حافظ شکیل احمد طاہر
’’پیغام وحدت امت‘‘ خالصتاً فکر اسلامی ہے جس پہ کوئی وہم کا گذر بھی نہیں۔ تصورِ اتحادِ امت اسلامی تصور ہے جس کا مرکزی نقطہ انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنا ہے۔ حضرت اقبال نے جب یورپی قومیت کا پورے طریقے سے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے غیر انسانی نظام ہے۔ یورپ سے انہوں نے اس کے عملی نتائج دیکھے تو انہیں یہ خدشہ ہوا کہ یہ جذبہ اسلامی ممالک کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کو مدد دی تو ان کو واضح ہوا کہ یہ حیلہ کارگر ہے۔ اقبال طویل مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ وطنیت، وحدتِ ملت کے راستے کا پتھر ہے۔ سو آپ نے تصورِ قومیت (Concept of nationality) کے مفاسد، قبائح، عواقب واضح کئے اور تصور ملت واضح کیا۔ حرفِ اقبال، نثر اقبال میں رقم ہے کہ خود حضرت اقبال فرماتے ہیں:
’’میں یورپ کے پیش کردہ نیشنلزم کا مخالف ہوں۔ اس لئے کہ مجھے اس تحریک میں مادیت اور الحاد کے جراثیم نظر آتے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دور حاضر کی انسانیت کے لئے شدید ترین خطرات کا سر چشمہ ہیں۔ اگرچہ وطن سے محبت ایک فطری امر ہے لیکن اس عارضی وابستگی کو خدا اور مذہب سے برتر قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔
انگلستان میں جدید وطنیت کا تصور 17 ویں صدی کے آغاز سے ابھرا۔ امریکہ میں قوم پرستی کا تصور اٹھارویں صدی میں نمو پذیر ہوا۔ اب یہ تاریک رات کسی نہ کسی صورت میں تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کہیں ذات پرستی کا سیل بیکراں انسانی قدروں کو بہا لے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ کہیں نسل پرستی کا زہر جڑیں کاٹ رہا ہے۔ آج کے مسلمان حکمران بھی اسی سے متاثر ہو کر یہی نعرہ آلاپ رہے ہیں۔ کہیں رنگ و روپ کا طوفان سارے عالم کی بنیادیں مسمار کر رہا ہے۔ یہاں Red Indian، Black Indian کا ذکر ہی کیا۔ ۔ ۔ ہم مسلمانوں کے حالات کیا ہیں۔ ۔ ۔ ناگفتہ بہ ناگفتہ بہ قبائلیت کا جکڑ بند ہمارے انگ انگ کو جکڑے ہوئے ہے۔ طبقاتیت اور جغرافیت کے عفریت پھر سے سر اٹھا رہے ہیں۔
پیغامِ وحدتِ ملت، پیغام اتحادِ امت، تصورِ ملتِ بیضا، فکرِ ملتِ احمد مرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شعر و نثر اقبال میں جابجا ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور اس کو افکار و تصوراتِ اقبال میں مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس تصور کا مرکزی نقطہ فرد و ملت کا ربط۔ ۔ ۔ خودی کا بے خودی ہونا۔ ۔ ۔ قطرے کا قلزم ہونا۔ ۔ ۔ کوکب کا کہکشاں شمار ہونا۔ ۔ ۔ موتی کا لڑی میں پرویا جانا ہے۔ نفی قومیتِ جدیدہ اور اثباتِ ملتِ اسلامیہ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک سلبی اور دوسرا اثباتی ہے۔ آیئے کلام اقبال میں ان دونوں پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ نفی قومیتِ جدیدہ
حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ ابتدائی دنوں میں جغرافیائی اور وطنی قومیت کے قائل تھے بلکہ اس کے پرچارک تھے۔ ان کا کلام ’’ہندی ہیں ہم سارا ہندوستان ہمارا‘‘ اس کا ایک ثبوت ہے۔ بعد ازاں یورپ کے تعلیمی سفر میں انہوں نے احوالِ یورپ کا عمیق جائزہ لیا تو قومیت کے تمام پہلوئوں کا تجزیہ کیا۔ اس کے مفاسد، قبائح، اثراتِ بد سامنے آئے۔ بعد ازاں تصورات اسلام کا تقابلی تجزیاتی مطالعہ نے ان کی سوچ کا رخ موڑ دیا۔ نفی قومیتِ جدیدہ کا ہندوستان میں جس شد و مد کے ساتھ آپ نے رد و ابطال کیا، وہ آپ کا خاصہ ہے۔ یہی تصور، تصور پاکستان کا اساسی نقطہ قرار پایا۔ آپ کے شعر، نثر، خطوط، مضامین، ملفوظات، خطبات کا بیشتر حصہ اسی تصور کی توضیح، تشریح، تنقیخ، تعبیر کیلئے موجود ہے۔ قومیت جدیدہ کی نفی و رد و ابطال کے لئے فکر اقبال میں مطالعہ کریں تو آپ نے درج ذیل تمام گوشوں کا احاطہ کیا اور کوئی پہلو تشنہ لب نہ چھوڑا۔
- وطنیت (Patriotism)
- قومیت (Nationalism)
- نسلیت (Creedism)
- طبقاتیت (Classism)
- لونیت (Colourism)
- لسانیت (Languagism)
- قبائلیت (Traiblism)
1۔ وطنیت (Patriotism)
عہد جدید کا عظیم بت، وطن پرستی ہے۔ اس کو دور حاضر میں یوں عام کیا گیا کہ اس کے ذریعے تصورِ ملت، تصورِ امت کو منہدم کر دیا جائے۔ حبِ وطن میں کوئی مضائقہ نہیں اگر دین و مذہب محلِ نظر نہ ہو۔ اقدارِ اسلامیہ ثانوی ہو کے نہ رہ جائیں۔ اس سلسلہ میں حضرت اقبال نے وہ قلمی اور عملی جہاد کیا جو کسی اور نے نہ کیا۔ جب ’’ملت از وطن است‘‘، ملت وطن سے ہے اور ’’ہمہ ملت ہندیہ‘‘، است ہم ہندی ملت ہیں کہ بازگشت سنائی دی تو آپ اس کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ دلائل و براہین، شواہد، قرائن کا انبار لگا دیا۔ منبر پر بیٹھے والوں نے گمراہ گری کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر آپ نے تصورِ قومیتِ اسلامیہ کو خوب اجاگر کیا اور ہر حیلے، حملے کے تار و پور بکھیر دیئے اس حد تک مطلع صاف کر دیا کہ آج تک ان لوگوں سے جواب بن نہیں پڑا۔ فرماتے ہیں:
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا وطن اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
کہیں وطنیت کے اس بتِ باطل کو ضربِ اسلام سے یوں خاک کیا:
ماکہ از قید وطن بیگانہ ایم
چوں نگہ نور و چشمیم و یکیم
’’ہم مشرق و مغرب میں رہنے والے کلمہ وطن کی زنجیر سے آزاد ہیں۔ ہم ایک چہرے کی آنکھیں ہیں، ایک نور و ایک روشنی ہیں‘‘۔
یہ تصور کہاں سے ماخوذ ہے؟ اصل میں خیابان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشہ چینی ہے۔ ایسے اقبال دان تو عام پائے جاتے ہیں جو فکر اقبال کو یورپ کے افکار کے دامن میں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ’’روزگارِ فقیر‘‘ میں وجیہ الدین فقیر اقبال کا یہ جملہ لکھتے ہیں کہ لوگ مجھے ڈھونڈتے پھریں گے یونیورسٹی کی سیڑھیوں میں جبکہ میں سید میر حسن شمس العلما کے قدموں میں ہوں۔
