ڈاکٹر علی اکبر الازہری
زیرِ نظر مضمون کی پہلی قسط میں ہم نے اسلامی ملک ترکی کی تاریخی اور جغرافی اہمیت کے کچھ پہلو بیان کئے تھے۔ دوسری قسط ترکی کے اسلام کی طرف لوٹنے میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیت حضرت بدیع الزماں سعید نورسی کی حیات و خدمات پر مشتمل تھی جس میں آپ نے اُن کے استنبول میں دو سالہ قیام کے دوران کئے گئے اقدامات اور ان کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ آیئے اس حوالے سے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔
شیخ الازھر کا اعتراف
قیام استنبول کے دو سالہ ہنگامہ آراء زندگی میں استاذ نورسی نے عثمانی حکومت کے شیخ الاسلام کے فتوؤں کو چیلنج کیا جو مصلحت پر مبنی ہوتے تھے اور ان میں اسلام کی حقیقی روح کار فرما نہیں ہوتی تھی۔ سعید نورسی نے عالم شباب میں خواص و عوام کے دلوں میں اتنا مقام و مرتبہ بنا لیا تھا کہ ان کا چیلنج کیا ہوا فتویٰ خود بہ خود بے وقعت ہو جاتا تھا۔ یہ صورتِ حال خلافت عثمانیہ کے لئے کافی مشکل ہوگئی تھی۔ انہوں نے بالآخر ایک مرتبہ شیخ الازھر محمدبخیت بن حسین المطیعی(جو مصر کے مفتی اعظم بھی رہ چکے تھے) کو دعوت دی کہ وہ اس جوان عالم دین سے آ کر بات کریں۔ حسب پروگرام ایا صوفیہ کی مسجد میں نماز کے بعد مناظرے کا وقت طے کیا گیا۔ استاد نورسی حسب معمول اطمینان و سکون کے ساتھ خالی ہاتھ شیخ الازہر کو ملے۔ اس موقع پر استنبول کے درجنوں علماء بھی موجود تھے۔ شیخ نے نورسی صاحب سے شیخ الاسلام کی مخالفت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے مختصر الفاظ میں یوں وضاحت کر دی۔
’’ حکومت عثمانیہ اس وقت مغربی اثر و نفوذ سے حاملہ ہو چکی ہے اور کسی بھی وقت اسکے پیٹ سے یورپی طرز کی حکومت جنم لے سکتی ہے۔ اسی طرح یورپ کے پیٹ میں بھی اسلام پرورش پا رہا ہے اور کچھ دیر کے بعد وہاں بھی اسلامی طرز کی حکومت کا جنم ہوگا‘‘۔
یہ اتنا جامع اور حال و مستقبل کی حقیقتوں سے قریب تر جواب تھا کہ شیخ الازھر نے اعلان کر دیا ’’میں اس نوجوان کے ساتھ کوئی مناظرہ اور سوال و جواب نہیں کروں گا کیونکہ یہ اپنے فکر و خیال میں واضح اور حق پر ہے۔
’’استاد نورسی کا تجزیہ سو فیصد صحیح تھا کیونکہ اس واقعہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کر کے سیکولر حکومت کا اعلان کردیا۔ جہاں تک یورپ میں اسلامی حکومت کی پیشین گوئی کا تعلق ہے تو اس کے آثار کئی مقامات پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ خود یورپی ادارے اور حکومتیں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اثر و نفوذ سے گھبرائے ہوئے ہیں۔
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
اس دو سالہ ھنگامہ خیز قیام استنبول نے استاذ نورسی کی آئندہ کوششوں کو نئی زندگی اور نئی سمت دی۔ وہ جس تعلیمی انقلاب کی امنگ لے کر یہاں آئے تھے۔ اس کی طرف اب انہوں نے خود ہی توجہ دینا تھی کیونکہ قصرِ خلافت میں موجود خلیفہ اور اس کے کارندے روائتی سیاست میں مگن تھے اور محلاتی سازشیں زوروں پر تھیں۔ نورسی صاحب نے ان دو سالوں میں یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ حکومت خود چراغِ آخر سحر ہے۔ اب جو کرنا ہے میں نے خود ہی کرنا ہے۔ اس لئے انہوں نے استنبول سے مشرقی ترکی کے علاقے ’’وان‘‘ میں جانے کا قصد کر لیا۔ انہوں نے استنبول سے جاتے ہوئے ایک خوبصورت بیان قلمبند کروایا جس کے الفاظ یہ تھے:
’’اے معظم استنبول! میں نے تجھ میں مساوات اور عظمت بھی دیکھی اور استبداد بھی۔ میں یہاں تعلیمی درس گاہ کی خواہش لے کر آیا مگر مجھے پاگل خانے میں بھیج دیا گیا۔ میں نے یہاں کے ادیب بھی دیکھے، جہاں تک میں ادیب کا مطلب سمجھتا ہوں وہ با ادب لوگ ہوتے ہیں۔ اخبار، افکار کی تربیت کرتے ہیں مگر یہاں یہ سارا معاملہ الٹ ہے۔ اخبارات سنسنی خیزی اور بد نیتی کے فروغ میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ادیب بے ادب ہو چکے ہیں۔ اگر صحافت اور ادب یہی کچھ ہے تو گواہ رہنا میں اس سے باز آیا۔ اب میں ان اخبارات کی بجائے مشرقی پہاڑوں پر بیٹھ کر کائنات اور انسان کا مطالعہ کروں گا۔ ہمارے فیض کی فضاء تمناؤں کی لعنت سے پاک ہے۔ ہمیں ہر طرف سے استغناء کا سبق پڑھایا گیا ہے۔ ہم ایسے مجنوں ہیں جو وصالِ لیلیٰ سے بھی مستغنی ہیں۔ ‘‘
ان یادگار کلمات کے ساتھ انہوں نے شہروں کے سردار استنبول سے واپسی کا ارادہ کیا اور ’’وان‘‘ جاتے ہوئے ایک جگہ ’’طفلس‘‘ رک کر ’’جامعہ فاطمۃ الزھرائ‘‘ کے لئے مناسب جگہ کی تلاش شروع کر دی۔ ’’وان‘‘ میں ان کے عقیدت مند کثیر تعداد میں موجود تھے۔ آپ نے وہاں دوبارہ عوام کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا کام زور و شور سے شروع کردیا۔ اس دوران علماء سے بحث مباحثے، مذاکرے، دروس اور سوال و جواب کی بھرپور مجالس سجتی رہیں۔ ان دروس اور جوابات میں بیان کی گئی تعلیمات پر مشتمل ان کی دو کتب بھی مرتب کر لی گئیں۔ جن میں سے ایک کا نام ’’صیقل الاسلام‘‘ اور دوسری ’’نسخہ اکراد‘‘ ہے۔
مسجد اموی کے منبر پر
1911ء کے ابتدائی مہینوں میں نورسی صاحب نے مشرقی ترکی کی سیاحت اور دعوت و تبلیغ کی مصروفیات کے بعد شام کا سفر اختیار کیا۔ دمشق کے عرب علماء اور دانشوروں سے خصوصی ملاقاتیں اور بحث مباحثوں کے بعد انہوں نے تھوڑے وقت میں وہاں بھی اپنے چاہنے والوں کا اچھا خاصا حلقہ پیدا کر لیا۔ اس قیام کے دوران ایک دن انہوں نے لوگوں کی خواہش پر جامعہ مسجد اموی میں علماء اور عوام الناس سے تاریخی خطاب کیا جو ’’خطبہ شامیہ‘‘ کے نام سے اب چھپ چکا ہے۔ اس خطاب میں سینکڑوں علماء اور ہزاروں عوام موجود تھے۔ خطاب عربی زبان میں ہوا اور اس میں امت کو لاحق چھ امراض کی بڑے ہی حکیمانہ انداز میں نشاندہی کی گئی۔ نوجوان نورسی کا خطاب اتنا پر اثر اور جامع تھا کہ چند دنوں میں اسے کئی مرتبہ چھپوا کر تقسیم کیا گیا۔ اس تاریخی خطبے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
