علم، امن، تحقیق، تجدید اور شعور و آگہی کے 43 سال

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

تاریخِ اسلام میں تجدید و احیاء دین کی تمام تحاریک کے وجود میں آنے کا مقصد اپنے اپنے زمانے میں انسانی زندگی کے اُجڑتے ہوئے دیار کو پھر سے آباد کرنا ہوتا ہے۔ تجدید و احیائے دین کی یہ تحریکیں اعلیٰ انسانی اقدار کو معاشرے میں پھر سے زندہ کرتی ہیں اور ان کے زندہ ہونے سےاِنسانی کردا رکو تازہ زندگی اور دین کو تجدید ملتی ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ دو صدیوں یعنی 19ویں اور 20 ویں صدی میں اِنسانی زندگی میں نظریا ت کا بڑا عمل دخل تھا اور اِنسانی معاشرے میں اجتماعی کردار اور اقدار کا اجتماعی وجود آج کے مقابلے میں مضبوط تر تھا۔ خواہ دینی نظریا ت ہوں یا لادینی نظریات، نظریہ کے مقامی پہلو ہوں یا بین الاقوامی پہلو، ہر دو طرح کے نظریات اپنے اپنے طور پر کردار ادا کررہے تھے۔ نظریہ کے ان ہی مقامی اور بین الاقوامی پہلوؤں کے سبب ہی ایشیاء سرخ ہے اور ایشیاء سبز ہے، جیسے نعرے بلند ہوئے اور تحریکیں وجود میں آئیں۔ اُس دور میں ہر طرف خیر کو بچانے، شر کو مٹانے، مٹتی ہوئی اقدارکو پھر سے زندہ کرنے، نظریات کی تطہیر کرنے اور افراد کی سیرت وکردار کو سنوارنے کےلیے تحریکیں اُٹھتی تھیں۔ ان تحریکوں میں بڑا جوش وخروش، قو ت اور تأثیر ہوتی تھی اور بہت زیادہ لوگ اِن تحریکوں میں عملی طور پر شریک ہوتے تھے۔

بعد ازاں پچھلی صدی کے آواخر میں ان نظریات میں اندرونی اور بیرونی عوامل اپنے اپنے جداگانہ ایجنڈے کے ساتھ شامل ہوتے گئے اور بدقسمتی سے یہ تحریکیں آہستہ آہستہ انتہاپسندی کی طرف مائل ہوگئیں، جس کے نتیجے میں تشدد، دہشت گردی اور قتل وغارت گری نے جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی صدی کے اواخر میں ہم نے فرقہ واریت کا ایک طوفان دیکھا جو پیدا کیاگیا تھا۔ اس دور میں خون بہا، علماء اور دیگر شخصیات کے لاشے گرے، نفرتوں کے بیچ بوئے گئےاور اُمت مسلمہ کے درمیان ایک بڑی گہری تفریق پیدا ہوگئی۔ جب حالات اس قدر گھمبیر ہوں تو ان ہی حالات میں تجدید و احیا دین اور اصلاح و تطہیر احوال کی ضرورت پیش آتی ہے۔

یہی وہ زمانہ ہے جب 1980ء بمطابق چودہویں صدی ہجری کے آغاز یعنی 1401 ہجری میں تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی گئی۔تحریک منہاج القرآن کو اپنے قیام سے لے کر آج تک متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ الحمدللہ تعالیٰ تحریک نے نہایت حکمت و بصیرت اور دور اندیشی کے ساتھ تجدید و احیاء دین کے تناظر میں ان چیلنجز کا مقابلہ کیا۔ ذیل میں ان چیلنجز کی نوعیت اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے اقدامات اور خدمات کا اجمالی خاکہ نذرِ قارئین ہے:

1۔ بین المسالک ہم آہنگی کا فروغ

تحریک منہاج القرآن کے قیام کے وقت پورے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول اور نظریات تھے۔ دینی حوالے سے انتہاپسندی اور شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حتی کہ اس کے نتیجہ میں دہشت گردی کا دور شروع ہوگیا تھا۔ یہ پہلا چیلنج تھا جس کا تحریک منہاج القرآن نے سامنا کیا۔جس معاشرے میں دینی حلقے فرقہ وارانہ سوچ میں بٹ گئے ہوں، وہاں بین المسالک ہم آہنگی پیدا کرنا، رواداری پیدا کرنا، بین المسالک افہام وتفہیم اور مکالمہ کو جنم دینا اور تمام فرقوں کو ایک جگہ پر بٹھانا، ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

اس چیلنج سے کماحقہ نبرد آزما ہونے کے لیے تحریک منہاج القرآن نے بین المسالک رواداری اور ہم آہنگی کا عَلم بلند کیا اورکتاب وسنت کی تشریحات پیش کیں تاکہ رواداری، اعتدال اور توازن کا تصور پیدا ہو کیونکہ اسی صورت ہی انتہا پسندی کو شکست دی جاسکتی تھی اور فکری تنگ نظری کے خاتمے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ اِ س کے لیے ہم نے اُس زمانے میں مقدور بھر کاوشیں کیں جن کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے۔

2۔ حقیقی نظریہ و فکر کا احیاء

تحریک منہاج القرآن نے وہ دور بھی دیکھا کہ اِنسانی زندگی سے نظریہ (Ideology) ہی غائب ہوگیا تھا۔ نظریات کی جگہ مفادات نے لےلی۔۔۔کردار کی جگہ حرص، ہوس اور کرپشن نے لے لی۔۔۔ اقدار مٹ گئیں تھیں۔۔۔ جیسے مغربی دنیا God less ہے، اسی طرح یہ معاشرہ Ideology less ہو گیا۔۔۔ہر وہ نظریہ، فکر اور تصور جس پر اقدار اور کردار قائم ہوتے ہیں، وہ کلیتاً ختم ہوگیا۔۔۔ اقدار و کردار پچھلے زمانے کی داستان بن گیا اورنیا کلچر اور نیا زمانہ غالب آگیا۔

ایسے دور میں جب انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نظریہ کا تعلق ختم ہو گیا ہو، چیلنج یہ تھا کہ اُس نظریہ کو دوبارہ قائم کیا جائے، اُس پر تمسک اور استقامت اختیار کی جائے، لوگوں کو نظریہ اور فکر پر پختہ رکھا جائے، اور نظریہ و فکر کو فروغ دیا جائے۔ اس لیے کہ جب سیاسی اور مذہبی طور پر نظریہ معاشرے میں relevant نہیں رہتا، اُس وقت نظریے کو زندہ رکھنا اور اُس کو قوت دینا بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس وقت تحریک منہاج القرآن نے گراس روٹ لیول تک عوام کی بالعموم اور رفقاء و کارکنانِ تحریک کی بالخصوص تعلیم و تربیت کا اہتمام بایں طور کیا کہ انھیں دین کے حقیقی نظریہ و فکر کے ساتھ ثابت قدمی عطا کی۔

3۔ اسلام کے امن بیانیہ کا فروغ

تحریک منہاج القرآن نے جس تیسرے بڑے چیلنج کا سامنا کیا وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی صورت میں تھا۔ جب دہشت گرد اور انتہاپسند ذہنوں نے دین کے نظریہ کو ہائی جیک کر لیا۔ سوسائٹی نظریے سے خالی اور عاری ہوگئی اور مغربی تصورات غالب آگئے۔ جہاد کے نام پر، اسلام کے احیا کے نام پر اور اُمت مسلمہ کے مفاد کے تحفظ کے نام پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور قتل وغارت گری کو رواج دیا گیا۔ جہاد اور دہشت گردی کے تصورات کو خلط ملط کردیا گیا اور اسلام کا ایک عجیب چہرہ انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ ساراکچھ صرف اُمت مسلمہ کے مختلف ممالک میں ایک داخلی عمل کے طور پر نہیں ہوا بلکہ یہ انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ طبقات اور گروہ ایک ایجنڈے کے ساتھ پیدا کیے گئے۔ انھیں اُمت میں تفریق پیدا کرنے کےلیے، اسلام کے چہرے کو بدنما کر کے دکھانے کے لیے اور بعدازاں اسلام اور عالم اسلام پر سخت قسم کے اقدامات کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے Promote کیا گیا۔ اُنہیں وسائل دیئے گئے، فنڈز دیئےگئے، ٹریننگ دی گئی اور مختلف خطوں میں اُنہیں متعین کیا گیا۔گویا ان اقدامات کے ذریعہ دین کے نظریہ اور فکر کو ہائی جیک کرلیا گیا جس سے نوجوان نسل سخت متاثرہوئی۔

