یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن!
قافلہ قلندراں کے میرِ کارواں عبدالصالح ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ اپنی عبادت گزاری، شبِ بیداری، گریہ و زاری، سجدہ ریزی، قیال اللیل اور مناجاتِ مولا کے باعث اپنی ایک عظیم کرامت کے سبب مقبول انام ہوئے۔ اس کرامتِ عظمیٰ کا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ ہے جو آپ کے خصوصی تربیت یافتہ اور فیض یافتہ ہیں اور آفاقی شہرت کے ساتویں آسمان پر فریدِ ملتؒ کی کرامت اور شب و روز کی ریاضت بن کر چمک رہے ہیں۔ حضرت فرید ملتؒ نے اپنے روحانی فیض اور علمی کمالات سے اپنے فرزندِ ارجمند کے دامنِ مراد میں علم و نور کی ایک ایسی چنگاری بھردی جو آج شعلہ نہیں بلکہ نورِ بصیرت بن کر چمک رہی ہے اور پورے عالم اسلام میں شیخ الاسلام کے نام سے موسوم ہیں۔ فریدِ ملتؒ ہمیشہ تقویٰ، پرہیزگاری اور پارسائی پر ثابت قدم رہے۔ معیوب افعال یعنی کہ معصیت سے بچتے رہے۔ یہی عوامل انھیں دیگر مقربین میں ممتاز اور معتبر کرتے ہیں۔ فرید ملتؒ نے پوری زندگی زھد، تقویٰ اور عبادتِ الہٰیہ میں گزاری اور کشفی ریاضت کی منازل عبور کریں، وہ صرف صوفی باصفا نہ تھے بلکہ مقرب عبادالصالحین میں سے تھے۔
فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ لاریب جہاں بے شمار اوصاف حمیدہ اور علمی کمالات کے حامل اور کشفی فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات سے مالا مال تھے وہاں آپ کا وصف حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بھی درجۂ کمال کو چھوتا نظر آتا ہے۔ قارئین حضرت فریدِ ملتؒ کے سالانہ عرس کے مبارک موقع پر میرا ذوق وجدانی ماضی کے جھروکوں سے جناب فرید ملتؒ کا ایک اہم گوشۂ یعنی’’حقوق اللہ اور حقوق العباد‘‘ صفحۂ قرطاس پر آشکار کرنے کیلئے بے چین ہے۔ فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اسوۂ مصطفیﷺ سے متصف اولیائے عظام میں سے ایک تھے۔ آقائے دوجہاں نبی آخر الزماں جناب رسول اللہﷺ کے اعلیٰ اخلاق کو اگر دو حصوں میں تقسیم کریں تو دو اوصافِ کریمانہ معرض وجود میں آتے ہیں:
1۔ شخصی اوصاف
2۔معاشرتی اوصاف
ان اوصاف میں سے ایک وصف کو حقوق اللہ کی ادائیگی کا وصف اور دوسرے وصف کو حقوق العباد کی ادائیگی کا وصف قرار دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید فرقان عظیم کی رو سے یہی اوصاف حضور نبی اکرمﷺ کی پہچان ہیں اور کامل ایمان کی بنیاد بھی ہیں۔
قارئین کرام! حضرت فرید ملتؒ کی زیست بے مثل اور پُرتمکنت مگر سراپائے عجز و انکساری تھی۔ ان کی راتیں مصلے پرآہ و فَغانِ نیم شبی کے باعث ربِ محمدﷺکو منانے میں بسر ہوتیں اور دن مخلوقِ خدا کی خدمت اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بسر ہوتے۔ آپ دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ تھے۔ اپنے وقت کے جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ زبدۃ الحکماء اور ڈاکٹر تھے۔
حقوق العباد کی ادائیگی اور فرید ملتؒ