٭ ’’میں نے اس وقت اس سرزمین پر انسانوں کی اجتماعی زندگی کے مدرسے میں سبق حاصل کیا اور مجھے پتہ چلا کہ غیر لوگوں یعنی یورپی قوموں نے جو ترقی کی دوڑ میں مستقبل کی طرف پرواز کرتے ہوئے مادی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ہمیں زمانہ وسطی میں روک رکھا ہے اس کا سبب چھ بیماریاں ہیں: جو جسدِ امت کو لاحق ہوچکی ہیں۔
٭ پہلی بیماری یہ ہے کہ ہمارے اندر یاس اور نا امیدی جنم لے چکی ہے۔
٭ دوسری بیماری یہ ہے کہ امت کے افراد میں مجموعی طور پر سچ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ یعنی صدق و اخلاص کا فقدان ہے۔
٭ تیسری یہ کہ ہم نے دشمنی سے محبت کرلی ہے۔ مراد یہ کہ باہمی معاملات طے کرتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان جو موّدت اور جذبہ اخوت ہونا چاہئے اس کی جگہ عداوت اور بغض نے لے لی ہے۔
٭ چوتھی بیماری یہ ہے کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے متحد و منسلک رکھنے والے ایمانی رابطوں سے مسلمانوں میں لا علمی پیدا ہو چکی ہے۔
٭ پانچویں بیماری یہ ہے کہ قسم قسم کی وبائی امراض کی طرح پھیلنے والا ظلم و ستم عام ہوچکا ہے اور
٭ چھٹی بیماری یہ ہے کہ ہم نے اپنی ترجیحات میں اپنا ذاتی مفاد پہلے رکھ لیا ہے اور قوم و ملت کی خاطر قربانی کا جذبہ کم ہوگیا ہے۔
٭ ’’مستقبل صرف اور صرف اسلام کا ہوگا۔ ‘‘
٭ ’’اگر ہم اپنے اعمال میں اسلامی اخلاق اور ایمانی حقائق کے کمالات کا مظاہرہ کریں تومختلف مذاہب کے پیروکاروں کا اپنی جماعتوں سمیت اسلام میں شامل ہو جانا یقینی ہے۔ ‘‘
٭ ’’ہم مسلمان، جو شاگردانِ قرآن ہیں، دلائل کے تابع ہوتے ہیں۔ ہم عقل، سوچ اور دل سے ایمان کی حقیقتوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ہم دوسرے مذاہب کے بعض افراد کی طرح اپنے مذہبی رہنماؤں کی خاطر دلائل کو رد نہیں کر دیتے‘‘۔
٭ ’’مایوسی قوموں اور ملتوں کی سب سے خوفناک بیماری ہے جو قومی کینسر کہلاتی ہے۔ ‘‘
٭ ’’جی ہاں، سچائی اور درستگی اسلام میں اجتماعی زندگی کی روح رواں ہے۔ محبت کے لائق بس محبت ہی ہے اور دشمنی کے لائق صرف دشمنی‘‘۔
33 سالہ سعید نورسی نے جن امراض امت کی تشخیص کی ساتھ ہی قرآن حکیم سے ان کا علاج بھی تجویز کیا۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ایک صدی بعد آج بھی یہی بیماریاں ہمارے اجتماعی وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ افاقہ نہیں ہوسکا۔ اس لئے کہ تاحال امت نے اس یقین اور ایمان کی قوت سے قرآن کی طرف رجوع نہیں کیا جو اسے ایمانی بلندیوں سے ہمکنار کرسکتا تھا۔
درس گاہ کے قیام کی ایک اور کاوش
اسی سال 1911ء میں استاد نورسی دمشق سے بیروت کے راستے استنبول روانہ ہوئے۔ استنبول میں اب تخت خلافت پر سلطان رشاد متمکن تھا۔ نورسی اپنے قریبی دوستوں کے ذریعے سلطان سے ملے۔ سلطان نے نہ صرف قدر افزائی کی بلکہ مملکت عثمانیہ کے یورپی علاقوں کے دورے پر اپنے ساتھ رکھا۔ سلطان نے کسوئوو میں ایک یونیورسٹی کی منظوری دی تھی مگر وہاں جنگ عظیم سے قبل ہونے والی بلقان کی جنگ شروع ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ التواء میں پڑ گیا، چنانچہ سعید نورسی نے سلطان سے وہی بجٹ مشرقی ترکی میں زیر غور یونیورسٹی کے لئے مختص کروا لیا۔ سعید نورسی نے اپنی پسندیدہ جگہ وان میں اپنی خوابوں کی تعبیر کے طور پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا اور یہ تعلیمی پروگرام بھی لاکھوں انسانوں کی طرح جنگی شعلوں کی نذر ہوگیا۔
جہاد میں عملی شمولیت مگر بغاوت سے پرہیز
یہ بڑی دلچسپ اور ایمان افروز بات ہے کہ سعید نورسی جیسا عملی شخص ایک طرف دشمنان اسلام کے خلاف عملی جہاد میں محاذ جنگ پر نظر آتا ہے لیکن جب عثمانی حکومت کی بعض بے اعتدالیوں اور خلاف شریعت امور کی سرپرستی کرنے والے امراءِ سلطنت کے خلاف برگزیدہ مشائخ و علماء نے انہیں آمادہ بغاوت کرنا چاہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اس انکار سے اس وقت کی مذہبی قیادت نورسی صاحب سے ناراض بھی رہی لیکن انہوں نے کہا میں ایسے مسلمان لشکریوں کے خلاف کیسے صف آراء ہوسکتا ہوں جن میں لاکھوں لوگوں کا نصیب شہادت کی موت ہے۔ بعد ازاں جب جنگ عظیم اول بپا ہوئی تو وہی مسلمان فوج دشمنوں کے خلاف صف آراء ہوئی اور کئی لاکھ فوجی شہید ہوئے۔ یوں نورسی صاحب کا قول سچ ثابت ہوا۔ جن لوگوں نے ناراض ہو کر بغاوت کا راستہ اپنایا وہ خود بھی اور ان کے ہاتھوں کئی مسلمان اس بے نتیجہ جنگ میں ہلاک ہوئے۔
