بقول حضرت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ:
’’اقبال مرحوم دور حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے، ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ اسلام کے سچے شیدائیوں اور عاشقوں کا نام ابدالاباد تک قائم رہتا ہے، میرے پاس کوئی سلطنت ہوتی اور مجھ سے کہا جاتا کہ اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو چن لو تو میں اقبال کو چن لیتا۔‘‘
(اقبال نمبر سالنامہ ’’راوی‘‘، گورنمنٹ کالج لاہور 1969ء)
اس سے حضرت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت و احترام، محبت اور عظمت و رفعت کا پتہ چلتا ہے۔
دراصل اخوت، مساوات، عزت نفس، خدا ترسی، امن و عافیت، فلاح و نجات، انسانیت کی بلندی اور اقدار انسانی کی معراج و رفعت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی امتیازی خصوصیات ہیں اور ان سب کا سر چشمہ اور منبع حضور پر نور، رحمت عالم، نور مجسم، شفیع معظم، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئین حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دین اسلام ہے۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جہاں اولیاء عظام اور صوفیاء کرام سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے تھے وہاں آپ کے دل میں تحفظ و تکمیل شعائر اسلام کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔
اس سلسلے میں ہفتہ وار ’’اخبار کشمیری، 14 جنوری 1913ء میں بشیر احمد ڈار‘‘ اور ’’اقبال ریویو، 1984ء‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اگر مذہبی پہلو سے اسلامی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ قربانیوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لو، وہ بھی قربانی ہے۔ خدا نے صبح کی نماز کا وقت مقرر کیا کہ جب انسان نہایت مزے کی نیند میں ہوتا ہے اور جب بستر سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا، خدا کے نیک بندے اپنے مولیٰ و آقا کی رضا کے لئے خواب راحت کو قربان کردیتے ہیں اور نماز کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ پھر نماز ظہر کا وہ وقت مقرر کیا جب انسان اپنی کاروباری زندگی کے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہوتا ہے اور اپنے کام میں انتہائی مصروف ہوتا ہے۔ عصر کا وقت وہ مقرر کیا جب دماغ آرام کا خواست گار ہوتا ہے اور تمام اعضاء محنت مزدوری کی تھکاوٹ کی وجہ سے آسائش کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ پھر شام کو نماز مقرر کردی جب کہ انسان کاروبار سے فارغ ہوکر بال بچوں میں آکر بیٹھتا ہے اور ان سے اپنا دل خوش کرنا چاہتا ہے۔ عشاء کی نماز کا وقت وہ مقرر کیا جبکہ بے اختیار سونے کو جی چاہتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے دن میں پانچ مرتبہ مسلمانوں کو آزمایا ہے کہ وہ میری راہ میں اپنا وقت اور اپنا آرام قربان کرسکتے ہیں یا نہیں‘‘۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا 31 اکتوبر 1916ء کا ایک خط ملاحظہ ہو:
’’لاہور کے حالات بدستور ہیں۔ سردی آرہی ہے۔ صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں پھر اس کے بعد نہیں سوتا، سوائے اس کے کہ مصلے پر کبھی اونگھ جاؤں‘‘۔
(نقش اقبال،سید عبدالواحد)
عجب نہیں کہ مسلمان کو پھر عطا کردیں
شکوہ سنجر و فقر جنید و بسطامی
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید و بایزید ترا جمال بے نقاب
جاوید نامہ میں فرماتے ہیں:
پاک مرداں چوں فضیل و بوسعید
عارفاں مثل جنید و بایزید
اقبال رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و صوفی باصفا
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے عبدالمجید ڈاکٹر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور نے دریافت کیا کہ آپ حکیم الامت کیسے ہوگئے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک کروڑ مرتبہ درود شریف حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں پیش کیا، آپ بھی یہی وظیفہ کریں، حکیم الامت ہوجائیں گے۔
چوں بنام مصطفی خوانم درود
از خجالت آب میگردد وجود
عشق میگوید کہ اے محکوم غیر
سینہ از بتان مانند دیر
تانداری از محمد رنگ و بو
از درود خود می الانام او
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ایک فلاسفر تھے بلکہ خوش نوا شاعر، مصلح ملت، مفکر اسلام، مبصر و ناقد اور عظیم المرتبت صوفی باصفا تھے۔ ان میں بصیرت و بصارت اور فراست و دانش بدرجہ اتم تھی۔ فلاسفر صحرائے حیرت میں تعقل و تفکر میں گم رہتا ہے اور اسے تحیر و درماندگی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا جبکہ عشقِ حقیقی کی وجہ سے بامراد ہوتا ہے اور نتیجتاً تجلی رب ذوالجلال کی ذاتِ اقدس میں گم ہوکر ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وصل حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
کافر ہندی ہوں میں، دیکھ میرا ذوق و شوق
لب پہ درود و سلام دل میں درود و سلام
ہر دو بمنزلے رواں ہر دو امیر کارواں
عقل بحیلہ مے برد، عشق برد کشاں کشاں
شاعر مشرق رحمۃ اللہ علیہ اپنے ابتدائی دور کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں:
’’چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں حضرت ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘ کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں ہوتا رہا۔ گو بچپن میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی، تاہم درس میں ہر روز شریک ہوتا تھا‘‘۔
(انوار اقبال: بشیر احمد ڈار، ص: 188)
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت میں تصوف کا رنگ بدرجہ اتم تھا۔ لندن میں بھی حصولِ تعلیم کے دوران آپ نے شمعِ تصوف کو ہر طرح سے فروزاں رکھا۔ مراقبات اور تہجد کے نوافل آپ کی زندگی کا معمول تھا۔
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، پیرِ رومی رحمۃ اللہ علیہ سے اس حد تک متاثر تھے کہ انہیں پیرو مرشد تسلیم کیا اور ان سے بے حد فیض حاصل کیا کیونکہ موصوف ممدوح نے قرآنی تعلیمات کو ایک مخصوص انداز میں مثنوی میں بیان کیا ہے جس کے وہ اپنے کلام میں بھی معترف ہیں:
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
حضرت پیر رومی نور اللہ مرقدہ نے راہِ طریقت میں مرشد و ہادی کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے:
پیر راہ بگزین کہ بے پیر ایں سفر
ہست بس پر آفت و خوف و خطر
اسی لئے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نور اللہ مرقدہ نے ان کی اس طرح تقلید کی:
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آستان کاملے
حقیقت حال یہ ہے کہ اسلامی معاشرت کا ہمہ جہتی محورو مرکز عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو مسلمان کی زندگی کا مقصود و منتہا اور اول و آخر ہے۔
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اولیاء کی خدمت میں نذرانۂ اقبال
اعجاز الحق قدوسی، ’’اقبال کے محبوب صوفیاء‘‘ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے حضور، دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ آپ کی روحانی رفعت و عظمت اور دینی خدمات کے معترف ہوتے ہوئے اس طرح اسرار و رموز میں درج ذیل وجد آفرین اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں:
سید ہجویر مخدوم امم
مرقد اوپیر سنجر را حرم
عہد فاروق از جمالش تازہ شد
حق زحرف او از بلند آوازہ شد
پاسبان عزت ام الکتاب
از نگاہش خانۂ باطل خراب
خاک پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح ما از مہر او تابندہ گشت
’’بانگ درا‘‘ میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جنہیں ’’پیر سنجر‘‘ کہا جاتا ہے سے عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا ہے:
دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں
میسر ہے جہاں درمانِ دردِ ناشکیبائی
’’زبورِ عجم‘‘ میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو مولانا روم اور حضرت شمس تبریز رحمہما اللہ کا رمز شناس فرماتے ہیں:
مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی
برہمن زادہ، رمز آشنائے روم و تبریز ست
اسی طرح ایک اور جگہ گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
شیخ فخرالدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جامی کی خدمت اقدس میں ارمغان حجاز میں اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں:
کہے شعر عراقی رابخوانم
کہے جامی زند آلش بجانم
ندانم گرچہ آہنگ عرب را
شریک نغمہائے سار بانم
حضرت بو علی قلندر رحمۃ اللہ علیہ پانی پتی کے حضور اسرار و رموز میں اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
باتو مگویم حدیث بو علی
در سواد ہند نام اوجلی
آن نوا بسیر ای گلزار کہن
گفت باما از گل رعنا سخن
خطہ ایں جنت آتش نژاد
از ہوای دامنش مینو سواد
حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے بارے بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہ خسرو
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے اسرار و رموز میں فرمایا:
تربتش ایمان خاک شہر ما
مشعل نور ہدایت مہر ما
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسرار و رموز میں حضرت سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
شیخ احمد سید گردوں جناب
کاسب نور از ضمیرش آفتاب
گل کہ می پوشد مزار پاک او
لا الہ گویاں دمد از خاک او
1929ء میں انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے سالانہ جلسے کی آپ صدارت فرمارہے تھے۔ کسی نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مصرع کہنا شروع کردیا: ’’رضائے خدا اور رضائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ اس پر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اشعار پڑھے:
تماشا تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش
لگائے خدا اور بجھائے محمد
تعجب تو یہ ہے کہ فردوس اعلیٰ
بنائے خدا اور بسائے محمد
اہل تصوف حصول فیوض و برکات کے لئے اولیائے کاملین کے مزاراتِ مقدسہ پر کسب فیض کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید علی مخدوم ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی کی۔ اسی طرح شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نور اللہ مرقدہ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے یورپ جانے سے قبل حضرت محبوب الہٰی نظام الدین اولیاء زری زر بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری کا شرف حاصل کیا اور کہا:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار گوہر بار پر متعدد بار حاضری دی اور پروفیسر عبدالقادر کے بقول حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خود انہیں فرمایا کہ:
’’حضرت قاضی سلطان محمود کے ارشاد عالیہ کے مطابق وہ دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی نور اللہ مرقدہ کے مزار پر انوار جوکہ مرجع خلائق ہے پر حاضر ہوئے اور وہاں پر عالم رویاء میں اشارہ ہوا کہ تمہارا فیض حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہے۔ چنانچہ اس اشارہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار عالیہ پر حاضر ہوکر فیض یاب ہوئے‘‘۔
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، عارف کامل حضرت مولانا محمد ہاشم جان سرہندی سے اس طرح مخاطب ہوئے:
’’اس روحانی تجربے (مزار پر انوار حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ پر مراقب ہونے) کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ مزارات اولیاء فیضان سے خالی نہیں۔‘‘
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ خود تصوف کے رنگ میں ڈھل کر ایک عظیم صوفی باصفا ہوچکے تھے۔ اسی لئے ان کی عمیق نگاہوں نے دیکھا کہ تصوف رسم و رواج کا نام بن چکا اور حقیقی روح ختم ہوچکی ہے۔ اسی لئے انہوں نے فرمایا:
فقر را ذوق عریانی نہ ماند
آن جلال اندر مسلمانی نہ ماند
امت مسلمہ کو فقیر کی حقیقت سے آشنا کرتے ہوئے کہا:
بس آں قعرے کہ راند راہ را
بیند از خودی اللہ را
اندروں خویش جوید لا الہ
ورنہ از شمشیر گوید لا الہ
اسی طرح ایک اور مقام پر فقر کے بارے میں فرمایا:
چیست فقر اے بندگان آب و گل
یک نگاہ راہ بیں یک زندہ دل
باسلاطین در فقر مرد فقیر
از شکوہ بوریا لرزہ سریر
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت ہی متاثر تھے اسی لئے اپنی کتاب ارمغانِ حجاز اور بال جبریل میں ان کے متعلق فرماتے ہیں:
دگر بسد رسہ ہائے حرم نمی بینم
دل جنید و نگاہ غزالی و رازی
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و ارد شیری
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ہر جگہ اس تصوف کے بارے میں فرمایا ہے جو جمود و تعطل کا شکار نہ ہو اور نہ ہی گوشہ تنہائی میں آرام کرنے کانام ہے۔ بلکہ وہ اس تصوف کے قائل تھے جو اسوہ شبیری کا درس دیتا ہے:
فقر گریاں گرمئی بدر و حنین
فقر عریاں بانگ تکبیر حسین
آج ہم محبتِ اقبال کے ببانگِ دہل دعوے کرتے ہیں، فکرِ اقبال سے رہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں، سرکاری طور پر یومِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی مناتے ہیں لیکن ستم ظریفی اس حد تک ہے کہ ہنوز ’’ فقرِ اقبال‘‘ ہمارا وظیفہ نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس ’’فقر‘‘ کو اپنائیں بلکہ حرز جاں بنائیں جو ہمیں نہ صرف غیور و صبور بنادے بلکہ یہ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، اوڑھنا، بچھونا، چلنا، پھرنا، جاگنا اور سونا ہو۔
ابھی وقت ہے کچھ باقی سنبھل جا
چھوڑ کر جام و سبو ساقی سنبھل جا
کرکے ترک سرود و رنگ ساتھی سنبھل جا
کرنا ہے تجھے سفر کافی سنبھل جا
حقیقت حال یہ ہے کہ آج تصوف بے حقیقت نام ہوکر رہ گیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل یہ حقیقت ہی حقیقت تھی، جس کا کوئی نام نہ تھا۔ یعنی عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ میں تصوف نام کا نہ تھا اس کا معنی مفہوم ہر شخص میں پایا جاتا تھا۔ اِس دور میں نام موجود ہے مگر معنی عنقا ہے۔ اُس وقت افعال و اعمال انتہائی پسندیدہ تھے مگر کسی قسم کا دعویٰ یا نام موجود نہ تھا۔ اِس زمانے میں دعویٰ اور نام کی بڑی شہرت ہے مگر اعمال و افعال کا کچھ علم نہیں۔ عارف کے لئے عالم ہونا ضروری ہے لیکن ہر عالم عارف نہیں ہوسکتا۔ یہی تصوف عینِ اسلام بلکہ حقیقتِ اسلام ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک کا ایک ایک لفظ گنجینہ حکمت و معرفت ہے اور تصوف کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