عصرِ حاضر کا اَخلاقی اِنحطاط

ڈاکٹر شفاقت علی شیخ

انسانیت کی مجموعی تاریخ میں بالعموم اور گزشتہ دوصدیوں میں بالخصوص انسان نے مختلف علوم و فنون اور زندگی کے تمام شعبوں مثلاً سیاست، معیشت، تمدن، معاشرت، صحت اور تعلیم وغیرہ میں جو ترقی کی ہے اور جدید ایجادات و اکتشافات نے زندگی کے دامن کو جن سہولتوں، لذتوں، راحتوں اور آسائشوں سے بھر دیا ہے اُس کا لازمی نتیجہ تویہ ہونا چاہئے تھا کہ آج کا انسان پہلے کی نسبت زیادہ مطمئن ومسرور ہوتا اور اجتماعی زندگی کے مسائل کا کوئی ایسا حل دریافت کر چکا ہوتا جس کے ذریعے دنیا سے بدامنی اور فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو جاتا اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا۔ لیکن عملی طور پر صورتِ حال اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی تمام تر معراج کے باوجود زندگی کی زلف پریشان ہے اور اسے سنوارے کی جتنی کوششیں ہو رہی ہیں اُتنی ہی یہ اُلجھتی چلی جا رہی ہے اور مسائل کو حل کرنے کے جتنے جتن ہو رہے ہیں اُتنا ہی یہ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ تمام تر مادی لوازمات کی فراہمی کے باوجود آج کا انسان پریشان ہے۔ اُس کے دل و دماغ میں بے چینی اور اضطراب ہے۔ وہ ذہنی و قلبی سکون و اطمینان سے محروم ہے اور اُ س کی روح ویران ہے۔ وقتی، عارضی اور سطحی خوشیوں میں انہماک نے انسان کو حقیقی، دائمی اور پائیدار خوشیوں سے محروم کر دیا ہے۔

یہ حال تو انفرادی سطح پر ہے۔ اجتماعی سطح پر دیکھا جائے تو پورا معاشرہ بدامنی و بد نظمی، لا قانونیت و عدمِ مساوات، فتنہ و فساد، ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، تشدد و محاذ آرائی، سنگدلی و بے حسی اور مختلف اقسام کے تعصبات کا شکار ہوکر جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انسانیت سِسک رہی ہے اور دنیا بڑی تیزی سے تبا ہی و بردبادی کی سمت جارہی ہے۔ ہر حساس اور دردِ دل رکھنے والا شخص پستی کے اس سفر کو دیکھ رہا ہے مگر کچھ کرنے سے قاصر ہے اور بے بس تماشائی بنا ہوا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ آج کی دنیا ایک ہمہ گیر بحران کا شکا رہے جو زندگی کے تمام گوشوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ تما م تر کوششوں کے باوجود ابھی تک اس پر قابو نہ پاسکنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ معاملے کی اصل نوعیت کو سمجھا نہیں جا سکا۔ دنیا کا نظام علت اور معلول (Cause & Effect ) کے اُصول پر چل رہا ہے۔ کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اُس کے اصل سبب کو جان کر اُسے ختم کرنا ضروری ہے۔ درخت کے وجود کو مٹانا ہو تو جڑکو کاٹنا ہوگا محض شاخوں اور پتوں کے کاٹ دینے سے مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح کسی مسئلہ کو حل کرنا ہے تو پہلے اُس کی اصل وجہ معلوم کرنی ہوگی اور اُس کی اصلاح کرنا ہوگی۔ ورنہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں پایا جانے والا بگاڑ دراصل معاشرے میں پائے جانے والے اخلاقی انحطاط کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہے۔ تمام مسائل اسی بنیادی مسئلہ کی شاخیں اور اسی مجموعی کلیت کی فروع ہیں۔ اس لیے انہیں حل کرنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ ہم زندگی کے بنیادی مسئلہ یعنی اخلاقی اقدار کی طرف متوجہ ہوں اور پھر معاشی، سیاسی اور تمدنی مسائل پر اس حیثیت سے نظر ڈالیں کہ یہ سب اسی اصل کی شاخیں اور اسی کل کے اجزاء ہیں۔ اگر آج تک کی تمام تدابیر مسائل کو حل نہیں کر سکیں تو اس کا واحدسبب ہی یہ ہے کہ انسان کے اصل مسئلہ کو جس کا تعلق اُس کے اخلاق اور کردار سے ہے، اسے نظر انداز کر کے شجرِ تمدن کی شاخوں اورپتوں کو الگ الگ بنانے اور سنوارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ شاخوں اور پتوں کے خواص وکیفیات جڑ سے پیدا ہوتی ہیں اور جڑ کی مضبوطی اور درستگی سے ہی ان میں خوبی و زیبائش اور حسن و رعنائی وجود میں آتی ہے۔