ایک طرف تو نورسی اسلام کی علمی، روحانی اور تربیتی خدمت میں مصروفِ عمل تھے مگر جب روس نے مشرقی ترکی پر تینوں اطراف سے حملہ کردیا اور مسلمان علاقوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پھیل گیا تو نورسی درس و تدریس اور قلم و قرطاس کی دنیا سے نکل کر میدان جہاد میں آ کر کھڑے ہوگئے۔ انہیں عثمانی سلطنت کے کمانڈر ان چیف انور پاشا نے مشرقی ترکی میں خصوصی فوجی ملیشیا تیار کرنے کی درخواست کی۔ چنانچہ نورسی نے حسب عادت پوری جانفشانی اور محنت کے ساتھ ہزاروں رضا کار مجاہدوں کے دستے تیار کئے۔ ان کو خصوصی تربیت دی اور تھوڑے ہی عرصے میں یہ جہادی دستے مسلمان علاقوں کی دفاع کے لئے محاذ جنگ پر سرکاری فوجوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوگئے۔ ان کی خصوصی وردی تھی اور دشمن کی فوجوں پر اس ملیشیا کا اس قدر رعب تھا کہ اس وردی میں کسی کو بھی دیکھتے تو ان کی دوڑیں لگ جاتیں۔ چنانچہ محاذ جنگ پر دشمنوں کو روک کر ایک طرف ان فوجی دستوں نے مسلمان لوگوں کو اطمینان کے ساتھ نقل مکانی کا موقع دیا اور دوسری طرف دشمن کو شدید مزاحمت کا احساس ہوا اور مسلمان قتل عام سے حتی الامکان بچ گئے۔
تیغ اور قلم کی یکجائی
اس جنگ کی نورسی صاحب سے متعلق بہت دلچسپ تفصیلات ہیں جو حیران کن بھی ہیں اور قابل رشک بھی مثلاً اس دو سالہ دور جہاد میں جب نورسی ان حساس ترین فوجی دستوں کی تربیت اور نگرانی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے اور دن رات دشمنوں کی توپوں کا سامنا کررہے تھے ان لمحات میں بھی وہ اپنے اصلی علمی مشن سے دور نہیں ہوئے۔ اس حربی زندگی میں جو وقت بھی فرصت کا ملتا اس میں غور و فکر کے نتائج کو ضرور قلمبند کرواتے۔ ان کے ساتھ ایک صاحب علم شاگرد ’’ملا حبیب‘‘ اسی محاذ جنگ میں ان کا خصوصی معاون تھا۔ اس کے تعاون سے اس دوران جو کچھ تحریر کیا وہ بعد میں ایک بہت ہی اہم کتاب ’’اشارات الاعجاز‘‘ کی شکل میں طبع ہوچکا ہے۔ یہ کتاب حیران کن قرآنی تفسیر ہے اور فی الحقیقت اعجاز قرآنی کا ایک نادر نمونہ ہے مگر اسکے مصنف نے اس کتاب کو نہ آرام دہ ماحول اور نہ کسی وسیع و عریض کتب خانے میں بیٹھ کر لکھا ہے بلکہ ایک جواں سال سپہ سالار کے طور پر ایسے محاذِ جنگ پر دشمنوں سے لڑائی کے دوران مرتب کیا ہے جس میں ان کے بے شمار طلباء اور ساتھی ان کی آنکھوں کے سامنے جارح دشمن کے گولوں سے شہید ہوئے۔ خود استاد نورسی کو تین عدد گولے جسم کے مختلف حصوں کو چھوکر گزرے مگر موت کے اس رقص میں نہ صرف انہوں نے اپنے جہادی فریضے کو ایک بہادر، دانشور اور پھرتیلے کمانڈر کے طور پر نبھایا بلکہ دفاعِ وطن کے ساتھ ذہن رساء تخلیق و تفکیر کے عمل سے گزرتے رہے۔ یوں استاد نورسی نے ثابت کر دیا کہ علمی، اجتہادی کاوشیں اور مسلح عملی جہاد ایک ہی وقت ممکن ہے۔
دوسرا اہم پیغام یہ ہے کہ انسان کو احساس ذمہ داری ہو اور زندگی بامقصد ہو تو مشکل سے مشکل حالات میں بھی کام کرنا ممکن ہوجاتا ہے اصل قوتِ عمل انسان کا احساس ہے۔ حساس ترین ملکی دفاعی ضرورتیں، مسلح دشمن کا سخت مقابلہ اور پھر دن رات گھوڑے کی پیٹھ پر یا مسلسل پیدل سفر کرتے ہوئے عام انسان اپنی جان ہی بچا لے تو بڑی بات ہے خصوصاً ایسے حالات میں جب رفقاء کار اور تلامذہ کی بڑی تعداد ہر روز شہادت سے ہمکنار ہوتی تھی۔ ان لمحات میں بھی تفکیر، دعوت اور قرآن میں غور و فکر کا عمل جاری رکھنا اور کئی سو صفحات پر پھیلا ہوا تفسیری مواد تخلیق کر لینا یہ عام انسانی استعداد سے باہر ہے۔ ’’یہ انہی کے کام ہیں جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘۔ نورسی صاحب کی زندگی کا یہ دلچسپ پہلو ہمیں تاریخ اسلام کے مجاہدین اور داعین کی زندگیوں میں یکجا طور پر کہیں نہیں ملا۔
جنگ عظیم اول اور سعید نورسی
جیسا کہ ہم گذشتہ قسط میں ذکر کر آئے ہیں کہ سعید نورسی کو جنگ عظیم اول شروع ہونے سے پہلے خواب میں دنیا کو ایک بہت بڑے دھماکے سے تباہ ہوتے ہوئے دکھایا گیا اور ساتھ ہی انہیں قرآن کے معجزانہ پہلو کو پھیلانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنے طور پر ایک عملی اور بہادر انسان کی طرح جنگ کی تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں، جن میں ان نوجوانوں کی بھرتی اور عسکری تربیت کا اہتمام تھا جس کا ذکر اوپر ہوا۔
چنانچہ جنگ عظیم اول میں روسی فوجوں کے خلاف ڈٹ جانے والے سعید نورسی ایک بہادر سپہ سالار کی طرح ترکی کی مشرقی سرحدوں کا دفاع کر رہے تھے۔ دوران لڑائی ایک علاقے میں چند رضا کاروں کے ہمراہ چاروں طرف سے گھیرے میں آگئے، جو گولا بارود تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ (نورسی صاحب نے رات کے اندھیرے میں ایک بلند دیوار سے چھلانگ لگائی تھی جس سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور گولیوں سے زخمی بھی ہوئے) اسی لئے اب جان بچانا فرض تھا لہذا دشمن کو اپنے ایک دوست کے ذریعے اطلاع دی اور جنگی قیدی کے طور پر روسی افواج انہیں وہاں سے اپنے کیمپ میں لے گئیں۔ دشمن ان کی غیر معمولی شخصیت اور علاقے میں اثر و رسوخ سے آگاہ تھے۔ اس لئے قید کے دوران ان سے ایک مرتبہ اس شرط کے ساتھ رہائی کی پیشکش بھی ہوئی کہ وہ علاقے کے دیگر ’’غدّار سرداروں‘‘ کی طرح عثمانی حکومت کے خلاف حملہ آور فوجوں کا ساتھ دیں گے۔ مگر نورسی جیسا شخص ایسے ملت فروش معائدوں کے جال میں کب آنے والا تھا۔ انہوں نے اس قید کو بھی اپنے اعصاب پر سوار نہیں کیا تاہم وہ اکثر ان یخ بستہ طویل راتوں کی تنہائیوں کے کربناک لمحوں کو یاد کرتے تھے اور اعتراف کرتے تھے کہ جنگ عظیم کی تباہیاں اور ہلاکتیں ایسے تھیں جن کا تصور ہی انسان کو بوڑھا بنانے کے لئے کافی ہے۔ اس دوران بھی انہوں نے عمل دعوت و تربیت ترک نہیں کیا۔ وہ جہاں جہاں جاتے رہے اپنے حلقے میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ قید خانوں میں مساجد اور مدارس کی تعمیر کرواتے رہے۔ بطور بریگیڈ کمانڈر انہیں دوران قید ’’انجمن ھلال احمر‘‘ کی طرف سے جو وظیفہ ملتا تھا اس کا زیادہ حصہ ایسی ہی دینی سرگرمیوں میں لگا دیتے تھے۔
۔ ۔ ۔ اور ایمان نے موت کو بھی شکست دے دی
