الفقہ: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا شرعی طریقہ

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی مول لیں گے۔

محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔

اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔

احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی۔۔۔؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیونکر شرفِ قبولیت سے نوازے گا۔۔۔؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں اس وقت تک قبولیت نہیں پاتے جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلین شرط ہے۔

بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے:

  1. ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے۔
  2. دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے کچھ غیر شرعی اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور اس کے تقدس کو پامال کردیا ہے۔

ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔

ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی۔۔۔ اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے۔۔۔؟ بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے لئے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کے لئے درست اور رائج الوقت ہو۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا، درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا، محافل میلاد کا انعقاد کرنا، نعت یا قوالی کی صورت میں آقا علیہ السلام کی شانِ اقدس بیان کرنا اور عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنا سب قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے۔

کتب سیر واحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:

فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاء ُ فَوْقَ الْبُیُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِی الطُّرُقِ یُنَادُون: یَا مُحَمَّدُ! یَا رَسُولَ ﷲِ! یَا مُحَمَّدُ! یَارَسُولَ ﷲِ!

مرد اور عورتیں گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب نعرے لگا رہے تھے: ’’یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!

(مسلم، الصحیح، 4: 231، رقم: 2009)

دیگر روایات کے مطابق اہل مدینہ جلوس میں یہ نعرہ لگا رہے تھے:

جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم

’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘

امام حاکم اس حدیث مبارکہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

هَذَا حَدِیثٌ صَحِحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ، وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ.

’’یہ حدیث مبارکہ امام بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا‘‘۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 14، رقم: 4282)

معصوم بچیاں اور اوس وخزرج کی عفت شعار خواتین دف بجا کر دل وجان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو ان اشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں:

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ
اَیُهَا الْمَبْعُوْتُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمَطَاعِ

’’ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اﷲکو پکارتے رہیں گے، ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی!آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی‘‘۔

(ابن ابی حاتم رازی، الثقات، 1: 131)

حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد پر مذکورہ بالا اشعار کا پڑھا جانا محب طبری، امام بیہقی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، علامہ عینی، امام قسطلانی، امام زرقانی، احمد زینی دحلان کے علاوہ بھی دیگر محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے۔

مدینہ طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت آپ کے استقبال کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے سامنے ہوئی مگر آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی خوشی منانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب و محاسن بیان کرنا اور جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔

خوشی و مسرت کا اعلانیہ اظہار

اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبولِ عام طریقہ خوشی و مسرت کا اِعلانیہ اظہار ہے۔ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے!یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے لیے خود ربِ کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ.

’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔

(یونس، 10: 58)

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا رُوئے خطاب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے کہ اپنے صحابہ اور ان کے ذریعے پوری اُمت کو بتا دیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے، وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہو سکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں اور جس دن حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت اُنہیں عطا کی گئی اسے شایانِ شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصولِ نعمت کی یہ خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چونکہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی مناؤ اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یومِ ولادتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر منائیں۔

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت ہیں

سورۃ یونس کی مذکورہ آیت نمبر58 میں دو چیزوں یعنی اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں فضل اور رحمت کا الگ الگ ذکر کیوں کیا گیا اور ان سے کیا مراد ہے؟

قرآن حکیم کے اسالیبِ بیان میں سے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ جب فضل اور رحمت کا ذکر ہو رہا ہو تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہوتی ہے۔ اس اُسلوبِ بیان سے اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ لوگ کہیں اﷲ کے فضل اور رحمت کو کسی اور سمت تلاش کرنے نہ لگ جائیں بلکہ اچھی طرح یہ نکتہ سمجھ لیں کہ اﷲ نے اپنا فضل اور رحمت درحقیقت ایک ہی ذات میں جمع کر دیئے ہیں۔ لہٰذا اس ایک ہی مبارک ہستی کے سبب سے شکر ادا کیا جائے اور خوشیاں منائی جائیں۔

قرآن حکیم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا فضل اور اس کی رحمت قرار دیتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لَکُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِینَO

’’پس اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتے۔‘‘

(البقره، 2: 64)

درج ذیل آیاتِ کریمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ کا فضل اور رحمت ہونے کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہیں:

وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلاًO

’’اور (اے مسلمانو!) اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔‘‘

(النساء، 4: 83)

اس مقام پر اللہ رب العزت کا رُوئے خطاب عام مومنین اور صحابہ کرامl کی طرف ہے۔ اس نے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور بعثت کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس میرے حبیب تشریف نہ لاتے تو تم میں سے اکثر لوگ شیطان کے پیروکار ہو چکے ہوتے اور کفر و شرک اور گمراہی و تباہی تمہارا مقدر بن چکی ہوتی۔ پس میرے محبوب پیغمبر کا تمہاری طرف مبعوث ہونا تم پر اللہ کا فضل بن گیا کہ اس کی آمد کے صدقے تمہیں ہدایت نصیب ہوئی اور تم شیطان کی پیروی اور گمراہی سے بچ گئے۔

