شفاقت علی شیخ
قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly efective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے۔ اس مضمون کا یہ سلسلہ ماہنامہ منہاج القرآن میں ماہ جنوری 2011ء سے جاری ہے اور اب تک دو خصوصی عادات ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ اور ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کو مختلف جہات سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی مضمون کا اگلا حصہ نذرِ قارئین ہے :
نصب العین کے تعین کے بعد اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس نصب العین کوحاصل کیسے کیاجائے۔
(اس سوال کے تفصیلی جواب کے لئے ماہنامہ منہاج القرآن ماہ نومبر 2009ء ملاحظہ فرمائیں جس میں ’’بامقصد زندگی کے اصول‘‘ کے عنوان سے قسط وار شائع ہونے والے میرے مضمون کے آخری حصہ میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ تاہم یاد دہانی کے لئے یہاں صرف اشارات پر اکتفا کیا جائے گا)۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ.
(الذاريات : 56)
’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں‘‘۔
رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ’’ليعبدون‘‘ کا معنی ليعرفون لیا ہے ’’یعنی میری معرفت حاصل کریں‘‘۔
معرفت کی بجائے عبادت کا لفظ کیوں استعمال کیاگیا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی معرفت کو پانے کا ذریعہ عبادت ہی کو بنایا ہے اور معرفت کا دعوٰی فقط وہی قابلِ قبول ہوگا جو عبادت کی راہ سے ہو۔ اس سے ہٹ کر کوئی معرفت کا دعوٰی کرے تو وہ ناقابلِ قبول ہوگا۔
اب یہ سمجھنا ہوگا کہ عبادت کا وہ جامع مفہوم کون سا ہے ؟ جس کے اندر زندگی کی جملہ حرکات و سکنات آ جائیں اور جسے اپنا کر نصب العین تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ جامع مفہوم مندرجہ ذیل تین اجزاء پرمشتمل ہے۔
- براہ راست عبادت
- بالواسطہ عبادت
- مخصوص صلاحیت کا تحفظ
(i) براہِ راست عبادت
اس میں وہ تمام مخصوص عبادات شامل ہیں جو تمام مسلمانوں پر بشرطِ استطاعت فرض قرار دی گئی ہیں مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ ایسی عبادتیں ہیں جو بذاتِ خود عبادت کا درجہ رکھتی ہیں۔
(ii) بالواسطہ عبادت
اس میں وہ تمام اعمال و معمولات اورحرکات و سکنات شامل ہیں جو بذاتِ خود تو عبادت نہیں ہوتی ہیں لیکن شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی نیّت سے انہیں بجا لانا عبادت بن جاتا ہے۔ مثلاً کھانا، پینا، سونا، جاگنا، کاروبار کرنا اور دیگر سماجی ذمہ داریاں سر انجام دینا وغیرہ۔
(iii) مخصوص صلاحیت کاتحفظ
عبادت کی پہلی دو قسمیں عام تھیں لیکن عبادت کی یہ تیسری قسم ہر شخص کے لیے الگ مفہوم رکھتی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص صلاحیت رکھی ہوئی ہے جس میں وہ دوسروں سے منفرد ہے۔ یعنی کوئی خاص کام وہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے۔ اُس خاص صلاحیت کو دریافت کرنا، اُسکا تحفظ کرنا، اُسے پروان چڑھانا اور ماحول اور معاشرے کی بہتری میں اُسے استعمال کرنا یہ سب کچھ بھی عین عبادت ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہو۔
انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہردور میں لوگوں کی اکثریت زندگی اس حال میں گذار رہی ہوتی ہے کہ اُنہیں پتہ تک نہیں چلتا کہ اُن کے اندر وہ خاص صلاحیت کونسی تھی جو قدرت نے رکھی ہوئی تھی۔ نتیجتاً وہ دنیا میں کوئی عظیم کامیابی حاصل نہیں کر پاتے اور تیسرے درجے کی معمولی سی زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اُس خاص صلاحیت کو کیسے دریافت کیا جائے؟ کیونکہ جب تک وہ صلاحیت انسان پر آشکار نہیں ہوتی تو اس کے لیے اسے شعوری طور پر بھرپور طریقے سے استعمال میں لانا ناممکن ہے۔ اس حوالے سے حضور علیہ السلام نے بڑا شاندار اُصول دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلُّ مُيَسَّرُ لِّمَا خُلِق.