اِسی ڈھائی سالہ قید کے دوران وسطی روس میں سائبریا کے مقام ’’کوسترما‘‘ میں ایک نہایت دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ جیل میں جہاں مختلف قومیتوں کے 90 قیدی آفیسرز ایک ہی بیرک میں رہتے تھے۔ ایک روز روسی کمانڈر انچیف ’’نکولا نکو لاوچ‘‘ معمول کے رائونڈ پر اس بیرک میں آیا۔ تمام قیدی آفیسرز کمانڈر انچیف کی آمد پر کھڑے ہوگئے مگر بدیع الزماں نے یہاں بھی انفرادیت برقرار رکھی اور اپنے خیالات میں مگن رہے۔ وہ دوسری مرتبہ خصوصی طور پر ان کے آگے سے گزرا مگر حسب سابق نورسی صاحب نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ اس پر اسے غصہ آگیا اور تیسری مرتبہ قریب آکر دھاڑنے لگا۔ ترجمان بلایا گیا اور دونوں کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ نورسی نے صاف اور مختصر الفاظ میں اسے بتایا کہ میں تمہیں جانتا ہوں اور مجھے آپ کے مرتبے کا بھی علم ہے مگر میں مسلمان عالم ہوں مجھے میری مقدس کتاب کی تعلیمات اور قوت ایمانی نے ایک غیر مسلم شخص کی تعظیم کی اجازت نہیں دی۔ چونکہ میں دل سے تمہاری تعظیم کرنے کو تیار نہیں اس لئے اٹھنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ روسی جنرل کو یہ بات سن کر غصہ آگیا۔ اس نے اس بیان کو اپنی، اپنی فوج کی اور روسی قوم کی توہین گردانتے ہوئے فوری طور پر کورٹ مارشل کا حکم دے دیا۔ بیرک میں موجود ترک جرمن اور آسٹریا کے افسروں نے فرداً فرداً نورسی صاحب کو درخواست کی کہ وہ جنرل سے معذرت کر کے معاملہ ختم کر لیں بصورت دیگر فوجی عدالت کا حکم تو واضح ہے کہ آپ کو شوٹ کردیا جائے گا۔ مضبوط تر مرتبہ ایمانی پر فائز مرد مومن نورسی نے ان افسروں کو جو جواب دیا وہ ملاحظہ ہو۔
’’میں موت سے کبھی نہیں ڈرا اس لئے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ حق ہے۔ میں تو موت کو اس لئے بھی گلے لگانے کو تیار ہوں کہ مر کر مجھے دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پناہ مل سکے۔ اس شرف عظیم کے لئے ایک پاسپورٹ چاہئے اور وہ صرف اور صرف ایمان ہے اس لئے میں ایمان پر کسی قسم کا حرف آنے سے موت کو ترجیح دیتا ہوں‘‘۔
یہ ایسا جواب تھا جس نے سب لوگوں کو خاموش کروا دیا۔ وقت مقررہ پر فوجی عدالت لگی اور عینی گواہوں کے بقول فائرنگ سکواڈ بھی آ گیا۔
قارئین! ذرا چشم تصور میں اندازہ لگائیں یہ کس قدر دیدنی منظر ہوگا۔ پردیس میں ایک اکیلا شخص، دشمن کی قید اور اس ملک کے چیف کمانڈر کی گستاخی کا اعلانیہ اعتراف اور پھر دو قدم پر تختہ دار۔ ۔ ۔ لیکن نورسی نے تو یہ مناظر پہلے بھی دیکھے تھے وہ قبل ازیں بھی کئی مرتبہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ چکے تھے۔ آج ان کے ایمان کا ایک اور بڑا امتحان تھا۔ وہ مثلِ خلیل عشق کے اس امتحان میں ڈالے گئے مگر عشق ہی کے فیض غیور نے انہیں یہاں بھی سرخرو کیا۔ فوجی عدالت نے نورسی صاحب کو موت کی سزا سنادی۔ اس عدالتی حکم پر عمل درآمد ہونے میں کوئی دیر نہیں تھی۔ سعید نورسی نے بڑے اطمینان سے عدالت کو مخاطب کر کے کہا کہ میرے مذہب کے مطابق میری عبادت کا وقت ہوچکا ہے اس لئے موت پر عمل درآمدکرنے سے قبل مجھے نماز کی ادائیگی کا وقت دیا جائے۔ عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔ انہوں نے تسلی سے وضو کیا پھر قبلہ سمت منہ کر کے قادر مطلق کے حضور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر حسب معمول تسبیحات پڑھیں اور اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا لئے۔ یہ سارا منظر کئی لوگوں کے علاوہ جنرل ’’نکولاچ‘‘ خود بھی دیکھ رہا تھا۔ نورسی صاحب کی آہِ رسا کا اثر تھا یا تقدیر نے اس کے دل کو بدل دیا تھا۔ وہ فوراً اپنی نشست سے اٹھا اس نے فائرنگ سکواڈ کو اشارے سے رک جانے کا حکم دیا اور سعید نورسی کی جائے نماز کے پاس جاکر یوں مخاطب ہوا۔
’’مجھے معاف کر دیں میں نے سوچا تھا کہ آپ نے میری حقارت میں یہ سب کچھ کیا مگر اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ اپنے مذہبی عقائد اور ایمان میں سچے ہیں اس لئے آپ نے واقعی اپنے ایمان کے باعث ایسا کیا ہے۔ آپ کے چہرے پر موجود اطمینان اور حیرت انگیز سکون اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ اپنے مذہبی عقائد پر غیر معمولی یقین رکھتے ہیں‘‘۔
یوں سعید نورسی کے مضبوط ایمانی جذبوں نے ایک مرتبہ پھر موت کو شکست دے دی اور جنرل کے حکم پر عدالت نے کیس داخل دفتر کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات نورسی صاحب خود اپنے بارے میں بیان بھی نہیں کرتے تھے۔ یہ واقعہ تیس سال بعد جنگی یادداشت کے طور پر کسی اور ترکی افسر نے اخبارات میں شائع کروایا جو اس وقت موقع پر موجود تھا۔ یاد رہے کہ انہوں نے اس قید خانے میں گزارے ہوئے وقت کی یاد داشتوں کو ’’لمحات‘‘ کے نام سے مرتب بھی کیا تھا مگر وہاں بھی اس اہم واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ یہ واقعہ اخبارات میں چھپ گیا تو آپ نے اس کی تصدیق کر دی۔ اس سے ان کے بلند مرتبہ استغنائے نفس کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔
قید سے رہائی کا عجیب واقعہ
اس قید خانے سے رہائی کا واقعہ بھی بہت ہی حیران کن ہے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ ان طویل سرد برفانی راتوں میں میری درماندگی، میرا عجز اور بارگاہ الوہیت میں میری مناجات ہی میرا وسیلہ ہوا کرتی تھیں۔ جب میں رو رو کر اللہ کی بارگاہ میں اپنی درماندگی کو وسیلہ بنا رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے بھی رہائی کے حیران کن انتظامات کروا دیئے۔
