ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
زیر نظر مضمون عرب دنیا کے ایک ممتاز عالم استاد محمد فتحی عثمان کی تصنیف ’’الدین للواقع‘‘ (دین برائے حقیقت) کے ایک باب کا اردو ترجمہ ہے۔ اس میں دینِ اسلام کو ایک دینِ عمل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے جو زندگی کے سخت، مشکل اور تلخ حقائق سے گریز سکھانے کے بجائے ایمان و بصیرت کے ساتھ ان کا سامنا کرنے اور حل کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ یہ دین اعتدال اور توازن کا دین ہے، یہ ’’دینداروں‘‘ اور ’’دنیا داروں‘‘ کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کرنے کا قائل نہیں۔ اسکے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرما کر یہ مصنوعی تفریق ختم کردی ہے اور دنیا و دین کے درمیان توازن قائم کردیا ہے کہ
واعمل لدنياک کانک تعيش ابدا واعمل لآخرتک کانک تموت غدا.
’’اپنی دنیا کے لئے یوں دل لگا کر کام کر جیسے تو نے ہمیشہ یہیں زندگی گزارنا ہے اور آخرت کے لئے اس یقین اور اخلاص سے کام کر جیسے تو نے کل ہی مر جانا ہے‘‘۔
اس مضمون کا اول حصہ ماہ ستمبر 2011ء میں شائع ہوا۔ اس امید کے ساتھ اس مضمون کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے کہ یہ تحریر ہمیں دین کی حقیقت سے آشنا کرتے ہوئے عمل کی جانب راغب کرے گی۔
دین کے شعائر بھی حکمت سے لبریز ہیں۔ ایک ایسی حکمت جو عبادت گزار اور شعائر ادا کرنے والے کے وجدان کی گہرائیوں تک سرایت کرجاتی ہے اور پھر محرابِ مسجد سے وہ اسی حکمت کو اپنے دل و دماغ میں لئے ہوئے باہر میدان زندگی میں نکل آتا ہے تاکہ اس کی روشنی میں قدم بڑھاتا جائے۔ (آیئے شعائر اسلام کی چند حکمتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں)
1۔ نماز :
نماز طہارت و صفائی، جماعت وتنظیم، عبادت و اطاعت، امامت و اتباع، ترتیب و تنسیق اور ضبط و پابندی وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر اور اجتناب خواہش کا درس دیتی ہے۔
اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا.
(النساء : 103)
’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے‘‘۔
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.
(العنکبوت : 45)
’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔
2۔ روزہ :
رمضان المبارک کا روزہ بھی عزیمت و ارادے کی ایک ریاضت و تربیت ہے۔ اصول اور طریقہ زندگی کے لئے وحدت و تنظیم اور قوت تحمل کے ساتھ ساتھ اجتنابِ معاصی کی عملی تعلیم ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ
من لم يدع قول الزور والعمل به فليس للّٰه حاجة ان يدع طعامه وشرابه.
’’جس روزہ دار نے جھوٹ بولنا نہ چھوڑا اور جھوٹ پر عمل کو ترک نہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔
3۔ زکوٰۃ :
اسی طرح زکوۃ بھی شماریات و حساب کی ایک تربیت کے علاوہ اللہ کی عبادت کی طرف رغبت کا باعث بھی ہے۔ مال و دولت کے سلسلے میں بھی احکام الہٰی کی اطاعت کی دعوت ہے۔ اسی لئے ہمارے فقہاء نے زکوٰۃ کو مالی عبادت کا نام دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ زکوٰۃ مومنوں کو اس بات کا بھی احساس دلاتی ہے کہ ان کے مال میں اسلامی معاشرے اور اس کے بعض افراد کا بھی حق ہے۔
4۔ حج :
حج تو’’سِيْرُو فِی الْاَرض‘‘ کی عملی تربیت کے علاوہ ثقافت، آداب معاشرت اور باہمی تعارف کا ایک بہترین وسیلہ ہے۔
لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ فِيْ اَيَامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ....
(الحج : 28)
’’تاکہ وہ اپنے فوائد (بھی) پائیں اور (قربانی کے) مقررہ دنوں کے اندر اﷲ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں اُن پر (ذبح کے وقت) اللہ کے نام کا ذکر بھی کریں‘‘۔
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌج فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ.
