یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت اندرونی اور بیرونی عوامل مثلاً: والدین، تعلیم و تربیت، سازگار ماحول اور افرادِ معاشرہ سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ اگر معاشرہ صحت مند اقدار کا حامل ہو تو اس کی آغوش میںبچے کے لیے تعمیرِ شخصیت کا عمل آسان ہو جاتا ہے، اس کے برعکس اگر معاشرہ شرپسند عوامل پر مشتمل ہو تو نسلِ نو خودبخود گمراہی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ جو اعلیٰ اقدار کی روش اختیار کرنا چاہیں تو انہیں کٹھن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ افراد کے لیے تربیت گاہ بھی ہے اور کسوٹی بھی، اس لیے معاشرے سے الگ رہ کر نسلِ نو کی تعمیرِ شخصیت کی کوشش کرنا پانی سے باہر تیراکی سیکھنے کے مترادف ہے ۔
فطرت ِاسلام پر بچے کی پیدائش کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا:
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهٖ، أَوْ یُنَصِّرَانِهٖ، أَوْ یُمَجِّسَانِهٖ.
’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پس اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔
(بخاري، الصحیح، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی أولاد المشرکین، 1: 465، رقم: 1319)
امام غزالی اسی نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
بچہ والدین کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کا دل ایک عمدہ، صاف اور سادہ آئینہ کی مانند ہے جو بالفعل اگرچہ ہر قسم کے نقش و صورت سے خالی ہے اس کے باوجود ہر طرح کے نقش و اثر کو فوری قبول کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اُسے جس چیز کی طرف چاہیں مائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں اچھی عادات پیدا کی جائیں اور اسے علم نافع پڑھایا جائے تو وہ عمدہ نشو و نما پا کر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک ایسا کارِ خیر ہے جس میں اس کے والدین، اساتذہ اور مربی وغیرہ سب حصہ دار ہو جاتے ہیں لیکن اگر اُس کی بری عادات سے صرفِ نظر کیا جائے اور اسے جانوروں کی طرح کھلا چھوڑا جائے تو وہ بداخلاق ہو کر تباہ ہو جاتا ہے جس کا وبال اس کے ولی اور سرپرست کی گردن پر پڑتا ہے۔
(غزالی، إحیاء علوم الدین، 3: 72)
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اَہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘
(التحریم، 66: 6)
اسلامی منہج کی رُو سے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت اوران کی کردار سازی میں والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ والدین بطور خاص آغوشِ مادر دنیا کی پہلی درس گاہ ہے جو نومولود کے سطحِ ذہن پر ابتدائی نقش و نگار مُرتسم کرتی ہے۔ ایک صالحہ ماں بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرتی ہے تاکہ وہ بڑا ہو کر اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکے ۔ایسی ہی عظیم ماؤں کے بارے میں نپولین نے کہا تھا:
’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
’’قوموں کی تاریخ اور ان کا ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض ہے۔‘‘
تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے سے ہمیں ہر عظیم شخصیت کے پیچھے ماں کا کردار کار فرما نظر آتا ہے۔ مثلاً: امام حسن و حسین علیہم السلام اور سیدہ زینب و سیدہ اُم کلثوم علیہما السلام جنہوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی، ان کی شخصیت سازی میں ان کی والدہ سیدہ فاطمۃ الزہراj کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ باکردار نیک طینت ماؤں نے بچوں کی بے مثال تربیت کرتے ہوئے معاشرے کو ایسے باکمال افراد پیش کیے کہ جن میںسے ہر کو ئی عالم، عابد، شجاع، اعلیٰ و ارفع کردار سے مزین، انسانی اقدار کا حامل اور معاشرے کے لیے مفید اور مؤثر ثابت ہوا۔
ماں کی طرح باپ بھی اولاد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے میںایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام نے بچوں کی قبل از پیدائش سے بلوغت تک کی بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلا خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور علاج کی فراہمی پر خرچ کرنا والدکی اولین ذمہ داری قرار دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے (اس کا کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا: اُسے اپنے اوپر خرچ کرو۔ وہ شخص عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے، فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو، وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جہاں مناسب سمجھو (خرچ کرلو)۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 251، رقم: 7413)
اولاد کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا محض دنیا داری نہیں بلکہ عین تقاضائے دین اورشریعت کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ حدیث مبارک کی رو سے جو شخص حلال ذرائع سے روزی کما کر اپنے بچوں کی کفالت کرتا ہے تو روزِ قیامت اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا۔
(ابن ابی شیبه، المصنف، 4: 27، رقم: 22186)
والدین کی تربیتی ذمہ داریاں
اولاد کی اچھی یا بُری تعلیم و تربیت کا دار و مدار والدین کی پرورش اور نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح خطوط پر ذہن سازی اور اخلاق و کردار پر منحصر ہوتا ہے۔ والدین کو تربیتی ذمہ داریوں کی ترغیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث مبارک سے ملتی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَکْرِمُوْا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ.