میں اپنی خونی قربت اور خاص نسبت کے باعث ’’فرید ملتؒ کا ایک خاص واقعہ عینی شہادت‘‘ کے ساتھ پیش کررہا ہوں! مجھے اُمید واثق ہے کہ اس سے قبل ادائیگی حقوق العباد کا یہ ناقابل فراموش اور روح پرور واقعہ آپ نے سنا اور پڑھا نہ ہوگا۔ یہ واقعہ میرے لیے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے بیان سے قبل میری فیملی کا مختصراً تعارف پیش کرنا ضروری ہے۔
فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ میرے والد گرامی قبلہ مہر غلام محمد صاحبؒ کے سب سے بڑے برادرِ حقیقی تھے لیکن فرید ملت نے دیگر بہن بھائیوں کی طرح اپنے بھائی مہر غلام محمد صاحب کی بود و باش اور تعلیم و تربیت بڑی دلجمعی اور خاص عرق ریزی اور شفقت سے سرانجام دی کیونکہ! ہمارے دادا حضور جو کہ جھنگ کے مضافات میں واقع قصبہ کھیوہ میں مقیم تھے۔ ایک طویل عرصہ قبل درویشی اور فقرِ طبعی کے باعث ہجرت کرکے اپنی زمین، جائیداد اور مال مویشی سے دستبردار ہوکر گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کی۔ جد اعلیٰ کے دیگر صاحبزادگان پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہوئے جبکہ فرید ملت کے دادا نے نگری سلطان باہوؒ کا رخ کیا اور نہایت سادگی سے نامعلوم انداز میں گزر بسر کرنے لگے۔ تاہم فرید ملت کے والد گرامی اور شیخ الاسلام کے دادا حضور الحاج خدا بخش صاحب فطرت جدی کے باعث محنت مزدوری اور کسبی مشقت سے روزی روٹی حاصل کرتے اور لقمۂ حلال سے فرید ملتؒ اور میرے والد مکرم قبلہ مہر غلام محمد صاحبؒ اور دیگر بہن بھائیوں کی پرورش کی۔
جب فرید ملتؒ ابتدائی بچپن سے لڑکپن کی طرف بڑھے تو نورِ علم کی تلاش میں بستی مرد قلندر جناب علامہ محمد اقبالؒ سیالکوٹ کا رخ کیا اور میٹرک کرنے کے بعد حیدر آباد لکھنؤ کا رخ کیا جو ان دنوں علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ وہاں تقریباً سات برس علم و ادب کے موتی چنے، بھوک پیاس کی آزمائشیں برداشت کیں اور بالآخر ڈاکٹری اور طبِ یونانی کی اعلیٰ امتیازی اسناد کے ساتھ پاکستان لوٹے اور اپنے بھائیوں کے مستقبل کا بیڑا اٹھایا اور علم کی دولتِ عظمی سے روشناس کرایا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنے بیٹوں کی طرح پروردہ بھائی کو پنجاب کے نامی گرامی وڈیروں اور جاگیرداروں کی چابکددستیوں کے باوجود ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق ایک طویل جدوجہد کے بعد جائز حق دلواتے ہوئے ’’نائب تحصیلدار‘‘ تعینات کروایا اور بڑے بڑے خاندانوں کے دانت کھٹے کردیئے۔ یہ آسامی جاگیرداروں اور وڈیروں کی جدی پشتی دھونس دھاندلی کی سیٹ تھی۔ وہ لوگ حیران تھے کہ یہ نوجواں جسے لکھنؤ سے آئے ابھی چند ایک سال ہی گزرے ہیں اور اس نے اپنے علم و حکمت سے اپنا ایسا مقام و مرتبہ بنا لیا ہے۔ ایک متوسط طبقہ میں نائب تحصیلداری کی پوسٹ جانے سے باقاعدہ میرٹ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور وڈیرے کفِ پشیمانی ملتے رہ گئے۔
پہلا واقعہ
فرید ملتؒ کی زندگی کے بے شمار واقعات میں سے حقوق العباد کے ضمن میں پہلے واقعہ سے آپ کے برادرِ حقیقی مہر غلام محمد صاحب مرحومؒ سے خاص محبت کا رنگ جھلکتا ہے۔
فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ بے شک، رشد و ہدایت قرآنی و رحمانی کی روشنی میں ناپسندیدہ حدود کو چھوڑ کر عین منشاء رضائے ایزدی کے خوگر تھے اور قرآن مجید کی سورۃ الماعون کی عین تلقینی و ھدایتی تفسیر تھے۔ آپ اس سورہ کی روح کے مطابق حقوق العباد کو نماز اور عبادتِ الٰہیہ کی حقیقی روح سمجھتے تھے اور ہمیشہ عبادت سمجھ کر سر انجام دیتے۔ یتیموں کی حاجت روائی نہ کرنا، اُن کو دھکے دینا اور اُن کی معاشرتی حقوق سے انہیں محروم کرنا یا اس کے ساتھ ظلم ہوتے دیکھنا جبکہ اسے روکنے کی طاقت بھی ہو، حضرت فریدِ ملت اس طرزِ عمل کو دین محمدی کو جھٹلانے کے مترادف سمجھتے تھے۔
اس دن پر خدا شاہد ہے اور میں اسے اپنی زندگی میں قطعی نہ بھلا سکتا ہوں، جس دن ہماری ہستی بستی زندگی میں کاتبِ تقدیر کا ایسا بھونچال بپا ہوا کہ ہماری معصوم خواہشات کی دلفریب زندگی اچانک اُجڑ گئی۔ 10 جون 1972ء کی بات ہے جبکہ میرے والد گرامی اور فرید ملت کے بردار حقیقی قبلہ الحاج مہر غلام محمد صاحبؒ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں بطور تحصیلدار ڈسکہ تعینات تھے اور سرکاری فرائضِ منصبی کے باعث تحصیل ڈسکہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع 1971ء کی جنگ کے بعد قائم ایک Evacuee Refugee's Camp بمقام منڈے کی ’’کیمپ بحالیٔ مہاجرین‘‘ میں راشن اور نقد رقوم تقسیم کرتے ہوئے On Dutyحرکت قلب بند ہونے کے باعث داغِ مفارقت دیتے ہوئے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے‘‘ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔‘‘
یاد رہے کہ ان دنوں میں اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ ڈسکہ میں مقیم اور نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اچانک والد گرامی کی وفات کی خبر نے میرے اوساں خطا کردیئے۔ تاہم بہادر والد کے خون کی کشش اور نیک والدہ کی تربیت نے بے حد حوصلہ افزائی کی اور ہمت بندھائی اور ہم اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ کے خصوصی تعاون اور دیگر اہلکاروں اور اہلیان محلہ کی ہمدردیوں اور سسکیوں میں شدید ترین گرمی اور سورج کی تلخ سامانی میں شام چھ بجے ڈسکہ سے والد گرامی کی میت لے کر جھنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً 400 میل کی مسافت طے کرنے کے بعد محترمہ والدہ صاحبہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ہمراہ تقریباً فجر 5 بجے جھنگ کی حدود میں داخل ہوئے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں اکیلا میت لے کر جھنگ کیوں آیا؟ مہر غلام محمد صاحبؒ کی وفات کی خبر پاتے ہی قبلہ فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جو ابھی 21 برس کے تھے، انہوں نے مجھے ڈسکہ رکنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا کہ ہم خود یعنی کہ فرید ملت اور شیخ الاسلام خود ڈسکہ آئیں گے اور وہاں سے میت لے کر جھنگ آئیں گے۔ فرمانے لگے: ’’شفقت آپ بہت چھوٹے ہو اور ذمہ داری بڑی ہے۔