ہوا یوں کہ ایک دن مجھے قید خانے میں ایک عربی لباس والا شخص ملا۔ اس نے مجھ سے مانوس لہجے میں گفتگو کی اور عربی میں پوچھا تم یہاں سے جانا چاہتے ہو۔ میں نے عرض کیا چاہتا تو ہوں مگر یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ وہ کہنے لگے اس کی فکر نہ کرو بس تم اتنا کرو کہ میں تمہیں اپنا یہ لباس دیتا ہوں اسے پہن کر قید خانے کی باہر والی دیوار کے قریب آجاو۔ میں نے ان کا دیا ہوا عربی لباس زیب تن کیا اور اللہ کا نام لے کر آرام سے تمام لوگوں کی موجودگی میں باہر نکل آیا۔ آرام سے ان کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا جہاں وہ موجود تھے اور ان کا لباس انہیں واپس لوٹادیا۔ انہوں نے مجھے راستہ سمجھایا میں اس راستے پر کافی دیر چلتا رہا۔ پھر وسیع جنگل آ گیا جہاں میرے لئے کسی سمت کا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ ادھر ادھر دیکھا تو ایک گائے چرتی ہوئی دکھائی دی۔ میرے ذہن میں آیا کہ ضرور یہ گائے کسی بستی سے یہاں آئی ہوگی اس لئے میں نے اسے اپنا رہنما بناکر ہانکنا شروع کردیا۔ گائے میرے آگے آگے چلتی رہی، خاصے دور جاکر یہ گائے کسی بستی میں جانے کی بجائے ایک پہاڑی غار میں اترنے لگی۔ ایک لمحے کے لئے تو میں رکا مگر اطمینان قلبی نے مجھے اس کے پیچھے غار میں اترنے کی تسلی کروادی۔ غار میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بوڑھے بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی خوش آمدید کہا۔ میرا نام پتہ، والدین اور خاندان کا تعارف پوچھا، شفقت فرماتے ہوئے اپنے پاس بٹھایا اور خود ہی فرمانے لگے تم خاصے دور سے چل کر آئے ہو تمہیں بھوک تو لگی ہوگی مگر میرے پاس تمہیں کھلانے کے لئے اس وقت کچھ نہیں، البتہ اس گائے کا دودھ تمہیں نکال دیتا ہوں، میں نے تازہ دودھ نوش جاں کیا۔ انہوں نے مجھے اگلے سفر کی رہنمائی فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ تمہیں اس سفر کی طرح آئندہ زندگی میں بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے ان مشکلات سے گھبرانا نہیں۔ میری تین نصیحتیں یاد رکھنا۔
- ہر جگہ بآوازِ بلند آذانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیتے رہنا۔
- باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرنا۔
- قرآن کا درس اور معارف بیان کرنے میں غفلت نہ کرنا۔
نورسی فرماتے ہیں میں ان سے اجازت لے کر رخصت ہوگیا۔ وہ راستہ جو واقفانِ علاقہ بھی سالوں میں شاید طے نہ کر سکیں، میں کئی ملکوں سے ہوتا ہوا بڑے سکون آرام اور عزت کے ساتھ چند دنوں میں واپس استنبول آ گیا۔
یہاں وہ اکثر و بیشتر ایسے واقعات اور بزرگانہ شفقتوں کو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرتے چلے آئے ہیں۔ بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر بچپن میں کھیلتے ہوئے میرا کھلونا بھی گم ہوجاتا تو میں فوراً شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے فاتحہ پڑھتا اور اللہ تعالیٰ میرا کام کر دیتے۔ چنانچہ اس حیران کن رہائی میں بھی وہ بزرگان دین خصوصاً حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی روحانی توجہات کو ہی بنیادی سبب گردانتے ہیں۔
اعصاب شکن سیاسی تغیرات اورباطنی انقلاب
اس قید سے رہائی پا کر جب نورسی تیسری مرتبہ استنبول پہنچے تو اس بار وہ عالم جلیل کے ساتھ ساتھ ایک غازی، شیر دل مجاہد کمانڈر اور بہادر سپہ سالار کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوتے ہی شاہی انتظامات کے تحت استقبال اور پذیرائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اب وہ استنبول بھی نہیں رہا تھا، اس کی عالمی مرکزیت کو ظالم استعمار نے ختم کرنے کی آخری کاوش کو بھی حتمی شکل دے دی تھی۔ خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے اس عالمی خلافت کے مرکز پر برطانوی سامراج کا سکہ چلنا شروع ہوگیا تھا۔ خلافت اگرچہ حقیقی معنویت تو کھو چکی تھی مگر اسکا انتظامی ڈھانچہ ابھی تک موجود تھا۔ اس خلافت کا سب سے مرکزی شعبہ ’’شیخ الاسلام‘‘ کا دفتر تھا۔ یہی وجہ ہے نورسی کو ان کے اعلیٰ عہدیدار دوستوں نے شیخ الاسلام کے اسی سرکاری دفتر ’’دارالحکمت اسلامیہ‘‘ میں سب سے اعلیٰ عہدے پر متعین کروا دیا جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے علمی اور تحریری ذوق کی تسکین بھی کر رہے تھے اور طبیعت کے عین مطابق اسلامی نظریات و روایات کی حفاظت کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے تھے۔ مگر نورسی جیسا بطل جلیل ایسے اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز رہنے کو اپنے سفر جنوں کی توہین سمجھتا تھا۔ گویا وہ اقبال کا وہ شاہین تھا جس کی جائے قرار قصر سلطانی کی بجائے آزاد فضائیں تھیں۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
وہ کئی بار اس ملازمت نما ذمہ داری کو چھوڑ کر بھاگے مگر مخلص دوستوں نے اس ذمہ داری کو قومی خدمت کا اہم ترین موقع قرار دے کر آپ کو روکے رکھا۔ چنانچہ انگریزوں کے اثر و رسوخ کے اس دور میں انہوں نے ڈٹ کر ان کے دین دشمن عزائم کا مقابلہ کیا۔ عالم اسلام کے ساتھ سقوط خلافت کا سانحہ تو پیش آ ہی چکا تھا اور عثمانی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ ترکی، جرمنی کا ساتھ دینے کی پاداش میں برطانیہ کا مرکزی مجرم قرار دیا جا چکا تھا۔ ترکی کے اندر بھی بغاوتیں سر اٹھا رہی تھیں اور بیرونی سرحدوں سے غیر ملکی دبائو بھی بڑھ رہا تھا۔ نورسی آئینہ ایام میں آئندہ کی تصویر واضح طور پر دیکھ رہے تھے اس لئے انہوں نے خود کو نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے نئے سرے سے تیار کرنا شروع کر دیا۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنی پرانی تحریریں پرنٹ کروانا شروع کیں۔ انہیں حکومت کی طرف سے سرکاری خدمات کے عوض جو تنخواہ ملتی تھی اس میں سے ایک عام آدمی جتنا اپنی ذات پر خرچ کرتے اور باقی رقم کتب کی طباعت و کتابت پر لگا دیتے۔ اس میں وہ اس قدر احتیاط فرماتے کہ ان کے ساتھ ذاتی معاون کے طور پر فرائض سرانجام دینے والا ان کا حقیقی بھتیجا عبدالرحمن ایک مرتبہ منت سماجت کرتا رہ گیا کہ جنگ میں ہمارا آبائی گھر مسمار ہو چکا ہے اس رقم سے اگر ہم وہ گھر مرمت کر لیں گے تو کون سا گناہ ہوگا۔ سعید نورسی نے بھتیجے کو سمجھایا ’’بیٹے یہ رقم میرے پاس امت کی امانت ہے اس لئے میں اسے اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لگا سکتا۔ رہا گھر تو ان شاء اللہ ترکی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سب گھر ہمارے ہوں گے‘‘۔
بالآخر نورسی کی خود دار، آزاد منش اور غیور طبیعت اس سرکاری عہدے سے اچاٹ ہوگئی۔ اس کا سبب وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’اس زمانے میں سلطان سے لے کر مدرسہ کے طلباء تک سب لوگ میری نہایت عزت افزائی کرتے تھے۔ اس سرکاری عہدے اور عزت افزائی کے ساتھ میری جوانی کی سر مستی بھی ایک عنصر تھی، میں نے محسوس کیا کہ میں اپنے اصلی سفر اور منزل سے دور نکل رہا ہوں، میرے اندر غفلت کی نیند گہری ہو رہی تھی اور میں خود کو فانی دنیا کے ساتھ چپکا ہوا انسان تصور کرنے لگا تھا۔ اس خود احتسابی نے مجھے روحانی اضطراب میں مبتلاء کر دیا‘‘۔
یہ نورسی صاحب کے باطنی احوال اضطراب تھے۔ ادھر بچے کھچے ترکی پر غیروں کی نظریں گڑھ چکی تھیں اور یہود و نصاریٰ اس کو دوسرا روم بنانے کی تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ ترکی میں کئی قسم کی خفیہ ایجنسیاں ابلیسی مشن میں مصروف تھیں۔ ان داخلی اور خارجی کاوشوں کا بڑا نشانہ ظاہر ہے دین اسلام ہی تھا۔ خلافت ختم کرنے کے بعد دین دشمن قوتوں نے اسلام کے شاندار تاریخی آثار کو براہ راست نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ مذہبی اقدار، روایات اور تعلیمات پر طعن زنی کا آغاز ہوگیا تھا۔ جسے بعد میں مصطفی کمال نے نقطہ کمال تک پہنچا کر دم لیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ استنبول میں نورسی صاحب کے باطنی احوال کی طرح سیاسی احوال میں بھی شدید اضطراب اور ہلچل بپا ہوچکی تھی۔ عثمانی دور خلافت آخری سانسیں لے رہا تھا۔ خلیفہ کو شیخ الاسلام کے دفتر تک محدود کر دیا گیا تھا۔ استنبول پر برطانوی استعمار کی خونی نظریں مرتکز تھیں۔
ایک طرف اسلامی سلطنت سمٹ چکی تھی اور ہزار سالہ دور اسلام کے نقوش پر سیکولر ازم کی دھول جمنا شروع ہوگئی تھی تو دوسری طرف قدرت اس دور ظلمات میں اس بندہ خاص کو خصوصی فیوضات سے نواز کر آئندہ انسانی قافلوں کے لئے چراغ راہ بنا رہی تھی۔
عالم اسلام پر ٹوٹنے والے غموں کے پہاڑ ہر حساس انسان کو پریشان کر رہے تھے مگر استاد نورسی کا گہرا احساس ملاحظہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میں اپنے سارے غم برداشت کرتا ہی رہا ہوں لیکن جو غم اہلِ اسلام نے اٹھائے ہیں اُن کی وجہ سے مجھے جو رنج و غم پہنچے ہیں انہوں نے تو مجھے پیس کر رکھ دیا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے عالم اسلام پر لگنے والی چوٹیں سب سے پہلے میرے دل پر آ کر لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس قدر پِس چکا ہوں۔ مگر مجھے روشنی کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے جو ان شاء اللہ میرے سارے غم بھلا دے گی‘‘۔
ان کے ایک سیرت نگار نے ان تاریک ترین حالات میں نورسی کی ہمتوں کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے:
’’یہ ایک ایسا زمانہ تھا جب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا تھا، امیدوں کی شمعیں سب بجھ چکی تھیں۔ ایسے زمانے میں بھی ایک ایسا شخص موجود تھا جو ابھی تک شکست سے دو چار نہیں ہوا تھا، جو ثابت قدم تھا اور چِلّا چِلّا کر کہتا تھا: امید رکھو! مستقبل کے تمام انقلابوں میں سب سے بلند، سب سے بھرپور صدا، اسلام کی صدا ہوگی‘‘۔
نورسی کے ہمنوا اور ہم عصر شاعر مشرق اقبال نے بھی ایسے ہی جذبات کو اپنے شعروں کی زبان دی تھی۔ وہ کہتے ہیں۔
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
سر شکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
مرشدِ حقیقی کی رہنمائی