نفی وطنیت کے سلسلے میں آقائے دو عالم، سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی طرف اشارہ یوں کیا۔ ’’بلال از حبش صہیب از روم سلمان از فارس‘‘ اسی اگر ہم خیر التابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ دوڑائیں تو وہ یمنی ہیں۔ بخاری شریف کے اوراق پر انوار گواہ ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ طریق خطاب تھا ’’سیدنا بلال رضی اللہ عنہ‘‘، بلال رضی اللہ عنہ ہمارے سردار۔ ۔ ۔ وہ عرب جو وطنیت کے گرویدہ تھے ان کی رگوں سے اس تصور کو مٹادیا۔
2۔ قومیت (Nationalism)
تصور جغرافیت آج ایسا تصور ہے جس نے نفرت، تنفر، بیزاری، ناپسندیدگی کا طوفان برپا کیا۔ مشرقیت مغربیت میں یہ نفرت فروغ نعرہ آپکو عام ملے گا۔ اس تقسیم انسانیت نے وہ ستم ڈھائے جو ناقابل فراموش ہیں۔ آج الکفر ملته واحدة کے تصور کی اساس بھی یہی مغربیت و مشرقیت ہے۔ ہزارہا تقسیمات، رنگ و نسل، خون و نسب، قوم و وطن، امیرو غریب میں بٹے ہوئے آج اسلام دشمنی میں ایک ہیں۔ مگر ہم ایک کیوں نہیں؟ الاسلام ملۃ واحدۃ کیوں نہیں، اس پہ حضرت اقبال نے کیا ارشادات فرمائے:
قلب ما از ہند و روم و شام نیست
مرزبوم بجز اسلام نیست
مرا دل ہند، روم اور شام میں قید نہیں ہے، میرا وطن اسلام ہے۔
ہمچو سرمایہ از باراں مجوہ
بیکراں شو در جہاں پایاں مجوہ
بارش کے قطرات سے سبق اندوز ہو۔ وہ خودی، انفرادیت ترک کرکے دریا میں گم ہوتا ہے۔
از حجاز و چین و ایرانیم ما
شبنم یک صبح خندانیم کا
جغرافیائی حد بندیوں سے باہر نکل، حجاز و چین، ایران و روم سے نکل، ایک مسکراتی صبح کے شبنم کے قطرات بنو، جز بندیاں چھوڑو۔
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا
صورت ماہی بہ بحر آباد شو
یعنی از قید مقام آزاد شو
مچھلی کی طرح سمندر آباد ہوجا اور مقامات کی تہہ کو قلیتاً ترک کردے۔
3۔ نسلیت (Creedism)
نسلوں پہ قوموں کی بنا قدیمی ہے۔ نسلوں کا تصادم ہر دور میں پایا گیا۔ فکرِ انبیاء و مرسلین عظام نے اس بت کو پاش پاش کیا۔
دنیا کی دیگر اقوام میں گورے کالے، اعلیٰ نسل، کم تر نسل کا تصور سرایت کئے ہوئے ہے۔ افسوس! آج ہم بھی اسی نہج میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ نسل پرستی کا صنم ہماری بگلوں میں بھی ہے۔ ۔ ۔ ذات پات کا نظام ہم کیا کم ہے۔ ۔ ۔ ؟ ہم میں برہمنوں کی کیا کمی ہے۔ ۔ ۔ وحدت کا تصور کیونکر ابھرے۔ ۔ ۔ ہم اپنی خود ساختہ برتریوں سے تائب ہونے کو تیار نہیں۔ کسی نہ کسی صورت میں یہ تصور ہمارے Sub-Conscious Mind میں موجود ہے۔
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا
اگر نسب را جزوِ ملت کردہ
رخنہ درکارِ اخوت کردہ
عشق در جان و نسب در پیکر است
رشتۂ عشق از نسب محکم تر است