’’حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعدہ اور عشرہ ذی الحجہ) تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کر لے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے‘‘۔
(البقره : 197)
شعائر دین تو گویا ایک درسگاہ ہے جہاں زندگی کی عملی تربیت ہوتی ہے مگر یہ شعائر اپنی جگہ سب کچھ نہیں ہیں۔ ۔ ۔ زندگی کی تربیت ہے نہ کہ خود زندگی۔
اگر مساجد اور عبادت گاہوں میں جانے والے لوگوں کے ساتھ لین دین کرتے ہوئے بھی اللہ کی ذات کو نگاہ میں رکھیں اور دنیا کی طلب میں بھی آخرت ہی کی تلاش رکھیں تو پھر جہان کے تمام گوشے ادیان و مذاہب کی روشن کرنوں سے معمور ہوجاتے ہیں۔ عبادت کے شعائر و رسومات عبادت گزاروں کے عقل و دماغ اور رفتار و گفتار کو ایک ہی رخ پر منظم کر دیتے ہیں بالکل جس طرح مقناطیس کی کشش سے لوہے کے تمام ذرات ایک ہی رخ پر کھنچے چلے آتے ہیں۔ قول و فعل میں ہدایت ربانی کو اپنا محور بنا لینے سے ہر تعمیر کی جانے والی عبادت گاہ سے انسانیت کو بیش بہاد دولت میسر آتی ہے۔
دینی شعائر میں سے جن کو بنیادی فرائض کی حیثیت حاصل ہے وہ بالکل محدود و معدود ہیں مگر بایں ہمہ وہ عذر کی صورت میں نرمی یا رخصت سے بھی خالی نہیں۔ ان بنیادی فرائض کے علاوہ جو عبادات نافلہ ہیں وہ افراد اور زمانے کے حالات پر موقوف ہیں اور ان کا تعلق فراغت اور وقت کی گنجائش کے ساتھ ہے۔ کام کا تعلق فراغت کے ساتھ بھی ہے اور سائنس اور ماحول کے نتیجے کے مطابق ایک فرد کی بنیادی تشکیل کے معیار سے بھی ہے۔ چنانچہ ایک مطبوعہ کتاب کا مطالعہ، کسی فن کا مشاہدہ، ریڈیو اور سینما سب ہی مفید اور کار آمد وسائل ہیں اور اپنی جگہ صحیح رہنمائی اور عمدہ تربیت کی صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص نوافل عبادات اور اورادو وظائف کی جگہ کسی ایسے ہی مفید اور نتیجہ خیز مشغلے میں لگ جائے تو یہ بھی اس کی شخصیت کی عظمت و تعمیر کا کام دے سکتا ہے۔
اللہ کی شریعت کا فیض عام ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں کو محیط ہے۔ ۔ ۔ اس شریعت کی تاریخ انسانی ارتقا کے اصول کو بڑی وضاحت کے ساتھ تسلیم کرتی ہے۔ ۔ ۔ کیونکہ اللہ وحدہ لا شریک کا مقرر کردہ دین ازل سے تاابد ایک ہی ہے اور وہ اپنے اندر متعدد قانونی شکلیں اور صورتیں لئے ہوئے ہے جو احوال و اطوار اور زمان و مکان کے اختلاف کے ساتھ ساتھ متعدد و مختلف ہونے کی وسعت و صلاحیت رکھتے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی تدبیر کے مطابق جیسا کہ قرآن مجید بیان کرتا ہے، بادشاہ کا پیمانہ غلہ گم ہوگیا۔ برادران یوسف علیہ السلام سے سوال ہوا تو انہوں نے صاف انکار کیا اور فیصلہ دیا کہ چوری کی سزا کے طور پر چور کو مال مسروقہ کے مالک کے سپرد کیا جائے۔ ان کی شریعت میں تھا ہی یہی اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ قانون شریعت ابراہیمی سے لیا گیا تھا :
قَالُواْ فَمَا جَزَآؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَ.
(يوسف : 74)
’’وہ (ملازم) بولے : (تم خود ہی بتاؤ) کہ اس (چور) کی کیا سزا ہو گی اگر تم جھوٹے نکلے؟‘‘۔
قَالُواْ جَزَآؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ.
