ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَآ اَذًیط وَﷲُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ.
’’(سائل سے) نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو، اور اﷲ بے نیاز بڑا حلم والا ہے‘‘۔
(البقره، 2: 263)
انسان کی زندگی میں اس کی حقیقی پہچان اس کا قول اور اس کا فعل ہے۔ اگر انسان کی کل زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی ساری حیات سمٹ کر دو چیزوں تک محدود اور مقید ہوجاتی ہے:
- قول
- فعل
قرآن ان دونوں چیزوں کو سنوارنے اور ان کو اعلیٰ و افضل بنانے کے لیے بار بار ترغیبات دیتا ہے کہ ہر انسان اپنے قول کو قولِ احسن کیسے بنائے اور اپنے فعل کو فعلِ احسن کیسے کرے؟
قول کا تعلق زبان سے ہے اور فعل کا ناطہ سارے اعضاءِ جسد سے ہے، قول جب نرمی سے معمور اور درگذر سے بھرپور ہوجائے تو وہ قولِ حلیم بن جاتا ہے اور فعل جب نیکی سے مزین ہوجائے اور صالحیت سے آراستہ ہوجائے تو فعلِ صالح بن کر انسان کی فوزِ دنیوی اور نجاتِ اخروی کا باعث بن جاتا ہے۔
حِلم کا مفہوم
حِلم اور رِفق دونوں قول کی صفات ہیں۔حِلم درگذر کرنے، معاف کرنے، نظر انداز کرنے اور بخش دینے کو کہتے ہیں۔ خُلقِ حِلم سے مراد وہ انسانی خُلق ہے جس میں کسی کی کوتاہی و غفلت پر اس سے درگذر کیا جائے اور کسی بدعملی اور سستی پر اس سے صرفِ نظر کیا جائے۔
باری تعالیٰ نے اپنی ذات کو اپنے بندے کے سامنے اپنی شانِ حلم کے ساتھ متعارف کرایا ہے۔ جب باری تعالیٰ خود کو ’’حلیم‘‘ کہتا ہے اور بندے بھی اپنے رب کو شانِ حلم کے ساتھ دیکھتے ہیں تو اس شانِ حلم کا معنی یہ ہے کہ وہ رب جو اپنے بندوں کے گناہوں پر گرفت کرنے کی بجائے درگذر کرے، ان کی خطائوں سے صرفِ نظر کرے، غفلتوں کو معاف کردے تو بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ آپس کے تعلقات میں اللہ تعالیٰ کی اسی صفت کی روشنی سے اپنی سیرت و کردار کو منور کریں۔
رِفق کا مفہوم
رِفق کا معنی نرمی اختیار کرنا اور دوسرے پر رحم و مہربانی کرنا ہے۔ رِفق میں دوسرے کو نفع پہنچانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ جب بندہ دوسروں کی مدد کرے، دوسروں کا سہارا بنے، دوسروں کے لیے دوستانہ اور محبانہ سلوک کو فروغ دے، دوسروں کو اپنا ساتھی بنائے اور دوسروں کے لیے نفع رسانی کا باعث ہو تو ایسے خُلق کو خُلقِ رِفق کہتے ہیں۔
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ رب العزت ’’قَوْلٌ مَعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ‘‘ میں اپنی شانِ حلم کو بیان کررہا ہے۔ وہ اپنے بندوں کو قولِ معروف اور قولِ غفران کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جب انسان کا قول، قولِ معروف، قول لین، قول غفران، قول معانی اور قول درگذر میں ڈھل جائے تو تب جاکر انسان بھی خُلقِ حِلم اور خُلقِ رِفق کا حامل ٹھہرتا ہے۔ اللہ رب العزت اپنے بندوں میں قولِ معروف سے جنم لینے والے ’’حلم‘‘ کو دیکھنا چاہتا ہے اور قولِ مغفرۃ سے ظاہر ہونے والی رِفق کا اظہار دیکھنا چاہتا ہے۔ جب بندہ ان خدائی صفات سے خود کو مزین کرلیتا ہے تو وہ عبدِ صالح اور عبدِ کامل بن جاتا ہے اور یوں اپنے خُلق میں حلیم اور رفیق ٹھہرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خُلقِ رِفق و حِلم
باری تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خُلقِ حِلم اور خُلقِ رِفق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَهُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَص فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ.
’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں‘‘۔
(آل عمران، 3: 159)
اس آیتِ کریمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خُلقِ رِفق اور خُلقِ حِلم کو واضح کیا ہے۔ خُلقِ رِفق کو باری تعالیٰ نے ’’لنت لہم‘‘ کے کلمات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہیں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں پر مہربانی اور کرم نوازی کرنے والے ہیں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے لوگوں سے محبت و نرمی اور شفقت و مہربانی سے معمور اور مملو سلوک کرنے والے ہیں۔۔۔ اسی خُلقِ رِفق کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے لوگوں کی بات کو نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان کے مسائل کے حل میں ان کی مدد و نصرت کرتے ہیں اور ہر ممکن دوسرے لوگوں کو نفع پہنچاتے رہتے ہیں۔۔۔ یہ نرمی اور نفع رسانی کا عمل ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خُلق کو خُلقِ رِفق بنائے ہوئے ہے۔
اس خُلقِ رِفق کی بنیاد اور اساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خُلقِ حِلم بنتا ہے۔ خُلقِ حِلم میں دوسروں کا بوجھ اٹھانا، دوسروں کے ناروا قول اور ناموزوں فعل پر صبر کا مظاہرہ کرنا آتا ہے۔ خُلقِ حِلم میں دوسرے کے غیر مہذب قول اور فعل کو برداشت کرنا آتا ہے۔ حتی کہ تحمل اور برداشت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں معاف کردینا اور ان سے درگذر کرنا اور ان سے باوجود قدرت کے انتقام نہ لینا ہے۔ قرآن بیان کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خلق اس وجہ سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلیظ القلب نہیں بنائے گئے بلکہ رقیق القلب بنائے گئے ہیں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں سختی و ترشی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ انور میں نرمی و مہربانی ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں دوسروں کے لیے نفرت کی بجائے محبت ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسروں کو خود سے دور کرنے کی بجائے اپنے قریب کرتے ہیں۔
خُلقِ رِفق اور خُلقِ حِلم کا اثر دوسروں کو اپنے قریب کرنا اور غیروں کو اپنا بنانا ہے، ان کو خود سے جدا کرنا اور دور کرنا نہیں ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی بداخلاق آتا، کوئی تہذیب و تمدن سے عاری اور شائستگی و سنجیدگی سے محروم آتا، کوئی جہالت کا پروردہ اعرابی اور بدو بھی آجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حِلم اس کی بداخلاقی، بدتمیزی، بدتہذیبی اور بدشائستگی پر غلبہ پالیتا اور ان کا بظاہر ناقابل برداشت اور غیر متحمل طرز عمل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحمل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حِلم کی قوت کے نیچے رہتا۔
اعلیٰ اخلاق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان تھے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اعلیٰ خُلق ’’حلم‘‘ کی بنا پر دوسروں کو بڑی آسانی سے معاف فرمادیتے اور ان سے درگذر کرتے جبکہ یہ عمل عام انسانوں کے لیے کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہ اخلاق کریمانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کی لازمی پہچان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی شناخت تھے۔ اس لیے قرآن نے کہا ’’ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک‘‘ اگر آپ تندخو، سخت دل ہوتے اور غلیظ القلب ہوتے اور رقیق القلب نہ ہوتے تو دل کی سختی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد جھرمٹ نہ ہونے دیتی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کی خواہش پیدا ہونے دیتی۔ اس لیے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت دل، غلیظ القلب اور دل کا کرخت بنایا ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلم والا بنایا ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی شان حلم کے ذریعے فاعف عنہم نہ صرف خود بھی معاف کریں بلکہ اللہ سے بھی ان کی معافی چاہیں۔ گویا ان کو اپنی شانِ حِلم کے ذریعے نہ صرف انہیں اپنی بارگاہ سے معافی کا پروانہ دیں بلکہ رب کی بارگاہ سے بھی ان کی معافی طلبی کے خواستگار ہوں۔
باری تعالیٰ نے رسول اللہ کے خُلقِ رِفق اور خُلقِ حِلم کو واضح کرتے ہوئے سورۃ الفرقان میں ارشاد فرمایا:
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں‘‘۔
(الفرقان، 25: 63)
اس آیت کریمہ میں عباد الرحمن کی عاجزی و انکساری سے خُلقِ رِفق کا اخذ و استنباط کیا جارہا ہے اور جہلاء سے مخاطبت اور ان کے کلمہ سلام سے خُلقِ حِلم کا استشہاد کیا جارہا ہے۔ چال و چلن میں عاجزی و انکساری، نرمی اور ملنساری کا پتہ دیتی ہے اور رفتار میں آہستگی اُن میں موجود جذبہ رِفق کوظاہر کرتی ہے۔ اُن کا جہلا سے اعراض اور اُن کو نظر انداز کرنا، اُن کی حرکات و سکنات سے صرفِ نظر کرنا اور اُن کی کوتاہیوں پر اُن سے درگذر کرنا، اُن عبادالرحمن میں موجود خُلقِ حِلم کو ظاہر کرتا ہے۔ حِلم کے معانی میں سے ایک معنی جہالت سے بچنا اور عقل کو اختیار کرنا بھی ہے، اس لیے اپنے زمانے کے جہلا سے بچنا، اُن کے ساتھ الجھنے سے رُکنا اور اُن کی جہالت کے شر سے خود کو محفوظ بھی کرنا، خُلقِ حِلم ہے۔
خُلقِ حِلم و بردباری کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشج عبدالقیس سے فرمایا:
ان فیک خصلتین یحبهما اللہ تعالی الحلم والاناة.
’’تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، ایک حلم و بردباری اور دوسری وقار و تمکنت ہے‘‘۔
خُلقِ حِلم اختیار کرنے سے انسان کی شخصیت میں بردباری کا وصف آتا ہے۔ اس کی قوت برداشت میں اضافہ ہوتا ہے، دوسروں کی ناروا باتوں کو صبر کے ساتھ سن لیتا ہے اور اپنے جذبہ غیض و غضب کو بھڑکنے نہیں دیتا۔ اسی طرح جب دوسروں کے ناموزوں اور تہذیب سے خالی اور عاری اقوال و اعمال بھی بوجھ بنتے ہیں تو وہ ان سارے بوجھوں کو قوتِ تحمل کے ساتھ برداشت کرلیتا ہے۔ اس حسین خُلقِ حِلم کی وجہ سے ان کی شخصیت وقار و تمکنت اور رفعت و عظمت سے سرفراز ہوجاتی ہے۔
خُلقِ حِلم کا کمال
سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خُلقِ حِلم کے ایسے مظاہر ہمارے سامنے آتے ہیں کہ جس کے نقوش کی تلاش میں انسانیت آج بھی عازمِ سفر ہے۔ خُلقِ حِلم اس وقت اپنے کمال کو پہنچتا ہے جب اس کا عملی اظہار اس شخص کے ساتھ کیا جائے جو آپ کی جان کا دشمن ہو، عداوت جس کا مقصودِ حیات ہو اور جہالت جس کی علامت ہو۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
دخل رهط من الیهود علی رسول الله فقالوا: السام علیکم، قالت عائشة: ففهمتها، فقلت: وعلیکم السام واللعنة، فقال رسول الله: مهلا یا عائشة، ان الله یحب الرفق فی الامر کله، فقلت: یارسول الله! اولم تسمع ماقالوا؟ قال رسول الله: قد قلت وعلیکم.
’’یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو انہوں نے کہا: ’’السام علیکم‘‘ (تمہیں موت آئے)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ان کی گفتگو کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا: تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا! جانے دو، اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں عرض گزار ہوئی: یارسول اللہ! شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا نہیں جو انہوں نے کہا؟ رسول اللہ نے فرمایا: میں نے کہہ دیا تھا کہ تم پر ہو‘‘۔
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الرفق 5: 2242، الرقم: 5678)
اب اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خُلقِ حِلم اور خُلقِ رِفق دیکھئے۔ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بد دعا دے رہا ہے، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس کے اس قول ’’السام علیکم‘‘ (آپ پر موت آئے۔) پر غصے میں آجاتی ہیں اور اسی کے کلمات دہرا دیتی ہیں اور ایک کلمے کا اضافہ کردیتی ہیں کہ علیکم السام واللعنۃ (موت تم پر آئے اور اللہ کی لعنت ہو تم پر) جواب میں ایک کلمہ اللعنۃ کے اضافے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے ہیں کہ اے عائشہ اسے چھوڑ دو، اس سے صرف نظر کرو اور انہیں نظر انداز کرو، تم نرمی اور خوش گفتاری کو اختیار کرو، اس لیے کہ اللہ کی سنت اور طریق یہ ہے کہ اللہ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔
یعنی جو اس نے کہا، اس پر اتنا ہی جواب دینا کافی ہے۔ اس پر مزید کسی جملے اور کلمے کے اضافے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ یہ خُلقِ رِفق اور خُلقِ حِلم کے خلاف ہے۔
خلاصہ کلام
تعلیم اور علم کا مقصد ایک انسان کو معاشرے کا بہترین انسان بنانا ہے۔ علم روشنی کا نام ہے اور عمل اس روشنی کو اپنانے کا نام ہے۔ انسان کی رفعت اور عظمت اعلیٰ اخلاق کے ذریعے قائم ہوتی ہے۔ اپنے خلق و عادت میں نرم خو رہنا، نرمی اختیار کرنا، دوسروں کے ساتھ مہربانی کا رویہ اپنانا، اپنے سلوکِ حیات کو نرم برتائو کے ذریعے حسنِ سلوک میں بدل دینا خُلقِ رِفق کو اپنے وجود میں بسانا ہے۔
حضرت ابی درداء روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من فقه الرجل رفقه فی معیشته.
’’آدمی کی سمجھداری کی علامت اس کی دنیا داری میں نرم روش ہے‘‘۔
(احمد بن حنبل، المسند، 5: 194، الرقم: 21742)
نرم روش ہی انسان کو اپنے خلق میں نرم رو، نرم خو اور نرم مزاج بناتی ہے۔ یہی نرمی مزاجی اور نرم خوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند ہے۔
خُلقِ حِلم کی وجہ سے انسان میں صبر، برداشت اور تحمل کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں اور انسان ایک متحمل شخصیت کا مالک بن کر خود کو اخلاقِ حسنہ سے آراستہ کرتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں وہ درجہ و مقام، وہ عزت و منزلت اور وہ شرف و فضیلت پالیتا ہے جو انسان کو نفلی عبادات کی ادائیگی کی صورت میں بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اسلام میں جملہ نفلی عبادات سے بڑھ کر سب سے اعلیٰ مقام اخلاق کا ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الرجل لیدرک بالحلم درجة الصائم القائم.
’’ایک شخص محض حلم و بردباری کی وجہ سے حالت روزہ میں قیام کرنے والے عبادت گزار کا درجہ پاسکتا ہے‘‘۔
(طبرانی، المعجم الاوسط، 6: 232، الرقم: 6273)
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں مناتے ہوئے اور اللہ رب العزت کے احسانِ عظیم پر اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے ہمیں سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ پرسعید لمحات ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مطہرہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کو سب سے زیادہ تحمل و برداشت کے رویوں کی ضرورت ہے۔ جب معاشرے میں ہر شخص ایک دوسرے کو برداشت کرے، ایک دوسرے کی سیاست، مذہب، مسلک، سوچ و رائے، شخصیت و ذات، منصب، رویے، عادت اور طرز حیات کو برداشت کرے گا تو معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بنے گا۔ یہ برداشت گھر میں بھی ہو اور گھر سے باہر بھی ہو۔۔۔ دوستوں میں بھی ہو اور مخالفوں میں بھی ہو۔۔۔ برداشت اور تحمل ایک کشتیِ حیات ہے جس میں ہر کسی نے سفر کرنا ہے۔ جو اس وصفِ حِلم و رِفق سے مزین ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا اور جو اس سے محروم ہوگیا وہ کل خیر سے محروم ہوگیا۔