اگر بنائے ملت نسب پہ رکھیں تو تصور اخوت پارہ پارہ ہوجائے گا۔ عشق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، راحت کون و مکاں اگر جان و جسم، نسل و نسب کے پیکر میں نہ ڈھلے توچہ مسلمانی؟ کہ یہ تعلقِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب رکن سے محکم تر اور مضبوط تر ہے، اسی کو حضرت ملا جامی امام عاشقان نے فرمایا:
بندہ عشق شوی ترکِ نسب کن جامی
دریں جا فلاں ابن فلاں چیزے نیست
جامی عشق کا بندہ بن اور نسب کے تصورات کو ترک، کر اس مقام پہ فلاں بن فلاں کچھ بھی نہیں۔
4۔ طبقاتیت (Classism)
آج ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اتحاد کی جو ضرورت آج ہے وہ شاید پہلے نہ تھی لیکن اسلام کو لخت لخت کرنے والے پہلوئوں میں ایک تصور طبقاتیت ہے اور طبقہ پسندی سے قومی تصور ابھارے جارہے ہیں، وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے۔ طبقاتیت (امارت و غربت) مرضِ لاعلاج کی صورت میں جسمِ وحدت کو لاحق ہے۔ ہزار دینی شوق کے لوگوں کو ملیں لیکن کم تری و برتری انکی فطرت ثانیہ ہے۔ دین تو وحدت کا نام ہے اور وہ وحدت، وحدتِ تقویٰ ہے۔ اپنے بتان نفس کی تسکین کے بعد دین داری کا تڑکا لگانے والو ہوش میں آو۔ یہ طبقاتیت ہمیں ایک ہونے نہیں دیتی۔
تمیز آقا و بندہ فساد آدمیت ہے
حذر ہے چیرہ دستاں سخت ہے فطرت کی تعزیریں
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے قلب و ذہن پر فرامین نبوی کنندہ تھے۔ ۔ ۔ انما تنصرون وترزقون بضعائکم بے شک تم مدد کئے جاتے ہو اور رزق دیئے جاتے ہو اپنے کمزوروں کے صدقے۔ ۔ ۔ الفقر فخری فرما کر زبانوں کو قفل لگادیا۔ ۔ ۔ ان اکرمکم عندالله اتقکم نے تمام معیارات باطلہ، تصورات خود ساختہ کو زمین بوس کردیا۔ غربت و امارت کسی کو محترم و غیر محترم نہیں کرتے۔ غربت اور امارت دونوں ایزدی امتحانات کی صورتیں ہیں۔ ہماری اخوت، دوستی، قربت کیونکر وجود میں آئے؟ ہمارا معیارِ دوستی غربت و امارت پہ استوار ہے۔ وہ نئی نسل کو تو فرمارہے تھے۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔
5۔ لونیت (Colourism)
گورے کالے کی تقسیم ایک ایسا ناسور جس کا علاج دنیا کے کسی فلسفے، کسی تصور، کسی نظام نے حل نہ کیا۔ اتحادِ مسلم کے راستے کا سنگ گراں بتانِ رنگ و خوں ہیں مفکرین عالم سر پکڑ کے بیٹھے ہیں اور حل ملتا نہیں۔ ۔ ۔ ہاں حل اس کا ہے وہ جو مکین گنبد خضریٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا۔ اپنے وجود مسعود کا گرویدہ کر کے۔ ۔ ۔ اپنی زلفان مشک بار کا شیدا کر کے۔ ۔ ۔ اپنی چشمان مازاغ کا اسیر کرکے۔ ۔ ۔ اپنے چہرہ والشمس والقمر کا عاشق کرکے۔ ۔ ۔ اپنے حسن تابدار کا غلام بے دام کرکے تمام حسنوں کو مانند کردیا۔ ان کو طلب رہی تو ایک
النظر علی وجه النبی.
’’ہمہ وقت چہرہ نور فزا کو تکتے رہنا‘‘۔
کآنی انظر الی بياضه.
’’ایسے جیسے میں اس کی سفیدی کو ہی دیکھے جا رہا ہوں‘‘۔
کان الشمس تجری فی وجهه.
’’جیسے آفتاب کی روشنیاں چہرہ مبارک میں چھلکیں‘‘۔
ما رايته احسنه من قبل ولا بعد.
