تقویٰ کا مفہوم اور متقین کی علامات

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بندے کو تقویٰ اختیار کرنے پر متعدد نعمتیں اور رحمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ان نعمتوں اور رحمتوں کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:

1. وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاَ.

اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے۔

2. وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَھُوَ حَسْبُهٗ.

اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے۔

3. وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًاَ.

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔

4. وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یُکَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰ تِهٖ وَیُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا.

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ اُس کے چھوٹے گناہوں کو اس (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیتا ہے اور اجر و ثواب کو اُس کے لیے بڑا کردیتا ہے۔‘‘

(الطلاق،65:2۔5)

گویا اللہ تعالیٰ متقین کو دنیا میں درج ذیل صورتوں میں اپنے انعامات سے نوازتا ہے:

1. دنیا و آخرت کے رنج و غم سے نکلنے کی راہ عطا فرماتا ہے۔

2. عالم غیب سے رزق کے اسباب پیدا فرماتا ہے۔

3. جملہ معاملات اور امور میں آسانی پیدا فرماتا ہے۔

4. صغیرہ گناہوں کو اس کے نامہ اعمال سے مٹادیتا ہے۔

  • امام عبدالرحمن السلمی (الوصیۃ، ص: 41) اپنے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اوصیکم یا اخی احسن الله توفیقکم و نفسی تقوی الله.

’’اے میرے بھائی اللہ تعالیٰ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ میں آپ کو اور اپنے آپ کو نصیحت اور وصیت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ ‘‘ اس لیے کہ:

تقوی الله کفاک کل هم.

(السلمی، الوصیۃ، ص:41)

’’تقویٰ تمہیں دنیا کی ہر پریشانی سے نجات دلانے والا ہے۔‘‘

پھر فرمایا: وان اتقیت الناس: اگر تم لوگوں سے ڈرتے رہے اور اللہ کو بھلا کر لوگوں کے دروازے پر چلے گئے اور منگتے بن کر ان کے سامنے کھڑے بھی رہے تو جان لو!

لن یغنوا عنک من الله شیئا.

وہ تمہیں اللہ کی بارگاہ سے عاجز نہیں کرسکتے، اللہ سے بے نیاز نہیں کرسکتے، پھر بھی تمہیں اللہ کی ضرورت ہے۔

بندے کو اللہ تعالیٰ کی کتنی حاجت ہے؟ اس حوالے سے امام ابوبکر الشبلی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں سیکڑوں علماء، اتقیاء، محققین اور مصلحین کی صحبت میں وقت گزارا اور بڑے بڑے علماء کے ہاں زانوئے تلمذ تہہ کیا لیکن میری زندگی کا نچوڑ صرف ایک ہی حدیث مبارک بن گئی جسے میں نے اپنے قلب و باطن میں انمول موتی کی مانند محفوظ کرلیا اور اپنی زندگی کا زادِ راہ اور نجاتِ آخرت بنالیا۔ آقا ﷺ نے فرمایا:

واعمل للدنیا بقدر بقائک فیھا واعمل للآخرة بقدر مقامک فیھا. واعمل لله بقد ر حاجتک الیه واعمل للنار بقدر صبرک الیھا.

(الغزالی، ایھا الولد، ص:121)

اے بندے اس دنیا کے لیے اتنا کر جتنا تو نے اس میں رہنا ہے اور آخرت کے لیے اتنا کرجتنا تو نے آخر ت میں رہنا ہے۔ اور اپنے رب کے لیے اتنا کر جتنا تجھے اس سے حاجت رہتی ہے۔ اور دوزخ کی آگ کے لیے اتنا کر جتنا تو اسے برداشت کرسکتا ہے۔

چونکہ ہمیں اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے، کھانے پینے حتی کہ ہر ہر لمحے کے لیے خدا کی حاجت ہے تو پھر اے بندے تو اس کے لیے اتنا کر جتنا تجھے اس کی حاجت ہے۔

  • سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کا معنی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:

ھی الخوف من الجلیل والعمل بالتنزیل والقناعة بالقلیل والاستعداد لیوم الرحیل.

