ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین، محمد خلیق عامر
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَ اِذْ اَخَذَ ﷲُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلا َتَکْتُمُوْنَهٗ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ.
’’اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کرو گے اور (جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے) اسے نہیں چھپاؤ گے تو انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا‘‘۔
(آل عمران، 3: 187)
ایمان اور عقیدہ کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ اپنے فکر نظریہ اور عقل کو خیر باد کہتے ہوئے ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حبی، عشقی اور قلبی تعلق استوار کیا جائے اور علم و معرفت کے سارے پیمانے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیئے جائیں۔
آقا علیہ السلام کے حوالے سے عقیدہ کیسا ہونا چاہئے؟ اس امر کی وضاحت لفظ ’’عقیدہ‘‘ سے ہی ہوجاتی ہے۔ عقیدہ ’’عقد‘‘ سے ہے اور عقد، قلادہ (پٹے) کو کہتے ہیں۔ اگر کسی جانور کے گلے میں پٹہ ہو تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جس نے اس کے گلے میں پٹہ ڈالا ہے اور اگر جانور بغیر پٹے کے گھوم پھر رہا ہو تو کہتے ہیں اس کا کوئی والی، وارث اور مالک نہیں ہے۔ جب کسی کی غلامی و نوکری کا پٹہ گلے میں ڈال لیا جائے تو پھر نہ صرف اس غلام کی پہچان اس کا مالک بن جاتا ہے بلکہ اس محبوب پر سب کچھ نچھاور کردیا جاتا ہے۔ عقیدہ صحیحہ کے لئے ایسا قلبی تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ سب کچھ ذاتِ مصطفی اور حرمت و تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کردیا جائے۔ جس کے گلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا پٹہ ہو تو اس کے اعمال اور سیرت و کردار سے پتہ چلے کہ یہ سگِ درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ایسا عقیدہ اگر تشکیل پاجائے تو پھر اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
عقائد کا نقطۂ ارتکاز
یہ بات بڑی قابل توجہ ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ تعلیماتِ اسلام میں سے کون سی تعلیم، نظریہ اور عقیدہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔۔۔؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ عقیدہ توحید پر عقدِ قلبی ہو۔۔۔ کوئی کہہ سکتا ہے عقیدہ ایمان بالآخرت پر عقدِ قلبی ہو۔۔۔ اسی طرح کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسالتِ عمومی کے عقیدے پر عقدِ قلبی ہو، یہ تمام عقائد اپنی اپنی حیثیت میں مسلّمہ ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عقائد میں سے کون سا عقیدہ نقطۂ ارتکاز کی حیثیت رکھتا ہے اور اہل ایمان کے لئے مابہ الامتیاز عقیدہ ہے۔
یاد رکھیں! وہ عقیدہ جو باقی مذاہب اور اسلام میں مشترک ہو، وہ عقیدہ نقطۂ ارتکاز نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ اس سے مسلم و غیر مسلم کا فرق معلوم نہیں ہوسکتا۔ مثلاً: توحید کو مابہ الامتیاز عقیدہ سمجھنا درست نہیں، اس لیے کہ یہود و نصاریٰ کا بھی توحید پر عقیدہ ہے۔ آخرت کو بھی نقطہ ارتکاز اور امتیازی نقطہ ماننا درست نہیں کیونکہ آخرت پر تو یہود و نصاریٰ کا بھی عقیدہ ہے۔ رسالتِ عمومی (یعنی اللہ تعالیٰ، انبیاء و رسل کو مبعوث کرتا ہے) کو امتیازی عقیدہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ توریت و انجیل Old and New Testament میں بھی رسالتِ عمومی کا عقیدہ موجود ہے اور وہ بھی رسول اور نبی کو مانتے ہیں۔
اس ـصورتِ حال میں کہ جب توحید، رسالتِ عمومی اور ایمان بالآخرت کا عقیدہ ہر مذہب میں موجود ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودی، نصرانی اور مسلمان کے مابین عقیدہ کے لحاظ سے پہچان کرنی ہو کہ مابہ الامتیاز عنصر کیا ہے جس سے مسلمان نکھر کے سامنے آجائے اور اس انفرادی نقطہ پر اس کے ساتھ کوئی اور مشترک نظر نہ آئے؟
ذہن نشین کرلیں کہ وہ مابہ الامتیاز نقطہ اور عقیدہ صرف شان و عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو سب مذاہب سے اسلام کو ممتاز کردیتا ہے۔ اگر ہم نے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا نقطہ تلاش کرنا ہے تو عظمت و شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ عقیدہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ اس لیے کہ عقیدہ توحید و آخرت اور عقیدہ رسالت عمومی کا تصور مسلمانوں کو منفرد و ممتاز نہیں کرتا بلکہ فقط عظمت و شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ ہی وہ نقطۂ امتیاز ہے جو اسلام کو دیگر مذاہب سے منفرد و ممتاز کرتا ہے۔
