمل میں اُترے۔ آپ اُن طبی ماہرین میں شامل تھے جو شبانہ روز مہاجرین کا علاج معالجہ مستعدی، یکسوئی اور دِل جمعی سے کرتے رہے۔
(vi) طلائی تمغہ کا اِعزاز
تحریکِ پاکستان اور تعمیرِ پاکستان کی اِنہی فقید المثال خدمات کے اِعتراف میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے ریاست پاکستان کی جانب سے حضرت فریدِ ملّتؒ کے وِصال کے 48 سال بعد 3 فروری 2021ء کو اُنہیں گولڈ میڈل اور تعریفی سرٹیفکیٹ دیا۔
4۔ حضرت فریدِ ملتؒ اور شیخ الاسلام
ملتِ بیضا کی زبوں حالی دیکھ کر حضرت فریدِ ملّت کا دل مسلسل خون کے آنسو روتا۔ اِسی لیے جب آپ کو پہلی بار 1948ء میں حرمِ کعبہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو آپ نے نہایت درد و سوز اور رِقت و لجاجت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کی: ”باری تعالیٰ! مجھے ایسا فرزند عطا کر جو تیری اور تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو، جو دنیا و آخرت میں تیری بے پناہ عطاء و رضا کا حق دار ٹھہرے اور فیضانِ رسالت مآب سے بہرہ وَر ہوکر دنیاے اِسلام میں ایسے علمی و فکری اور اَخلاقی و روحانی اِنقلاب کے داعی کی حیثیت سے نام اور مقام بنائے، جس سے ایک عالم فیض یاب ہو۔“ اس کے بعد جب مدینہ منورہ پہنچے تو اس دعا کا جواب حضور نے عطا فرما دیا: ”فرید الدین! تمہیں طاہر کی بشارت دیتے ہیں۔ جب وہ سِن شعور کوپہنچے تو ہمارے پاس لےآنا تاکہ ہم اپنا حصہ اُسے عطا کریں۔“
آپ کی مستجاب دعا کے نتیجے میں 19 فروری 1951ء مطابق 12 جُمادٰی الاُولیٰ 1371ھ بروز پیر آپ کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوا جو آج نابغۂ عصر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں عالمی اُفق پر تجدید و اِحیاء دین اور اِسلامی اَقدار کی بحالی کے آفتابِ لاجواب کی حیثیت سے مصروفِ ضوپاشی ہے۔
حضرت فریدِ ملّت نے اُلوہی اَسرار و معارف اور اپنے باطنی جذب و کَیف اور سوز و درد کو آگے منتقل کرنے کے لیے اپنے فرزندِ اَرجمند کو بچپن ہی سے گوناگوں تربیتی مراحل سے گزارا۔ الله اور اُس کے رسول سے عشق و محبت، دین اسلام کی لگن اور روحانی اعمال کے ساتھ قلبی لگاؤ بچپن ہی سے ان کے شعور و خمیر میں راسخ کردیا۔ اِجتہادی بصیرت اور دینی فراست کی نشو و نما کے لیے ان کی دینی اور عصری تعلیم پر خصوصی توجہ دی تاکہ وہ نہ صرف مستقبل میں پیش آمدہ چیلنجز سے عہدہ برآ ہوسکیں بلکہ عقلی و نقلی دلائل سے اسلام کی حقانیت و فوقیت کے علم بردار اور پرچم کُشا بھی بن سکیں۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت فرید ملتؒ نے خود اُن سے فرمایا: ”پوری زندگی میں نے اللہ سے ایک بار بھی کوئی دُنیوی شے طلب نہیں کی، بہ جُز ایک بار۔“ حضور شیخ الاسلام نے عرض کیا: ”ایک بار کیا طلب کیا تھا؟“ جواب دیا: ”آپ کو طلب کیا تھا۔“
5۔ روحانی مقام و مجاہدات
حضرت فریدِ ملّت کی حیات مجاہدات و ریاضات اور اِستقامت و مداومت سے عبارت تھی۔ رات کے پچھلے پہر رضاءِ اِلٰہی کے حصول کے لیے نالہ و فغاں اور گریہ و زاری زندگی بھر کا معمول رہا۔ درود پاک کا باقاعدگی سے وِرد کرنا اور قصیدہ بردہ شریف کے مکمل 160 اَشعار ہر رات تہجد کے بعد مدینہ شریف کی طرف منہ کر کے پڑھنا آپ کا جوانی سے ہی معمول تھا۔ عُمر بھر آپ کی ایک تہجد بھی قضا نہیں ہوئی۔
- حضرت فریدِ ملّت کا توکل اور یقین کمال درجے کا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور کامل توکل اور اُس کی ذات کے ہر اَمر کے ساتھ تفویض اور رضا بے پناہ تھی۔ اِس کے ساتھ پھر صبر و شکر بھی کمال کا تھا۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ میں نے زندگی میں کبھی اُنہیں مضطرب، بے چین اور بے تاب نہیں دیکھا کہ کوئی بڑا معاملہ درپیش ہے، اُس کے لیے وسائل نہیں ہیں، اس کے باوجود ان کے علوِ توکل اور معراجِ یقیں کا یہ عالَم ہوتا کہ پہاڑ جتنا مسئلہ بھی ہوتا تو فرماتے: ”اِن شاء اللہ العزیز! جلد حل ہوجائے گا، پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔“