(الصالحیی، سبل الھدی والرشاد، ج:1، ص: 421)

تقویٰ یہ ہے کہ رب جلیل کے جاہ و جلال سے خوف کھایا جائے۔ اس کی نازل کردہ کتاب قرآن مجید پر عمل کیا جائے (خوشحالی ہو یا تنگی ہر حال میں بندہ اس کے احکامات پر عمل پیرا رہے) تھوڑی سی نعمت پر بھی قناعت کیا جائے۔اور بندہ ہر وقت موت کی تیاری میں لگا رہے۔

اگر یہ ساری خوبیاں کسی وجود میں جمع ہوجائیں تو سمجھ لیں اللہ نے اسے تقویٰ کا پیکر بنادیا۔

  • سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ فرمایا:

المتقون هم الذین یحضرون من الله عقوبة.

(ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، ج1، ص 159)

متقین وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔

  • حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ واتقو الله حق تقاتهکا مطلب کیا ہے؟ فرمایا:

تقویٰ الله ان یطاع فلا یعصی. ویذکر فلا ینسی وان یشکر فلا یکفر.

(ابن ابی شیبہ، ج:7، ص: 106، رقم: 34553)

اللہ کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کی اطاعت اس انداز میں کی جائے کہ پھر بندہ نافرمانی نہ کرسکے۔ اور اس کو ایسا یاد کرو کہ پھر اسے کبھی نہ بھولو اور اس کا شکر ایسے ادا کرو کہ پھر اس کی ناشکری نہ ہو۔

یعنی اس کی یاد کو ایسے تھام لیں کہ پھر کوئی چاہ کر بھی اس کی یاد کو دل سے نہ نکال سکے۔ اور اس کی اطاعت میں ایسے مصروف ہوجائیں کہ گناہ چاہے بھی تو ہمارے باطن میں نہ جاسکے۔ اس کا شکر ایسے ادا کیا جائے کہ کفران نعمت نہ ہو سکے۔ گناہ کی طرف واپس نہ آسکیں اور گناہوں کی وادی سے ایسے ہجرت کرجائیں اور تقویٰ کا لباس پہن لیں کہ گناہ دوبارہ وجود میں نہ گھس سکیں۔ جب یہ مقام اور کیفیت کسی کو نصیب ہوجائے تو سمجھ لیں اللہ رب العزت نے اس کو راہِ تقویٰ کا مسافر بنادیا ہے۔

  • صاحب تفسیر مظہریؒ نے متقی کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:

والمتقی من یقي نفسَه عما یضرّہ فی الآخرۃِ من الشرکِ، وذلکَ أدناه، ومن المعاصي، وذلکَ أوسطُه، ومن الاشتغال بما لایعنیه، ویشغله عن ذکر اللّٰہ تعالی، وذلکَ أعلاه، وهو المرادُ بقوله تعالی: حَقَّ تُقَاتِهِ.

(1/23,24)

متقی وہ شخص ہے جواپنے آپ کوشرک سے بچائے جو آخرت میں اس کو نقصان پہنچانے والاہے۔ پھر تقوی کی تین قسمیں ہیں:

(1) شرک سے بچنا۔ اور یہ ادنی درجہ ہے۔

(2) گناہوں سے بچنا ہے۔ اور یہ اوسط درجہ ہے۔

(3) لایعنی باتوں اور چیزوں میں اشتغال سے بچنااور ایسی چیز میں اشتغال سے بچنا اور احتراز کرنا جو آدمی کو اللہ کے ذکر سے غافل کردے۔ اور یہ تقوی کا سب سے اعلی درجہ ہے اور یہی مراد ہے اللہ تعالی کا قول: ’’حَقَّ تُقَاتِہِ‘‘ سے۔یعنی اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

  • ملا علی قاریؒ نے فرمایا:

المتقي فی الشریعةِ: الذي یقي نفسَه تعاطي ما یستحقّ به العقوبةَ مِن فعلٍ أو ترکٍ.