اس عہد اضطراب میں موت کی حقیقت بار بار سعید نورسی کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی، انہیں دنیوی زندگی اور تمام مال و متاع حقیر دکھائی دینے لگا تھا۔ وہ انسان کے سفر زیست پر غور کرتے تھے اور کائنات میں انسان کے حقیقی کردار کو متعین کرنے کی کوشش کر رہے تھے پھر یہ کہ اشرف المخلوقات انسان کو موت کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکنے سے بچانے کی کاوشوں میں دن کا آرام اور راتوں کی نیندیں تج کر رہے تھے۔ وہ انسان کو شاہکارِ ربوبیت سمجھتے ہوئے اس کی اعلیٰ حیثیت کو اس کی نظروں میں اجاگر کرنے کی کاوش میں سرگرداں تھے۔ یہی تو مذہب کا بنیادی فریضہ اور انبیاء کی دعوت کا نقطہ عروج ہے۔ اس راز کو پانے کے لئے پہلے خود فنائیت کی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر بندگانِ خدا پر حیاتِ دوام کے راز منکشف ہوتے ہیں۔ اسی بلند روحانی مرتبہ ولایت کو ان کی شخصیت کا حصہ بنانے کے لئے قدرت انہیں باطنی جوڑ توڑ کے پروسیس سے گزار رہی تھی۔ وہ دراصل ایک اندرونی تبدیلی اور باطنی انقلاب کے ذریعے ارتقاء کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ یہ بات قابل ذکر اور لائقِ توجہ ہے کہ اس دوران انہوں نے حسب سابق خصوصاً دو شخصیات کی کتب سے روحانی تسکین کا سامان کیا۔ پہلی شخصیت حضور سید عبدالقادر جیلانی غوث صمدانی کی تھی، آپ کی کتاب ’’فتوع الغیب‘‘ کو بار بار پڑھا اور بالآخر انہیں یہ اشارہ ملا کہ ’’تو دار الحکمت اسلامیہ کے ذریعے دوسرے لوگوں کا روحانی اور علمی علاج تو کرتا ہے مگر تو نے آج تک اپنا علاج نہیں ڈھونڈا کیونکہ سب سے زیادہ علاج کی ضرورت تو تجھے خود ہے۔ اس لئے کوئی طبیب ڈھونڈ اور اس سے اپنا علاج کروا‘‘۔
دوسرے بزرگ امام ربانی مجدد الف ثانی تھے جن سے نورسی ہمیشہ مانوس رہے۔ چنانچہ انہوں نے ان کے مکتوبات شریف کا از سر نو مطالعہ شروع کردیا۔ انہوں نے مکتوبات شریف سے جب فال نکالی تو دو صفحات اُن کے سامنے کھلے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں صفحات پر حضرت مجدد نے کسی بدیع الزماں نامی شخص کو مخاطب کر کے خط لکھے ہوئے تھے۔ حسنِ اتفاق سے ان میں سے ایک بدیع الزماں کے والد کا نام بھی آپ کے والد گرامی سے ملتا تھا۔ اس مکتوب کو نورسی نے اپنے نام منسوب جانا کیونکہ اس مکتوب میں لکھا تھا۔
’’اے بندے توحید قبلہ کر لے‘‘ مراد یہ کہ تجھے اس وقت کسی ایک مرشد رہنما اور مربی کا انتخاب کر کے مکمل طور پر اس کے پیچھے چلنے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں کتب سے نورسی صاحب کو بنیادی رہنمائی تو مل چکی تھی لیکن اب وہ اس بات پر غور کر رہے تھے کہ یہ مرشد اور مربی ہے کون؟ فرماتے ہیں یہ سوچتے ہی میرے دل میں اس کا جواب آ گیا اور وہ یہ تھا کہ تمام روحانی دریاوں اور علمی چشموں کا منبع اور تمام سیاروں کا سورج تو قرآن حکیم ہی ہے۔ قیامت تک توحید قبلہ بھی یہی ہے اور جملہ امراض کا علاج بھی اسی میں مضمر ہے لہذا اعلیٰ ترین مرشد بھی قرآن ہے اور مقدس ترین مربی بھی قرآن۔
چنانچہ اسی نکتے پر مزید دو سال تک روحانی اور ذہنی چلے کی کیفیت رہی۔ اس دوران انہوں نے غزالی، رومی، ابن عربی اور بہاء الدین نقشبندی جیسے مردانِ برحق کی طرح قلب اور عقل کی آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے حقیقت کی راہ کا انتخاب کر لیا اور قرآن کے مشاہدات، عقلی اور روحانی دلائل کے ساتھ آپ پر منکشف ہوگئے۔
قرآنی انکشافات کی یہ نعمت اگرچہ پہلی مرتبہ آپ کا مقدر نہیں بنی تھی کیونکہ نورسی تو بچپن اور لڑکپن سے ہی خداداد صلاحیتوں کو قرآن کی خدمت میں لگا دینے کا عزم بالجزم کر چکے تھے مگر قدرت عظمتیں نچھاور کرنے سے قبل ہر عظیم ہستی کا امتحان لیتی ہے اس لئے نورسی کو بھی کبھی پیچ و تاب رازی سے گزارا اور کبھی سوزو و ساز رومی میں زیر تربیت رکھا، تب جا کر انہیں ساز فطرت کا راز داں بنایا گیا۔ ان کی اس کیفیت کو اقبال نے کیا خوب لفظی پیرہن عطا کیا ہے۔
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
یعنی زندگی جب ایک طویل مدت تک عبادت گاہوں میں آہ و زاری کرتی ہے تب کہیں جا کر قدرت کسی دانائے راز سے کائنات کو نوازنے پر آمادہ ہوتی ہے۔
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے ذروں سے انسان نکلتا ہے
نئی منزلوں کا سراغ
سیاسی سطح پر شکست خوردہ دینِ اسلام کی روحانی برکات اور ایمانی کیفیات کو آئندہ نسلوں تک صاف ستھری حالت میں باقی رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سعید نورسی کی باطنی دنیا کو وسعت، آفاقیت اور یقین محکم جیسی روحانی خوبیوں سے نواز دیا تھا۔ وہ اس روحانی انقلاب سے گزر کر اپنی منزل کا تعین کر چکے تھے۔ اب انہوں نے خود کو ’’سعید نو‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ گویا نیا سعید، خالصتاً ایک روحانی شخصیت تھی۔ جس طرح قدرت نے کسی دور میں امام غزالی کو اسی نوعیت کے باطنی انقلاب سے ہمکنار کر کے ’’احیائے علوم الدین‘‘ لکھوائی جو رہتی دنیا تک اسلام کے فلسفہ اخلاق پر ایک علمی شاہکار ہے یا یونانی فکر فلسفہ کی اثر انگیزی سے اسلامی تعلیمات کو محفوظ کرنے کے لئے مولانا روم سے مثنوی لکھوائی جس نے عشق اور محبت کی معنویت کو اجاگر کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سعید نورسی کو بیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ان سے رسائل نور مرتب کروائے۔ رسائل نور ان کی تصنیفات کا ایسا مجموعہ ہے جو انہوں نے قیدِ تنہائی، جیل اور انتہائی درد و آلام سے زخمی قلب و جگر کو تھام کر لکھے ہیں۔
تاریخ اسلام میں یہ عجوبہ بھی بدیع الزماں کے حصے میں آیا ہے کہ ان کے ذمے لگنے والا کام جس قدر عظیم اور حساس تھا اسی قدر انہیں قید و بند، مشکلات و مصائب، مسافرت، تنہائی اور اسی طرح حالات سے دو چار رکھا جن کا تصور کر کے ہی ایک عام انسان کانپ جاتا ہے مگر آفرین ہے اس مردِ باصفاء پر جوہر قدم پر مسکراتے رہے اور غموں کے سارے موسم انہوں نے اسلام کی بہار کے سہارے گزار دیئے۔