انسان کا اخلاقی کردار ہی وہ واحد سرچشمہ ہے جس سے اس کے، معاشی، سیاسی اور تمدنی اعمال کے چھوٹے چھوٹے چشمے جاری ہوتے ہیں۔ درحقیقت جن مسائل کو خالصتاً تمدن، معیثت اور سیاست کے دائروں سے متعلق سمجھا جاتا ہے، وہ اسی ایک منبع یعنی انسان کے اخلاقی اور روحانی نقطہ نظر سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اخلاقی زندگی کی خرابیوں پر موقوف اور مبنی ہوتی ہیں، اس لیے جب تک انسانی اخلاق کی بنیا د صحیح نہ ہو، انسان کا روحانی نقطہ نظر درست نہ ہو اور اُس کا ذہن بہتر اخلاقی اقدار و نظریات کا حامل نہ ہو، اس وقت تک اُس کے سیاسی، معاشی اور تمدنی اعمال میں زندگی کی لطافت اور حسن و جمال کی رعنائی پیدا نہیں ہوسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور دوسرے مذہبی صحائف نے براہِ راست معاشی یا تمدنی اعمال سے بحث کرنے کی بجائے انہیں ضمنی اور فروعی حیثیت دی ہے۔ قرآن میں جہاں کہیں سوسائٹی کے وقتی مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہاں یہ ظاہر کر دیا گیا ہے کہ ان کے متعلق جو قوانین وضع کئے جارہے ہیں اُن کے فوائد اور نقصان کا دارومدار تمام تر انسان کے اخلاقی نقطۂ نظر اور روحانی نصب العین پر ہے۔ چنانچہ جہا ں بھی باہمی معاملات کے تعین کے حوالے سے ہدایات دی گئی ہیں وہا ں ایمان، تقوٰی، توکل، عدل اور احسان وغیرہ جیسے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اس سے اسلام کا نقطۂ نظر واضح ہوتا ہےکہ اس کے نزدیک اگر انسان کا رشتہ خدا کے ساتھ مضبوط نہیں ہے تو وہ معاشرتی احکام پر اُن کی اصل روح کے ساتھ عمل پیرا نہیں ہو سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے تین چوتھائی حصہ سے زیادہ میں خداکی ذات و صفات، اُس کے قوانینِ مشیّت، اعمال کی جزا و سزا اور آخرت کے اعتقاد سے بحث کی گئی ہے اور صرف ایک چوتھائی حصہ میں معاشی سیاسی اور تمدنی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک زندگی کا بنیادی اور اصل مسئلہ معاشرتی مسائل نہیں بلکہ اخلاقیات ہے۔

اخلاقی انحطاط کی نوعیت

عصرِ حا ضر میں اخلاقی انحطاط زندگی کے ہر شعبے میں کینسر کی طرح سرایت کرچکا ہے اور اس نے وجودِ انسانیت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس کے ذیلی اور ضمنی شعبے تو بے شمار ہیں لیکن بڑے دائرے میں اُسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(1) نفس پرستی

جب نفسِ انسانی میں موجود خیر کی قوتوں پر شر کی قوتیں غالب آجاتی ہیں تو انسان پر جذبات و خیالات کی جو دنیا غالب رہتی ہے وہ منفی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اُس میں انتقام، غیض وغضب، دوسروں کی تذلیل و تحقیر، اپنی بڑائی کے احساسات، حُبِّ مال اور مادی دنیا پر فریفتگی غالب ہوتی ہے۔ یہی وہ طاقتور خیالات و جذبات ہوتے ہیں جو معاشرہ میں دولت جمع کرنے کے جنونی مظاہر، قتل و غارت، فتنہ و فساد، غربت کے مناظر، بے قید جنسی خواہشات، قومی وسائل کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار، رشوت و اقربا پروری اور سماجی انصاف کے فقدان و غیرہ کی صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ نفس کی منہ زور خواہشات کی ان قہر سامانیوں کی وجہ سے ہر قوم کا ریاستی نظام اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ افراد کے فاسد جذبات و خیالات کو حدِّ اعتدال میں رکھے تاکہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ اور خلفشار سے محفوظ رہ سکے۔ اس سلسلہ میں قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ اخلاقی تربیت کا نظام تشکیل دیا جاتا ہے۔

تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ انسان نے وحی اور مذہبی تعلیمات سے ہٹ کر اب تک اخلاقی تربیت کا جو نظام بھی تشکیل دیا ہے وہ افراد کے جذبات و خیالات کی تہذیب میں ناکام رہا ہے۔ البتہ تہذیب نفس کے بغیر کس حد تک مصنوعی طور پر قومی اخلاق کی صورت ضرورپیدا ہو تی ہے، جس کی جھلک مغربی اقوام کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ مغربی قوموں نے اپنے اخلاقی بحران کو عقلیت کے ذریعہ قانونی حکومت اور قومی اخلاق کے نام سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے اور عام لوگوں کو نظام تعلیم کے ذریعے قومی اخلاق کی تربیت دے کر، اُنہیں معاشرہ کے لیے ایک حد تک بہتر اور مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اُن کے ہاں روحانی تسکین کا انتظام نہ ہونے کے باوجود انتظامی و عدالتی سطح پر انصاف موجود ہے اور ایک خود کار نظام ہے جس کے تحت لوگوں کی روز مرہ زندگی کے سارے کام آسانی سے ہو جاتے ہیں ا ور اُنہیں رشوت اور دوسری پریشانیوں سے دو چار نہیں ہونا پڑتا۔

تاہم یہ صرف سطح کے اوپر دکھائی دینے والا منظر ہے۔ اس محدود دائرے کو چھوڑ کر پس منظر میں جھانک کر دیکھا جائے تو اُن کے ہا ں بھی وہ خرابیاں اوربُرائیاں دکھائی دیتی ہیں جو نفس پرستی کے حامل افراد کے معاشرے میں ہو سکتی ہیں۔ بہر حال وہاں ایک ظاہری بھرم قائم ہے جب کہ ہمارے یہاں نہ تو قومی اخلاق کے نام سے کوئی نظام موجود ہے اورنہ ہی اسلام کے سنہری اُصولوں کی روشنی میں تہذیب ِ نفس کا کوئی مؤثر نظام ہے جس کے تحت تعلیم و تربیت کے ذریعے نفس کو اخلاق ِ حسنہ سے آراستہ و پیرا ستہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اُوپر سے لے کر نیچے تک پورے معاشرے میں ایک انتشار اور افراتفری کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ اور انفرادی و اجتماعی زندگی حرص، لالچ، طمع، خود غرضی و بے حسی جیسے امراض کا شکار ہو کر حقیقی سکون وا طمینان سے محروم ہو چکی ہے۔

انسانی زندگی میں نفسی قوتوں کا عمل دخل اس حد تک فیصلہ کن اور موثر ہوتا ہے کہ ہر انسان کا نفس بے پناہ جذبات، خواہشات اور اُمنگوںکا مر کز ہوتا ہے۔ جذبات اور خواہشات کا نہ ختم ہونے والا طوفان ہر انسان کے اندر ہر وقت موجزن رہتا ہے۔ چنانچہ فرد کا ہر عمل انہی کے زیرِ اثر ہوتا ہے کوئی عمل ایسا نہیں جو نفس کی ان قوتوں کے عمل دخل سے باہر ہو۔ دوست و احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ تعلقات اور ہماری زندگی کے تمام چھوٹے بڑے معاملات انہی کے زیر اثر تکمیل پزیر ہوتے ہیں۔ ان قوتوں کی شہ زوری کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی نفوس کے تزکیہ اور تہذیب کے لیے پے درپے ابنیاء کرام بھیجے۔ نبوت کا باب بند ہونے کے بعد بھی ہر زمانے میں اولیائے کرام اور علمائے ربانی کا سلسلہ جاری رہا جو لوگوں کو نفس کی بندگی سے نکال کر خدا کی بندگی کی طرف لانے کی جدو جہد کرتے رہے لیکن اس کے باوجود آج بھی انسانوں کی اکثریت نفس پرستی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

نفس پرستی کے غلبہ کی حالت میں افرادِ معاشرہ سے؛ فحاشی و عریانی، بے حیائی، حسد، بغض، کینہ نفرت، انتقام، غیض و غضب، حرام و ناجائز کا ارتکاب، مفاد پرستی، دولت کی ہوس، لوگوں کے حقوق کی پامالی، خیانت اور روز مرہ کے معاملات میں بدیانتی کا اظہار ہوتا ہے۔ غرض اس طرح کے سیکڑوں مظاہر اور علامتیں ہیں جو نفس پرستی کی داخلی قوتوں کے غلبہ کا لازمی اورمنطقی نتیجہ ہیں۔

تہذیبِ نفس اور تزکیہ نفس کا کام ایسا ہے جس سے دین و دنیا کی ساری بھلائیاں وابستہ ہیں۔ اس کام سے افراد، معاشرے اور ریاست کے اتنے مصالح وابستہ ہیں کہ یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ انسانی معاشروں اور ریاستوں کی بہتری، ترقی اور استحکام کا دارومدار افرادکی تہذیبِ نفس پر ہی ہے۔ تہذیب ِنفس اور ضبّطِ نفس کے بغیر مادی ترقی سراب کی مانند ہے۔ یہ کہنا بھی بے جانہ ہو گا کہ کسی قوم اور معاشرے کی کامیابی و ناکامی اور عروج و زوال کا تمام تر انحصار اسی نکتے پر ہے۔ ماضی کی شاندار قوموں کی تباہی و زوال اس پر شاہدہے اور الہامی کتابو ں کا مطالعہ بھی اس کی گواہی کے لیے کافی ہے۔ چنانچہ اصلاحِ نفس اور تہذیب نفس کا کام ایسا ہے جو فرد کی اپنی ضرورت بھی ہے اور معاشرے و ریاست کی بھی۔ اصلاحِ نفس سے بے نیازی کا نتیجہ نہ صرف فرد کو خود اعتمادی کے بحران، نفسیاتی بیماریوں اور اضطراب کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے بلکہ اس سے معاشرے اور ریاست کے استحکام کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ تہذیب نفس سے محروم حکمران و افسران، تاجران و صنعتکاران نفس کی شہ زوری کی وجہ سے ملک میں ایسی لوٹ مار شروع کردیتے ہیں کہ عام لوگوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے او ر سارے قوانین اُن کی نفسانیت اور سرکشی کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کلچر اُوپر سے چلتا ہوا نیچے آتا ہے اور پوری قوم کا مزاج بن جاتا ہے اور کینسر کی طرح جسد ملی کے ہر حصے میں سرایت کرتا ہوا اُسے ناکارہ بنادیتا ہے۔

(2) مادیت پرستی

اخلاقی انحطاط کی دوسری بڑی شاخ مادیت پرستی ہے۔ اس کا مطلب ہے دنیا اور ا ُس کے سازو سامان کے حصول کو زندگی کا واحد مقصد بنا لینا، دنیا کی ظاہری چمک دمک اور زیب و زینت سے بہت زیادہ متاثر ہو نا، لوازماتِ حیات کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی فکر میں رہنا۔ لذت و راحت، آرائش و زیبائش اور نمود و نمائش کے سامانوں کا بہت زیادہ حریص ہونا۔ دنیا کی سطحی، عارضی، فانی اور ناپائیدار چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے دل و دماغ پر سوار کر لینا اور تمام تر توانائیوں، صلاحیتوں اور فکری و عملی قوتوں کو اُن کے حصول میں لگا دینا۔ الغرض دنیا کی حقیقت، اصلیت اور انجام کو فراموش کرتے ہوئے اس کی ظاہری دلکشی میں غرق ہو جانے کو مادیت پرستی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

تہذیت مغرب نے الحاد اور تصورِ آخرت کے انکا رپر جو عمارت کھڑی کی، اُس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھاکہ جب دنیا ہی سب کچھ ہے تو پھر اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لیے جائز اور ناجائز کی تمیز کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی اخلاقی ضابطے کی پیروی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ آج مغربی تہذیب کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لذت و راحت کو حاصل کرنا ہے۔ تمام ایجادات و اکتشافات میں یہی فلسفہ کار فرما ہے۔ خوشی نصیبی و بد نصیبی اور کامیابی و ناکامی کا معیار بھی یہی ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ دنیوی سازو سامان کو حاصل کر لیتا ہے اور دنیا کی رنگینیوں اور رونقوں کوجس قدر اپنے گِرد جمع کر لیتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب و کامران سمجھا جاتا ہے اور جو جتنا ان چیزوں سے محروم ہو، وہ اُسی قدر ناکام و نامراد تصور کیا جاتا ہے۔

عصر حاضر مغربی تہذیب کے غلبہ کا دور ہے اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ جو تہذیب غالب ہو وہ سکہ رائج الوقت ہوا کرتی ہے اور دنیا کی دیگر تہذیبیں شعوری یا لا شعوری طور پر اُس سے متاثر ہوا کرتی ہیں۔ یہی کچھ آج اُمتِ مسلمہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ آج کا مسلم ذہن اس تہذیب کی چکا چوند سے بہت زیادہ مرعوب ہے۔ اس کی حیران کن مادی کامیابیوں نے اُس کی نگاہوں کو خیرہ کر رکھا ہے۔ وہ اس کی برتری کو ذہنی طور پر تسلیم کر چکا ہے اور اس کے انجام سے قطع نظر اس کے وقتی عروج کو کامیابی کا پیمانہ سمجھتے ہوئے اُس کے دیے ہوئے معیارات کی رو میں بہتا چلا جارہا ہےاور چونکہ اُس تہذیب کی بنیاد ہی مادیت پرستی پر رکھی گئی ہے چنانچہ مادیت پرستی کا یہ سیلاب بڑی تیزی کے ساتھ مسلم معاشرہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور کم و بیش ہر خاص و عام اُس کے اثرات کا شکار ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں اخلاقی اقداربڑی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو رہی ہیں۔ یہ تاریخ کا مسلّمہ اُصول اور قدرت کا اٹل قانون ہے کہ جو معاشرہ اعلیٰ حقائق اور معنوی لذتوں کو چھوڑ کر محض وقتی لذتوں اور عیش و عشرت کو ہی زندگی کا مقصود بنالے اُسے اخلاقی اعتبار سے تبا ہ و برباد ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

مادیت پرستی کا یہ رجحان اتنا زیادہ عام ہو رہا ہے کہ اس معاملے میں مغرب اور مشرق کا فرق مٹتا چلا جارہا ہے۔ آخرت کا انکار کرنے والوں اور آخرت کا اقرار کرنے والوں کے جینے کی سطح تقریباً ایک ہی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ اس میں بہت زیادہ فرق ہونا چاہیئے تھا۔ بقول اقبالؒ

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق

کہا ں وہ فلسفہ زندگی جس کے مطابق اس دنیا کا کوئی خالق و مالک ہے اور نہ اس کا کوئی بامعنی انجام ہے۔ بس جو کچھ سامنے دکھائی دے رہا ہے، یہی سب کچھ ہے۔ لہٰذا اس سے جتنا زیادہ متمتع ہو سکتے ہوں، ہونا چاہئے اور کہا ں وہ فلسفہ زندگی جس کے مطابق اس دنیا کا ایک خالق ہے جس نے اپنی حکمت کا ملہ کے ساتھ اس دنیا کو بامعنی اندا ز میں مصلحتِ امتحان کے تحت تخلیق کیا ہے۔ دنیا میں انسان ہر وقت حالتِ امتحان میں ہے۔ موت نے آکر اس مہلتِ امتحان کو ختم کر دینا ہےاور پھر اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر ہر انسان نےاپنی زندگی بھر کے چھوٹے بڑے اعمال کا حساب دیناہے۔ پھر اچھے اعمال والے کے لیے ابدی راحت ہے جب کہ بُرے اعمال کے مرتکب کے لیے ہمیشہ کی ذلت اور عذاب ہے۔

ان دو نظریہ ہائے حیات کے ماننے والوں کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل میں جو لازمی فرق دکھائی دینا چاہئے، وہ آج مفقود ہو چکا ہے۔ سوال یہ کہ ایمان والے اتنی پست سطح پر کیوں آگئے ؟ مختصر جواب ہے: ایمان کی کمزوری۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کی حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہو گئی، اپنا مقام و مرتبہ یاد نہ رہا، آخرت کا ثواب و عذاب بہت دور دکھائی دینے لگا اور اللہ کے سمیع و بصیر ہونے کا استحضار نہ رہا۔ یہی وہ چیز یں ہیں جو انسان کو حُبِّ عاجلہ سے روک سکتی ہیں اور دنیا میں غرق ہونے سے بچا سکتی ہیں۔ اب جب زندگی میں کوئی اعلیٰ نصب العین ہی نہ ہو تو پھردنیا کی سامنے دکھائی دینے والی نقد رونقوں سے دامنِ دل کو کیسے بچایا جا سکتا ہے، جب کہ اندر سے نفس کے تقاضے بھی پوری شدت کے ساتھ انہی چیزوں کی طرف کھینچ رہے ہوں۔ ایمان اور کفر کے درمیان فرق تو ایمان کا ہی ہے جب ایمان ہی کمزور ہو جائے تو پھر کافرانہ طرزِ عمل اختیار کرنے سے کون سی چیز انسان کوروک سکتی ہے ؟ قرآن و حدیث میں جابجا لوگوں کو دنیوی زندگی کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف اسالیب اور تماثیل سے کام لیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا :

وَمَا هٰذِهِ الْحَیٰـوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَهْوٌ وَّلَعِبٌ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ.

(العنکبوت، 29: 64)

’’ اور (اے لوگو!) یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے، اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش! وہ لوگ(یہ راز) جانتے ہوتے۔ ‘‘

یہاں دنیوی زندگی کو کھیل تماشہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس طرح کھیل تماشہ بہت جلد ختم ہو جانے والی چیزہے، یہی حال دنیا کا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کھیل تماشے میں حقیقت نہیں ہوتی بلکہ مجاز ہوتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے سازو سامان کی ظاہری خوبصورتی اور زیب و زینت اس کی اصلیت کو چھپا لیتی ہے ا ور اس میں پوشیدہ فتنوں کو نگا ہوں سے اوجھل کر دیتی ہے:

وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ.

(آل عمران، 3: 185)

’’اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘

انسان اس کے ظاہری حسن کو دیکھ کر ضرورت سے بہت زیادہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کے انجام کو فراموش کرتے ہوئے اس کی محبت میں گرفتارہو جاتا ہے۔

ایک اور مقام پر دنیوی زندگی کو پانی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءِ اَنْزَلْنٰـہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ.

(الکهف، 18: 45)

’’اور آپ انہیں دنیوی زندگی کی مثال (بھی) بیان کیجیے (جو) اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان کی طرف سے اتارا تو اس کے باعث زمین کا سبزہ خوب گھنا ہوگیا پھر وہ سوکھی گھاس کا چورا بن گیا جسے ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں۔‘‘

پانی کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک جگہ نہیں ٹھرتا۔ دوسری یہ ہے کہ جو آدمی اس میں داخل ہو، وہ تر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور تیسری یہ ہے کہ جب تک ضرورت کے مطابق ہو، فائدہ مند ہوتا ہے لیکن زیادتی فائدہ کے بجائے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی تمام خصائص دنیا کے بھی ہیں۔ یہ بھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔ آج اسبابِ دنیا ایک کے پاس ہوتے ہیں تو کل دوسرے کے پاس۔ جو آدمی دنیا کی محبت میں غرق ہو، وہ گناہوں سے آلودہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضورنبی اکرمﷺ نے فرمایا:

حب الدنيا رأس كل خطيئة.

(کنزالعمال، 3: 79، رقم: 6114)

’’دنیا کی محبت ہر خطا کی بنیاد ہے۔‘‘

دنیا جب تک ضرورت کے مطابق ہو تو نہایت مفید ہے لیکن جب انسان زیادہ سے زیادہ لوازماتِ دنیا کو اکٹھا کرنے کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے تو تباہی و بربادی اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔

(جاری ہے)