خالقِ کائنات کا پسندیدہ ترین دستور حیات لے کر مبعوث ہونے والے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظلم و جبر میں پسی ہوئی انسانیت پر جتنے احسانات فرمائے وہ معلوم تاریخ میں سب سے بڑا انسانی کارنامہ ہے۔ امن، عدل اور محبت ایسی صفات ہیں جن کی بدولت انسانی معاشرہ ملکوتی صفات سے مزین ہو کر پھلتا پھولتا ہے۔ زندگی بامقصد اور بندگی روحانی فیوضات کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ جس معاشرے میں امن ہو نہ عدل و انصاف اور نہ محبت و مروت، اسے انسانی بستی کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ حیوانوں اور درندوں کا جنگل ہوتا ہے جہاں ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت اور طاقت کے بل بوتے پر ظلم اور خون ریزی کو اپنا وطیرہ بنا لیتا ہے۔ بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے مجموعی طور پر انسانیت ایسا ہی پُر خَطر، منظر نامہ پیش کر رہی تھی۔ ایران اور روم کی دو عالمی طاقتیں باہم مد مقابل تھیں اور بقیہ دنیا کے مظلوم و مجبور انسانوں کا خون بے دریغ بہایا جاتا تھا۔ پھر مکہ سے سورج چمکا اور تاریکیوں نے رختِ سفر باندھنا شروع کیا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی اور اپنے حسن عمل سے ایک ایسا گلستان آباد کیا جو امن، محبت، عدل اور علم دوستی کے حیات بخش جذبوں سے سینچا گیا تھا۔ صداقت، عدالت، اِنسانیت نوازی اور علم پروری سے پروان چڑھنے والے اِس انسان پرور ماحول نے قوموں کی تاریخ میں سب سے بڑا اِنقلاب بپا کر دیا۔ صرف دو عشروں میں اس ریاست کی سرحدیں پھیل کر دنیا کے دیگر خطوں تک پہنچ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے قیصر و کسریٰ کی ظالم و جابر عالمی بادشاہتیں خدا مست عرب بت شکنوں کے قدموں میں ڈھیر ہوگئیں۔
مگر شومئی قسمت کہیں یا مکافات عمل کہ وہ امت جو دنیا پر امن قائم کرنے، انسانی معاشروں کو امن، محبت اور عدل بانٹنے کے لئے آئی تھی کہیں خود ظلم کا شکار اور کہیں آلہ کار بن چکی ہے۔ اس کی روشن پیشانی پر اب انسانیت نوازی کی جگہ دہشت گردی کا داغ چسپاں ہوگیا ہے۔ اسلامی شعائر جو کبھی رحمت، امن اور علم کی علامت ہوتے تھے اب وہ غنڈہ گردی اور خون خرابے کا ایک خطرناک سگنل بن چکے ہیں۔ مسلم اُمہ پر ہر سمت سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ یقینا یہ ایک مشکل دور اور نازک مرحلہ تاریخ ہے۔ پوری دنیا میں مختلف ادارے شخصیات اور بعض حکومتیں عمداً قرآن حکیم، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیمات اسلامی کے خلاف آئے روز پروپیگنڈا کرتے آئے ہیں۔ بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا چہرہ داغدار کیا جائے تاکہ اسلام کی طرف رغبت کم اور نفرت زیادہ ہو سکے۔ اس عالمی مخاصمانہ ماحول میں دین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ اسلام کو حتی المقدور پُر امن بقائے باہمی کی سب سے بڑی آواز کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا جائے۔ دوسرے معنوں میں اس وقت سب سے بڑا جہاد دشمنانِ اسلام کے خلاف عسکری جدوجہد نہیں بلکہ اسلام کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈے کا علمی، عملی اور حقیقی توڑ ہے۔ ایسے میں کچھ شخصیات اسلام کے معجزاتی تسلسل کا حصہ بنتے ہوئے امن اور رواداری کی شمع جلائے دن رات علم، حکمت تدبر اور تحمل کی تعلیمات پھیلانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ انسانیت کے سامنے دین رحمت و امن کو حقیقی تعلیمات کے ساتھ پیش کرنے میں جو لوگ عالمی سطح پر پیش پیش ہیں ان میں بجا طور پر امت مسلمہ کی بالعموم اور پاکستان کی بالخصوص نمائندگی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حصے میں آئی ہے۔ دور حاضر میں یہ واحد بڑی مسلمان شخصیت ہیں جو مشرق و مغرب میں مقیم مایوس مسلمانوں کے چہروں سے احساس ندامت و شرمندگی ختم کر کے انہیں سکون و اطمینان کی دولت لوٹا رہے ہیں۔
