فروغِ علم و شعور اور دینی و اخلاقی اقدار کا احیاء تحریک منہاج القرآن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے اپنی چار دہائیوں پر مشتمل دینی و دعوتی مساعی کے ضمن میں دنیا بھر میں دینی و عصری علوم کے فروغ کے لئے روایتی و غیر روایتی سیکڑوں ادارے قائم کئے ہیں۔ اگر تحریک کے اپنے اور اس کے نظام سے ملحق ادارے شامل کئے جائیں تو ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ تعلیم و تربیت کے فروغ سے ممکن ہے۔ اسی لئے انہوں نے اول روز سے تحریک منہاج القرآن کو علم و شعور کے سفر پر گامزن کیا اور ایک تعلیم یافتہ نسل پروان چڑھانے کے لئے اعلیٰ معیار کے تعلیمی و تربیتی مراکز قائم کئے۔ تحریک منہاج القرآن نے کبھی عوامی تعلیمی مراکز کی صورت میں گاؤں گاؤں تعلیم و تربیت کے اداروں کی داغ بیل ڈالی اور کبھی آئیں دین سیکھیں اور عرفان القرآن کورسز، ڈپلومہ ان قرآن سٹڈی کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں لوگوں کو قرآنی تعلیمات سے روشناس کروایا تاکہ ایک پرامن مصطفوی معاشرہ کی تشکیل عمل میں لائی جا سکے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے افرادِ معاشرہ کی اصلاح اور ان کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آئندہ 5 سالوں میں ملک بھر میں 25 ہزار مراکزِ علم کے قیام کا اعلان فرمایا ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور اس کے جملہ فورمز معاشرے کے درد مند افراد کی معاونت سے یہ مراکز قائم کرے گی۔ مراکزِ علم کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں گزشتہ سے پیوستہ اداریہ میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ الحمداللہ ان مراکز علم کے لئے ایک جامع نصاب مرتب کر لیا گیا ہے جو استفادہ کے لئے منہاج القرآن پبلی کیشنز سے شائع ہوا ہے اور منہاج القرآن سیل سنٹر پر دستیاب ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مراکزِ علم کی اہمیت اور ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث اور سیرت و اخلاق نبوی ﷺ پر مشتمل اصلاحِ اعمال اور احوال کی ایسی تعلیمی جدوجہد کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں مصطفوی معاشرے کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔ مراکزِ علم کے مقاصد درج ذیل ہیں:
- قرآن فہمی اور سنتِ رسول ﷺ پر عمل کی ترغیب دینا
- عقیدۂ صحیحہ اور افکارِ اسلامیہ کا فہم حاصل کرنا
- ذات مصطفی ﷺ سے حُبی و عشقی تعلق پختہ کر کے اس کے ذریعے آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع کا داعیہ بیدار کرنا
- معاشرے کو اسوہ محمدی ﷺ کا عملی نمونہ بنانے کی سعی کرنا
- اخلاقی و روحانی امور کی ترغیب اور تزکیۂ نفس کی عملی تربیت دینا
- افراد معاشرہ کی ذہنی و فکری بالیدگی اور جسمانی طہارت اور صحت کااہتمام کرنا
- معاشرے میں احترامِ انسانیت اور خدمتِ خلق کے جذبات کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنا
- بنیادی اور ناگزیر فقہی مسائل سے آگاہی دینا
- محض مطالبۂ حق کی بجائے فرائض کی ادائیگی کے رجحان کو فروغ دینے کے لئے حقوق و فرائض کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینا
- معاشرہ میں باہمی اخوت و بھائی چارہ کو فروغ دینا۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ مراکزِ علم کی عملی شکل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہر مرکزِ علم تربیت گاہ کی طرز کا عوامی مرکز ہوگا۔ مرکزِ علم تعلیمی اداروں، مدارس، مساجد، دفاتر یا گھر کے ایک کمرے میں قائم کیا جا سکتا ہے۔ مرکزِ علم پر تعلیم و تربیت کا دورانیہ ایک سال کا ہو گا۔ چار چار ماہ کے تین سمسٹر ہوں گے۔ ہر سمسٹر کے لئے الگ الگ سلیبس ہو گا۔ مرکزِ علم میں 15 سے 20 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ مرکزِ علم میں شرکاء کی تعداد کم سے کم 10 ہو البتہ 7افراد سے اس کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ ایک حلقہ زیادہ سے زیادہ 50 افراد پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مرکزِ علم کے باہر تحریک کی طرف سے فراہم کردہ ڈیزائن کے مطابق مقامی ایڈریس کے ساتھ بورڈ آویزاں کئے جائیں۔ ہر مرکزِ علم میں مرکز کی طرف سے فراہم کیا گیا سلیبس پڑھایا جائے گا۔ مرکزِ علم میں تدریس ہفتہ وار دو گھنٹے ہو گی۔ منتظمِ حلقہ کو اختیار ہو گا کہ مقامی ماحول اور شرکاء کی مشاورت سے دو دن ایک ایک گھنٹہ کلاس منعقد کر لیں یا ایک ہی دن دو گھنٹے میں مقررہ سلیبس کی تدریس کر لی جائے۔ ہر لیول کی تکمیل پر یادداشت کا جائزہ لے کر اختتام پر شرکاء کو سرٹیفکیٹ جاری ہوں گے۔