‘‘ مجھے یاد ہے کہ میں نے حضرت فرید ملتؒ کو فقط دعا کا کہا اور ان کی اجازت سے جھنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ جھنگ کی حدو دمیں داخل ہوئے ہی تھے کہ کسی نے ہمارا ٹرک روکا۔ جب میں نے گھبراہٹ کے عالم میں ٹرک سے جھانک کر دیکھا تو ’’شہر کے کافی باہر دور ویرانے میں قبلہ فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اپنے فرزند ارجمند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے ہمراہ غم سے نڈھال رات بھر اپنے لٹے قافلہ کا انتظار فرما رہے تھے۔ ٹرک رکتے ہی حضرت فرید ملتؒ اور شیخ الاسلام ٹرک پر چڑھ گئے۔
قارئین! پیارے بھائی کی میت دیکھ کر غم کے باعث حضرت فرید ملتؒ کی حالتِ زار ناقابلِ بیان ہے۔ شاکر و صابر اور مضبوط ایمان اور ارادے کے مالک ’’عبدصالح‘‘ اپنے بھائی کا دیدار کرنے کے بعد اپنا ضبط نہ رکھ سکے اور غمناکی کے باعث آپ کی ہچکی سی بندھ گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شیخ الاسلام اپنی کم عمری کے باوجود ایک طرف اپنے والد گرامی قدر قبلہ فرید ملتؒ کو صبر و حوصلہ دے رہے تھے اور دوسری طرف ہماری غم زدہ Family کے ایک ایک فرد کو بارضائے الٰہی صبر و حوصلہ کی تلقین فرما رہے تھے۔
جب فرید ملت کی طبیعت سنبھلی تو ہماری والدہ محترمہ سے رنجیدہ زباں سے مخاطب ہوئے اور فرید ملت کے قلب و روح سے نکلے الفاظ کچھ یوں تھے: ’’میری بیٹی! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ رب العزت کی جانب سے آپ کے لیے خصوصاً اور میرے لیے عموماً خاص امتحان کی گھڑی آن پڑی ہے۔ میں جس بیٹی کو دولہن کے روپ میں فقط سترہ برس پہلے مہر غلام محمد کے ساتھ اپنے گھر میں لایا تھا اور خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا اور آج اتنے ہی ملول غمناک اور اندوہ ناکی کی حالت میں قلب رنجیدہ کے ساتھ اپنے بیٹے جیسے بھائی کی میت اس کی جواں سال بیوہ کے ہمراہ اُسی گھر میں لے جارہا ہوں۔ بیٹی! ہمیں ہر حال میں خدا تعالیٰ کا فیصلہ ماننا ہوگا۔‘‘
والد گرامی کی تجہیز و تکفین و تدفین کے بعد ہم فرید ملتؒ کی اجازت سے اپنے ننھیال میں مقیم ہوگئے۔ کیونکہ ہماری والدہ محترمہ (رب انہیں زندہ سلامت رکھے) نے آپ پر کوئی بوجھ بننا گوارا نہ کیا۔ حضرت فرید ملتؒ نے اپنے پیارے بھائی مہر غلام محمدؒ کی تجہیز و تکفین کے بعد میری والدہ محترمہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ’’آج سے میرے لیے بیٹی کے علاوہ اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کے طور پر بھی آپ کا احترام اور شرعی حقوق خونی اور حقوق العباد کی ذمہ داری واجب ہوگی۔ خالق عظیم سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے بھائی مرحوم کی بیوہ اور اولاد کے ساتھ ان کے حقوق کی ادائیگی میں نیک توفیق عطا فرمائے اور مجھے ثابت قدم رکھے اور رب العزت مجھے زندگی اور ہمت بخشے کہ میری زندگی میں آپ کے دامن پاکیزہ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ بیٹی آج سے میرے دوگھر ہیں۔ ایک میرا گھر اور دوسرا میرے بھائی مہر غلام محمد مرحومؒ کی بیوہ اور بچوں کا ہے۔‘‘
