قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 6اکتوبر 2018 ء کے دن شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوانے اور انصاف کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کے لیے لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی عدالت میں گئے، انہوں نے روسٹرم پر آکر ٹرائل کورٹ میں درپیش مسائل اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسرنو تحقیقات کی اپیل کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خود سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا اس بات کا ببانگ دہل اعلان ہے کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلوانا ان کی اولین ترجیح اور اس کے لیے وہ ہر اقدام اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار اور پرعزم ہیں اورحصول انصاف کی اس جدوجہد میں وقت اور مال کی قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں آئین اور قانون پڑھاتے ہوئے بسر ہوا، انہوں نے پروفیسر آف لاء کی حیثیت سے سینکڑوں، ہزاروں طلبہ کو قانون پڑھایا، ان کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر بطور جج خدمات انجام دیں اور ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے بطورِ وکیل قانون کے شعبہ میں نام پیدا کیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سپریم کورٹ رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے روبرو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا مقدمہ رکھتے ہوئے کہا کہ آپ نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی تاخیر کا نوٹس لیا اور حکم دیا کہ کیس روزانہ کی بنیاد پر سماعت کیا جائے، آپ کا یہ حکم انصاف کی برق رفتار فراہمی کے لیے تھا، تاہم روزانہ سماعت کی وجہ سے ہماری لیگل ٹیم نے کیس کی پیروی کرنے سے معذرت کر لی۔ لیگل ٹیم کا موقف تھا کہ ہمارے پاس دیگر عدالتوں کے اہم کیسز ہیں جن میں مرڈر ریفرنسز بھی ہیں، ہم ان تمام اہم کیسز کی پیروی چھوڑ کر صرف ایک کیس میں بلا ناغہ حاضر نہیں ہو سکتے، اس سے ہماری وکالت مالی اعتبار سے بری طرح متاثر ہورہی ہے اور انہوں نے بھری عدالت میں کیس کی پیروی جاری رکھنے سے معذرت کی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ اس لیگل ٹیم کی معذرت کے بعد کوئی بڑا وکیل صرف ایک کیس میں ہر روز حاضر ہونے کی حامی بھرنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے ٹرائل کورٹ میں ہمارا کیس خراب ہورہا ہے اور ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کچھ سینئر وکلاء نے صرف اس شرط پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس لینے کی حامی بھری ہے کہ اگر کیس کی سماعت ہفتہ میں دو بار ہو تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ وکلاء کا یہ بھی موقف تھا کہ یہ کیس بہت بڑا ہے، اس میں ملزمان اور گواہان کی فہرست سینکڑوں میں ہے،گواہان کی تیاری اور کیس کی موثر پیروی کے لیے اسے ہفتہ میں دو بار سنا جائے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے انتہائی موثر دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی ہفتہ میں دو بار سماعت کا حکم دے دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے دوسرا نکتہ نظر سانحہ کی ازسرنو تحقیقات کروانے سے متعلق تھا۔ انہوں نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد بھی پولیس نے کارکنوں پر قیامت برپا کیے رکھی، گھروںپر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا، پولیس چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے رات کو گھروں میں گھس جاتی تھی اور کارکنوں کو اٹھا لیا جاتا تھا، انہیں حبسِ بے جا میں رکھا جاتا تھا، اس سارے کریک ڈاؤن کا مقصد کارکنوں کو کسی بھی جے آئی ٹی اور قانونی فورم میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف بیان دینے سے روکنا تھا کیونکہ اس عرصہ میں اس وقت کی پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی اور وہ اس تحقیقات میں مرضی کے بیانات اور فائنڈنگ چاہتی تھی۔ جس عرصہ میں جے آئی ٹی کام کررہی تھی اس دوران کم و بیش چار ہزار کے قریب ہمارے کارکنوں کو گرفتارکیا گیا اور انہیں مختلف تھانوں میں بغیر کسی مقدمہ اور ایف آئی آر کے حبس بے جا میں رکھا گیا، ہمارا کوئی زخمی جے آئی ٹی میں اپنا بیان ریکارڈ نہ کروا سکا اور آج کے دن تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مضروبین کا بیان سرکاری ریکارڈ پر نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ پنجاب پولیس سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث تھی اور انہی کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی گئی، اس جے آئی ٹی میں دو نمائندے ایجنسیز سے تھے، ایک کا تعلق آئی ایس آئی اور ایک کا تعلق ایم آئی سے تھا، دونوں نمائندوں نے اختلافی نوٹ دیا اور پولیس کی معیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر نمبر 510 کو ناقص قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا نوٹ دیا مگر اس وقت کی پنجاب حکومت نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اختلافی نوٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے الگ کر دیا اور جو جے آئی ٹی کی رپورٹ انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں جمع کروائی گئی اس پر کسی قسم کے کوئی دستخط نہیں تھے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے گزارش کی کہ آپ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسرنو تحقیقات کا حکم دیں۔
چیف جسٹس نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کے پرتاثیر اور ٹو دی پوائنٹ دلائل سننے کے بعد پنجاب حکومت کو آئندہ سماعت پر اپنا نقطہ نظر دینے کے لیے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پیش ہو اور اس ضمن میں قانونی نقطہ نظر بیان کریں۔
غالب امید ہے کہ اداریہ کی ان سطور کی اشاعت تک سپریم کورٹ کے سامنے پنجاب حکومت کا نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے موقف آچکا ہوگا۔ امید ہے کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کی طرف سے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کی اپیل منظور ہو گی اور سانحہ کی غیر جانبدار ازسرنو تحقیقات کا قانونی تقاضا پورا ہوگا۔ لاہور ہائیکورٹ میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے شریف برادران اور ان کے حواریوں کی طلبی کے لیے اپیل کی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔ اپیل میں دو ججز نے طلب نہ کرنے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ بنچ کے سربراہ نے ورثاء کے حق میں بڑے ٹھوس قانونی نکات بیان کیے۔ لاہور ہائیکورٹ کے بنچ کے سربراہ کا یہ موقف تھا کہ جے آئی ٹی نے بعض اہم واقعات اور حقائق کو بوجوہ نظر انداز کیا۔ 14 جون 2014 ء کے دن خرم نوازگنڈاپور، فیاض وڑائچ اور سید الطاف حسین شاہ کو شریف برادران نے ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک بلا کر دھمکیاں دیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی کو روکیں، ان دھمکیوں کو طلبی کے مرحلہ پر نظر انداز کیا گیا۔ 15 جون 2014 ء کو آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کو بلوچستان سے لاہور ٹرانسفر کرنے کا حکم جاری ہوا جس کی کوئی ٹھوس وجہ بیان نہیں کی گئی۔ اسی طرح ڈی سی او لاہور کو بھی ایک دن پہلے ٹرانسفر کیا گیا، یہ ٹرانسفرز غیر معمولی نوعیت کی ہیں جن کی تحقیقات نہیں کی گئیں کہ آخر وہ کون سے ایسے حالات تھے کہ یہ غیر معمولی تقرر و تبادلہ عمل میں آیا۔ اسی طرح 16 جون 2014 ء کے دن اس وقت کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی سربراہی میں 90 شاہراہ پر میٹنگ ہوئی، اس میٹنگ کے منٹس نہیں منگوائے گئے، اس میٹنگ کا 17 جون 2014 ء کے آپریشن سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بہرحال شریف برادران اور حواریوں کی طلبی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے مسترد ہونے والی درخواست کو سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا حتمی فیصلہ ہو چکا اور اس ضمن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سینئر ترین وکلاء سے مل کر اپیل کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ان سطور کی اشاعت تک یہ اپیل سپریم کورٹ میں دائر ہو چکی ہو گی۔