یہ محض اﷲ کا کرم ہے کہ اس نے راهِ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت میں اپنا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرمایا اور بنی نوع انسان شیطانی حملوں سے بچ گئی۔ اس رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد سرانجام دیے جانے والے اُمور کی تصریح بھی خود قرآن فرما رہا ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَی الْمُؤمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ یَتْلُواْ عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍO

بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو اُن پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

(آل عمران، 3: 164)

بعثتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل پورا عالم انسانی گمراہی و ضلالت میں مبتلا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو تلاوتِ آیات اور کتاب وحکمت کی تعلیم کے ذریعے جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے باہر نکالا، ان کے دلوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کی جانوں اور روحوں کو نبوی تعلیم و تربیت کی بدولت تمام دنیوی آلائشوں سے پاک اور صاف کیا۔ یہ عالم انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل اور رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے اپنے اِحسانِ عظیم کے طور پر ذکر کیاہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ فَلْیَفْرَحُواْ کے اس مصداق پر اہلِ اِسلام جتنی بھی خوشی منائیں کم ہے۔ یہ خوشی صرف محسوس ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا کھلا اظہار ہونا بھی ضروری ہے۔

فضل و رحمت کی آمد پر خوشی کیونکر منائی جائے؟

آیت مذکورہ میں فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ کے معنوی رموز کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فخر المفسرین امام رازی نے ان الفاظ کے حصر اور اختصاص و امتیاز کو یوں واضح کیا ہے:

قوله: (فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا) یفید الحصر، یعنی یجب أن لایفرح الإنسان إلا بذالک.

اﷲ تعالیٰ کا فرمان [فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ] حصر کا فائدہ دے رہا ہے یعنی واجب ہے کہ اِنسان صرف اِسی پرخوشی منائے۔

(التفسیرالکبیر، 17: 117)

امام رازی نے آیت مبارکہ میں معنوی حصر و اختصاص کو شرح و بسط سے بیان کرتے ہوئے ’’فرح‘‘ یعنی خوشی و مسرت کے اظہار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس لفظ کے دامن میں وہ سب خوشیاں اور مسرتیں سمٹ آئی ہیں جو نہ صرف جائز ہیں بلکہ اَز راہِ حکم اس کے منانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے اور فرمایا گیا کہ اللہ کے فضل اور رحمت پر اظہار مسرت کرو اور اس پر خوب خوشیاں مناؤ۔

قارئین کرام! یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ اللہ رب العزت نے ایسی خوشیاں منانے سے منع فرمایا ہے جن میں خود نمائی اور دکھاوا ہو۔ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ لوگ کسی دنیاوی نعمت پر اس قدر خوشی کا اظہار کریں کہ وہ آپے سے باہر ہوجائیں اور شائستگی کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِینَO

بے شک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

(القصص، 28: 76)

لیکن اس کے برعکس جب اپنے فضل اور رحمت کی بات کی تو اپنے اس حکم میں استثناء (exception) کا اعلان فرما دیا کہ اگر میرا فضل اور رحمت نصیب ہو جائے تو پھر میرا ہی حکم ہے:

فَلْیَفْرَحُواْ

یعنی کہ خوب خوشیاں منایا کرو۔ اور

هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ

کے ذریعہ یہ بتلا دیا کہ جو لوگ جشنِ میلاد کے موقع پر لائٹنگ کے لیے قمقمے لگاتے ہیں، گل پاشیاں کرتے ہیں، قالین اور غالیچے بچھاتے ہیں، جلسے جلوس اور محافل و اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں، لنگر بانٹنے کے لیے کھانا پکاتے ہیں یعنی دھوم دھام سے اِظہار خوشی کے لیے جو کچھ انتظامات کرتے ہیں وہ سب کچھ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کے لیے کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ لہٰذا ان کے یہ اَخراجات مال و دولت کے انبار لگانے اور انہیں جمع کرنے سے کہیں بہتر ہیں۔ چنانچہ جونہی ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتا ہے پوری دنیا میں غلامانِ رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں دیوانہ وار مگن ہو جاتے ہیں، ہر طرف جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کائنات کی ساری خوشیاںجملہ مسرتیں اور شادمانیاں اسی ایک خوشی پر ہی قربان ہو جائیں تو بھی اس یومِ سعید کے منانے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواز نصِ قرآن سے ثابت ہے اور خود اللہ رب العزت نے اس خوشی کے منانے کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ مندرجہ بالا ارشادِ قرآنی کی رو سے ہمیں بھی اس نعمتِ عظمی پر خوشی منانے کا حکم دیا۔