(مرقاۃ:3/1136،تحت رقم حدیث: 1555)

شریعت میں متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو اس چیز کے ارتکاب سے بچائے جس سے وہ عذاب وسزا کا مستحق ہوگا، خواہ اس کا تعلق عمل سے ہو جیسے شراب پینا، یاترکِ عمل سے ہو جیسے غیبت نہ کرنا، سود نہ کھانا۔

اور حضرت شہر بن حوشبؓ نے فرمایا:

المتقي الذی یترکُ ما لابأسَ به حذرًا عمّا به بأسٌ.

(تفسیر مظہری:1/24)

متقی وہ آدمی ہے جو اس چیز کو چھوڑدے جس میں کوئی قباحت نہ ہواس چیز سے بچنے کے لیے جس میں کوئی قباحت ہو۔

  • حضرت بایزید بسطامیؒ نے فرمایا:

المتقي: مَن إذَا قال: قال للّٰهِ، ومَن إذا عمِل عمِل للّٰهِ.

(تفسیر قرطبی: 1/161)

متقی وہ شخص ہے کہ جب بولے تو اللہ کے لیے بولے اور جب عمل کرے تواللہ کے لیے عمل کرے، یعنی متقی کا ہر قول وعمل اللہ کے لیے ہوتا ہے۔

  • ابو سلیمان دارانیؒ نے فرمایا:

المتقونَ الذینَ نَزَعَ اللّٰهُ عن قلوبِهم الشهواتِ.

(تفسیرقرطبی: 1/161)

متقی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں سے اللہ تعالی نے شہوتوں کو نکال دیا ہے۔

  • حضرت طلق بن حبیب فرماتے ہیں:

التقویٰ اعمل بطاعة الله علی نور من الله. ترجوا ثواب الله وان تترک معصیة الله علی نور من الله تخاب عقاب الله.

(ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ج:3، ص: 64)

تقویٰ یہ ہے کہ اللہ کے نورِ ہدایت سے اللہ کی اطاعت کرے۔ اس کی طرف اجرو ثواب کی امید رکھے ہوئے ہو۔ اور اس کے نورِ ہدایت کے ذریعے سے ہر وقت اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے گناہوں کو ترک کرے۔

  • شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تقویٰ کی جامع تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ:

تقویٰ یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ اے بندے میں نے جس حال میں تجھے دنیا میں بھیجا تھا، جب تم میرے پاس لوٹ کر آؤ تو اپنے آپ کو میرے حوالے اسی حال میں کرو جس حال میں تمھیں بھیجا تھا۔

یعنی اے بندے میں نے تجھے فطرت پر پیدا کیا تھا، جب میری طرف لوٹ کر آؤ تو اس فطرتِ سلیمہ پر قائم ہو۔۔۔ قلبِ سلیم دے کر بھیجا تھا تو جب میری طرف آؤ تو مجھے تمہارے دل میں چمکتا ہوا اجلا دل اسی طرح چاہیے جس طرح دیا تھا۔۔۔ جس طرح میں نے تمہارے اعضاء گناہوں سے پاک بناکر بھیجے تھے، مجھے تمہارے اعضاء کی پاکیزگی بھی ویسے چاہیے جس طرح تمہیں دے کر بھیجا تھا۔۔۔ جس طرح تمہاری نگاہوں کو حیا دیا تھا، جب نگاہ مجھے واپس کرو تو مجھے وہی نظر درکار ہے جیسے تمہیں دی تھی۔۔۔جس طرح تمہارے احساسات، شعور اور حواس خمسہ ظاہرو باطن تمہیں دیئے تھے، اے بندے جب تو مجھے ان نعمتوں کو واپس لوٹائے تو مجھے تمہارے ظاہری حواس بھی ویسے چاہئیں جیسے لے کر گئے تھے اور باطن بھی ویسا چاہیے جیسے لے کر گئے تھے۔