’’ ہر شخص جس کام کے لیے پیدا ہوا، وہ اُس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے۔ ‘‘
لہٰذا انسان اپنے من کی دنیا میں جھانک کر دیکھے اور بنظرِ غائر جائزہ لے کہ وہ کون سا کام ہے جسے وہ دلچسپی اور رغبت سے کرتا ہے اور جس میں مشغول ہو کر اُسے وقت کے گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ انسان اگر کوشش کرے تو بالآخر وہ اپنی مخصوص صلاحیت کو دریافت کر سکتا ہے اور ایک دفعہ یہ چابی ہاتھ آ جائے تو پھر انسان ترقی کی اعلیٰ منازل طے کر کے دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل کر سکتا ہے کیونکہ فطری صلاحیتیں کامیابی کی کُنجی ہیں۔
اقدارِحیات کا تعین
نصب العین کا تعین اور اُس کے حصول کا لائحہ عمل طے کر لینے کے بعد ہمارے پاس زادِ راہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ بالفاظِ دیگر ہمارے لیے صرف منزل کے متعلق جان لینا اور اُس کی طرف جانے والے راستہ سے آگاہ ہو جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایسے اسباب اور وسائل بھی ہونے چاہییں جن کے ذریعے خوش اسلوبی سے مسافت کو طے کیا جا سکے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ زندگی کا سفر ہموار راستوں کا سفر نہیں ہے بلکہ اس سفر میں بہت سارے نشیب و فراز ہیں اور کئی قسم کی کھائیاں، گھاٹیاں اور ڈھلوانیں ہیں جہاں پھسلنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ کہیں ٹیٹرھے راستوں سے واسطہ پڑتا ہے جہاں بھٹکنے کی صورت میں انسان منزل کے قریب ہونے کی بجائے منزل سے دور ہوتا چلا جا تاہے۔ پھر نفس امارہ اور شیطان کی صورت میں دو دشمن ہیں جو ہر لمحہ اُس کی منزل کو کھوٹا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
لہٰذا نصب العین اور اُس کے حصول کا لائحہ عمل طے کر لینے کے بعد کامیابی کے ساتھ اُس پر عمل پیرا ہونے کے لیے انسانی زندگی میں کچھ طے شدہ اصولوں اور سوچی سمجھی قدروں کا ہونا ضروری ہے جن کی صداقت و حقانیت پر اُس کا دل و جان سے ایمان ہو اور روزمرہ زندگی کے جملہ معاملات میں وہ درست راستے کی طرف اُس کی رہنمائی کر سکیں۔ تاکہ اُس کا ہر گزرنے والا لمحہ اُسے منزل کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہو نہ کہ منزل سے دور ہٹانے کا۔ سطورِ بالا میں انہی اصولوں یا اقدار کو زادِ راہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ ایک بندہ مومن کے لیے اس معاملے میں قرآن و حدیث ہی وہ سرچشمہ ہائے حیات ہیں کہ جن پر وہ آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکتاہے۔ اسلام کی جملہ تعلیمات کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے رہنما اصول دئیے جائیں جو اُس کی دنیوی زندگی کو خوشگوار بنانے کے ساتھ ساتھ اُسے اُخروی سعادتوں سے بھی مالا مال کر دیں لیکن قرآن و حدیث کی تعلیمات بے شمار ہیں جن کو ہر وقت ذہن میں تروتازہ رکھنا اور اُن کے مطابق عمل کی جہتوں کو متعین کرنا ایک عام آدمی کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ انسانی زندگی میں چند ایک طے شدہ اصول یا اقدار ایسی ہوں جنہیں ہر وقت یاد رکھنا اور عمل میں لانا آسان ہو۔ نیز وہ اتنے جامع ہوں کہ زندگی کے اُلجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے اور عمل کے زاویوں کو درست کرنے میں قدم بقدم انسان کی رہنمائی کر سکیں۔
امام ابودائود (مولف سنن ابودائود) فرماتے ہیں کہ
سنن ابو دائود میں چار حدیثیں ایسی ہیں جو ایک بندئہ مومن کے لیے اُس کے دین کے معاملے میں کافی ہیں۔
دوسری طرف امام اعظم، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے حماد سے فرمایا کہ
’’میں نے پانچ لاکھ احادیث میں سے تمہارے لیے پانچ حدیثوں کو منتخب کیا ہے اگر تم ان پانچ حدیثوں پر عمل کر لو گے تو گویا پورے دین پر عمل ہوجائے گا۔‘‘