حضرت فرید ملتؒ کے اس فرمان کے بعد میری والدہ محترمہ نے ادب و احترام کے ساتھ عرض کیا: ’’قبلہ بھائی جان! ایک گزارش کی اجازت عنایت فرمائیں! فرید ملت کی صریحاً اجازت کے بعد مخاطب ہوئیں! یہ درست ہے کہ میں آپ کی بیٹی ہوں اور ہم دونوں پر آپ کی شفقت سایہ فگن رہی ہے۔ میری خواہش ہے کہ کیونکہ بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ آپ اجازت فرمائیں میں اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ یہاں سے 5میل کی مسافت پر واقع اپنے میکے میں اپنے مرحوم شوہر ’’مہر غلام محمد صاحبؒ کے چھوڑے گئے وسائل میں گزر بسر کروں۔ لیکن گزارش یہ ہے کہ آپ مہر غلام محمد مرحومؒ کی اولاد کی نگرانی و نگہداشت اور تعلیم تربیت کی سرپرستی اپنے ذمہ قبول کرلیں۔ کیونکہ میری خواہش ہے کہ مہر صاحب کے بچے آپ کے زیر سایہ تعلیم و تربیت سے اچھے اوصاف کے حامل ہوسکیں۔‘‘
رب عظیم کی قسم! شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور میں عینی شاہد ہیں کہ آپ نے وعدہ کیا کہ جب تک میرے جسم میں جان ہے، میں جان پر کھیل کر بھی اس عہد اور ذمہ داری کو باطریق احسن نبھاؤں گا۔ خداگواہ ہے کہ میں شعور کی 64 ویں منزل پر ہوں، مجسٹریٹ سرگودھا ریٹائرڈ ہوا ہوں، تمام بھائی اچھی تعلیم و تربیت کے باعث اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور شیخ الاسلام کے شانہ بشانہ علم فریدی اور عَلم منہاج القرآن تھامے ولی کامل والد گرامی قدر قبلہ شیخ الاسلام ’’جناب فرید ملتؒ کیلئے بارگاہ رب العزت میں ملتمس اور دعا گو ہیں کہ خالق محمد ہمارا مقدر سنوارنے اور ہماری روحانی اور زمانی سرپرستی کرنے والے عظیم عبدمُقرب کی مرقد پُر نور پر لاکھوں کروڑوں رحمتیں نچھاور فرمائے۔آمین
دوسرا واقعہ
حقوق العباد کے آئینے میں فرید ملت کا عہدِ وفا نبھانے اور قول پورا کرنے کا ایک منفرد اور نور فشاں واقعہ پیش خدمت ہے۔ جس نے آپ کی روحانیت کو چار چاند تو لگائے ہیں تاہم ہمیں حقوق العباد کی حقیقی روح سے بھی روشناس کرایا۔ اس دوسرے واقعہ سے حضرت فرید ملت کی اپنے بھائی کے یتیم بچوں کی اور بیوہ بھاوج کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھانا ان کے اچھے بُرے کا خیال رکھنا اور ان کے یتیم بچوں و بیوہ کے دکھ و کرب اور خوشی کی ہم نشینی جھلکتی ہے۔
قارئین گرامی قدر! جون 1973ء کا ایک شعلہ فشاں شدید گرم دن تھا۔ پورے پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص چہار سو سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں خوف و ہراس پھیلا رہی تھیں۔ ریڈیو خوف کی علامت بن کر رہ گیا تھا۔ ضلع جھنگ خصوصاً گردونواح کے قصبات کی بابت عموماً تھوڑی تھوڑی دیر بعد سیلاب کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہی ہو رہی تھی۔ یاد رہے ان دنوں فرید ملتؒ حسو بلبل میں تعینات تھے۔ حسو بلبل میں ضلع بھر کا مرکزی اور بڑا یونانی طبی ہیلتھ سینٹر تھا۔ فرید ملت طب یونانی اور ڈاکٹری کی مشترکہ تعلیم طبیہ کالج اور کنگ جارج میڈیکل کالج سے حاصل کرکے اعلیٰ اعزازات کے ساتھ فارغ التحصیل تھے، اس لیے ضلع بھر کے بڑے ہیلتھ مرکز میں ان کی خصوصی تعیناتی کی گئی تھی۔ بہت جلد ہی ہیلتھ سنٹر فرید ملت کی توجہ اور قابلیت کے باعث پورے ضلع بھر میں اپنی پہچان آپ بن کر رہ گیا اور فرید ملت کی شہرت گردو نواح کے اضلاع میں بھی پھیل گئی۔