گویا تقویٰ یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اللہ کی ہر ہر نعمت کا محافظ و نگہبان بن کے رہے اور نگاہ اٹھاتے وقت سوچے کہ میری نگاہ کسی ایسی جگہ نہ پڑ جائے کہ جہاں خدا ناراض ہوجائے۔۔۔ زبان سے کوئی چیز ادا ہو تو بندہ یہ سوچے کہ کہیں کسی لفظ سے خدا کی نافرمانی نہ کر بیٹھے۔۔۔ دل میں کہیں خدا کی یاد سے غفلت، نافرمانی اور حرام کی نیت نہ پیدا ہوجائے۔۔۔ اللہ نے قدم دیے تو قدم کہیں اس سمت نہ چلے جائیں جہاں خدا نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔ جذبہ، احساس سلامت رہے مگر کبھی ایسا شعور نہ پیدا ہوجائے کہ وہ کچھ کر بیٹھے کہ جس سے خدا ناراض ہوجائے۔

  • سیدنا سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں:

انصار قبیلے کا ایک نوجوان تھا جو آقا ﷺ کی مجلس میں آکر بیٹھا کرتا تھا۔ اس نوجوان پر قیامت اور دوزخ کی آگ کا ایسا خوف طاری ہوا کہ وہ ہر وقت اسی خوف کے حصار میں رہتا اور دوزخ کا ذکر سن کر روتا رہتا۔ اٹھتے، بیٹھتے، آتے جاتے ہر وقت اس پر قیامت اور دوزخ کی آگ کا خوف طاری رہتا۔ وہ پیکر آہ و بکا ہوگیا، جب بھی قیامت کا ذکر ہوتا تووہ رونے لگ جاتا اور اس کی ہچکی بندھ جاتی اور اس کے ایسے آنسو جاری ہوتے کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتے۔ یہاں تک کہ اس نوجوان نے اپنے آپ کو گھر میں قید کرلیا اور باہر نکلنا بند کردیا۔

آقا ﷺ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس نوجوان کی اس حالت کی خبر دی کہ یارسول اللہ ﷺ ! وہ جوان ہر وقت زارو قطار روتا رہتا ہے اور قیامت کے خوف کی وجہ سے گھر میں قیدی بن کر بیٹھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور اس کے حال کی خبر لینے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ اس نوجوان کو آپ ﷺ نے اپنے سینہ اقدس کے ساتھ لگالیا۔ سینہ اقدس سے لگانے کی دیر تھی کہ اسی وقت اس نوجوان کی چیخ نکلی اور اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ آقا ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اس کی تجہیز و تکفین کا حکم دیا اور فرمایا کہ قیامت کا خوف اس کے دل میں ایسا وارد ہوا ہے کہ اس کے جگر کے ٹکڑے ہوگئے ہیں۔

(الحاکم المستدرک علی الصحیحین، ج2، ص 536، الرقمم: 3828)

  • سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے تقویٰ کا عالم یہ تھا کہ ایک روز ایک درخت کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتے جارہے تھے۔ صحابہ کرامؓ میں سے کوئی صحابی آیا اور کہنے لگا: یاامیرالمومنین! ماجرا کیا ہے۔ اسی درخت کو دیکھے جارہے ہیں۔ فرمایا:

لوددت انی کنت ھذہ الشجرۃ.

(احمد بن حنبل، الزہد، ص112)

میری تو خواہش یہ ہے کہ کاش میں بھی درخت ہوتا کہ جسے اکھاڑا اور کاٹا جاتا اور قیامت والے دن حساب سے آزادہوجاتا۔

  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ آپ نے سوال کرنے والے سے فرمایا کہ کیا کبھی آپ نے کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرے ہوئے راستے کا سفر کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا کہ ایسے راستے سے آپ کیسے گزرے ہیں؟ عرض کیا: میں کانٹوں سے بچتا رہا اور کپڑوں کو سمیٹ کر احتیاط سے چلتا رہا۔ قدم رکھتے وقت بھی احتیاط کرتا اور قدم اٹھاتے وقت بھی احتیاط کرتا اور ہر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا رہا یہاں تک کہ کانٹوں بھرے رستے سے گزر گیا۔ فرمایا: اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔

(جامع العلوم والحکم، 402)

یعنی جو شخص راہِ تقویٰ پر چل رہا ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے کہ کہیں کوئی معاصی اس کے جسم سے لگ نہ جائے۔۔۔ کہیں کوئی نافرمانی نہ ہوجائے۔۔۔ کوئی غفلت نہ ہوجائے۔۔۔ کان کوئی ایسی بات نہ سن لیں جو حرام ہے۔۔۔ زبان کوئی ایسی چیز نہ چکھ لے جو حرام ہے۔۔۔ دل میں کوئی ایسا گمان نہ آجائے جو حرام ہے۔ تقویٰ کے راستے پر گامزن شخص اس طرح دنیا کے اندر اپنے آپ کو بچا کر چل رہا ہوتا ہے کہ وہ عجب، لالچ، طمع، بغض، عداوت اور کینہ، ظلم و زیادتی، فحش گوئی، بے راہروی اور اس طرح کے تمام رذائل سے اپنے دامن کو بچا کر سفر کرتا ہے۔

پس تقویٰ یہ ہے کہ کاروبار کرو مگر اس انداز سے کرو جس میں میرے محبوب کی منشاء ہے۔۔۔ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھو مگر اس انداز سے رکھو جس میں خدا اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا ہے۔۔۔ اب رہنا اسی دنیا میں ہے اور اس دنیا سے فائدہ بھی اٹھانا ہے مگر یہ فائدہ تقویٰ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اٹھانا ہے اور ہر طرح کی بے راہروی اور غلط سوچ کو ترک کرنا ہی تقویٰ ہے۔

  • ایک شخص سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے صحابی رسول! میں دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے جارہا ہوں، مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے بندے تیرے لیے نصیحت یہ ہے کہ خدا کا تقویٰ اختیار کر، اس حال میں کہ تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔

پھر فرمایا: اے بندے اگر تو صاحب تقویٰ رہنا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو زندہ بندوں میں شمار نہ کر بلکہ اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر۔

پھر فرمایا: کسی لمحے بھی کسی فقیر اور مظلوم کی بددعا نہ لے لینا، اس کی آہ سے بچنا۔

(احمد بن حنبل، الزہد، ص142)

  • اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا.

’’ اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں۔‘‘

(الفرقان،25: 63)

زمین پر آہستگی سے چلنے سے ایک مراد تو غرور و تکبر نہ کرنا ہے لیکن ایک مراد یہ ہے کہ عبادالرحمن جو صاحبانِ تقویٰ ہوتے ہیں، یہ لوگ دنیا کی لغزشوں اور برائیوں کی کانٹے دار جھاڑیوں سے بچ کر نیکی کی صاف و شفاف راہ پر چلتے ہیں۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے بھی ہیں اور اٹھاتے بھی ہیں تاکہ نہ قدم رکھنے پر خدا کی نافرمانی ہو اور نہ اٹھانے پر نافرمانی ہو۔ جن کی ہر نگاہ میں بھی نیکی ہوتی ہے اور ہر اٹھنے والے قدم میں بھی نیکی پیشِ نظر رہتی ہے۔ حتی کہ وہ عبادالرحمٰن کے مقام پر فائز ہوجاتے ہیں۔پھر فرمایا:

وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.

(الفرقان،25: 63)

’’ اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘

یعنی صاحبانِ تقویٰ جن کو اللہ رب العزت عبادالرحمن کے ٹائٹل سے مخاطب کررہا ہے، یہ لوگ اپنی زبان کو بھی کنٹرول میں رکھتے ہیں۔