ان پانچ حدیثوں میں سے بھی چار وہی ہیں جو امام ابو دائود نے بیان فرمائی ہیں اور جہاں تک پانچویں کا تعلق ہے تو اُس پر بھی اُن چار کے ضمن میں ہی عمل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اُسے الگ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ان چار حدیثوں کو اگر دل و دماغ کی تختی پر نقش کر لیا جائے اور شب و روز کے جملہ اعمال و افعال اور حرکات و سکنات میں ان کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو حیاتِ انسانی کا ایک ایک لمحہ عبادت بن سکتا ہے اور دنیا اور آخرت کی دونوں زندگیوں میں کامیابی و کامرانی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ چار حدیثیں ہر زمانے کے ہر شخص کے لیے خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہو اور کسی بھی شعبے میں ہو، اقدارِحیات کا کام دے سکتی ہیں اور مومنا نہ زندگی کی تصویر کو مکمل کرتی ہیں۔ یہ چار حدیثیں ذیل میں مختصر تشریح کے ساتھ درج کی جار ہی ہیں۔
پہلی حدیث :
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ
’’اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے‘‘
یہ حدیث مبارکہ بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا آغاز اس حدیث سے کیا۔ وجہ یہی تھی کہ جب اعمال کا دارومدار ہی نیت پر ہے تو نیت کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔ اگرنیت ٹھیک نہیں ہو گی تو عمل بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ بعض اہلِ علم نے اسے تہائی دین، بعض نے نصف دین اور بعض نے اسی کو کل دین قراردیا ہے۔
انسان کے ہر چھوٹے بڑے عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی ارادہ کار فرما ہوتاہے۔ اسلام کامطالبہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے سر انجام دے نہ کہ کسی بھی اور غرض و غایت سے۔ اسے کہتے ہیں نیت کا اللہ کے لیے خالص ہو جانا۔ نیت جب اللہ کے لیے خالص ہوجاتی ہے تو پھر انسان کا تھوڑا عمل بھی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پا لیتا ہے اور اُس پر زیادہ سے زیادہ اجر وثواب مل جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر رخصت کرتے وقت جو نصیحتیں فرمائیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ
اخلص دينک يکفيک العمل القليل
’’اپنے دین کو خالص کر لے (یعنی ہر کام کا مقصود و مطلوب اللہ کی رضا کو بنا لے) پھرتیرا تھوڑا عمل بھی کفایت کرے گا۔ ‘‘
حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
رُبَّ عَمَلٍ صَغِيْرٍ تَعظِيمُه النية ورُبُّ عَمَلٍ کَبِيْرٍ تَصْغِيْرُهُ النية.
’’بعض اوقات عمل چھوٹا ہوتا ہے، نیت اُس عمل کو بڑا بنا دیتی ہے اور بعض اوقات عمل بہت بڑا ہوتاہے، نیت اُس عمل کے اجر وثواب کو تھوڑا کر دیتی ہے۔ ‘‘
یوں سمجھ لیں کہ نیت کا حسن رائی کے برابر عمل کے اجر وثواب کو پہاڑوں کے برابر کر سکتا ہے اور نیت کی خرابی پہاڑوں جیسے عمل کے اجرو ثواب کو رائی کے دانے کی سطح پر لا سکتی ہے۔ عوام اور خواص (اولیاء و مقربین) میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اول الذکر لوگ عمل کی مقدار پر زیادہ زور دیتے ہیں جب کہ موخر الذکر لوگ مقدار سے کہیں زیادہ زور عمل کے معیار (اخلاص اورحسن نیت سے عمل بجا لانے) پر دیتے ہیں۔
نیت کا عمل دخل فقط اتنا ہی نہیں کہ یہ عمل کے اجر وثواب میں کمی بیشی کا باعث بنتی ہے بلکہ اچھی نیت خالص دنیا داری کے کام کو بھی عین عبادت بنا دیتی ہے جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق جہاد کی نیت سے پالے گئے گھوڑے کا گوبر اُٹھانا بھی اللہ کی بارگاہ میں باعثِ اجر و ثواب ہے۔ اس کے بر عکس نیت کی خرابی عین دین داری کے کام کو بھی دنیا داری بنا کر نہ صرف اجر و ثواب سے محروم کر دیتی ہے بلکہ اُلٹا عذاب کا مستحق بنا دیتی ہے (العیاذ باللہ)۔ چنانچہ قرآن مجید نے نماز میں ریا کاری کرنے والوں کو تباہی و بربادی کی وعید سنائی ہے۔ اور ایک مشہور حدیث کے مطابق قیامت والے دن ایک شہید، ایک عالم اور ایک سخی کو محض اس بنا پر جہنم میں بھیج دیا جائے گا کہ ان لوگوں نے اپنے اعمال میں اللہ کی بجائے مخلوق کو خوش کرنے کی نیت کی تھی۔