گذشتہ 24 ستمبر لندن ویمبلے کانفرنس سینٹر میں انہوں نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جو اس دور کی حکمتوں کے عین مطابق اسلام کے پیغام امن و محبت کو پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلانے کا باعث بنا۔ انہوں نے پوری دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے نمائندے ایک چھت کے نیچے جمع کر کے ان سے پُر امن بقائے باہمی کے لئے نئے سرے سے کاوشیں بروئے کار لانے کا عہد لیا جو قرار داد لندن London Declaration کے نام سے 24 نکات پر مشتمل ہے اور اس پر پوری دنیا کے پر امن مذہبی کارندے دستخطوں کی مہم شروع کر چکے ہیں۔ یہ کاروائی ان فرقہ وارانہ عالمی سازشوں کا توڑ ہے جو ’’تہذیبی تصادم‘‘ کے فلسفے کو ہوا دے کر دنیا کو جنگوں کی آماجگاہ بنانا چاہتی ہیں۔ کانفرنس کا عنوان ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت عالم‘‘ ’’Peace For Humanity‘‘ تھا اس لئے ضروری تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور انسان دوستی پر مبنی دعوت کا تفصیل سے تعارف کرایا جاتا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ہزار ہا حاضرین کی موجودگی میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سینکڑوں مختلف مذہبی پیشواؤں کے سامنے سیرت طیبہ کے نقوش انگریزی زبان میں اتنے خوبصورت پیرائے میں اجاگر کئے کہ اہل علم و بصیرت داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
پاکستان کے لاکھوں لوگوں سمیت پوری دنیا میں کثیر تعداد نے یہ خطاب براہ راست نیٹ اور TV کے ذریعے سنا۔ اس خطاب نے ان مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کر دیئے ہیں جو مخالفین کے طعنوں اور الزام تراشیوں سے جھک گئے تھے۔ گذشتہ عشروں میں بعض فتنہ پرور اداروں اور شخصیات نے دراصل قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو اتنے غلط انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر شخص بدگمانی سے سمجھتا ہے مسلمان غیر مہذب خون خوار جانوروں کا گروہ ہے۔ ان سازشی ذہنوں نے جہاد جیسے اسلامی فریضے کو بھی انسانیت کے قتل کا دستور بنا کر پیش کیا ہے۔ اس لئے شیخ الاسلام نے اپنے جامع خطاب میں بعثت مبارکہ اور ہجرت حبشہ سے لے کر فتح مکہ تک سیرت طیبہ کا پورا نقشہ اجاگر کیا اور مدینہ منورہ کے دس سالہ دور نبوی میں ہونے والی جنگوں کو حقیقی امن کے قیام کے لئے ناگزیر دفاعی کاوشیں قرار دیا جن سے امن دشمن فتنہ پرور کفار کی سازشوں کا قلع قمع ہوا۔ یوں انہوں نے مستشرقین کی طرف سے اٹھائے جانے والے دیرینہ سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسلام کے تصور جہاد کی بھی اطمینان بخش وضاحت کر دی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے متعلق غلط فہمیوں کا ممکنہ حد تک ازالہ بھی کر دیا۔ اسلام کی عظمت و شوکت پر مبنی اس عالمی امن کانفرنس کی کاروائی پاکستان کے ایک TV چینل ARY کے علاوہ کسی نے بھی براہ راست نشر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید اِس لیے کہ اِس عالمی تقریب میں سستی جذباتیت کو بھڑکانے اور لوگوں کو کسی منفی ایجنڈے پر جمع کرنے پر مبنی ’’خبریت‘‘ نہیں تھی، حالانکہ مغرب کی طرف سے جاری اسلام مخالف میڈیا وار میں یہ ایک نہایت ہی موثر کاوش تھی جسے تمام مسلم ذرائع ابلاغ کو بلا تفریق مسلک و مذہب شائع کرنا چاہئے تھا۔ 11 ہزار افراد سے زائد پر مشتمل ایک بڑے مسلمان اجتماع کے سامنے انہیں بھرپور نمائندگی دینے سے اسلامی تعلیمات کی وسعت ظرفی، تحمل اور پر امن بقائے باہمی کے جذبے کی عالمی سطح پر تصدیق بھی ہوگئی اور وہ پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مرگیا جو مذہبی منافرت پھیلا کر دنیا میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس شاندار عالمی امن کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے جملہ احباب مبارکباد کے مستحق ہیں۔