اگر ہم دورِ حاضر میں اپنے اعمال و کردار پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جب ہم غصے، جلال اورغضب میں آجاتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ کن کی ہتک کررہے ہیں۔۔۔ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کررہے ہیں۔۔۔ کسی کی حق تلفی کررہے ہیں اور کسی کے مقام کو گرارہے ہیں۔۔۔ اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جبکہ عبادالرحمٰن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر قدم پر سوچتے ہیں کہ کہیں میری کسی ادا، میرے لہجے اور لین دین سے کسی کو کوئی نقصان تو نہیں ہورہا۔۔۔؟ میری سوچ اور میری نیت و فکر سے معاشرے میں کسی کو گزند تو نہیں پہنچ رہا۔۔۔؟ الغرض صاحبانِ تقویٰ اپنےہر قول اور عمل حتی کہ اپنی سوچ اور باطن پر بھی پہرہ دیتے ہیں کہ کسی طرف سے بھی کوئی معمولی سی حرکت اور عمل بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی میں صادر نہ ہو۔

  • سیدنا غوث الاعظمؓ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تقویٰ کو ترک کرنے سے توبہ کرلو کیونکہ تقویٰ دوا اور علاج ہے۔ اس کو چھوڑنا بیماری یعنی گناہ میں اضافہ کرنا ہے۔

(الفتح الربانی، ص: 279)

  • حضرت معروف کرخیؓ سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ فرمایا: پاکیزہ لوگوں کے دل تقویٰ سے کشادہ ہوتے ہیں اور پھر نیکی کرنے سے دل چمکدار ہوتے ہیں جبکہ گناہگاروں کے دل فسق و فجور سے ظلمت کدہ بن جاتے ہیں اور گندی اور غلط نیت سے وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔ ان سے بچتے رہو گے تو پیکرِ تقویٰ ہوجاؤ گے۔

(طبقات الصوفیاء، السلمی، ص: 90)

  • حضرت جعفر بن حنظلہ سفر کررہے تھے کہ ایک فقیر آپ کی بارگاہ میں آیا اور وہ آتے ہی بیمار ہوگیا۔ اتنا شدید بیمار ہوا کہ چلنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ آپ نے سفر روک لیا اور وہاں کوئی جگہ کرائے پر لے کر اس فقیر کا علاج معالجہ کرنا شروع کردیا۔ اس فقیر کی خدمت کرتے رہے حالانکہ آپ اس فقیر کو جانتے بھی نہ تھے۔ لوگ بیان کرتے ہیں کہ اتنی خدمت کی کہ اس کے پاؤں بھی دبائے۔

امام جعفرؓ فرماتے ہیں کہ جب بھی اس فقیر کو افاقہ ہوتا تو مجھے خدمت کرتے ہوئے دیکھتا تو خوش ہوکر کہتا کہ اے بندے آپ بہت اچھے ہیں، کاش آپ یہودی نہ ہوتے۔ آپ اس کی یہ بات سنتے اور خاموشی سے خدمت کرتے رہے۔ ایک دن بھی آپ نے اس سے نہیں کہا کہ میں مسلمان ہوں اور تو مجھے یہودی کہتا ہے۔ آپ خاموش رہے اور اس کی خدمت کرتے رہے اور اسے اس کے قول کی وجہ سے شرمندہ کیا اور نہ ہی اس کی خدمت میں کوئی کمی آنے دی۔

(حدائق الحقائق، الرازی، ص:178)

پتہ چلا اللہ والے تحمل اور برداشت سے رہتے ہیں، وہ صبر والے ہوتے ہیں، وہ وسعت والے ہوتے ہیں۔ ان کے دل سمندر کی طرح ہوتے ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی بات پر مشتعل نہیں ہوتے اور نہ جھگڑتے ہیں بلکہ صبر کرتے ہیں۔ یہ اولیاء کا شیوہ ہے۔ اس معاشرے کو بچانا ہے تو اولیاء و صالحین اور اتقیاء و ابرار کے شیوہ کو اپنانا ہوگا۔ اپنے مزاج کے اندر تقویٰ والی کیفیت پیدا کرنی ہوگی۔ اگر اہل تقویٰ بننا چاہتے ہیں تو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ہر ہر قدم پر خوفِ الہٰی طاری رکھیں گے تو بچیں گے اور اگر اللہ رب العزت کا ڈر اور خوف نہیں ہوگا تو پھر دنیا و آخرت میں ناکامی و نامرادی مقدر ہوگی۔