(يوسف : 75)
’’انہوں نے کہا : اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں سے وہ (پیالہ) برآمد ہو وہ خود ہی اس کا بدلہ ہے (یعنی اسی کو اس کے بدلہ میں رکھ لیا جائے)، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں‘‘۔
شریعت یہود کے بارے میں آپ پڑھیں گے کہ اس میں حرمت کے بعض ایسے احکام بھی ہیں جو گناہ کی سزا کے طور پر صادر ہوئے یا اطاعت و تعبد میں مبالغہ کے طور پر جاری ہوئے۔ ان میں حرام کردہ اشیاء سے کوئی موضوعی سبب پیش نظر نہیں تھا مثلاً
’’یعنی یہود کے ظلم و تعدی کے باعث ہم نے ان پر وہ طیبات بھی حرام کردیں جو پہلے حلال تھیں نیز بہت زیادہ راہ خدا سے باز رکھنے کے سبب بھی۔ ۔ ۔ یہودیوں پر ہم نے ہر ناخنوں والا جانور حرام کر دیا تھا اور گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی مگر وہ جو ان کی کمروں پر ہویا ان کی انتڑیوں پر لگی ہو یا ہڈی کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ ۔ ۔ یہ سزا ہم نے انہیں ان کی سرکشی پر دی تھی اور ہم یقینا سچے ہیں۔ ۔ ۔ کھانے کی سب چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں قبل اس کے کہ تورات نازل کی جائے، سوائے اس کے جو اسرائیل نے خود اپنے آپ پر حرام کرلیا تھا‘‘۔
اسی طرح آپ توبہ کا ایک ہیبت ناک طریقہ بھی مطالعہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی شریعت میں مقرر کیا تھا۔ ارشاد فرمایا :
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنْـفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ.
(البقره : 54)
’’اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! بے شک تم نے بچھڑے کو (اپنا معبود) بنا کر اپنی جانوں پر (بڑا) ظلم کیا ہے تو اب اپنے پیدا فرمانے والے (حقیقی رب) کے حضور توبہ کرو پس (آپس میں) ایک دوسرے کو قتل کر ڈالو (اس طرح کہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی اور اپنے دین پر قائم رہے ہیں وہ بچھڑے کی پرستش کر کے دین سے پھر جانے والوں کو سزا کے طور پر قتل کر دیں)، یہی (عمل) تمہارے لیے تمہارے خالق کے نزدیک بہترین (توبہ) ہے، پھر اس نے تمہاری توبہ قبول فرما لی، یقینا وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘۔
پھر اسلام کی آمد آمد ہے۔ ۔ ۔ اب حلت و حرمت خالص موضوع اسباب کی بناء پر ہوگی۔ ارشاد فرمایا :
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.
(الاعراف : 157)
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اور معاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں‘‘۔
قرآن کریم واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ انسانی ارتقاء کو پیش نظر رکھتے ہوئے شرائع سماویہ میں تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا :
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَآ آتَاكُم فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ.
(المائده : 48)
’’اور (اے نبی مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے. ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں(تمہارے حسبِ حال) دیے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے‘‘۔
قرآن مجید چونکہ اللہ کی آخری کتاب ہے اور اسلام پر ادیان سماویہ ختم ہوگئے ہیں، اس لئے حکمت الہٰی نے اس دین میں تطور و ارتقاء کے عناصر کو ودیعت کرنے کو فراموش نہیں کیا چنانچہ نصوص کی تفسیر، ان میں مطابقت پیدا کرنا، ان کی تاویل کرنا اور جہاں کوئی شرعی نص وارد نہیں ہوئی وہاں اجتہاد کی گنجائش رکھنا۔ یہ سب باتیں عقل انسانی کے سپرد ہیں۔ وہ عقل انسانی جو افکار کی رفتار اور معاشرتی حالات کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ہے۔
شریعت اسلامی میں کارفرما آسانی
پرانے زمانے میں ہمارے مجتہد فقہا نے ان عظیم اصولوں کا استنباط کیا ہے جو شریعت اسلامی کی لچک اور صلاحیت پر دلالت کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ انسانیت کی طویل عمر کے ساتھ ساتھ جب بھی اس شریعت کو نافذ العمل ہونے کا موقع ملے گا وہ آزمائش پر پوری اترے گی۔ استنباط کئے جانے والے ان اصولوں میں سے بعض یہ ہیں :
1. درء المفاسد مقدم علی جلب المصالح
’’مفاسد کا دور کرنا، منافع کے حصول پر مقدم ہے‘‘۔
2. يرتکب اخف الضررين لدفع اکبرهما.