’’اپنی اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھایا کرو‘‘۔
( ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب برالولد والإحسان إلی البنات، 2: 1211، رقم: 3671)
والدین کو چاہیے کہ عزت افزائی، حوصلہ افزائی اور تعریف میں سب سے زیادہ اولیت بچوں کی کامیابیوں کو دیں خواہ وہ کامیابی ان کی نظر میں کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ کامیابی بچے کی ذاتی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہوتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو بھی سراہیں۔ جب انہیں والدین کی ایسی محبت اور تعریف و توصیف ملے گی تو انہیں محسوس ہوگا کہ ان کے والدین اُن پر اعتماد کرتے ہیں۔ پھر خود اعتمادی کا یہ احساس انہیں مزید سیکھنے، نشو و نما پانے اور کامیاب ہونے کی طرف راغب کرے گا اور دوسروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں بھی ممد ومعاون ثابت ہو گا۔
والدین کے پیش نظر ہمیشہ یہ امر رہنا چاہیے کہ اپنے بچوں کا کسی بھی دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں ۔ اگر کسی بچے میں جسمانی نقص ہو یا وہ ذہنی طور پر کمزور ہو تو بجائے اس کو یہ احساس دلانے کے کہ وہ معذور یا کمزور ہے، بلکہ اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اسے ایسے لوگوں کے واقعات سنانے چاہییں جنہوں نے معذوری اور کمزوری کے باوجود دنیا میں اتنا نام کمایا۔ مثال کے طور پر ’’مقامات‘‘ عربی ادب کی ایک بے مثل کتاب ہے اس کے مصنف ’’ابو تمام‘‘ بظاہر خوبصورت نہیں تھے لیکن اپنے علمی کارنامے کی وجہ سے ان کی شخصیت کا یہ پہلو کسی کو نظر نہیں آیا اور آج تک ان کا نام عربی ادب میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مصر کے مشہور عالم، مصنف اور وزیر طحہٰ حسین نابینا تھے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز نابینا ہیں۔ بلب کے مؤجد مشہورسائنس دان اڈیسن بہرا تھا۔
بعض گھروں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ والدین بچوں کی کامیابی پرانہیں کسی بڑے انعام کا لالچ دیتے ہیں، دراصل ان کا مقصد انعام دینا نہیں بلکہ انہیں کامیابی کے لیے محنت پر آمادہ کرنا ہوتا ہے ۔والدین یاد رکھیں کہ ان کا یہ عمل جھوٹ کے زُمرے میں آتا ہے اور اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَالَ لِصَبِيٍّ: تَعَالَ هَاکَ؛ ثُمَّ لَمْ یُعْطِهٖ فَهِيَ کِذْبَةٌ.