اُس وقت تحریک منہاج القرآن نے اس چیلنج کا بایں طور سامنا کیا کہ بین المذاہب رواداری اور ہم آہنگی کے تصور کو اُجاگر کیا۔ پہلے بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دیا، اب بین المذاہب رواداری (Interfaith harmony) کو قائم کرنے کے لیے کاوشیں کیں۔ اس سلسلے میں اسلام کا حقیقی بیانیہ دنیا کے سامنے رکھا اور اسلام پر لگائے جانے والے الزامات کا دلائل و براہین کے ساتھ علمی و فکری جواب دنیا کو دیا۔اسلام کا امن، محبت، حکمت، توازن، برداشت، وسعت اور انسانیت کی اقدار پر مبنی تعلیمات سے دنیا کو آگاہ کیا۔ اسلام کے امن بیانیہ کو شدت، طاقت اور غصے کے ساتھ نہیں بلکہ نرمی اور دلیل کے ساتھ پیش کرکے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کی۔

ایک طرف اللہ رب العزت کی توفیق اور حضور نبی اکرم ﷺ کے نعلین کے تصدق سے میں نے اس سلسلے میں حسبِ استطاعت و استعداد علمی و فکری کوشش عمربھر جاری رکھی تو دوسری طرف تحریک منہاج القرآن کے شعبہ جات، تنظیمات اور پوری دنیا میں قائم نیٹ ورک کے ذریعے تحریک کے کارکنان نے انتھک کاوشیں کیں۔ انھوں نے منظم طریق پر دین کی حقیقی تعلیماتِ امن و آشتی کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا یا۔ اس طرح وہ انتہاپسندانہ اور دہشت گردانہ تصور جسے امت میں داخلی و خارجی سطح پر فروغ دیا جارہا تھا، اسے اسلام کے امن بیانیہ کے ساتھ ممکنہ حد تک توڑنے کی کوشش کی۔

4۔ جدید و قدیم تعلیم کا امتزاج

جدید و قدیم تعلیم کے درمیان خلیج کی صورت میں تحریک منہاج القرآن کو چوتھے بڑے چیلنج کا سامنا تھا، دینی حوالے سے کام کرنے والوں کے ہاں بالعموم قدیم اور جدید کا بڑافاصلہ رہتا تھا۔تحریک منہاج القرآن نے قدیم علوم اور جدید علوم ۔۔۔ قدیم رجحانات اور جدید رجحانات۔۔۔ قدیم دینی تصورات اور جدید تقاضے و تصورات۔۔۔ اِن کے درمیان باہمی ملاپ کی کوشش کی اور پھر اس امتزاج میں توازن اور اعتدال پیدا کیا۔تحریک منہاج القرآن نے دین اور دنیا کی تفریق کومٹانے کی کوشش کی اور دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق دین کی تعبیر اور تشریح کواِس انداز کے ساتھ فروغ دیا کہ دینی فکر میں جمود اور تعطل کو ختم کرکے فکری تحرک پیدا کیا جاسکےاور اسلام کی تعلیمات کو نوجوان نسل کےلیے صرف اعتقادی دائروں کے اندر محدود رکھنے کےبجائے علمی، سماجی، روحانی، معاشی، ثقافتی، اقتصادی، قومی اور بین الاقوامی دائروں کے اندر اُن تعلیمات کی وسعت اُجاگر کی جائے۔

جس طرح جب ہر چیز کا معیار گرتاہے تو اس کے اثرات نیچے تک منتقل ہوتے ہیں، سیاست، معیشت، معاشرت، سماج وغیرہ کا معیار گر جائے تو اس کے اثرات ریاست کے ہر شعبہ تک پہنچتے ہیں، اِسی طرح مذہبی اقدار کو سنبھالنے والوں کا بھی معیار سطحی ہوجائے تو اس کے بھی منفی اثرات دین کے ہر شعبہ تک منتقل ہوتے ہیں۔

  • منہاج القرآن کے قیام کے وقت مذہبی و دینی حلقوں کا علمی معیار گراوٹ کا شکار ہورہا تھا اور اُن کا تعلق ذیلی مصادر کے ساتھ جُڑ گیا تھا۔ تحریک منہاج القرآن نے علمی دنیا میں مصادرِ اصلیہ کی طرف اہلِ علم کو پھر سے راغب کیاتاکہ مصادرِ اصلیہ یعنی کتاب سنت کے ساتھ جُڑیں۔۔۔ اُس سے استنباط کریں۔۔۔ اُس سے براہ راست راہنمائی لیں۔۔۔ قصے کہانیوں کا دین بنانے کے بجائےعلمی کلچر کوزندہ کریں۔۔۔ سلف صالحین کے ساتھ جُڑیں۔۔۔ اپنے طرز فکر اور طرز عمل میں افراط و تفریط کو ختم کرکےتوازن و اعتدال پیداکریں۔۔۔ امور کو اس طرح سرانجام دیں کہ جدید زمانے میں کام کرتے ہوئے قدیم سے نہ کٹ جائیں اور نہ قدیم سے ایسا جُڑ جائیں کہ مستقبل سے کٹ جائیں۔ پس اس طرح ماضی اور مستقبل کو جوڑنے اور دین کو تجدد سے بچاکرتجدید کی راہ پر جاری رکھنے اور اس کا تسلسل قائم کرنے کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں اللہ رب العزت نےتحریک کی بڑی مدد فرمائی اور ہم نے اس چیلنج کا بھی کامیابی کے ساتھ سامنا کیا۔
  • اس چیلنج سے نبرد آزما ہوتے ہوئے تحریک نے اپنے 43 سال کی جدوجہد کے دوران جو ادارے (Institutions) قائم کیے اُن میں علم، تحقیق اور تربیت کو باہم متعلق کیا اور قدیم اور جدید تعلیم کو یکجا کیا۔ اسی طرح اپنے تمام اداروں میں قدیم و جدید تعلیم کے ساتھ تربیت کے اہتمام کو لازمی قرار دیا۔
  • اسی طرح اس زمانے میں اجتہاد کے دروازےبند ہوگئے تھے اور تقلید ایک جامد شکل اختیار کر گئی تھی۔لوگ تقلیدکی بات کرتے یا صرف اجتہاد کی بات کرتے۔تحریک منہاج القرآن نے تقلیداور اجتہاد کو بھی جمع کرکےفقہی زندگی میں اُس کے اندر ایک توازن پیداکیا۔

5۔ تحریک کی بقا کا راز اور جانثار کارکنان

کوئی بھی تحریک جو ایک فکر اور دینی نظریہ (ideology) پر قائم ہوتی ہے، اسے یہ چیلنج بھی درپیش ہوتا ہے کہ وہ تحریک جہاں وسعت اور اعتدال توازن پیدا کر رہی ہوتی ہے تو اُسے کئی طرح کی مخالفتوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُس پر حملے ہوتے ہیں، اُس کے وجود کو ختم کرنے کے لیے سازشیں ہوتی ہیں، کرداری کشی ہوتی ہے، اُس کے بارے میں غلط فہمیوں کا طوفان پیدا کیا جاتا ہے، جھوٹ بولے جاتے ہیں اور وہ کچھ کہا جاتااور پھیلایا جاتا ہے جو اُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔اِن حالات میں تحریکوں کو اپنے وجود اور بقاءکی حفاظت اور اپنے افکار کے فروغ کے لیے ایسے کارکن چاہیے ہوتے ہیں جو جانثار ہوں، ڈٹے رہنے والے ہوں اور قربانی دینے والے ہوں۔ ایسے کارکنوں کے وجود سے ہی تحریکوں کو بقا نصیب ہوتی ہے۔

کارکنوں کو جانثار اور قربانی دینے والا بنانا یہ بہت بڑا چیلنج ہوتاہے اورخطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ کئی لوگ اس کے لیے اس طرح کرتے ہیں کہ single point ایجنڈا پر اپنے کارکنوں کی brainwashing کر دیتے ہیں۔یہ سب سے آسان کام ہے۔مثلاً: حوریں دکھا دیں، شہادت کا رتبہ دکھا دیا، جنت دکھا دی، دوسرے کو کافر اور مشرک بنا دیا اور اپنی پوری جدوجہد کو میدان بدر سے مناسبت دے کر کسی کو مشرکین مکہ کی صف میں کھڑا کردیا اور کسی کو صحابہ کرام کی صف میں کھڑ اکردیا۔ single pointایجنڈے پر brainwashingکرنا اور کارکنان کے اندر وفاداری اور جانثاری پیدا کرنا آسان ہوتا ہے۔ہم نے زندگی میں بہت سے لوگوں کو یہ کام کرتے دیکھا ہے، لوگ یہ کام کرتے ہیں اور دہشت گردوں نے بھی اِسی حربے کو اپنایا ہے مگر ایک ایسی تحریک جو انتہاپسند ی کے خلاف جنگ لڑرہی ہو، جو ذہنوں میں وسعت پیدا کررہی ہو، توازن اور اعتدال لا رہی ہو، moderate vision دے رہی ہو، وہ brainwash بھی نہیں کرسکتی، single pointایجنڈے پر بھی کام نہیں کر سکتی۔اس لیے کہ وہ تحریک تو اسلام کی کُلیت کو اُجاگر کر رہی ہے۔ وہ اسلام کے تصور کو جزئیت سے نکال کر کُلیت کی طرف لا رہی ہے۔پس اُس کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ کارکنوں کی جانثاری بھی برقرار رکھیں اور توازن و اعتدال، moderate vision اور وسعت بھی برقرار رکھیں۔ moderate vision سے جانثاری پیدا نہیں ہوتی، اس لیے کہ شخصیت ہی moderate ہو جاتی ہے۔

اللہ رب العزت نے تحریک منہاج القرآن پر اِتناکرم کیا کہ الحمد للہ تعالیٰ تحریک نے moderate vision پر بھی سمجھوتہ (compromise) نہیں کیا اور اسے برقرار رکھتے ہوئے پوری دنیا میں نمایاں ترین حیثیت بنانے کے باوجود single pointایجنڈے پرbrainwashing بھی نہیں کی بلکہ ذہنوں میں وسعت رہی، ہر ایک کو سننے کی گنجائش رہی، اختلاف رائے کے لیے جگہ اور احترام رہا۔ الحمدللہ تعالیٰ تین نسلیں جو تحریک سے منسلک رہی ہیں، اُن تک یہ چیز اِسی طرح بڑھتی رہی۔

6۔ پرامن بقائے باہمی

ایک اور چیلنج جو نہایت اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ دینی تحریک کے لیے پرامن دینی بقائے باہمی (peaceful religious coexistence)پر کاربند ہونا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ کئی تحریکوں اور جماعتوں کا وجود، اہمیت اور قدو قامت دوسروں کے خلاف نفرت پیدا کرکے ہی برقرار رہ سکتا ہے۔ یہ دوسرے کے خلاف رنج و ملال اور غصے کا ماحول پیدا کرکے اپنی حفاظت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اِس سے ان کا relevanceبڑھتا ہے، یہ ان کا ایک ہتھیار (toll) ہوتا ہے۔ یعنی نفرت کا بازار گرم کرکے اور اپنی قوت کو انتہا پسندانہ بنا کر رکھنا آسان ہوتا ہے مگرpeaceful coexistence کا راستہ اختیار کرنا مشکل ہوتا ہے۔

الحمدللہ تحریک منہاج القرآن نے ایسا کلچر دیا جس میں ہر ایک کا اعتبار کرنا، ایک ہر کے وجو د کو ماننا، اختلاف رائے کا احترام کرنا، دوسرے کے مذہب کو ختم کرنے کا خیال نہ رکھنا، ہر ایک کوعزت دینا اور ملا کر بٹھانا، اس کا طرہ امتیاز ہے۔ اس تصور کو تحریک منہاج القرآن نے امت کے اندر بھی اور باہر کے معاشروں یعنی غیر مسلم طبقات کے اندر بھی فروغ دیا۔ یہ بھی بہت بڑا چیلنج تھا۔ اللہ رب العزت نے اس حوالے سے بھی ہماری مددفرمائی۔

7۔ دین کی ہمہ جہتی تعبیر

ساتواں بڑا چیلنج تحریک منہاج القرآن کو یہ درپیش تھا کہ ہماری اُمت دین کی تعبیر کے اعتبار سے اجزاء میں بٹ گئی تھی۔جس نے توحید پر فوکس کیا، وہ نبوت ورسالت کی شان کو نظرانداز کرتا تھا۔جس نے نبوت ورسالت کی شان پہ فوکس کیا، وہ توحید اور معارفِ توحید کی اہمیت اور مرکزیت کو نظر انداز کرتا تھا۔ یعنی مکمل طور پر انکار کوئی نہیں کرتا تھا مگر اُس کی اہمیت ان کے ہاں تھوڑی down grade ہوتی تھی۔جس نے صحابہ کرامl کی اہمیت پر فوکس کیا، وہ اہل بیت اطہارf کی اہمیت کو down gradeکرتا تھا۔ جو اہل بیت اطہارf کی بات کرتا تو وہ صحابہl کی محبت کو down grade کرتا تھا۔ اِسی طرح کسی نے آقاe سے عشق اور محبت کی بات کی تو اتباع، متابعت کو down grade کر دیا۔ جس نے اتباع اور سیرت کی بات کی، اُس نے محبت کی اہمیت کو down grade کردیا۔ الغرض دین کی تعبیر اجزاء اور ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی۔

اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے تحریک منہاج القرآن نے اِن تمام اجزاء کو پھر سے ایک کُلیت کی طرف لانے اور اُس کو آگے فروغ دینے کی کوشش کی تاکہ دین کے سارے اجزاء جُڑ کر ایک کل کے طور پر نظر آئیں اور ایک ایسا کل سامنے آئے کہ جس پر سب کا اعتماد ہو۔

7۔ احیائے تصوف

آٹھواں بڑا چیلنج تصوف کے حوالے سے تھا۔ معاشرے میں تصوف ایک عرصہ سے صرف مراسم پر مبنی رہ گیا تھا۔ اُس کے اندر سے تحرک ختم ہو گیاتھا۔سلف صالحین کا تصوف مفقود ہوگیا۔وہ تصوف جو زہد، تقوی، کتاب وسنت کی متابعت اور صدق و اخلاص پر مبنی ہے، جو ہم سلف صالحین اور قرونِ اُولیٰ میں دیکھتے ہیں، وہ تصوف ذہنوں سے اُتر گیاتھا۔ صرف مراسم کا نام تصوف اور سلوک رہ گیا تھا۔ تحریک منہا ج القرآن کے ذریعے تصوف کے تصور کو سلف صالحین کی طرف پلٹانے کی کوشش کی گئی۔

9۔ اصلاحِ احوال

نواں بڑا چیلنج اصلاحِ احوال کے حوالے سے تھا۔ من حیث القوم رویوں میں تعصب، تفرقہ، تنگ نظری اورانتہاپسندی پیدا ہوچکی تھی۔ تحریک منہاج القرآن نے اصلاحِ احوال کے باب میں رویوں، مزاجوں اور نفوس سے تنگ نظری اور انتہا پسندی کو ختم کرکے اخلاقی قدریں، وسعت اور برداشت کو بڑھانے کی کوشش کی۔

مجھے یاد ہے کہ جس وقت میں نے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ (MSM) کی بنیاد رکھی تو اس زمانہ میں اسے یونیورسٹیز اور کالجز میں بڑی مشکلات ہوتی تھیں۔ اِن پر حملے ہوتے تھے، اذیت دی جاتی تھی اور اِن طلبہ کی زندگی خطرے میں ہوتی تھی۔ ان حالات میں MSM کے میرے نوجوان بیٹے مجھ سے دفاع کے لیے اسلحہ اٹھانے کی اجازت طلب کرتے مگر میں انھیں ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کردیتا کہ اگر آج آپ کو دفاع کے لیے اسلحہ دوں گا تو کل وہی اسلحہ جارحیت کے لیے بھی استعمال ہوگا۔میں نے آپ کے ہاتھ میں قلم دیا ہے، یہ قلم آپ سے لے کر اس کے عوض اسلحہ کبھی نہیں دوں گا۔آج 43 سال گزر گئے، میں نے اپنے بچوں کو قلم پر رکھا، اسلحہ کے قریب بھی نہیں آنے دیا۔حتی کہ طلبہ یونیورسٹیز اور کالجز میں حد درجہ پیش آنے والی مشکلات سے شکستہ دل ہوگئے اور چند سال کے لیے ہمارا سٹوڈنٹس ونگ معطل ہوکر رہ گیا۔ میں نے کہا کہ طلبہ تنظیم کا ختم ہوجانا منظور ہے، اسلحہ نہیں دوں گا۔کئی سالوں کے بعد اُن نوجوانوں کو بھی ادراک ہوگیا کہ واقعتاً ہمارا اسلحہ قلم ہی ہے۔

10۔ غیر مسلموں اور خواتین کے حقوق کی بحالی

تحریک کو دسواں بڑا چیلنج غیر مسلموں اورخواتین کے حقوق کی بحالی کے حوالے سے درپیش تھا۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تعلقات کے حدود اور دائرے کیا ہیں؟اس حوالے سے کتاب وسنت کے تصورات کیا ہیں؟ تحریک نے اپنے اداروں کے ذریعے اس تصور کو اُجاگر کیا ہے۔

  • اسی طرح معاشرے میں خواتین کے وہ حقوق جو اسلام نے انھیں عطا کیے تھے، وہ practice نہیں ہوتے تھے اور اُن کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ نتیجتاً دو انتہائی سوچیں پیدا ہو گئیں: مذہبی حلقوں میں خواتین بہت سے حقوق سے محروم تھیں اور ماڈرن حلقوں میں جہاں بالکل secular approach تھی، وہاں اسلام کی حدود و قیود اوراحکام کو ترک کردیا گیا تھا۔ خواتین کے کردار کو تحریک منہا ج القرآن نے پہلی دفعہ برصغیر پاک وہند یا اسلامی دنیا کی تاریخ میں بڑی قوت کے ساتھ کتاب وسنت کی حدود وقیود کے ساتھ اجاگر کیا۔ الحمد للہ!آج پوری دنیا میں ہماری بیٹیوں اور بہنوں کا کردار کسی لحاظ سے مردوں اور نوجوانوں سے کم نہیں۔

الحمدللہ تعالیٰ! تحریک منہاج القرآن نے پوری دنیا میں Institutions قائم کرکے مذکورہ چیلنجز کا سامنا کیا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں اعتدال و توازن پر مبنی فکر کوعالم انسانیت تک ممکنہ حد تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کو آج تک جتنی کامیابیاں نصیب ہوئیں، وہ اللہ رب العزت کے امر اور مدد ونصرت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی خصوصی نوازشات، توجہات اور فیوضات کے سبب ہوئیں۔ ابھی سفر رواں دواں ہے۔ ہر ایک رفیق اور کارکن اسلام کے احیا و تجدید اور اصلاحِ احوال کی جو کاوشیں بجا لارہا ہے، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجاء ہے کہ وہ ہماری اس خدمت کو قبول کرے اور اُمت مسلمہ کےلیے خیر کا فیصلہ فرمائے اور اسلام کے احیا اور اُمت کی اصلاح کے لیے کی جانے والی ان کاوشوں کے نتائج اُمت مسلمہ، انسانیت اور پاکستان کے لیے خیر پر مبنی پیدا فرمائے۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