ہر عمل کی ایک ظاہری ہیئت (شکل و صورت) ہوتی ہے اور ایک اُس میں شامل باطنی نیت۔ کسی بھی عمل کے باعثِ اجروثواب بننے کادارومدار اس بات پر ہے کہ ان دونوں میں موافقت پائی جا رہی ہو۔ اگر کسی عمل کی ظاہری شکل تو پائی جا رہی ہو لیکن باطنی نیت موجود نہ ہو تو اُس پر ثواب نہیں ملے گا۔ مثلاً
- اگر ایک آدمی اپنا وزن کم کرنے کے لیے سارا دن کچھ کھا تا پیتا نہیں ہے اور نہ ہی بیوی کے قریب جاتا ہے تو اُس بندے کو روزہ دار نہیں کہیں گے گو اُس نے ظاہری طور پر روزے کے ارکان پورے کر دئیے چنانچہ اُسے اجر وثواب بھی نہیں ملے گا۔ مگر یہی کام وہ روزے کی نیت سے کرتا ہے تو یہ اعلیٰ درجے کی عبادت بن جاتا ہے۔
- اگر ایک آدمی کو کسی نے تالاب میں دھکا دے دیا اور اُس کے سارے اعضاء وضو دھل بھی گئے تو امام شافعی کے نزدیک تو اُس کا وضو ہوگا ہی نہیں کیونکہ اُس نے وضو کی نیت نہیں کی تھی۔ البتہ امام اعظم امام ابوحنیفہ کے بقول وضوء اُس کا ہو جائے گا اور وہ نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اُسے وضوء کا ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اُس نے وضو کی نیت نہیں کی تھی۔
نیت کی تین صورتیں
نیت کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔
- حسنِ نیت سے عمل کرنا
- نیت ِ بد سے عمل کرنا
- بغیر نیت کے عمل کرنا
پہلی دو صورتیں تو واضح ہیں۔ تیسری صورت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوئی عمل کر رہا ہو اور اُس میں کوئی خاص نیت(اچھی یا بری) شامل ہی نہ ہو۔ اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اس اُمت کو نیتِ بد کے ساتھ عمل کرنے سے اُتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا نقصان بغیر نیت کے عمل کرنے سے پہنچا ہے۔ ہم اگر اپنے شب و روز پر غور کریں تو ہمیں صاف دکھائی دے گا کہ ہم روز مرہ کی زندگی میں بہت سے کام بغیر نیت کے کرتے ہیں اگر انہی کاموں میں اللہ کی رضا کی نیت سے کیا جائے تو وہ ثواب بن جاتے ہیں مثلاً
- ہر وہ بندہ جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ہر دن میں درجنوں مرتبہ ماں باپ کے چہرے کو دیکھتا ہے لیکن اسی دیکھنے میں اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی نیت کر لی جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہر مرتبہ دیکھنے میں ایک حج مقبول کا ثواب ملتا ہے، چاہے ایک دن میں سو مرتبہ دیکھے۔
- ہر خاوند بیوی کو دیکھ کر مسکراتا ہے اور ہر بیوی خاوند کو دیکھ کر مسکراتی ہے مگر اس مسکرانے میں خواہش کا پہلو غالب ہوتاہے۔ شریعت نے کہا کہ جب کوئی خاوند بیوی کو دیکھ کر مسکراتا ہے اور بیوی خاوند کو دیکھ کر مسکراتی ہے تو اللہ رب العزت ان دونوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں لیکن یہ صورتِ حال تو تب ہی بنے گی جب دونوں کے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت شامل ہوگی۔
- رات کو سوتے وقت عام طور پر لوگ لباس تبدیل کرتے ہیں مگر یہ کام بالعموم اپنی خواہش اور سہولت کے تحت ہوتاہے یہی کام اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سمجھ کر کیا جائے تو عبادت بن جاتا ہے۔ گویا یہاں عادت ہے مگر عبادت نہیں ہے۔ حسن نیت کے ساتھ اس عادت کو عبادت بنایا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر ہم مذکورہ بالاحدیث کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دن رات کی وہ تمام وہ سرگرمیاں جو حدود شرع میں رہتے ہوئے سر انجام دیتے ہیں (خواہ وہ دینی ہوں یا بظاہر دنیوی)اُن میں اپنی نیت کو درست کر لیں تو وہ سب کی سب عبادت بن سکتی ہیں۔ اور ہم چوبیس گھنٹے کے عبادت گزار بن سکتے ہیں۔ گویا ہمارا کھانا، پینا، پہننا، سونا، جاگنا، ہنسنا، رونا، کاروبار کرنا، بیوی بچوں کی پرورش کرنا اور دیگر تمام سماجی کام سر انجام دینا حتی کہ جینا مرنا سب کچھ عبادت بن سکتے ہیں اور یہی ایک بندہ مومن کا مقصدِ حیات اورمنتہائے کمال ہے۔
دوسری حدیث
مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکهُ مَا لَايَعْنِيْهِ.