’’دو نقصانات میں سے ہلکے نقصان کا ارتکاب کیا جائے تاکہ بڑے نقصان سے بچاو ہوسکے‘‘۔
3. الضرورات تبيح المحظورات.
’’ضرورتیں ممنوع اشیاء کو بھی مباح بنا دیتی ہیں‘‘۔
4. الحکم يدور مع علة وجودا وعدما.
’’وجود اور عدم کے اعتبار سے حکم کا دارومدار علت پر ہے۔ علت موجود ہو توحکم موجود اور علت معدوم ہو توحکم بھی معدوم‘‘۔
5. تغير الاحکام بتغير الزمان هو اختلاف عصرو زمان لاختلاف حجة وبرهان.
’’زمانے کے تغیر سے احکام میں تبدیلی کا مطلب ہے زمانے اور وقت کا اختلاف نہ کہ دلیل و برہان کا اختلاف‘‘۔
6. المعروف عرفا کالمشروط شرطا.
’’رواج میں مستحسن چیز بھی ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیز شرط کے مطابق ہو‘‘۔
ان اصولوں کا سرچشمہ خود قرآن مجید ہے۔
لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ.
(البقره : 286)
’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے‘‘۔
وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْکُمْ اِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ.
(الانعام : 119)
’’حالانکہ اس نے تمہارے لئے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کردیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، سوائے اس (صورت) کے کہ تم (محض جان بچانے کے لیے) ان (کے بقدرِ حاجت کھانے) کی طرف انتہائی مجبور ہو جاؤ (سو اب تم اپنی طرف سے اور چیزوں کو مزید حرام نہ ٹھہرایا کرو)‘‘۔
اور یہی حال سنت نبوی کا ہے۔
رفع امتی الخطاء والنسيان ومااستکرهوا عليه.
’’میری امت کے لوگوں پر خطا بھول چوک اور جس بات پر وہ مجبور کئے جائیں، سب معاف ہیں‘‘۔
اسلامی قانونِ سزا
اسلام کا قانون سزا۔ ۔ ۔ جو بظاہر سنگدلانہ اور سخت لگتا ہے۔ ۔ ۔ بھی کسی حد تک ان سزائوں کو منجمد بنادیتا ہے جو سابقہ دینی قوانین میں مروج تھیں۔ اسلامی قانون ان سزائوں کو ایک قسم کی دھمکی آمیز ڈانٹ ڈپٹ میں بدل دیتا ہے کیونکہ اس میں کچھ ایسی شرائط اور ارکان ہیں جن کا اکٹھا ہو کر واقع ہونا بہت مشکل ہے۔ اگر ایک کمزور ترین رخنہ بھی شبہ کے نتیجہ میں دکھائی دے جائے تو مقررہ سزا ساقط ہوجائے گی تاکہ اس کی جگہ کوئی اور سزا لے لے جس کا تعلق اجتہاد سے ہو اور تعزیرات کے دائرے میں آتی ہو۔
’’جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے سزائیں اٹھا لیا کرو‘‘۔ اگر کسی مسلمان کے لئے تم کو بچ نکلنے کی صورت نظر آجائے تو اسے نجات پالینے دو، اس لئے کہ حاکم وقت کا معاف کردینے میں غلطی کرنا سزا دینے میں غلطی کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
فقہ اسلامی کی تحریک رکنے کے بعد سے انسانیت اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں جس قانونی اور فلسفیانہ ارتقاء سے گزری ہے وہ اسلامی قانون کے اس نقطہ ہدایت کی نہ صرف تائید کرتا ہے بلکہ اسے آگے بڑھاتا اور نئی نئی زرخیز تجزیاتی صورتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں دین کے لئے معاشرتی، نفسیاتی، دستوری اور قانونی تحقیقات بھی معاونت مہیا کرتی ہیں۔ یہ معلومات و تحقیقات اسلامی عدل کے قیام میں مدد دے سکتی ہیں جو جزیرہ عرب کی فطری سادہ فضا اور ماحول میں ہمارے بزرگوں کو میسر نہ تھیں بلکہ ہمارے اسلاف کے دوسرے ماحول اور فضا میں بھی انہیں یہ میسر نہ آسکی تھیں۔ بس قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کے بعض تجربات ہی میسر آسکے تھے۔
تو یہ ہے وہ دین۔ ۔ ۔ جو عقل و ضمیر کو زندگی بخشتا ہے۔ پھر انسانی قوتوں کو مطلقاً آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنا کام کرسکیں اور فطرت کی قوتیں تو انسان کے لئے پہلے ہی مسخر کردی گئی ہیں۔
’’پس جب نماز ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جایا کرو۔ اللہ کا فضل اور نعمت تلاش کیا کرو اور اللہ کو بہت یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہوسکو‘‘۔
یہ دین تو نفوس انسانی میں خضوع و خشوع کی عادتوں کو اس قدر بلند کردیتا ہے کہ ان سے انسانی ہوا و ہوس کی اطاعت کے لئے کام نہ لیا جاسکے۔ ۔ ۔ یہ دین انسانیت کو شکستگی و کمزوری اور گھمنڈ میں مبتلا ہونے والی قوت سے بھی محفوظ کردیتا ہے کیونکہ وہ انہیں عقیدے کی پختہ رسی کے بندھن سے کس دیتا ہے۔ ۔ ۔ اب یہاں نہ تو مایوسی ہے اور نہ اترانا۔
’’تاکہ تم مافات پر غمگین نہ ہو اور جو اس نے دے دیا ہے اس پر خوشی سے اترائو بھی نہیں‘‘۔
یہ دین تو خوف و امید کے تمام انسانی احساسات کو ایک ایسی ہستی کی طرف پھیر دیتا ہے جو حق کے بغیر اس قوت کے باعث اکڑفوں نہیں دکھاتا کیونکہ وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔
دین اسلام۔ ۔ ۔ جیسا کہ اسے اس نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے ایک ایسا سرچشمہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں اور ایک ایسا منبع ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ اسلام تو ایک مثبت قسم کی راہداری اور محافظ ہے۔ جو زندگی کی منفی قوتوں کا مقابلہ کرتا ہے اور ان انگیختوں سے زندگی کوبچاتا ہے جو کسی نقص یا کمی کی تلافی اور شخصیت کے بحران کی تشفی کے لئے اٹھ کر زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں۔
الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ.
(الرعد : 28)
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اﷲ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
دین اسلام کو اگر لوگ اس طرح سیکھیں جس طرح وہ نازل ہوا ہے تو پھر وہ سب سے پہلے عقیدے سے آغاز کریں گے کیونکہ یہی عقیدہ اصل بنیاد ہے۔ اگر وہ اسے قبول کرلیں تو پھر وہ شعائر کی ادائیگی سے فائدہ بھی اٹھاسکیں گے اور قوانین و آداب کے عادی و مطیع بھی بن جائیں گے۔ یہ عقیدہ ہی ہے جو جذبہ و وجدان کی جڑوں میں فکر روح اور رویہ سلوک کے اخلاق کی تعمیر کرتا ہے اور اسلام میں تو عقیدے کا آغاز ہی علم و معرفت سے ہوتا ہے۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ.
(العلق : 1)
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا‘‘۔
مگر ہم جب دین سیکھتے ہیں یا سکھاتے ہیں تو وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں پر وحی الہٰی مکمل ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ہم شعائر سے شروع کرتے ہیں جہاں فرضیت معراج کی رات تک ملتوی رہی تھی۔ ۔ ۔ یا ہم ان آیات قوانین سے شروع کرتے ہیں جو ہجرت کے بعد ہی نازل ہوئی تھیں۔ چنانچہ نہ تو ہمارے افکار کو راہیں ملتی ہیں اور نہ اصول ہمارے دلوں کے ساتھ مناسبت پیدا کرتے ہیں۔ یوں ہمیں کئی دیواریں، شکلیں اور الفاظ آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ یا تو یہ ہے کہ ہم انہیں فنا کر دیں اور اس کے ساتھ دین کو بھی فنا کر دیں اور یا پھر ذلت کے ساتھ ان کے اندر مقید ہو جائیں۔
ہمیں دین سے زندگی کی قوت متحرکہ حاصل کرنی چاہئے اور پھر اس قوت کے ساتھ حقائق زندگی کے معرکے میں اترنا چاہئے اور پھر بیسویں صدی کے افکار کے ذریعے ایک ایسا اسلامی تمدن پیدا کرنا چاہئے جو اس بیسویں صدی ہی کے لئے ہو۔