یہود و نصاریٰ اس نقطہ امتیاز کو نہیں مانتے تھے، وہ باقی سب عقائد رکھتے تھے مگر عظمت و شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شناسائی نہ ہونے کے سبب وہ اسلام سے دور رہے۔
سورۃ بقرہ و سورۃ آل عمران کا مطالعہ کریں تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ سب یہود و نصاریٰ ایک جیسے نہ تھے بلکہ ان میں ایماندار بھی تھے، راتوں کو اٹھ کر قیام کرنے والے بھی تھے، سجدہ ریز ہونے والے اور آیات کی تلاوت کرنے والے بھی تھے، حتی کہ ایسے بھی تھے کہ جب حق بات سنتے تو ان کی آنکھیں برسنے لگ جاتی تھیں، رونے والے بھی تھے اور تقویٰ اختیار کرنے والے بھی تھے، الغرض یہ سب اوصاف ان کے اندر موجود تھے لیکن جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو درج بالا اوصاف کے حامل اہل کتاب کو کہا گیا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ اس موقع پر واضح تقسیم ہوگئی۔ جو ایمان نہ لائے ان کے سجدے بھی گئے۔۔۔ ان کے قیام اللیل بھی گئے۔۔۔ ان کا خدا کے نام کو سن کر رونا بھی اکارت گیا۔۔۔ ان کی امانت و دیانت بھی گئی۔۔۔ تقویٰ و خوف خدا بھی گیا۔۔۔ عقیدۂ عظمت و شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور غلامی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کا سب کچھ رد کردیا۔
معلوم ہوا کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان بھی ایمان اور عقیدے کا امتیاز، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے علاوہ کوئی اور شے نہیں۔
قرآن اور میثاق اہل کتاب
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کو اختیار کرنا اور عقیدہ عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا نہ صرف مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کی ولادت سے پہلے بنی اسرائیل کو بھی ’’غلامیٔ مصطفی‘‘ کا عقیدہ دیا تھا۔ ارشاد فرمایا:
وَ اِذْ اَخَذَ ﷲُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلا َتَکْتُمُوْنَهٗ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ.
’’اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کرو گے اور (جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے) اسے نہیں چھپاؤ گے تو انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا۔‘‘
(آل عمران، 3: 187)
کُل ائمہ نے بیان کیا کہ آیتِ مبارکہ میں مذکور لفظ ’’لتبیننہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ ضمیر کا مرجع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مطہرہ ہے یعنی تم میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی شان کو لوگوں میں علی الاعلان بیان کرنا اور ان کی عظمتوں کو لوگوں سے ہرگز نہ چھپانا۔ تمہاری کتب میں مذکور میرے محبوب کی شان کا تذکرہ جب آئے تو اس سے اعراض ہرگز نہ برتنا بلکہ مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کو بہر صورت بیان کرنا اور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان کرتے رہنا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد امام سُدّی ’’سدّی الکبیر‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
إنَّ ﷲَ أَخَذَ مِیْثَاقَ الیَهُوْدَ لَیُبَیِّنُنَّهٗ لِنَّاسِ مُحَمَّدَا.
’’اللہ نے یہود سے شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں میں بیان کرنے کا وعدہ لیا تھا‘‘۔
یعنی ایمان تو لاؤ گے مگر خالی ایمان لا کر چُھپا لو تو وعدہ خلافی ہوگی لہذا لَتُبَیِّنُنَّهٗ ہر جگہ پر تمہارا موضوع ہی شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہو۔ میری توحید تو ہر کوئی بیان کرے گا مگر اُس سے وعدہ پورا نہیں ہو گا بلکہ جب میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے ڈنکے بجاؤ گے تب وعدہ ایفاء ہوگا۔
حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنہ سے مذکورہ آیت کا معنی پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے کہ شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھول کر بیان کرنا اور اس بیان میں بخیلی و کنجوسی نہ کرنا۔اس آیت مبارکہ کی یہی تفسیر امام قرطبی، بغوی، طبری، عکرمہ رضی اللہ عنہ، سعید ابن جبیر رضی اللہ عنہ، السّدی الکبیر، حضرت مجاہد تابعی، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن جریج نے بیان کی اور کہا:
اَلَّتِی أَحِطُّهَا إلَیْکُمْ فِیْ شَانِ محمدٍ صلی الله علیه وآله وسلم.