سیلاب کی خبریں آرہی تھیں کہ اچانک ایک رات ریڈیو پر خبر آئی کہ ہیڈ تریموں جھنگ پر سیلابی خطرے کے نشان سے پانی اُوپر چلا گیا ہے۔ اس کے بعد طرح طرح کی خبریں علاقے میں پھیل گئیں۔ کوئی کہتا کہ فوج نے خطرے کے باعث حفاظتی بند توڑ دیا ہے اور پورے ضلع کو متنبہ کردیا ہے اور سیلابی پانی جھنگ شہر میں داخل ہوگیا ہے۔ کوئی کہتا کہ گرد و نواح کے قصبات کو محفوظ مقامات پر منتقلی کا حکم دے دیا ہے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
ہم جھنگ سٹی میں مقیم تھے، سٹی میں سیلابی پانی کے داخل ہونے کی خبریں حضرت فرید ملتؒ پر گراں گزر رہی تھیں اور انھین قدم قدم پر اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ اور اولاد کا خیال آرہا تھا کہ اُن کا کیا حال ہوگا جن کی حفاظت کا عہد میں نے کیا تھا۔ ہیلتھ سنٹر حسو بلبل جہاں حضرت فرید ملتؒ ان دنوں موجود تھے، وہاں سے Main Roadتک سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور خطرہ کے پیش نظر گاؤں چھوڑنے والے لوگوں اور جانوروں کے باعث سڑک مزید ناگفتہ بہ ہوگئی تھی۔ ادھر سیلاب سیکڑوں دیہاتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کرچکا تھا۔ یہ سب کچھ فرید ملتؒ پر قیامت ڈھا رہا تھا۔ فرید ملت نے کچھ دیر غور و خوض فرمایا اور پھر صبح کی نماز کے بعد بائی سائیکل کے ذریعے چار میل کا سفر بمشکل طے کیا اور Main Road پر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ضلع بھر کی پبلک ٹریفک سیلا ب کی وجہ سے معطل ہے۔ ہر طرف خوفناک اور سنگین صورت حال کے پیش نظر آپ مجبوراً بس نہ ملنے کی وجہ سے طویل سفر بائی سائیکل پر اور کچھ پیدل کیا۔
طویل سفر طے کرکے اٹھارہ ہزاری پہنچے اور بالآخر صحت اور عمر کی پرواہ کیے بغیر آپ ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعے جھنگ کی حدود میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جھنگ صدر کی حدود میں داخل ہوتے ہی ٹرالی بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ کئی میل پیدل سفر کرنے کے بعد آپ ایوب چوک جھنگ صدر پہنچے۔ یہاں پہنچتے ہی لوگوں کی اموات کی خبروں نے آلیا۔ علاقہ مکمل طور پر نشیب میں ہونے کے باعث ڈھلوانی تھا۔ جھنگ صدر اور جھنگ سٹی کو دریائی سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے اور حد فاصل اور حد حفاظت فقط حفاظتی بند تھا جو توڑ دیا گیا تھا۔ شہر بھر میں امداد کیلئے فوج طلب کرلی گئی تھی۔ فوج بے بس متاثرین کو بچانے اور محفوظ جگہ منتقل کرنے میں مصروف تھی۔