’’میں نے آپ سا حسین پیکر، نہ پہلوں میں دیکھا نہ بعد والوں میں‘‘۔
یہ ہی تصور رنگ و نسل کے عفریت کو ابدی نیند سلانے کا باعث ہوگی۔
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
رنگ و بو کا فرق مجھ پہ حرام ہے کہ میں ایک بہار (اسلام) کا پالا ہوا ہوں۔ میں وحدت کی لڑی میں ہوں۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
6۔ لسانیت (Languagism)
زبانوں کی تفریق اور تفاخر نے ہمارا جینا محال کردیا ہے۔ ہر زبان اہل اسلام کی ہے۔ ہاں عربی کو فضیلت حاصل ہے کہ لسان اللہ عربی، لسان رسول اللہ عربی، لسان اھل الجنۃ عربی لیکن اس کا قطعاً معنی دوسری زبان کی تحقیر، اہانت، کم تری کا تصور نہیں۔ سرکار دو جہاں، والی انس وجاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فارسی کو شرف بخشا فرمایا:
یاعلی شکم اندر در د است
قم فصلی ان فی الصلوت شفاء
عربی، اوروں کو عجمی جانتے اور بنائے فخر مانتے اس کو اگر نابود کیا تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا۔ دنیا کا کوئی مذہب، دین، فلسفہ اتنا وسیع تر تصور پیش نہیں کرسکتا۔ حضرت اقبال پنجابی اصل ہیں۔ کلام کثرت سے فارسی میں فرمایا۔ پھر اردو، ہندی و فارسی آمیز ہیں اور پھر انگریزی میں لکھا۔ آپ کا ایک فرمان تمام تصور لسانیت کی وضاحت ہے۔ سید نذیر نیازی ’’اقبال کے حضور‘‘ میں رقم فرماتے ہیں۔
’’میں زبان کو پوجا کابت نہیں سمجھتا بلکہ ایک ذریعہ اظہار تصور کرتا ہوں‘‘۔
آج لسانیت کی بنیاد پر مختلف آوازیں تقسیم کرنے اور تصور وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے۔
7۔ قبائلیت (Traiblism)
آج مملکت خداداد کی وحدت میں ایک سد راہ قبائلیت ہے۔ حضرت اقبال نباض ملت ہیں۔ وہ ان کے عوارض بھی جانتے ہیں اور ان کا علاج بھی جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
قبائل کیوں ملت کی وحدت میں گم
ہو نام افغانیوں کا بلند
ایسا کیوں نہ کہیں، مطالعہ قرآن و حدیث ان کے معمولات لازمہ کا حصہ تھے۔ وجعلنکم شعوبا وقبائل لتعارفوا. شعور و قبائل اس لئے بنائے کہ تمہاری پہچان ہوسکے۔ حضور والی مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین ان کے حرز جاں تھے۔ اسی پیغام وحدت کو انہوں نے اپنے الفاظ و تراکیب میں ڈھالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبائلی عصبیت کا رد کیسے فرمایا:
ليس منا من دعا الی عصبية
ليس منا من واثل عصبية
ليس منا من مات علی عصبية
وہ ہم میں نہیں جسے عصبیت کے لئے پکارا۔ وہ ہم میں نہیں جو عصبیت کے لئے لڑا۔ وہ ہم میں نہیں جو عصبیت پہ مرا۔
2۔ تصور ملت اسلامیہ
حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے منفی تصورات قومیت کا مکمل رد و ابطال کیا۔ وطنیت، قومیت، نسلیت، جغرافیت، لونیت، طبقاتیت، مسلکیت پر تعصب کے بت کا قلع قمع کیا۔ ۔ ۔ اس کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا۔ ۔ ۔ مسلمانوں میں عالمی تصور کو بیدار کیا۔ خود ساختہ نفرتوں کی حد بندیوں کو گرا دیا۔ اشتراکاتِ عارضہ پر تصور اتحاد کی بنیاد نہیں رکھی۔ اشتراکِ وطن لامحالہ وطن پرستی ہے۔ ۔ ۔ اشتراکِ لسان زبان کی پوجا ہے۔ ۔ ۔ اشتراکِ ذات موجب فخر ہے۔ ۔ ۔ اشتراکِ برادری نفرتوں کی آکاس بیل ہے۔ فکر اقبال براہ راست منابع اصلی سرچشمہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے بلکہ تعلیمات اسلام کی تعبیر و تشریح ہے۔ آپ کے اشعار اور نثر پاروں کا مطالعہ کیجئے، تمام فکر قرآنی کا غماز ہے اور فکر مصطفوی کا آئینہ دار ہے۔