’’جس شخص نے بچے سے کہا: ’آجاؤ، میں تمہیں یہ چیز دوں گا اور پھر اسے کچھ نہ دیا تو یہ بھی جھوٹ ہے‘‘۔
( أحمد بن حنبل، المسند، 2: 452، رقم: 9835)
دورانِ تربیت اخلاقی اقدار کی پاسداری
دورانِ تربیت والدین کو چاہیے کہ اگر کسی بچے سے کوئی غلط کام صادر ہو جائے تو اسے ملامت نہ کی جائے اور نہ اسے کسی بُرے لقب سے نوازا جائے۔اس کے غلط رویے پر تنقید ضرور کی جائے مگر اس کی عزتِ نفس ہرگز مجروح نہ کی جائے۔ اس کے لیے کسی مناسب موقع کا انتظار کر کے مجموعی طور پر اس بچے کا نام اور مخاطب کیے بغیر اس کوتاہی یا غلطی کی طرف اشارہ کرنا چاہیے۔ اس سے ایک تو غلطی کرنے والے کو خود احساس ہو جاتا ہے اور وہ اسے ترک کر دیتا ہے اور اسے یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ بات خاص طور پر اسے کہی جا رہی ہے۔ دوسرا باقی سب بچوں کو بھی تنبیہ ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر انفرادی تنبیہ زیادہ بہتر ہو تو مثبت انداز میں تنہائی میں کر دینی چاہیے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے عمل مبارک سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو انفرادی طور پر متنبہ کرنے کی بجائے کسی مجمع کو خطاب کرتے ہوئے اس کوتاہی کی طرف اشارہ فرما دیتے لیکن اگر کبھی اس بات کی ضرورت محسوس فرماتے کہ غلطی پر براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو نہایت محبت سے سمجھاتے تاکہ مخاطب کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار بھی نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح بھی کر لے۔
حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا کہ جماعت میں کسی شخص کو چھینک آئی، میں نے کہا: ’یرحمک اﷲ۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: ’کاش یہ مر چکا ہوتا تم مجھے کیوں گھور رہے ہو!‘ یہ سن کر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا، جب میں نے سمجھا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی سمجھانے والا نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جھڑکا نہ برُا بھلا کہا، نہ مارا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نماز میں باتیں نہیں کرنی چاہیں، نماز میں صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت کرنی چاہیے۔
(مسلم، الصحیح، کتاب الصلاة، باب تحریم الکلام في الصلاة ونسخ ما کان من إباحة، 1: 381، رقم: 537)
اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت رافع بن عمرو الغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا۔ (ایک دن) انصار مجھے پکڑ کرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: بیٹا! تم کھجوروں کے درخت پر پتھر کیوں پھینکتے ہو؟ میں نے عرض کیا: کھجوریں (اُتار کر) کھاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: درختوں کو پتھر نہ مارا کرو۔ جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں، اُنہیں اُٹھا کر کھا لیا کرو۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا: اے اللہ! تو اس کا پیٹ بھر۔
(أبو داؤد، السنن، کتاب الجهاد، باب من قال إنه یأکل مما سقط، 3: 39، رقم: 2622)
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں:
کُنْتُ غُـلَامًا فِي حَجْرِ رَسُوْلِ ﷲِ وَکَانَتْ یَدِي تَطِیْشُ فِي الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لِي رَسُوْلُ ﷲِ: یَا غُـلَامُ، سَمِّ ﷲَ وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِي بَعْدُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
’’میں لڑکپن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِکفالت تھا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیٹا! بسم اﷲ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھائو اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں‘‘۔
(بخاري، الصحیح، کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام والأکل بالیمین، 5: 2056، رقم: 5061-5063)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر ڈانٹے اور برا بھلا کہے نہایت پیار سے بچے کو کھانے کے آداب سکھا دئیے کہ اُس کی طبیعت پر ناگوار نہ گزرا بلکہ اُس پر عمل کو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا لیا۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ بُرا بھلا کہا بلکہ کمال محبت و شفقت سے بچے کو سمجھایا اور سمجھانے کے بعد دعا بھی دی۔ والدین کو بھی چاہیے کہ چھوٹے بچوں کو اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں موقع محل کے مطابق پیار اور محبت کے ساتھ غلطی پر یوں سمجھائیں کہ ان کا اس طرح سے سمجھانا بچوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے۔