نعمت کے شکرانے کا اِنفرادی و اِجتماعی سطح پر حکم

مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو یا قومی آزادی حاصل ہو اور فتح و نصرت کا دن آئے تو جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ہم یہ سب خوشیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر مناتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ جب اس نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ملنے کا دن آئے تو اتنی فرحت و مسرت کا اہتمام کیا جائے کہ دنیا کی ساری خوشیوں پر غالب آجائے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ خوشیاں و جشن منانے، چراغاں کرنے اور کھانے پکا کر تقسیم کرنے پر مال و دولت خرچ ہوتا ہے۔

معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ان کاموں پر مال خرچ کرنے سے کیا فائدہ؟ اس سے بہتر تھا کہ یہ رقم کسی محتاج، غریب، نادار کو دے دی جاتی، کوئی مسجد بنا دی جاتی، کسی مدرسے میں جمع کرا دی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اس طرح کے کئی شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ مذکورہ کاموں پر خرچ کرنا اپنی جگہ بالکل درست، صحیح اور بجا ہے مگر باری تعالیٰ نے اس خیال کو بھی رد کر دیا کیونکہ اس موقع پر اُمت کی اجتماعی خوشی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کو صدقات و خیرات سے منع تو نہیں کرتا، ہر کوئی غرباء و مساکین اور مستحقین کی خدمت اپنی استطاعت کے مطابق کرے مگر جب حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی منانے کا موقع آئے تو یہ بہانہ بنا کر نہ بیٹھ جاؤ کہ ہم تو اپنا مال کسی اور نیک کام میں صرف کر دیں گے؛ بلکہ فرمایا: فَلْیَفْرَحُواْ انہیں چاہئے کہ وہ میرے حبیب کی خاطر خوشی منائیں۔ اور هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ کہہ کر واضح کر دیا کہ اِس خوشی پر خرچ کرنا کسی بھی اور مقصد کے لیے جمع کرنے سے افضل ہے۔

هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ کی تفسیر

آیت کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانا جمع کرکے رکھنے سے بہتر ہے۔ سوال یہ کہ کیا چیز جمع ہو سکتی ہے؟ دو چیزیں ہی جمع کی جاسکتی ہیں:

1۔ دنیا کے حوالے سے جمع کرنا چاہیں تو مال و اَسباب اور دولت وغیرہ جمع کی جاسکتی ہے۔

2۔ اگر آخرت کے حوالے سے جمع کرنا ہو تو اَعمالِ صالحہ مثلًا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقات و خیرات وغیرہ جمع ہو سکتے ہیں۔ مگر قرآن حکیم نے یہاں نہ مال و دولت کی تخصیص کی ہے اور نہ ہی اَعمالِ صالحہ اور تقویٰ وغیرہ کی نشان دہی کی ہے۔ بلکہ آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کلمہ مَا عام ہے جواپنے اندر عمومیت کا مفہوم لیے ہوئے ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو حاوی ہے۔

مذکورہ بالا دونوں نکات ذہن نشین رکھ کر دیکھا جائے تو اس آیت سے مراد ہوگا: لوگو! تم اگر دنیا کے مال و دولت جمع کرتے ہو، جائیدادیں، کارخانے اور فیکٹریاں بناتے ہو یا سونے چاندی کے ڈھیروں کا ذخیرہ کرتے ہو غرضیکہ انواع و اقسام کی دولت خواہ نقد صورت میں ہو یا کسی جنس کی صورت میں، میرے حبیب کی آمد اور ولادت پر خوشی منانا تمہارے اس قدر مال و دولت جمع کرنے سے بہر حال بہتر ہے۔ اور اگر آخرت کے حوالے سے سجود، رکوع، قیام و قعود کا ذخیرہ کر لو، نفلی عبادات جمع کر لو، فرائض کی بجا آوری سے اجر و ثواب کا ذخیرہ کرلو، غرضیکہ نیکی کے تصور سے جو چاہو کرتے پھرو لیکن اس نعمت پر شکرانے کے لیے جشن منانا اور اس پر اپنا مال و دولت خرچ کرنا، یہ تمہارے اَعمالِ صالحہ کے ذخیرے سے زیادہ گراں اور زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے اس نعمتِ عظمیٰ کی آمد پر خوشی نہ کی تو تم نے اَعمالِ صالحہ کی بھی قدر نہ کی۔ چونکہ سب اعمال تو تمہیں اسی کے سبب سے نصیب ہوئے؛ قرآن اسی کے سبب سے ملا، نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی کے توسط سے عطا کیے گئے، ایمان و اسلام بھی اسی کے ذریعے سے ملے، دنیا و آخرت کی ہر نیکی اور عزت و مرتبہ بھی اسی کے سبب سے ملا، بلکہ نیکی، نیکی اِنتخابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنی اور برائی، برائی اِجتنابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرار پائی۔ اور حق تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ عطا کرنے والے رب العزت کی معرفت تمہیں اسی کے سبب سے ملی۔ پس اس ہستی کے عطا کیے جانے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کر کے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا یہ عمل سب سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔ (اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ملاحظہ کیجیے)