انہوں نے فرمایا ہر مرکزِ علم پر تدریس کے فرائض مرکزی شعبہ کورسز کی طرف سے تربیت یافتہ معلم ہی سرانجام دے گا۔ منتظم اگر خود تدریس کے فرائض سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کی معلمین ٹریننگ ورکشاپ میں شرکت لازمی ہو گی۔ مرکزِ علم کا منتظم معلم کے حصول کے لئے اپنے فورم کے ضلعی سربراہ سے رابطہ کرے گا۔ خواتین کے مراکزِ علم کا قیام، نگرانی، معلمات کی فراہمی اور معاونت منہاج القرآن ویمن لیگ کرے گی۔ منتظم مرکزِ علم سلیبس میں دی گئی عملی ورکشاپ اور سرگرمیوں کے انعقاد کو یقینی بنائے گا۔ان مراکزِ علم میں تجویدو قراء ت، ترجمہ و تفسیر، حدیث نبوی ﷺ ، سیرت الرسول ﷺ ، فقہ، ارکانِ ایمان، آداب و معاملات، افکار و نظریات، شخصیت سازی، اخوت و بھائی چارہ کے مضامین پڑھے اور پڑھائے جائیں گے۔
مرکزِ علم کے قیام کے پس منظر میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی وہ تجدیدی اور اصلاحی فکر کارفرما ہے جس کے مطابق ایک مصطفوی معاشرہ کے قیام کے لئے درج ذیل کردار اہم ہیں جن کی اصلاح اور تربیت نہایت ضروری ہے۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام نے 7 میم کا اچھوتا تصور دیا ہے:
(1) ماں: کسی بھی فرد معاشرہ کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے۔ اگر اس تربیت گاہ کو قرآن و سنت کے مطابق تیار کر لیا جائے تو اس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ سوسائٹی میں مثبت اور تعمیری رجحانات پروان چڑھنا شروع ہو جائیں گے۔
(2) مسکن: گھر ایک ایسی تربیت گاہ ہے جو بچے کی فکری و شعوری پرورش میں اہم کردار ادا کرتی ہے، بچہ گھر کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ اس لئے ہر گھر کو مصطفوی گھرانہ بنانا ایک ناگزیر دینی تقاضا ہے۔
(3) مکتب: مکتب بچے کی تربیت و پرورش اور تعلیمی رجحانات پروان چڑھانے کی باضابطہ تربیت گاہ ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ سکول، مدرسہ کے لئے اچھے اساتذہ تیار کیے جائیں جو نسلوں کی فکری تربیت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
(4)مسجد: اسلامی معاشرے میں آج بھی تربیت کے ضمن میں مسجد کا کردار اہم ہے، مسجد کے ذریعے دین کے سہی، متوازن اور معتدل تصور کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ائمہ و خطباء اور نمازیوں کی صحیح دینی تربیت ناگزیر ہے۔ مسجد پورے معاشرے کی اصلاح کے لئے ایک فعال اور موثر تربیتی یونٹ ہے۔
(5)میڈیا: عصرِ حاضر میں دینی و اخلاقی رویوں کے فروغ و احیاء کے لئے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مراکزِ علم میں زیر تعلیم افراد کو ذرائع ابلاغ کے موثر اور بامقصد استعمال کی تربیت مہیا کی جائے گی تاکہ ذرائع ابلاغ کو نیکی اور خیر کی اشاعت اور برائی اور شر کے خاتمے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
(6) معیشت: مثبت اقدار پر استوار سوسائٹی کے اندر معیشت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات نہایت ضروری اور دینی تقاضا ہے کہ لوگوں میں ذرائع معیشت کے باب میں حلال و حرام کی تمیز پیدا کی جائے، انہیں قناعت کی برکات سے آگاہ کیا جائے اور ایک دوسرے کی مدد کے لئے انفاق فی سبیل اللہ کی طرف راغب کیا جائے اور مواخات کے ذریعے معاشی تعاون اور تکافل کے رجحانات کو فروغ دیا جائے۔
(7) معاشرت: سوسائٹی کو ہر نوع کی تنگ نظری، انتہا پسندی اور متشدد رویوں سے بچانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ معاشرے کی تمام اکائیوں کو باہمی خوشگوار تعلقات کے لئے تیار کرنا اور سازگار ماحول پیدا کرنا معاشرت کے باب میں اولین ذمہ داری ہے۔ فی زمانہ فرقہ واریت، انتہا پسندی اور عدمِ برداشت کی وجہ سے اتحادِ اُمت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے اور سوسائٹی میں تقسیم اور انتشار کا دور دورہ ہے۔ وحدت اور جماعتی آہنگ اسلام کی اخلاقی و روحانی تعلیمات کی روح ہے۔ تحریک منہاج القرآن؛ ماں، مسکن، مکتب، مسجد، میڈیا، معیشت اور معاشرت کو بطورِ مثال پیش کر کے مصطفوی معاشرے کا قیام چاہتی ہے۔