- حضور فرید ملتؒ کا عشقِ رسول اور نسبتِ رسول کی پختگی کا جو عالم تھا، ایسی کیفیت کم لوگوں کو زندگی میں نصیب ہوتی ہے۔ نسبتِ محمدی میں پختگی کمال درجے کی تھی۔ بلاشبہ اُن کا شمار آقا ﷺ کی بارگاہ کی حضوری والے خوش طالع اور خوش بخت اَولیاء و صالحین میں ہوتا ہے۔ جب کبھی رجوع فرماتے تو کریم آقا ﷺ کی حضوری نصیب ہوتی۔
- اِسی طرح نسبتِ غوثیہ سے پختگی کمال درجہ پر تھی۔ ہر رات بلا ناغہ تہجد کے بعد اَوراد و وظائف میں قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ دیگر اَذکار کے علاوہ قصیدہ غوثیہ اور حزب البحر بھی پڑھتے۔ نصف شب کے بعد بیدار ہو جاتے اور گھنٹوں مصلیٰ پہ رہتے۔ اِنتہائی خشوع و خضوع سے طویل قیام اور رُکوع و سجود کرتے۔ حالتِ نماز میں روتے روتے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی اور ہچکی بندھ جاتی۔ اِسی طرح دیگر اَولیاء کرام سے بہت گہرا روحانی تعلق اور پختہ ربط تھا۔ آپ اُن سے اِکتسابِ فیض کرتے اور ہر وقت اُن سے اِرتباط و اِتصال رہتا۔
6۔ شخصی فضائل
حضرت فریدِ ملّت کی خلوت بھی پاک تھی اور جلوت بھی، ان کی خلوت و جلوت کی کیفیات ہمیشہ یکساں رہتیں۔ اُن کا لباس صاف ستھرا اور عادات غایت درجہ پاکیزہ و مطہر اور مصفیٰ تھیں۔ معمولات پاک تھے۔ حسنِ اَخلاق کا ثمر اور اِعجاز تھا کہ طبیعت میں پاکیزگی اور عاجزی و اِنکساری یوں کوٹ کوٹ کر بھری تھی جیسے کستوری میں خوشبو۔
- حضرت فریدِ ملّت نے عمر بھر کسی عالم، محقق یا شیخِ طریقت کے بارے میں کبھی ایسا جملہ لب ہاے مبارک سے ادا نہیں کیا جس میں اُن پر تنقیص اور تنقید کا کوئی بالواسطہ پہلو بھی نکلتا ہو۔ تمام عمر کبھی کسی چھوٹے بڑے کی تنقیص کی نہ تنقید، نہ کسی کی کمزوری بیان کی اور نہ اپنی مجلس میں کسی کو کسی کی کمزوری بیان کرنے کی اِجازت دی۔ یہ حیا داری تھی۔ اُن کی زبان کی طہارت اور تحفظِ سمع و بصر کا یہ عالم تھا۔
- حضرت فریدِ ملّت کبھی کسی کے لیے تنگ دل نہیں تھے۔ اُن کے قلب کا آبگینہ سوئے ظن یا حسد کے تکدر سے یکسر پاک تھا، اُن کا قلبِ صافی کِبر و عُجب سے منزہ تھا۔ طبیعت بھی بھرپور متواضع تھی۔ وہ سراپا عجز و اِنکسار اور حد درجہ ملنسار تھے۔ صوفیاے با صفا اور اولیاے با خدا کے یہی خصائص و اَوصاف، علامات و اَقدار اور محاسن و خصائل ہوتے ہیں۔
- حضرت فریدِ ملّت کی طبیعت میں کمال درجے کی فیاضی اور سخاوت تھی۔ اِنفاق فی سبیل اللہ، صلہ رحمی، غرباء، یتامیٰ، بیوگان اور خاص طور پر سادات گھرانوں کا بہت خیال رکھتے۔ جھنگ میں پندرہ بیس حاجت مند گھرانوں کی ماہانہ کفالت کرتے۔ شیخ الاسلام بچپن میں راتوں کے اندھیروں میں خود جاتے، دروازے پر دستک دیتے اور محروم الوسائل گھرانوں تک اَشیاے ضروریہ اور اَشیاے خور و نوش پہنچاتے تھے۔
- حضرت فریدِ ملّت ہر انسان کے ساتھ شفقت، ہمدردی، معاونت، راہ نُمائی اور خیر خواہی کا جذبہ رکھتے تھے۔ یہ بات بلا مبالغہ و بلااِشتباہ کہی جاسکتی ہے کہ آپ نے پوری زندگی میں کبھی کسی کا بُرا نہیں سوچا۔ حکیم الامت علامہ محمد اِقبال کے اِن اَشعار کا حقیقی مِصداق اور جیتی جاگتی تصویر تھے:
نہ تخت و تاج میں نَے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
مِرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب
نہ مَدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
علم و عمل کا یہ درخشندہ آفتاب حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری 2 نومبر 1974ء مطابق 16 شوال 1394ھ بروز ہفتہ صبح پونے 8 بجے اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)