میں نے شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنے کا تم سے جو وعدہ لیا، اُس کو پورا کرنا۔
الغرض تمام کتبِ تفسیر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ عقیدۂ شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہ سو سال سے چلا آ رہا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ عقیدہ کسی نے آج کے دور میں گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے سے وعدہ لے لیا تھا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لانا اور اُن کی شان کے ڈنکے بھی بجانا۔ جو اُن کی شان کے ڈنکے نہیں بجائے گا وہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے وعدہ کو ایفاء نہ کرے گا۔ معلوم ہوا عقیدہ مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقط اہل سنت کا نہیں بلکہ یہ عقیدہ جمیع انبیاء اور اُن کی امتوں کا بھی تھا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل انبیاء کی امتوں کے مومن ہونے کی شرط یہ تھی کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے ڈنکے بجاؤ، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاؤ، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لو اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی معرفت رکھو۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے بھی معیارِ ایمان اور معیارِ عقیدہ مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا اور آج بھی یہی معیار ہے اور یہی عقیدہ قیامت تک ہے۔
لہذا عقیدہ اُسی کا صحیح ہے جسے مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح معرفت ہے۔ اوّل سے آخر تک اور مرنے کے بعد قبر میں بھی جس کے پاس معرفتِ عظمت و مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ ہوگا وہی مومن ہوگا۔ اگر اس میں کوئی کمی کجی رہی تو جس طرح پہلے لوگ دائرہ ایمان سے نکل گئے اسی طرح آج کے زمانے میں بھی لوگ دائرہ ایمان سے خارج متصور ہوں گے۔ مقامِ مصطفی کی معرفت کے بغیر کوئی عقیدہ نہ دنیا میں کام آئے گا اور نہ قبر و آخرت میں کام آئے گا۔
قبر میں بھی مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوچھا جائے گا
حضرت براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ قبر میں تین سوال ہوں گے:
مَنْ رَّبُّکَ؟ مَا دِیْنُکَ؟ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِی هٰذا الرَّجُلٍ مَحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم؟
’’تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟‘‘
امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیحین میں ان تین سوالوں والی روایت نقل نہیں کی۔ صحیحین میں درج روایت کے مطابق قبر میں ایک ہی سوال ہو گا اور وہ یہ کہ
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّی عَنْهُ أَصْحَابُهُ إِنَّهُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ قَالَ یَأْتِیهِ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِهِ فَیَقُولَانِ لَهُ مَا کُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لمُحَمَّد.
’’جب بندے کو اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس پلٹ جاتے ہیں تو وہ میت واپس جانے والوں کے جوتوں کی آہٹ کو بھی سنتی ہے۔ اس کے بعد اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو اٹھا کر بٹھادیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس ہستی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا‘‘۔
(بخاری، الصحیح، 1: 462، الرقم: 1308)
اس موقع پر ضمناً اس امر کی بھی وضاحت کردوں کہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قبروں میں اولیاء ہمارا سلام کس طرح سنتے ہیں؟ ہم نے یہ عقیدہ کہاں سے لیا ہے؟ جان لیں کہ مذکورہ حدیث مبارکہ سے اس سوال کا جواب بھی مل رہا ہے کہ جب میت دفنا کر واپس جانے والوں کے جوتوں کی آہٹ کو بھی سنتی ہے تو ہمارا سلام سننے میں کیا امر مانع ہے۔
مذکورہ روایت میں کُنْتَ کا صیغہ استعمال ہوا ہے، یاد رکھیں! کَانَ، یَکُوْنُ جب مضارع پر آتا ہے تو ماضی استمراری کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ ان کے بارے میں اب کیا کہتا ہے، اس لیے کہ جب قبر میں پردے اٹھا دئیے جائیں گے اور چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے ہو گا تو ہر بھولے ہوئے کو بھی سبق یاد آ جائے گا، پتہ چل جائے گا کہ یہ تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں چونکہ شان آشکار ہوچکی ہوگی، لہذا یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ ان کے بارے میں اب تیرا عقیدہ کیا ہے؟ بلکہ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ دنیا میں جب تو تقریر کرتا تھا تو اس وقت ان کے بارے میں کیا کہتا تھا؟
آج لے اُن کی پناہ آج مدد مانگ اُن سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
قبر میں جب چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے ہو گا تو انکار کی مجال نہ ہوگی، لہذا اس وقت کا ماننا قبول نہ ہوگا بلکہ پوچھا جائے گا کہ بتا زندگی بھر ان کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟ جب میرے مصطفی کے تذکرے پڑھتا یا سنتا تھا تو تیرا چہرہ کِھل اُٹھتا تھا یا تو تکلیف محسوس کرتا تھا؟ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں وہ عقیدہ پوچھا جائے گا جو اِس دنیا میں اس نے اختیار کیے رکھا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کو قبر میں آزمایا جائے گا۔
فَأمَّا فِتْنَةُ القَبْرِ فَبِیْ تُفْتَنُوْنَ وَعَنِّيْ تُسْئَلُوْنَ.