تربیت اور حکمت
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاڈ پیار میں والدین بچے کی ناجائز ضد اس کے چیخنے چلانے کی وجہ سے پوری کر دیتے ہیں، اس سے بچے کی عادت بگڑ جاتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ رونا اور ضد کرنا اپنا مطالبہ منوانے کا مؤثر طریقہ ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اِسی ضمن میں کسی فیملی کا ایک واقعہ سنایا کہ گھر کی میز پر ٹشو باکس پڑا تھا اور دو سال کی بچی مسلسل ٹشو نکال کر خراب کر رہی تھی۔ میں نے اس کی بڑی بہن سے کہا: باکس اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیں۔اس پر بچی رونے لگی تو اس کی بڑی بہن دوبارہ اسے ٹشو باکس دینے لگی۔ میں نے ٹشو باکس دینے سے منع کر دیا تاکہ بچی یہ سمجھ جائے کہ رو کر وہ اپنا ناجائز مطالبہ منوا نہیں سکتی۔ یہ حربہ ناکام ہے۔پھر شیخ الاسلام نے اس کی بہن کو سمجھایا کہ بچی کو اس کی پسند کا کھلونا یا کوئی ایسی چیز دے دیں جس سے اس کی توجہ ضد سے ہٹ کر دوسری طرف مبذول ہو جائے تاکہ وہ ناجائز ضد کرنا چھوڑ دے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت اور تعمیرِ شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے والدین کو بطورِ خاص یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ باہمی گھریلو اختلافات اور ازدواجی جھگڑوں سے جس قدر ممکن ہو گریز کریں۔ کسی بات پر اختلاف ہونے کی صورت میں بچوں کے سامنے بحث و مباحثہ سے اجتناب کریں کیونکہ ان کی باہمی رنجش اور چپقلش کے اثرات بچے کے ذہن و دماغ پر شعوری اور لاشعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچے کم عمر ہوتے ہیں مگر ان کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ جب والدین آپس میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں تو بچے اپنے کسی رد عمل سے انہیں محسوس نہیں ہونے دیتے مگر وہ دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں اوریہی بھیانک منظر ان کی یاد داشت پر ثبت ہو رہا ہوتا ہے۔
وہ اکثر سوچتے ہیں کہ ہمارے والدین کے آپس کے جھگڑے تو ختم نہیں ہوتے۔ خوامخواہ ہم پر رعب ڈالتے ہیں۔ جب ماں بچوں پر کسی وجہ سے ناراض ہو رہی ہوتی ہے تو وہ دل میں کہتے ہیں کہ والد کی ناراضگی کا غصہ ہم پر نکال رہی ہیں۔ اسی طرح جب باپ غصے میں بچوں سے بات کرتا ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ امی، ابو کی بات نہیں مانتیں تو ابو غصہ ہم پر نکال رہے ہیں۔اس لیے والدین کو چاہیے کہ گھر کا داخلی ماحول خوشگوار بنائیں اور اپنے باہمی لڑائی جھگڑے یا اختلافات کا بچوں کے سامنے اظہار کرنے سے گریز کریں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت اور تعمیرِ شخصیت کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے بنی نوع انسان کو پندرہ سو سال قبل تعلیمات عطا فرما دی تھیں۔ بحمدہ تعالیٰ انہی تعلیمات کی روشنی میں پندرہویں صدی کی تجدیدی تحریک منہاج القرآن بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی تعمیرِ شخصیت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ شیخ الاسلام بچوں کی علمی و فکری اور روحانی و اخلاقی آبیاری کے لیے نہ صرف اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لائے بلکہ ان کے لیے شب بیداریاں، ایام بیض کے روزے، ماہانہ ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس، نظامت دعوت و تربیت کے ذریعے مختلف کورسز اور الھدایہ کورسز کے ذریعے احوال بدلنے کا سامان بھی فراہم کر رہے ہیں تاکہ حتی الامکان متوازن معاشرتی زندگی کے فروغ کے لیے بچوں کی شخصیت کی تکمیل احسن انداز میں ہو اور وہ اس کارگاہِ حیات میں پوری توانائی سے اپنا کردار ادا کرسکیں کیونکہ بچوں کی صلاحیتوں کا ارتقاء اور قومی ترقی کا راز بچوں کی اچھی تربیت اور اعلیٰ تعلیم میں مضمر ہے۔
تعلیماتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں بچوں کی تعمیرِ شخصیت کے موضوع کا احاطہ کرنے کے لیے بیسیوں کتب درکار ہیں۔ بحمدہ تعالیٰ فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ خواتین کے پلیٹ فارم سے درج ذیل تین کُتب: منظر عام پر آ چکی ہیں۔
- بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (رحم مادر سے ایک سال کی عمر تک)
- بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار (2 سے10سال کی عمر تک)
- بچوں کی تعمیر شخصیت (11سے16سال کی عمر تک)
اس موضوع پر ان کُتب سے استفادہ بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور ان کی اخلاقی و روحانی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