’’انسان کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لا یعنی کو ترک کر دے‘‘
لا یعنی سے مراد ہر وہ کلام اور کام ہے جو فضول اور بے مقصد ہو۔ جس کا کوئی بھی فائدہ نہ تو دنیوی زندگی کے حوالے سے ہو اور نہ ہی آخروی زندگی کے حوالے سے۔ ایسے کاموں میں مشغول ہونے کا مطلب اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے اور وقت کو ضائع کرنا در حقیقت اپنی زندگی کو بلکہ خود اپنے آپ کو ضائع کرنا ہے جس کا ایک بندہ مومن متحمل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ قرآن مجید نے کامیاب مومنوں کی علامات میں سے ایک علامت یہ بتائی ہے۔
وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ.
(المومنون : 3)
’’اور وہ لوگ لغو (فضول اور بے ہودہ باتوں)سے اجتناب کرتے ہیں‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا۔
وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا.
(الفرقان : 72)
’’اور جب وہ لغو کے قریب سے گزرتے ہیں تو باوقار طریقے سے گزر جاتے ہیں‘‘
دنیا کی زندگی میں انسان کے پاس سب سے قیمتی دولت وقت ہی ہے جتنی زیادہ اس کی قدر کی جائے گی اُتنا ہی زیادہ انسان کامیاب ہوگا اور جتنا اسے ضائع کیا جائے گا اُتنا ہی ناکام و نامراد ہوگا۔
زندگی محدود ہے اور کام بے شمار ہیں۔ ایسی حالت میں یہ بہت ضروری ہے کہ انسان اپنے وقت کے ایک ایک لمحے کو سوچ سمجھ کر استعمال کرے۔ فضول اور بے کار کاموں سے بچتے ہوئے اسے ضروری اور کار آمد کاموں میں استعمال کرے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ وقت سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں موجد بن گئے، فلاسفر بن گئے، بزرگ اور ولی بن گئے، غرض دین و دنیا کے مالک بن گئے لیکن جن لوگوں نے وقت کو بے کار ضائع کیا وہ محرومیوں، مایوسیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کا شکار ہو کر رہ گئے اور تیسری درجے کی انتہائی حقیر اور کیڑوں مکوڑوں والی زندگی گزار کر بالآخر گمنامی کے قبر ستان میں دفن ہو گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
نِعمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا کَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ : الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ.
( بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، رقم : 6049)
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں۔ ایک صحت اور دوسری فراغت۔ ‘‘
آج ہماری بہت ساری پریشانیوں اور بد حالیوں کا سبب وقت جیسی انتہائی قیمتی دولت کو بڑی بے دردی سے ضائع کرنا ہے۔ لوگوں کی اکثریت ہر روز اپنا بہت سارا وقت فضول اور بے فائدہ کاموں مثلاً ٹی وی، ڈراموں، فلموں، کھیل تماشوں وغیرہ جیسی خرافات و واہیات میں ضائع کرتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو مفید، بامقصد اور ضروری کاموں کو کرنے کی صلاحیت زنگ آلودہ ہوتی چلی جاتی ہے اور دوسری طرف ان کاموں کے لیے وقت بھی بہت کم بچتا ہے۔ نتیجتاً زندگی محرومیوں کا شکار ہو کر کانٹوں کا بچھونا بنتی چلی جاتی ہے۔ لہٰذا دنیا وآخرت کی سرفرازیوں کو حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم وقت کی قدر کرنا سیکھیں۔ مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں فضول اور بے فائدہ کاموں سے اپنے اوقات کو بچاتے ہوئے حتی الوسع مفید اور کار آمد کاموں میں استعمال کرتے ہوئے حیاتِ دنیوی کے ہر ہر لمحے کو قیمتی بنائیں۔
تیسری حدیث
اَلْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَ بَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ فَمَنِ اتَّقٰی الشُّبْهَات اسْتَبَرَئَ لِدِيْنِهِ
’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور دونوں کے درمیان کچھ مشتبھات (شبہ والی چیزیں)ہیں۔ پس جس نے اپنے آپ کو مشتبھات سے بچا لیا اُس نے اپنے دین کی حفاظت کر لی۔ ‘‘
نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقہ و خیرات، سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، امانت کی حفاظت کرنا وغیرہ وغیرہ جیسی چیزیں واضح طور پر حلال ہیں جن پر ہمیں کار بند ہونا ہے۔ اس کے بر عکس جھوٹ، چغلی، غیبت، چوری، ڈاکہ، سود، زنا، خیانت اور شراب نوشی وغیرہ جیسے بہت سارے کام ہیں جن کا حرام اور ناجائز ہونا ہمارے اُوپر واضح ہوتا ہے اور اُن سے بچنا ہے لیکن انسانی زندگی میں قدم قدم پر ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ایک کام کا حلال یا حرام ہونا ہمارے اوپر واضح نہیں ہوتا اور ہمیں پتہ نہیں چل رہا ہوتا کہ وہ جائز ہے یا نا جائز۔ اُس کے حوالے سے ذہن تردد اور انتشار کی کیفیت میں ہوتاہے۔ دل اور دماغ کے درمیان یا عقل اور ضمیر کے درمیان ایک جنگ سی شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارے نفس کی خواہش، طبیعت کا تقاضا یا کوئی اور مصلحت ہمیں اُس کام کے کرنے پر آمادہ کر رہی ہوتی ہے جبکہ ضمیر کی خلش اُس سے روک رہی ہوتی ہے۔ ایسے تمام مواقع پر تقویٰ کا کمال یہ ہے کہ انسان رُک جائے اور ایسے کاموں کے کرنے سے اجتناب کرے۔ جس نے ایسے کاموں سے اپنے آپ کو روک لیا اُس نے گویا اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کر لی اور جو ایسے کاموں کو کر گزرے گا وہ بالآخر اُن کاموں کو بھی کرنے لگے گا جو واضح طور پر حرام اور نا جائز ہوں گے اور نتیجتاً اپنے دین اور ایمان کو تباہ کر لے گا اور گمراہی کے راستوں پر چل پڑے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور حدیث ِ مبارکہ میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔
دَعْ مَا يُرِ يْبُکَ اِلٰی مَا لَا يُرِيْبُک
’’جو چیز تجھے شبہ میں ڈالے اُسے چھوڑ دے اوراُس کو اپنا لے جو شبہ میں ڈالنے والی نہ ہو۔ ‘‘(یعنی جس کا جائز اور حلال ہونا یقینی ہو)
لہٰذا اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے اور زندگی کو راست روی پر قائم رکھنے کے لیے ہمیں اس حدیثِ مبارکہ کو بھی زندگی کی ایک لازمی قدر کے طور پر اپنانا ہے تاکہ زندگی ہر قسم کی گمراہیوں سے پاک ہو کر صراطِ مستقیم پر گامزن ہو سکے اور ہم دنیا و آخرت کی فلاح و سعادت سے ہمکنار ہو سکیں۔
چوتھی حدیث
لَا يُوْمِنُ اَحَدُ کُمْ حَتّٰی يُحِبُّ لِاَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘
اسلام کی جملہ تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔
- حقوق اللہ
- حقوق العباد
حقوق اللہ : وہ معاملات جوفقط اللہ اور بندے کے درمیان ہیں۔ مثلاً نماز، روزہ، حج و دیگر عبادات
حقوق العباد : وہ معاملات جو اپنے اردگرد میں بسنے والے انسانوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔
جہاں تک بیان کا تعلق ہے تو اُس میں حقوق اللہ پہلے آتے ہیں اور حقوق العباد بعد میں لیکن عملی اعتبار سے حقوق العباد کی اہمیت حقوق اللہ سے بھی زیادہ ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جو حقوق اللہ ہیں وہ تو صرف حقوق اللہ ہی ہیں جو صرف اللہ اور بندے کے درمیان ہیں اور اُن میں کوئی تیسرا فریق براہِ راست شامل نہیں ہے لیکن جو حقوق العباد ہیں وہ فقط حقوق العباد ہی نہیں بلکہ حقوق اللہ بھی ہیں کیونکہ بندوں کے جتنے حقوق ایک دوسرے کے اوپر ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ نے ہی مقرر فرمائے ہیں۔ لہٰذا اُن کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے حقوق اللہ کی نسبت حقوق العباد کو ادا کرنا مشکل ہوتاہے۔ چنانچہ ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ جو نماز، روزے وغیرہ کے پابند ہوتے ہیں لیکن دوسرے لوگوں کے ساتھ اُن کا رویہ اسلامی تعلیمات کے بر عکس ہوتاہے گویا وہ حقوق العباد کے معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ بنظرِغائر دیکھا جائے تو معاشرے کے اندر جتنے بھی لڑائی، جھگڑے، فساد، نفرتیں، عداوتیں اور کدورتیں ہیں اُن سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حقوق تو پورے پورے حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن دوسروں کے حقوق بطریق ِ احسن ادا کرنے سے گریز کرتا ہے یہیں سے معاشرتی زندگی میں ناہمواریوں، محرومیوں اور خرابیوں کا آغاز ہوتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں حقوق العباد کی ادائیگی کے حوالے سے بہت تاکید کی گئی ہے اور اس کی مختلف جہتوں کے متعلق تفصیلات و جزئیات تک بیان کی گئی ہیں تاہم مندرجہ بالا حدیثِ مبارکہ میں جو اصول دیا گیا ہے، اِس ایک اصول کو تھام لیا جائے تو یہ اکیلا ہی انسان کو اس سلسلے کی بقیہ تعلیمات سے بے نیاز کرنے کے لیے کافی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حقوق العباد کے معاملے کو ایمان کیساتھ منسلک کیا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ کوئی شخص اُس وقت تک ایمان کی حقیقت یا ایمان کے کمال کو نہیں پا سکتا جب تک اُس کا حال یہ نہ ہو جائے کہ وہ ہر معاملے میں جو کچھ اپنے لیے پسند کرتاہے وہی کچھ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔
حقوق العباد کے حوالے سے جتنی بھی کوتاہیاں ہوتی ہیں اُن سب کی بنیاد یہ ہے کہ انسانی نفس کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنے لیے تو ہر خیر کو حاصل کرنا چاہتاہے اور ہر شر سے اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے لیکن دوسروں کے معاملے میں وہ ایسا نہیں چاہتا ہے چنانچہ دوسروں کے ساتھ ہر قسم کے ظلم، زیادتی اورحق تلفی کو جائز سمجھ لیتا ہے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ جو سلوک، رویہ اور برتاو انسان دوسروں سے اپنے لیے چاہتا ہے وہی طرزِ عمل اُسے دوسروں کے ساتھ اپنانا ہوگا اور جو سعادتیں اور بھلائیاں انسان اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے کہ اُسے حاصل ہوں ویسی ہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرنا ہوں گی۔ گویا اُسے دوسروں کا اُسی طرح ہمدرد، خیر خواہ اور مخلص بننا ہو گا جیسا وہ اپنی ذات کے ساتھ ہے۔ اس ایک اصول کو اگر اپنا لیا جائے تو ایک طرف تو انسان ایمان کے کمال کو پا لیتا ہے اور دوسری طرف معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتاہے۔
مندرجہ بالا چار حدیثوں کو پورے دین کا خلاصہ قرار دیا جا سکتاہے جن پر عمل پیرا ہونے سے پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتاہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ
پہلی حدیثِ مبارکہ۔ ۔ ۔ تصحیح اعمال کے بارے میں ہے
دوسری حدیثِ مبارکہ۔ ۔ ۔ تصحیح اوقات کے بارے میں ہے
تیسری حدیثِ مبارکہ۔ ۔ ۔ حقوق اللہ کے بارے میں ہے
چوتھی حدیثِ مبارکہ۔ ۔ ۔ حقوق العباد کے بارے میں ہے
جب اعمال کی تصحیح بھی ہو جائے، اوقات کی تصحیح بھی ہو جائے، حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی درست طریقے سے ادا ہونے لگیں تو گویا پورے دین پر عمل ہوجاتا ہے اور ہر ہر معاملے میں انسان کے لیے صحیح طرزِ فکر اور طرزِ عمل کو اپنانا آسان ہو جاتا ہے۔ زندگی آوارگیوں اور پراگندگیوں سے نجات پانے لگتی ہے، عمل کے زاویے درست ہونے لگتے ہیں اور دنیا و آخرت کی بلندیوں اور کمال کو حاصل کرنے کی طرف انسان کا سفر شروع ہوجاتاہے۔
عملی مشورہ جات
کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ پر بہترین انداز میں عمل پیرا ہونے کے لیے اور اس سے بھرپور استفادہ کرنے کے لیے چند عملی مشورہ جات درج ذیل ہیں۔
- دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کی بنیاد پہلی عادت ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ ہے۔ جب تک ہم پہلی عادت ’’ذمہ داری قبول کرنے‘‘ پر صحیح طریقے سے عمل پیرا نہیں ہوں گے تب تک دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ سے کما حقہ استفادہ ممکن نہیں ہوگا۔ لہٰذا ایک مرتبہ واپس پلٹ کر دیکھیں کہ آپ نے پہلی عادت کو کس حد تک اپنی فکر اور عمل کا حصہ بنا لیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے جو کمی ہو، اسے دور کریں۔
- دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کی تمام تفصیلات کو بار بار غور سے پڑھیں۔ فقط ایک مرتبہ پڑھ لینے سے ساری باتیں ذہن میں جذب نہیں ہو جاتیں۔ لہٰذا بار بار پڑھیں اور جتنے اہم نکات بیان ہوئے ہیں اُنہیں خوب غور وفکر سے دل ودماغ میں نقش کریں اور عمل کے سانچے میں ڈھالیں یہاں تک کہ وہ آپ کی عادت بن جائیں۔
- زندگی میں اپنے مختلف کرداروں کے بارے میں غور کریں۔ (مثلاً باپ، بھائی، بیٹا، شوہر، کسی دفتر میں باس یا کارکن ہونا، معاشرے کا ایک رکن ہونا وغیرہ وغیرہ) اور دیکھیں کہ کیا آپ اپنے تمام کرداروں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں اور جس حوالے سے آپ کی جو جو ذمہ داریاں ہیں اُن کی ادائیگی کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ نیز کیا اُن میں توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جہاں جہاں کمیاں دکھائی دیں اُنہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔
- کسی فارغ وقت میں گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے من میں ڈوب کر زندگی کے سراغ کو پانے کی کوشش کریں۔ اپنی انفرادیت کے بارے میں سوچیں اور اپنے آپ کو یقین دلائیں کہ آپ پوری کائنات میں ایک منفرد وجود ہیں جس کی طرح کا انسان نہ پہلے کبھی آیا ہے اور نہ بعد میں آئے گا۔ آپ کا ایک اپنا کردار ہے جو فقط آپ کو ہی ادا کرنا ہے۔ کوئی بھی دوسرا شخص اُس کردار کو ادا نہیں کر سکتا۔ اُس کردار کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو مخصوص صلاحیتیں دے رکھی ہیں اُنہیں دریافت کریں۔ اُن پر محنت کر کے اُنہیں نکھاریں اور اپنی اور معاشرے کی اصلاح و فلاح کے لیے اُنہیں بھر پور طریقے سے عمل میں لانے کا عزم کریں۔
- اپنی اب تک کی زندگی کا بغور جائزہ لیں کہ کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔ ؟اپنی آج تک کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی فہرست مرتب کریں۔ ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوں اور گمراہیوں کو کھلے دل سے تسلیم کریں اور آئندہ اُن کی اصلاح کا عزم کریں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کو پہچانیں، پھر خامیوں پر قابو پانے اور خوبیوں کو مزید نکھارنے پر محنت کریں۔ ماضی کے تمام نقصانات اور محرومیوں پر جلنے اور کُڑھنے کی بجائے وہاں سے قیمتی اسباق کشید کریں اور اُن کی روشنی میں بہترین لائحہ عمل مرتب کر کے ثابت قدمی اور استقامت سے اُس پر گامزن ہوجائیں۔ ان شاء اللہ العزیز کامیابی و کامرانی آپ کے قدم چومے گی۔
حرفِ آخر کے طور پر یہ بات یاد رکھیں کہ جو کچھ بھی آپ آج تک کھو چکے ہیں اُس سے بہت زیادہ پانے کے لیے اب بھی موجود ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ماضی کے نقصانات پر دل گرفتہ نہ ہوں۔ ماضی پر پچھتانے کی بجائے اُسے صرف سبق سیکھنے کا ذریعہ بنائیں۔ پھر اُن حاصل شدہ تجربات کی روشنی میں مردانہ وار آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و مددگار ہوگا اور جو کچھ آپ ماضی کے اندر کھو چکے ہیں اُس سے بہت زیادہ مستقبل میں پا لیں گے۔ (ان شاء اللہ العزیز)