یعنی قبر کی آزمائش یہ ہے کہ صرف میری ذات اور میری شان کے بارے میں تمہیں آزمایا جائے گا اور میرے متعلق سوال کیا جائے گا۔
(احمد بن حنبل، المسند، 6: 139، الرقم: 25133)
یہ روایت اس امر پر نصِ صریح ہے کہ قبر میں جو آزمائش ہوگی اس کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے ہے۔
قبر میں پوچھے جانے والے سوالات کی تطبیق
سنن ابوداؤد اور نچلے درجے کی کتب حدیث میں قبر میں پوچھے جانے والے تین سوالات کا ذکر آیا ہے جبکہ صحیح بخاری و مسلم میں تین سوال نہیں آئے۔ اس کی تطبیق کیا ہے؟
یاد رکھیں! اگر متفق علیہ حدیث میں کچھ اور ہو اور نچلے درجے کی کتبِ حدیث میں اُس سے مختلف مضمون ہو اور تطبیق نہ ہو سکے تو متفق علیہ کو اختیار کیا جائے گا۔ لیکن مذکورہ روایات میں تطبیق ممکن ہے۔ذیل میں اس مسئلہ کی دو تطبیقات بیان کی جارہی ہیں:
1۔ وہ روایت جس کے مطابق قبر میں تین سوالات پوچھے جائیں گے، یہ تین سوالات بھی حق ہیں اور صحیحین میں مذکور ایک سوال بھی حق ہے۔ اس کی پہلی تطبیق یہ ہے کہ پہلے دو سوال اختیاری (Optional) ہوں گے اور تیسرا سوال لازمی ہو گا۔ پہلے سوال کا جواب دیا یا نہ دیا تب بھی دوسرا سوال ہو گا، دوسرے سوال کا جواب آیا یا نہ آیا تب بھی تیسرا سوال ہو گا اور اگر تیسرے سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ میں آیا تو اُس کے بعد کوئی چوتھا سوال نہیں ہوگا۔ معرفت ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو گئی تو جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔
2۔ دوسری تطبیق یہ ہے کہ پہلا سوال کہ تیرا رب کون ہے؟ یہ سوال اس بات کے تعین کے لیے ہے کہ آیا خدا کو مانتا بھی ہے؟ یا نہیں؟ الہامی مذاہب سے ہے یا غیر الہامی مذاہب سے ہے اگر اُس نے کہہ دیا کہ میرا رب اللہ ہے، تو اس سوال سے یہ معلوم نہ ہوا کہ مسلمان ہے یا غیر مسلم؟ اس لیے کہ اللہ کو یہودی اور عیسائی بھی مانتے ہیں۔ اس لیے دوسرا سوال ہوا کہ تمہارا دین کیا ہے؟ اگر اُس نے کہا کہ میرا دین اسلام ہے تو پھر واضح ہو گیا کہ یہ مسلم ہے۔ یعنی پہلے دو سوال کھنگالنے کے لیے ہیں کہ پتہ چلے کہ یہ کون ہے؟ جب پتہ چل گیا کہ یہ مسلمان ہے، تو پھر مسلمان کے لیے ایک ہی سوال ہے اور وہ مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ہے۔
گویا پہلے دو سوال اُس کے مذہب کے تعین کے لیے ہیں اور جب تعین ہو جائے گا کہ دین اسلام میں سے ہے تو پھر اُس سے پوچھا جائے گا:
مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ هٰذَا الرَّجُلْ.
اب بتا! مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام کیا ہے؟ گویا مسلمان کے لیے ایک ہی سوال ہے۔ امام بخاری نے ایک ہی سوال والی روایت اس لیے ذکر کی تاکہ واضح کردیں کہ مسلمانو! اپنی تیاری کر لو، جب تمہارے مذہب کا تعین ہو جائے گا تو ایک ہی سوال ہو گا اور وہ سوال مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ہو گا۔ لہٰذا آج مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان کر لو۔
عقیدہ کی اصلاح کے لیے بنیادی چیز اوّل تا آخر معرفتِ مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اگر اس پر عقیدہ صحیح ہے تو کئی کمزوریاں معاف کر دی جائیں گی اور اگر مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے عقیدہ میں گڑ بڑ ہے تو بڑے بڑے اعمال بھی قابلِ قبول نہیں۔
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
عقیدہ صحیحہ اور مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت کے حصول کے لیے دو ہی سر چشمے ہیں:
- قرآن
- حدیث
قرآن اور حدیث جو عقیدہ بتائیں، وہ عقیدہ حق ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے اپنے تصورات گھڑ رکھے ہیں، ہمارے اپنے معیارات ہیں، ہم ان پر ہی قرآن اور حدیث کو ڈھالنا چاہتے ہیں اور قرآن و حدیث پر قاضی بنتے ہیں۔ یاد رکھیں! جو قرآن، حدیثِ او ر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہو وہ عقیدہ لے لیں اور اپنے من گھڑت معیار اور تصورات سے کنارہ کشی کرلیں۔
ہمارا عالم یہ ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اللہ کے ذکر کے ساتھ کر دیں، اللہ اور رسول کی بات اکٹھی کر دیں تو ہمارے تصورِ توحید میں لرزہ آجاتا ہے۔ ہم کہہ دیتے ہیں کہ رسول کو اللہ کے ساتھ ملا دیا (استغفراللہ العظیم) یہ بات ذہن نشین رہے کہ رسول کو اللہ کے برابر کرنے کی سوچ کفر و شرک ہے، مگر یہ کہنا کہ رسول کو اللہ کے ساتھ ملا دیا، یہ تصورِ جہالت ہے۔ اس لیے کہ ملایا اُسے جاتا ہے جو پہلے جدا ہو، رب نے تو رسول کو اپنے آپ سے جدا ہی نہیں کیا۔
قرآن مجید میں سو (100) سے زائد مقامات ہیں جہاں اللہ نے اپنے اور اپنے محبوب کے ذکر کو جوڑا ہے او ر برابر رکھا ہے، مگر جدا نہیں کیا۔ اللہ کے ہاں قاعدہ یہ ہے کہ اُس نے عبادت کے علاوہ کوئی مقام ایسا نہیں رکھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سے جدا کیا ہو۔ صرف عبادت رسول کے لیے نہیں، باقی ہر بات اور حق میں اُس نے محبوب کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ محبت، ادب، اتباع، بیعت، اطاعت، قربت، رضا الغرض ہرشے میں شریک کر لیا۔
سات آیات قرآن میں ایسی ہیں جہاں اللہ نے اپنا اور اپنے رسول کا ذکر ضمیرِ واحد کے ساتھ ملا کر کیا ہے۔ مثلاً: ایک مقام پر فرمایا:
وَ مَنْ یَّعْصِ ﷲَ وَرَسُوْلَهٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَاص وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌo
’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلّت انگیز عذاب ہے۔‘‘
(النساء، 4: 14)
ائمہ تفسیر لکھتے ہیں کہ آیت کریمہ میں ذکر دو کا ہے، لہذا کہنا چاہیے تھا ’’یَتَعَدَّ حُدُوْدَهُمَا‘‘ جس نے اُن دونوں کی حدود کو توڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر کر کے یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ میں ’’هٗ‘‘ ضمیر واحد استعمال کی۔ اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا ﷲَ وَرَسُوْلَهٗ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے رُوگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔‘‘
(الأنفال، 8: 20)
یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے عنہما نہیں فرمایا کہ ان دونوں سے منہ نہ پھیرو بلکہ فرمایا: اُس سے منہ نہ پھیرو۔ ضمیرِ واحد کا استعمال یہ واضح کرنے کے لیے ہے کہ جس کا چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھر گیا وہ خدا سے پھر گیا۔ اس لیے کہ خدا اور مصطفی کا رُخ ایک ہے۔
اسی طرح فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا ِﷲِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ.