انہوں نے ان ناموافق ترین حالات میں دنیا کا بہترین تفسیری ادب تخلیق کیا۔ رسائل نور دراصل بیسویں صدی کا وہ موثر ترین اسلامی لٹریچر ہے جس میں نئے زمانوں کے نئے تقاضوں کو سامنے رکھ کر قرآن کی عقلی، سائنسی اور روحانی تفسیر پیش کی گئی ہے۔ یہ رسائل جس دور میں لکھے گئے وہ اسلام پر الحاد اور بے یقینی کے حملوں کا دور تھا۔ کمیونسٹ انقلاب نے معاشی حقوق کے نام سے لوگوں کو مذہب اور عقیدے سے دور کر دیا تھا، اسی طرح یورپ کی صنعتی ترقی میں انسان نے اخلاقیات کو غیر ضروری قرار دے دیا تھا۔ سائنس اور منطق ہر بات پر دلیل طلب کر رہی تھی جبکہ علماء روایت پرستی سے باہر نکلنے کو تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خدمت سعید نورسی کے فکرِ رسا، مضبوط ایمانی شخصیت اور ان کے غیر معمولی حافظے سے لی۔ جس دور میں انہوں نے رسائل نور لکھنا شروع کئے۔ وہ نورسی صاحب کا سب سے مشکل دور تھا، انہیں کوئی کتاب خانہ اس لئے میسر نہ آ سکا کہ وہ کسی جگہ چند ماہ سے زیادہ ٹھہر ہی نہ سکے تھے۔ کوئی مرکزِ تسکین نہیں تھا اور نہ کوئی گوشہ تحقیق، ایک تھانے سے دوسرے تھانے میں، ایک عدالت سے دوسری عدالت میں، ایک شہر سے دوسرے شہر میں اور ایک بستی سے دوسری بستی میں گھمایا جاتا رہا۔ استعماری ایجنٹوں کو ان کی شخصیت سے جو خطرات محسوس ہوئے تھے وہ یہی تھے کہ یہ شخص جہاں جاتا ہے اس کے ساتھ تلامذہ کی اچھی خاصی تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ یہ جنگل میں جائے یا تھانے میں اپنے ہمنوا پیدا کر لیتا ہے اس لئے حکومت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ اذیت ناک ماحول میں اور زیادہ سے زیادہ قیدِ تنہائی میں رکھا جائے مگر فطرت جس پہ مہربان ہو وہ فضائوں کو بھی ہمنوا بنالیتا ہے۔ یہی سعید نورسی کے ساتھ ہوتا رہا وہ جہاں جہاں جاتے رہے ان کی متاثر کن شخصیت نئے نئے گلستان آباد کرتی گئی۔
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
ان کے حالات زندگی پر لکھی جانے والی کتب میں ان مقامات کی دلچسپ تفصیلات موجود ہیں۔ ان رفقائے کار کے اسمائے گرامی آج بھی اس دعوت و عزیمت کی داستان میں موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں جو راتوں کی تاریکی میں حکومتی گماشتوں کی نظروں سے چھپ چھپ کر اپنے ہاتھوں سے استاد نورسی کے ان رسائل کونقل کرتے تھے اور پھر انہیں ملک کے کونے کونے میں پھیلانے میں جتے رہتے تھے۔ ایسے تلامذہ نور کو وہ قدرت کا خصوصی عطیہ سمجھتے تھے جو اس نورانی مشن کو ان سے لے کر مخلوق تک پہنچانے میں جان کی بازی لگاتے تھے۔ اس سفرِ عزیمت میں بہت سے طلبائے نور کو سزائیں ہوئیں، جرمانے ہوئے جیلوں میں رہے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی زمانے کی تلخیاں جھیلنی پڑیں۔ ان سب کا جرم وہی تھا جو نورسی کا جرم تھا، اپنے ایمان کی حفاظت اور دوسروں کے ایمانوں کا فکر۔
1950ء میں جاکرحکومتی رویوں میں تھوڑی تبدیلی آئی۔ بعض حلقوں کی برف پگھلنا شروع ہوئی اور عدالتوں میں جاری بے شمار مقدمات ختم ہوئے جس کے بعد رسائل باقاعدہ مطبع خانوں سے چھپنا شروع ہوئے۔ یہ نامور دانشور، صوفی، مجدد اور حکیم الامت 1960ء میں تقریباً 82 سال کی عمر میں واصل بحق ہوگئے۔ جس طرح ان کی زندگی عجائبات سے بھری پڑی ہے اسی طرح ان کی موت اور قبر کے احوال بھی حیران کن ہیں۔ ہزاروں تلامذہ نور نے خود انہیں دفن کیا مگر آج ان کی قبر گمنام ہے۔ ان کی خواہش کے عین مطابق اب ان سے محبت کرنے والے ان کی قبر تلاش کرنے کی بجائے ان کے رسائل نور کی خدمت میں سرگرداں ہیں۔ زندگی میں جس طرح بے ریا اور مستغنی رہے وصال کے بعد بھی ریا کے کسی نشان کا شائبہ نہیں رہنے دیا۔ اس وقت ان کے رسائل نورکا دنیا کی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ عربی میں ان رسائل کے 6000 صفحات 9 جلدوں میں چھپ رہے ہیں جبکہ انگریزی زبان میں ان کا ترجمہ 8 بڑی ضخیم جلدوں میں موجود ہے۔ اس وقت دنیا کی بڑی بڑی جامعات میں ان کے نام کی ’’چیئرز‘‘ قائم ہو رہی ہیں۔ تیس سے زائد ممالک کی جامعات میں Ph.D کی سطح پر ان رسائل پر تحقیقی اور تجزیاتی کام ہو رہا ہے۔ ترکی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں ان کے ہزاروں مراکز تربیت بہت خوش اسلوبی اور نہایت اخلاص سے اسلامی کے اس ابدی پیغام کو پھیلا رہے ہیں۔
ان لوگوں میں کوئی عہدوں کی تقسیم نہیں، کوئی مرکزی تنظیمی ڈھانچہ نہیں اور وہ کسی کے سامنے اپنی کارکردگی کے جواب دہ بھی نہیں۔ ان کے درمیان چند دن گزارنے کے بعد جب اس خود کار نظام دعوت و تربیت کے تسلسل میں مضمر راز کو تلاش کیا گیا تو معلوم ہوا یہ لوگ اپنے عظیم قائد و مربی کے اخلاص کو اپنا رہنما بناتے ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے لئے حتی المقدور کاوشیں بروئے کار لاتے ہیں۔
ان لوگوں کی جماعت، ’’جماعت النور‘‘ کہلاتی ہے، ان کے مراکز میں فرشتہ سیرت نوجوان ’’طلبائے نور‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جن کا شعار صرف خدمتِ دین ہے۔ ان کے اسی سلسلہ نور کی ایک کرن محمد فتح اللہ گولن کی صورت میں اس وقت روشن آفتاب بن کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو مرکز محبت و اخوت کی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بالکل اسی طرح تقسیم ہو رہی ہے جس طرح تحریک منہاج القرآن یہ سعادت حاصل کر رہی ہے۔
ہم آئندہ معروضات میں اسی عظیم انسان کی کاوشوں کا تعارف کروائیں گے جو خاموش ندی کی صورت میں پوری دنیا میں جاری و ساری ہیں۔ جن کی خصوصی سماجی، تعلیمی اور دعوتی کاوشوں سے اب ترکی میں سیاسی اور معاشی انقلاب آ رہا ہے۔ اور ترکی اپنی اصل منزل کی طرف لوٹ کر واپس آ رہا ہے۔ ان شاء اللہ وہ منزل دور نہیں جب بقول شاعر
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
(جاری ہے)