قوم مذہب ہے مذہب جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
آپ نے مختلف اسالیب میں اظہار فرمایا۔ قوم و مذہب کا تعلق جزو لازم کا ہوا۔ فرد و جماعت کا تعلق انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنے میں ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
حرف اقبال صفحہ نمبر 222، حضرت اقبال فرماتے ہیں:
’’جو کچھ قرآن حکیم سے میری سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کی قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ ‘‘
حضرت حکیم الامت کے نزدیک مقصدِ تخلیقِ انسان، نظام اجتماعیت کے قیام اور اجتماعیت کا نظام صرف اور صرف دامن اسلام سے حاصل ہوتا ہے۔
در جماعت خود شکن گرد خودی
تاز گل برگے چمن گرد خودی
جماعتِ اسلام، اجتماعیتِ صالحہ، وحدت اسلامیہ میں اپنی خودی، انفرادیت کو ضم کردو کہ پھول کی پتیاں مل کے چمن بن جائیں۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
خطبہ الہ آباد 1930ء ص نمبر 20، ہندوستان میں مسلم قومیت کے بقاء کے لئے فرماتے ہیں:
’’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے اور وطن پرستی، بت پرستی کی ایک صورت ہے۔ ہر چند کہ حب الوطن کو مزموم متصور نہیں کیا گیا۔ وہ جنم بھوم ہے۔ اس کی مٹی سے پیار اک فطری امر ہے لیکن جب وحدت امت کے راستے میں سد راہ ہو تو قطعاً قابل تسلیم نہیں ہے۔ ‘‘
محمد رفیق افضل، گفتار اقبال کے صفحہ 178 پہ قول اقبال لکھتے ہیں کہ
’’اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی۔ جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں، سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض ایک خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔ ‘‘
آج ہم ڈیڑھ ارب کلمہ گو ہیں۔ 55 سے زائد آزاد مسلم ریاستیں ہیں۔ ایک تہائی دنیا کی آبادی ہم مسلمان ہیں۔ عظیم ذخائر ارضی، بحری، فضائی ہمارے پاس ہیں۔ موسموں کے حسین تموج ہمارے افق پہ ہیں۔ رحمتوں کی رم جھم ہمیں حاصل ہے لیکن کوئی نہ ہمیں جانے کہ ہم کون ہیں۔ ۔ ۔ ؟ اغیار کے آلہ کار۔ ۔ ۔ بے اتفاقیوں کا شجر زقوم۔ ۔ ۔ ہر گھر میں، نفرتوں کی کاشت۔ ۔ ۔ طلب علم کی ترغیب دنیا کے تمام نظامات، فلاسفہ میں مگر ہمارے پاس نہیں۔ ۔ ۔ امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا حصہ گمراہیوں کی نذر ہے۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کو گرا دینا ہی ہمارا مشن زندگی ٹھہرا۔ دشمنیوں کے الاو کہاں نہیں جلتے۔ ۔ ۔ پگڑیاں کہاں نہیں اچھالی جاتیں۔ ۔ لا يظلمه ولا يسلمه کا سبق ہم نے فراموش کیا۔ ۔ ۔ وحدتوں کو پارہ پارہ کیا۔ ۔ ۔ جبکہ خواب اقبال کیا تھا؟
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر