حمدِ باری تعالیٰ
ہے کائنات اُس کا حسیں پرتوِ جمال
خالق ہے دو جہاں کا وہ معبودِ لا یزال
اِک حرفِ کُن سے جس کے ہو تخلیقِ عالمیں
کیسے ہو اس کی قدرتِ کامل کا اِمتثال
وہ ہے بدیعِ ارض و سماوات و شش جہات
صنعت اُسی کی گلشنِ ہستی کے خدوخال
اُس بادشہ کی سلطنتِ اختیار سے
ہونا بروں کسی کا ہے ناممکن و محال
روزی رساں ہے ہرکس و ناکس کا وہ الٰہ
ہر اک کو پالتا ہے وہی ربِّ ذوالجلال
دستِ کرم سے اس کو اٹھاتا ہے وہ کریم
کرتی ہے جس کو گردشِ افلاک پائمال
یارب ہو تیری ذات میں مجھ کو فنا نصیب
باقی رہے نہ معرفتِ فُرقت و وصال
ہے گرچہ معصیت مری بے حد و بے شمار
اس کو محیط ہیں ترے الطافِ باکمال
ہو نزع دم سجا لبِ ارشدؔ پہ تیرا نام
تیری عطائیں ساتھ رہیں بعدِ انتقال
(حکیم ارشد محمود ارشدؔ)
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
توقیرِ زمیں رُوکشِ صد اوجِ سما ہے
اس پر جو سجا روضۂ محبوبِ خدا ہے
بھرتے ہیں وہ دامانِ طلب کاسہ گروں کے
دربارِ نبی مخزنِ ہر جُود و سخا ہے
نس نس کو مری نکہتِ گلہائے کرم ہے
’’کرتی ہے معطر جو مدینے کی ہوا ہے‘‘
ہو بخت میں ہمسائیگیِ روضۂ انور
یارب مرے ہونٹوں پر یہی ایک دعا ہے
ہر فتح و مسرت کے لیے ایک ہی نسخہ
بس صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ ہے
اَسلاف بھی اولاد بھی ہیں مِلک نبی کی
جاں اُن کی ہوئی دل بھی مرا اُن کا ہوا ہے
صد شکر کہ دربارِ شہ کون و مکاں سے
ہمذالیؔ کو محشر میں شفاعت کی رَجا ہے
{انجینئر اشفاق حسین ہمذالیؔ}