عالم پریشانی میں فرید ملت جھنگ سٹی کی طرف رواں دواں تھے۔ ایوب چوک سے جھنگ سٹی 5میل کا سیلابی پانی سے بپھرا ہوا پرخطر سفر تھا۔ فرید ملتؒ نے خاص جذبہ ایمانی اور حقوق العباد کی ادائیگی اور خلوص نیت کے باعث سیلاب کے خطرے سے نبرد آزما ہونےکا فیصلہ کیا۔ آپ نے خصوصی عطا حذب البحر اور سورۃ المزمل شریف کی تلاوت شروع کی اور جھنگ سٹی کے گم گشتہ راستہ پر گامزن ہوگئے۔ فرید ملت کو دیکھتے ہی دیکھتے چند جنونی لوگ بھی فرید ملت کے پیچھے پیچھے ہولیے۔
یہاں ایک خاص توجہ طلب بات یہ ہے کہ جس ایوب چوک سے آپ نے ہماری طرف آنے کا راستہ اختیار کرنا تھا، وہاں سے دارالفرید(فرید ملت کا گھر) فقط چند فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔ جہاں فرزند فرید ملت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ تعالی فرید ملت کے لیے انتہائی پریشان تھے۔ حضرت فرید ملتؒ نے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع اپنے گھر جانے اور اپنی آل اولاد کی خیریت دریافت کرنے کے بجائے اپنے بھائی کی اولاد کو ترجیح دی۔ شیخ الاسلام اپنے گھر میں حضرت فریدِ ملتؒ کے لیے پریشان تھے، اس لیے کہ اسی شام خبر آرہی تھی کہ حسو بلبل پوری طرح ڈوب گیا ہے۔ اس خبر نے شیخ الاسلام اور دیگر اہل خانہ کو بے چین کر رکھا تھا۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ حضرت فرید ملتؒ حسو بلیل میں کس حال میں ہیں؟ حالانکہ حضرت فرید ملتؒ تو حسو بلیل کو علی الصبح ہی چھوڑ چکے تھے۔ دوسری طرف فرید ملت پر ایک لمحہ بھی اپنے گھر کی فکر کیے بغیر فقط ایک ہی دھن سوار تھی کہ مرحوم بھائی کی فیملی نہ جانے کس حال میں ہوگی اور اگر کچھ ہوگیا تو میں اپنے مرحوم بھائی اور رب تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔ جی ہاں! فرید ملت گم نام ٹوٹی سڑک پر سیلابی پانی میں رواں دواں تھے۔
یہاں یہ امر بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ فرید ملتؒ تیراک تو کسی صورت نہ تھے۔ تاہم متوکل علی اللہ حد درجہ اور بحر معرفت کے شناور ضرور تھے۔ صحبت خضروی کے باعث واقف رموز تو تھے ہی، تاہم دور اندیش قلندری طبیعت کے حامل بھی تھے۔ میں اس وقت بھی خونی نسب کے باعث فرید ملت کی قربت کے روحانی رموز و اسرار سے بخوبی واقف تھا۔ میں ایف اے کا طالب علم تھا مگر آپ کی ہمہ جہت روحانی اور اوصافِ حمیدہ سے متصف و مزین پر تمکنت مگر انتہائی علمی شخصیت سے بخوبی واقف تھا۔ جب فرید ملتؒ سے شیخ الاسلام نے پوچھا:قبلہ ابا جان! آپ نے ایسے پرخطر حالات میں تیراک نہ ہونے کے باوجود اتنے گہرے اور انجانے راستہ پر جانے کا فیصلہ کیسے کیا؟۔ قبلہ فرید ملتؒ نے فرمایا: بیٹا طاہر صاحب! میں نے موت اور زندگی کا پرخطر سفر فقط رب العالمین اور اس کے رسولﷺکی محض خوشنودی اور خالصتاً رضا کی خاطر فقط انہی کی مدد نصرت سے طے کیا۔ یہ درست ہے کہ پانی کہیں کہیں میری کمر تک اور کہیں کہیں میری گردن تک پہنچ جاتا تھا، سڑک نیچے مکمل ٹوٹ چکی تھی اور پتھر جوتے میں جاکر تکلیف دے رہے تھے، ہر طرف پانی ہی پانی اور افراتفری اور موت رقصاں تھی۔ بچاؤ بچاؤ کا شور غوغا تھا، راستہ کی سمت کا تعین کرنا بہت دشوار ہوگیا تھا۔ بیٹا جی! فقط مجھے اپنی خونی نسبت اور یتیم بچوں اور بیوہ (بھابھی) سے کہے ہوئے قول اور وعدہ کی پاسداری اور رضائے الٰہی مقصود تھی۔ سو خدا اور اس کے رسولﷺ نے میری خاص مدد فرمائی اور مجھے نامعلوم منزل سے روشناس کروایا اور میں اپنے مرحوم بھائی اور بیوہ کے روبرو سرخرو ہوا۔ مجھے اپنا عہد اور ذمہ داری نبھا کر نہ تھکاوٹ ہوئی! نہ اذیت محسوس ہوئی بلکہ ایک خاص راحت محسوس ہوئی۔
جی ہاں! فرید ملت اپنے جذبۂ ایمانی اور ایفائے عہد وفا کے باعث گہرے پانی اور بپھری لہروں کے دوش پر ایسے سوار تھے جیسے ان کے پاس ان گہرے پرخطر پانیوں کے درست راستے کا نقشہ موجود ہو۔ ایک اور دلچسپ صورت حال اس وقت نظرآئی کہ بیسیوں لوگ جو جھنگ سٹی کی طرف جانا چاہتے تھے اور صبح سے پانی کی شدت اور نامعلوم گہرائی کے باعث جانے کا فیصلہ نہ کر پارہے تھے، فرید ملت کی دلیری اور جذبہ ایمانی اور چہرے کے اطمینان کے باعث ان کے پیچھے پیچھے پانی میں چل پڑے تھے اور اس طرح فرید ملتؒ کا تعاقب کررہے تھے کہ جیسے وہ جانتے ہوں کہ ہمارے آگے جانے والا شخص ہی ہمارے ڈگمگاتے سفینے کا ناخدا ہو۔
قارئین! پانچ میل کا پر خطر نڈھال کردینے والا سفر طے کرکے بھوکے پیاسے 6 گھنٹے میں فرید ملتؒ جھنگ سٹی کی حدود میں داخل ہوئے۔ اپنے پیچھے غم ناک مناظر اور بچاؤ بچاؤ کی صدائیں! اور امداد کے منتظر لوگوں کی اندوہ ناک صورت حال فرید ملتؒ کو مضطرب اور بے چین کررہی تھی۔ تاہم ہمارا ہی خیال ان پر غالب تھا۔ جب فرید ملت جھنگ سٹی کے قریب پہنچے تو منظر دیدنی تھا۔ جھنگ سٹی کے لوگ حیرت سے جھنگ صدر سے آنے والے قافلے کو تک رہے تھے، جس کی رہنمائی فرید ملتؒ فرما رہے تھے! کیونکہ جھنگ سٹی پورے ضلع بھر میں اونچا ہونے کے باعث عمومی طور بحالی سیلاب زدگان کا خاص مرکز بنا ہوا تھا۔ کرشماتی طور پر پانی جھنگ سٹی میں اور خصوصاً اس محلے کی حدود میں داخل نہ ہوا تھا، جہاں ہم قیام پذیر تھے۔ اس لیے سیکڑوں پناہ گزیں اس محلے اور اس بستی(جھنگ سٹی) میں محفوظ تھے، جس میں فرید ملت خیرات مصطفوی کے طفیل ساری کشتیاں جلا کر فقط رضائے الٰہی اور ادائیگی حقوق العباد کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر عہد وفاسے عہدہ برآ ہونے پہنچے تھے۔
قارئین کرام: جب فرید ملت عجب حالت میں ہمارے گھر پہنچے تو ہمیں دیکھ اور مل کر جہاں خوش ہو رہے تھے، وہاں ان کی زبان رب العزت کا شکرانہ ادا کرتے نہ تھک رہی تھی۔ فرید ملت کی حالت دیکھ کر ہماری چیخیں نکل گئیں۔ سفید لباس سیلاب کے پانی سے رنگین اور سرخ ہوچکا تھا! ریش مبارک بھی سرخ ہوچکی تھی۔ تھکاوٹ اور شدید بخار کے باوجود فقط ہماری خیریت ہی دریافت کرتے جارہے تھے۔ ہم پہلے فرید ملت کو اپنے درمیان دیکھ کر حیرت اور شکر سے مسکرا رہے تھے اور مابعد آپ کے جذبہ حقوق العباد کی معراج اور روح کو سمجھ کر ہماری آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ ہم نے بارگاہ ایزدی میں حضرت فرید ملتؒ کے ساتھ مل کر شکرانے کے نوافل ادا کیے اور وہاں ہم سب آپ کی خونی نسبت پر اظہار تشکر کے لیے بھی اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