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دونوں) کی طرف فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔‘‘
(الأنفال، 8: 24)
لغوی اعتبار سے چاہیے تھا کہ کہا جاتا إذا دَعَواکُمْ اللہ اور اُس کا رسول (دونوں) تمہیں بلائیں۔ مگر یہاں بھی صیغہ واحد ’’دَعَاکُمْ‘‘ استعمال فرمایا۔ وہ دو کو ایک کر دیتا ہے اور ضمیر ایک کی استعمال کرتا ہے تا کہ پتہ چل جائے کہ خدا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت بھی ایک ہے اور خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استجابت بھی ایک ہے۔
حضرت سعید بن المعلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
کُنْتُ أُصَلِّي فَمَرَّ بِي رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّی صَلَّیْتُ ثُمَّ أَتَیْتُهُ فَقَالَ مَا مَنَعَکَ أَنْ تَأْتِيَ أَلَمْ یَقُلِ اﷲُ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ}
’’میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میرے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا۔ آپ نے مجھے بلایا لیکن میں آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ جب میں نماز پڑھ چکا تو حاضرِ بارگاہ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: تمہیں میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکا جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہوجایا کرو جب رسول تمہیں بلائیں۔‘‘
(بخاری، الصحیح، 4: 1704، الرقم: 4370)
امام قرطبی نے اس مقام پر امام شافعی کا فتویٰ نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
إنَّ الصلٰوةَ لَا تَبْطُلُ لأمْرِ رسول اﷲ بلإجابة وإن کانَ في الصلٰوة.
’’جب آقا بلائیں اور نمازی نماز میں ہو تو آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں چلے جانے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔‘‘
لوگو! صحابہ کرام کی توحید کو بھی دیکھو اور آج اپنی توحید کو بھی دیکھو۔ ہم نے جو توحید گھڑ لی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھیان بھی آ جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے اور صحابہ کی توحید بتاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرف کام کے لیے بھیجیں وہ کام بھی کر آئیں تب بھی نماز نہیں ٹوٹتی۔ تم دھیان پر نماز ٹوٹنے کا اعتراض کرتے ہو جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوکری اور کام پر بھی نماز نہیں ٹوٹتی۔
صحابہ اور ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے من گھڑت عقائد کے برتن توڑ دیں اور عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت صحابہ کرام سے لیں۔ جو ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ تھا، جو اہلِ بیت اطہار کا عقیدہ تھا، وہی عقیدہ حق ہے۔ قرآن و سنت کو ان شخصیات سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا تھا۔
یہ جاننے کے لیے کہ کس کا عقیدہ صحیح، کس کا غلط۔۔۔ کون حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وفادار اور کون تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غدار۔۔۔ کس کی قبر و آخرت میں بخشش ہو گی اور کون زنجیروں میں جکڑا جائے گا۔۔۔ یہ جاننا ہوـ تو دیکھا کریں کہ کتب حدیث سے چُن چُن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت سے متعلق احادیث کون بیان کرتا ہے اور کون عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و معرفت سے متعلقہ احادیث کو بیان کرنے سے احتراز برتتا اور انہیں لوگوں سے چھپاتا پھرتا ہے۔ اگر کوئی غلام ہے تو وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتے کرتے کبھی نہیں تھکے گا اور جو معلوم ہونے کے باوجود بھی عمر بھر کسی کو ایسی احادیث نہ بیان کرتا ہو تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس کا مقامِ و عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق عقیدہ صحیح نہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عظمت و مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ادب و احترام کے اس مقام پر تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال بھی نیچے نہیں گرنے دیتے تھے۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
رَأَیْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم وَالْحَلَّاقُ یَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ فَمَا یُرِیدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِي یَدِ رَجُلٍ.
’’میں نے دیکھا کہ حجام آپ کا سر مونڈ رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب آپ کے گرد گھوم رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان کے ہاتھ میں گرے۔‘‘
(مسلم، الصحیح، 4:1812، الرقم: 2325)
یہ آداب نہیں کس نے سکھائے تھے؟ کیا اس طرح کرنے کا یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیا تھا؟ جب صحابہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بال اور وضو کا قطرہ بھی گرنے نہ دیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے اس عمل کو ملاحظہ بھی فرمارہے ہوں اور زبان سے خاموش رہیں اور صحابہ کرام کو منع بھی نہ کریں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے اس عمل کی خود توثیق کر دی جس سے یہ حدیثِ تقریری بن گئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:
أیما أکبر أنت أم النبی صلی الله علیه وآله وسلم؟
’’آپ دونوں میں سے عمر میں بڑا کون ہے؟ آپ بڑے ہیں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟‘‘
(حاکم، المستدرک، 3: 362، الرقم: 5398)
فقال: هو أکبر مني وأنا ولدت قبله.
’’فرمایا: بڑے وہی ہیں، میں پیدا اُن سے پہلے ہو گیا تھا۔‘‘
صحابہ کے کلمات، زبان، تعلق، ایمان الغرض ہر پہلو میں ادب تھا، چلتے پھرتے ہمہ وقت سراپا ادب رہتے تھے۔ جب تک آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس طرح کا ادب ہم اپنی زندگیوں میں نہیں لائیں گے، ہم کسی طرح بھی صاحبِ ایمان اور صاحب عقیدہ نہیں بن سکتے۔
اس لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ عقیدہ مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے علاوہ کسی سے نہ لیں۔ ہر ایک کا دیا ہو عقیدہ غلط ہو سکتا ہے مگر صحابہ اور اہل بیت کا دیا ہو ا عقیدہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ قرآن و حدیث کا جو فہم اور معرفت اُن کو تھی، وہ کسی اور کو قیامت تک نہیں مل سکتی۔ کچھ لوگ اپنا باطل زعم اونچا سمجھتے ہیں اور قرآن و حدیث کو نیچا سمجھتے ہیں، انہیں ایسے خیالات سے توبہ کرنی چاہئے۔
جہاں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور توحید کی حدیں مل جائیں اور ایک دوسرے کو نہ توڑیں وہ مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحیح عقیدہ ہے۔ یہ حدیں جڑی رہیں مگر کراس نہ ہوں، عبد عبد رہے اور معبود معبود رہے۔۔۔ خدا خدا رہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہے۔۔۔ وہ دونوں شان میں الگ بھی رہیں اور جدا بھی نہ ہوں۔ جب یہ مقام عقیدہ میںآجائے تو پھر آقا علیہ السلام کی اطاعت، خدا کی اطاعت۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، خدا کی محبت۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب، خدا کا ادب۔۔۔ آقا علیہ السلام کی حرمت، خدا کی حرمت۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت، خداکی بیعت۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طلب، خدا کی طلب۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا، خدا کی رضا۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا، خدا کی عطا۔۔۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غنا، خدا کاغنا۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت، خدا کی قربت۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی، خدا کی بے ادبی۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ کا پھر جانا، خدا سے مرتد ہونا ہے۔ گویا عقیدہ اور ایمان کی وہ بنیاد جو آقا علیہ السلام نے ہمیں دی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے عمل سے ہمیں سکھائی، وہ بنیاد معرفتِ مقام مصطفی ہے اور اگر کسی کا اس پر عقیدہ درست نہیں تو کوئی شے اس کے کام نہیں آئے گی۔
اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بدقسمتی سے آج کے دور میں عقائد کی غلط ہونے کی وجہ سے فرقے بن گئے اور فرقوں میں اختلاف کی وجہ سے جنگیں ہوئیں، جو امت مسلمہ کے ٹکرے ٹکرے ہونے کا سبب بنیں۔ آقا علیہ السلام کی ذاتِ اقدس اُمت کو جوڑنے کے لئے ہے۔ لہذا عقیدے کی درستگی اور ایمان کی حفاظت کے لیے ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق جوڑنا ہوگا۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم فَقَدْ أَطَاعَ ﷲَ وَمَنْ عَصَی مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم فَقَدْ عَصَی ﷲَ وَمُحَمَّدٌ صلی الله علیه وآله وسلم فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ.
’’جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن پکڑ لیا، اُس نے اللہ کا دامن پکڑ لیا اور جس نے حضور کو چھوڑ دیا، اُس نے اللہ کو چھوڑ دیا۔ حق اور باطل میں فرق صرف مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا ہے‘‘۔
(بخاری، الصحیح، 6: 2655، الرقم: 6852)
نیک و بد اور مومن و کافر میں فرق ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں رکھے جانے والے عقیدہ سے شروع ہوتا ہے۔ دنیا و آخرت کی بخششیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق عقیدۂ صحیح، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی معرفت میں ہے۔ اس عقیدے کو درست کرلیں، یہی نقطۂ ارتکاز، نقطہ اتحاد، نقطہ فلاح اور نقطہ نجات ہے۔ اسی سے خیر کے سارے راستے نکل آئیں گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
یعنی جو اس رسول پر اس شان کے ساتھ ایمان لائے وَعَزَّرُوْهُ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال درجہ ادب کرے وَنَصَرُوْهُ اور اُس رسول کے دین کی مدد کرے وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَهٓٗ اور پھر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اتباع کرے اُسی کو فلاح نصیب ہوگی۔
(الأعراف، 7: 157)
شانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علی الاطلاق بلندی
ایمان کا مرکز و محور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ یاد رکھ لیں! مقام و شان رسالت پر زور دینا ہرگز مبالغہ نہیں ہے۔ مبالغہ اُس وقت ہوتا ہے جب کسی کو اُس کی شان سے بڑھا دیا جائے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو تو اللہ نے بڑھا دیا ہے۔ فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کر دیا۔‘‘
(الم نشرح، 94: 4)
ذکر کا ایک معنیٰ شان ہے یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو بلند کر دیا ہے۔ بلندی اضافت کی چیز ہے۔ مثلاً: یہ چھت اِس چھت سے بلند ہے، یہ مکان اِس مکان سے بلند ہے، گویا بلندی کے لئے مقابلہ اور موازنہ ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کی شان میں بلندی کی بات کی تو ساری اضافتیں ختم کر دیں اور علی الاطلاق فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
یعنی کوئی شے شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں ہے ہی نہیں۔ جب مقابلہ ہی نہیں تو شانِ مصطفی ہر ایک سے بلند ہے۔ اللہ رب العزت وَرَفَعْتُ (میں نے بلند کردی) بھی کہہ سکتا تھا مگر عربی لغت اور بلاغت کا قاعدہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کہے کہ میںنے کیا، تب بھی وہی بات، جب کہے کہ ہم نے کیا تب بھی وہی بات، مگر جمع کا صیغہ استعمال کرکے وہ نفسِ مضمون میں تاکید اور قوت پیدا کرتا ہے اور سننے والوں کو جھنجوڑتا ہے کہ وَرَفَعْنَا ہم نے محبوب کی شان کو بلند کیا۔ ’ہم نے‘ فرماکر وہ چیلنج کر رہا ہے کہ اگر ہم سے کوئی بڑا ہے تو گھٹا کر دکھا دے۔ ہم بلند کرنے والے ہیں اور ہم نے شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی الاطلاق بلند کر دی کہ کسی سے مقابلہ نہ رہا۔ جب علی الاطلاق بلند کر دیا اورمقابلے میں کوئی شے نہ رکھی تو گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کُل عالمِ خلق سے بلند ہوگئی، عالم مکاں و لامکان، سدرۃ المنتہٰی اور عرشِ معلی سے بھی بلند ہوگئی۔ اس لئے فرمایا:
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰیo
(النجم، 53: 8-9)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اللہ تعالیٰ نے دَنٰی سے فتدلّٰی، فتدلی سے قَابَ قَوسَین اور قاب قوسین سے اَوْ اَدْنٰی تک اتنی بلند کر دی کہ اُس کی کوئی حد ہی نہ رہی۔ جب رب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی کوئی حد مقرر نہیں کی سوائے ایک حد کے اور وہ حد یہ ہے کہ خدا خدا رہا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہا۔۔۔ وہ خالق اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق۔۔۔ وہ معبود اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبد۔۔۔ وہ محب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوب۔۔۔ وہ مُرسِل اور حضور مُرسَل۔۔۔ اس فرقِ احدیت اور فرقِ عبدیت کے سوا کوئی اورفرق نہ رہا۔ لہذا جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا بنائے وہ بھی کافر اور جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا سے جدا بنائے وہ بھی کافر۔ رب نے اَوْ اَدْنٰی کہہ کر حدیں ختم کردیں اور شانِ محمدی علی الاطلاق بلند کردی۔
لوگو! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نہ جانو لیکن خدا سے جدا بھی نہ جانو، یہ عقیدئہ صحیح ہے۔ جتنی چاہو شانیں بلند کر لو، ہمارے خیالات اور الفاظ ختم ہوجائیں تب بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان سے کم رہیں گے۔
جس کی شان خود خدا بلند کردے اور ہر آنے والے لمحے میں مزید بلندیاں عطا کررہا ہو اس محبوب کی شان کو امتی کیسے بڑھا یا گھٹا سکتا ہے۔ ہم امتی جو نیچے ہیں وہ اُوپر والے کو کیا بڑھائیں گے؟ ہمارا تو دماغ، فہم، علم، ذکر اور بیان بھی اُس بلندی پر نہیں پہنچتا جس پر پہلے سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فائز ہیں۔
لہٰذا مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی یہ ہے کہ
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اللہ ہی کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو
آقا علیہ السلام کے عشق، محبت، تعظیم اور توقیر کے تعلق میں اور مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت میں اس طرح جڑ جائیں جس طرح صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار جڑے تھے تو دنیا اور آخرت میں ہر جگہ خیر ہو گی۔ اگر اس عقیدے میں کمزوری رہ گئی تو کوئی عمل قبول نہیں ہوگا بلکہ ہرعمل خوارج کی طرح رد کر دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی معرفت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم