غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ: شخصی عظمت اور احیائے اسلام کیلئے خدمات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

أَلَآ إِنَّ أَوۡلِيَآءَ ٱللهِ لَاخَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ.

(يونس، 10: 42)

خبردار!بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ وغمگین ہوں گے۔

مقدس، محترم اورمکرم شخصیات خواہ وہ انبیاء کرام ہوں، صحابہ کرام ہوں، اہل بیت اطہار ہوں، سلف صالحین ہوں یا اولیاء اور علماء کاملین ہوں، اُن کی ذواتِ مقدسہ میں درج ذیل دو پہلو خاص طور پر ایسے نظر آتے ہیں جو اُن کے پیروکاروں اور اُن سے محبت کرنے والوں کے لیے اُن کی یاد منانے، اُن سے تعلق اُستوار کرنے، ان سے عقیدت قائم رکھنےاور اُن کا ذکر کرنے کی وجہ بنتے ہیں:

1۔ پہلا پہلو اولیاء کی ذات اور شخصیت سے متعلق ہے۔

2۔ دوسرا پہلو اُن کے اُس کام سے متعلق ہے جواُنہوں نے اللہ کے دین، حضور علیہ السلام کی اُمت اور انسانیت کے لیے انجام دیا ہوتا ہے۔

آیئے اِن دو پہلوؤں کو حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دو القاب ’’غوث الاعظم‘‘ اور ’’محی الدین‘‘ کے درمیان ربط قائم کرتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اولیاء اللہ کی شخصی و ذاتی عظمت کا پہلو

اولیاء اللہ کی زندگی کا پہلا پہلو ان ہستیوں کی شخصی و ذاتی عظمت ہے۔ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک لقب غوث اعظم ہے۔یہ لقب اُن کے مرتبہ غوثیتِ عظمیٰ اور ولایت کبریٰ کی طرف اشارہ ہے ۔اسی وجہ سے آپ کو غوث الاعظم یا قطب الأکبر کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپؓ کا مقامِ غوثیت و قطبیت آپؓ کی ذاتی فضیلت کا حامل ہے۔ اس لیے کہ ولایت کے باب میں جس کو جو بھی مقام و مرتبہ حاصل ہوا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہستی اللہ رب العزت کو کتنی محبوب اور مقرب ہے۔ ولایت کا لغوی معنی؛ دوستی، محبت، مددگار اور قربت و معیت ہے۔ ان معانی کی رو سے ولی اللہ وہ بندہ ہے جسے اللہ کی قربت اور دوستی حاصل ہوگئی۔ جس طرح بندہ اللہ کی محبت، اس کی قربت و معیت اور اس سے دوستی کا خواہاں رہتا ہے، اسی طرح اللہ بھی اپنے بعض مقرب بندوں کو اپنی محبت اور دوستی کے لیے منتخب فرمالیتا ہے۔ یہ معنیٰ قرآن مجیدکی اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے۔ارشاد فرمایا:

ٱللهُ وَلِيُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ.

(البقرة، 2: 257)

’’اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے۔‘‘

گویا کبھی بندہ اللہ کا ولی ہوتا ہے اور کبھی خود اللہ رب العزت اپنے بندے کا ولی ہوتا ہے۔گویا ولی میں دونوں معنیٰ پائےجاتےہیں۔ جب کسی کو ’’ولی اللہ‘‘ کہا تو اُس کا مطلب ہے کہ یہ اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اِس سے محبت کرتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

يُحِبُّهُمۡ وَيُحِبُّونَهُ.

(المائدة، 5: 54)

’’ جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگااور وہ اُس سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘

مفسرین، محدثین، اسلاف اور کبار اولیاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مرتبۂ ولایت پر فائز ہونے والا بندہ اللہ سے محبت بعد میں کرتا ہے جبکہ اللہ اُس سے محبت پہلے کرتا ہے۔ یعنی اللہ کی محبت مقدم ہے ۔پھر اللہ اُس بندے کو توفیق دے دیتا ہے کہ وہ بندہ بھی اللہ سے محبت کرے۔ گویا جس بندے کو اللہ کی ولایت نصیب ہوتی ہے وہ پہلے اللہ کا محبوب بنتا ہے اور جب اللہ اُسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ کی محبت کی توفیق سے وہ اللہ کا محب بھی بن جاتا ہے۔جب کوئی بندہ اللہ کا محب بن جاتا ہے تو اس بندے کو اللہ اپنی محبت تو عطا کرتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بندے کو فرشتوں اور دنیا والوں کا محبوب بھی بنادیتا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إن الله إذا احب عبدا دعا جبريل، فقال: إني احب فلانا فاحبه، قال: فيحبه جبريل، ثم ينادي في السماء، فيقول: إن الله يحب فلانا فاحبوه فيحبه اهل السماء، قال: ثم يوضع له القبول في الارض.

(صحیح مسلم، كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ، باب إِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا۔۔۔)

’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، کہا: تو جبرئیل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں، کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتاہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، کہا: پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘

گویا وہ بندہ رہتا تو زمین پر ہے لیکن آسمان پر اس سے محبت پہلے شروع ہو جاتی ہے۔پھر اُس کی محبت کو زمین پر اُتارا جاتا ہےاور اس کی محبت کے لیے دل چن لیے جاتے ہیں۔ پھر لوگ بھی اللہ کے اُس بندے سے محبت شروع کر دیتے ہیں اور یوں یہ سلسلۂ محبت شروع ہوجاتا ہے۔

ولایت اللہ کے بندے کا شخصی کمال ہوتا ہے جو اللہ اسے عطا کرتا ہے۔ ولایت کے اس مقام ومرتبہ پر پہنچے کے لیے ضروری ہے کہ اُس بندے میں زہد، تقویٰ ، ورع، پرہیزگاری، طہارت، عبادات ، اچھے معاملات اور اخلاق بھی ہوں۔ گویا ساری نیکیاں، اچھائیاں اور بھلائیاں حاصل کیے بغیر کوئی ولی اللہ نہیں ہوسکتا۔

کیا ولایت کے لیے اعلیٰ نسب ہونا لازمی ہے؟

ہمارے ہاں ولی اللہ کی پہچان کچھ اور ہے۔ یاد رکھیں! ولی اللہ ہونےکے لیے نہ کوئی خاص لباس چاہیے ، نہ جبہ قبہ چاہیے، نہ کوئی خاص وضع قطع چاہیے، نہ آنکھوں کا سرخ رنگ چاہیے کہ جس سے جلال محسوس ہو، نہ بڑے بڑے دانے والی تسبیح چاہیے، نہ عملیات اور کوئی گدی نشینی چاہیے۔ اسی طرح نہ کوئی خانوادہ اور خاندان چاہیے۔ اِن میں سے کوئی چیز بھی ولایت کے لیے مطلوب نہیں ہے۔یہ ساری چیزیں ہماری اپنی گھڑی ہوئی ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ بزنس products ہیں۔ کارو بار اور تجارت کے مقصد کے لیے اِن چیزوں کو گھڑا گیا ہےاور گھڑ کرلوگوں کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اس بزنس سے نذرانہ کی صورت میں جیب میں پیسہ آتا ہے اور بندہ مالی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ اِن خود ساختہ چیزوں کی کوئی اصل شریعت ، طریقت ، حقیقت ، قرآن، سنت اور سلف صالحین کی تعلیمات میں نہیں ہے۔ ایک غریب جُولاہے کا بیٹا یا محض غریب، فقیر اور معاشی و سماجی طور پر کمزور سے کمزور گھرانے میں پپدا ہونے والا اور محنت مزدوری کرنے والے کا بچہ بھی ولی اللہ ہوسکتا ہے۔ کسی کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جو جس درجے تک چاہے جا سکتا ہے، خواہ وہ مرتبہ قطبیت و غوثیت ہی کیوں نہ ہو۔

تاریخ اولیاء کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ کئی کبار اولیاء کے ماں باپ نومسلم تھے یا وہ اولیاء مرتبۂ ولایت پر فائز ہونے سے قبل دنیا اور اس کے مشاغل میں حد درجہ غرق تھے مگر پھر اُن کے دل کی کایہ پلٹ گئی اور وہ ولایت کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہوگئے حتی کہ قطب اور غوث کے مقام تک جاپہنچے۔ گویا ہم ولایت کے لیے جس نسب کی تلاش میں رہتے ہیں، کبار اولیاء میں سے اکثر اس مرتبہ کے نسب کے حامل نہ تھے۔حضرت بشر حافیؒ کو اللہ کے نام کی تعظیم کی وجہ سے ولایت کی خوشخبری اس حال میں ملتی ہے کہ آپ شراب خانے میں ہیں۔۔۔ حضرت فضیل عیاضؒ کا پیشہ رہزنی تھا۔۔۔ حضرت جنید بغدادیؒ پہلوان تھے۔۔۔ کسی کے والدین پہلے پارسی یا عیسائی تھے بعد ازاں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے۔۔۔ حضرت معروف کرخیؒ، سیدنا امام علی رضا علیہ السلام کے خادم تھے اور اُن کے ہاتھوں پر کلمہ پڑھ کے مسلمان ہوئے تھے۔۔۔ الغرض کسی نہ کسی واقعہ کی وجہ سے ان حضرات کو توبہ کی توفیق ملی اور پھر بعد ازاں اُنہوں نے ریاضت و مجاہدہ اور ورع و تقویٰ کے ذریعے نفس کا زہد و تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کیا۔۔۔ اللہ کے وفاداربندے ہوگئے۔۔۔ جب سے اللہ کو پہچانا پھر اُس سے بے وفائی نہیں کی۔۔۔ جب اللہ کے ساتھ دوستی کر لی، اُس کو رب مان لیا توپھر کبھی نافرمان نہیں ہوئے تو اللہ ان کا دوست ہوگیا اور ان کے درجے بلند ہوتے گئے۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ولایت کے حوالے سے ہمارے من گھڑت تصورات کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ ولایت کی اصل قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بیان فرمادی ہے۔ ارشاد فرمایا:

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ.

(الحجرات، 49: 13)

بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ باعزت وہ ہے جوتم میں زیادہ پرہیز گار ہو۔

اگر نسب کو پیمانہ بنایا جائے تو غور طلب بات یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کا خانوادہ چھوڑ کر بقیہ صحابہ کرام کا نسب کیا تھا؟یہ سارے کفر و شرک کے ماحول سے نکل کر ہی تو اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ انھوں نے کلمہ پڑھا، صحبتِ مصطفی ﷺ نصیب ہوئی اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کہلانے لگے۔ ان کی عظمت اور مرتبے کے حصول میں ان کے نسب کا تو کوئی عمل دخل نہیں۔ سب صحابہ کرام یکے بعد دیگر ے مسلمان ہوئے۔ اسی کلمہ کی وجہ سے انھیں اسلام میں خلفاء راشدین، عشرہ مبشرہ ، السابقون الأولون، بدری صحابہ ، بیعت رضوان کے صحابہ اور مختلف مقامات، درجات اور خوشخبریوں سے نوازا گیا۔ الغرض ان کے تمام مرتبے اور درجے انھیں کلمہ پڑھنے کے سبب ملے ہیں۔

یاد رکھیں کہ کوئی شخص خواہ جتنے بڑے گھرانے کا ہو ، بڑا نسب ہو لیکن اگر وہ نافرمان، فاسق وفاجر ، قاتل ، ڈاکو ، کرپٹ اور بے عمل ہے، اس کے پاس شریعت اور تقویٰ نہیں ہے تو اس کا عالی خاندان اور نسب اُس کو کوئی فائدہ نہیں دیتا مگر جو اللہ کی بندگی میں تام ہوگیاتواُس سے بڑا کائناتِ انسانی میں کوئی نہیں۔یہ حقیقتِ ولایت ہے۔ گویا ولایت میں جس نے جتنا رتبہ بلند کر لیایہ اُس کا شخصی کمال اور اُس کی ذاتی عظمت ہے۔

اولیاء اللہ کی احیاء اسلام کے لیے خدمات کا پہلو

اولیاء اللہ کی شخصیت کا دوسرا پہلو جو انھیں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت و عقیدت کو ہمیشہ ترو تازہ رکھتا ہے، وہ پہلو دینِ اسلام کے لیے اُن کی خدمات کے حوالے سے ہے۔ دیکھا جائے گا کہ انھوں نے دین اسلام، حضور علیہ السلام کی اُمت اور جملہ انسانیت کی کتنی خدمت کی ہے۔۔۔؟ دینی قدروں کو کتنا زندہ کیا۔۔۔؟ لوگوں کو صحیح اور سچے دل سے اسلام کی راہ پر کس قدر گامزن کیا۔۔۔؟ ہدایت کتنی پھیلائی۔۔۔؟ لوگوں کے دلوں میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا پیغام کتنا پہنچایا۔۔۔؟ پس ولی اپنی زندگی میں بھی امت کے لیے نافع ہوتا ہے اور بعد ازاں بھی اس کی خدمات سے آنے والی نسلیں فائدہ اُٹھاتی ہیں۔

ولایت کے اسی پہلو کو احیاء دین کہتے ہیں اور اس مرتبہ پر فائز ہونے والا محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا) کے لقب سے ملقب ہوتا ہے۔ حضور غوث الاعظمؓ کو بھی یہ لقب احیاء دین کے سبب ملا۔ یاد رکھیں! دین قیامت تک مردہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ اللہ کا دین ہے ۔ یہ روزِ اوّل سے زندہ تھا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ پھر اولیاء اللہ دین کو زندہ کیسے کرتے ہیں۔۔۔؟ محی الدین کا لقب پانے والا کیسے دین کا إحیاء کرتا ہے۔۔۔؟ دراصل جب دین پر لوگوں کا عمل مردہ ہوجاتاہے۔۔۔ اُس دین کے ساتھ لوگوں کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ لوگوں کی زندگی میں دین کی قدریں مٹ جاتی ہیں۔۔۔ دین کا علم اور فہم معدوم ہو جاتا ہے۔۔۔ دین کی معرفت ناپید ہوجاتی ہے۔۔۔ جب لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں میں دین کی تعلیمات پر عمل اور دین سے تعلق کمزور تر ہوجاتا ہے یا قطع ہوجاتا ہے۔۔۔ دین اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے لوگ مردہ ہوجاتے ہیں۔۔۔ تو لوگوں کو اس کیفیت اور حالت سے نکال کر ان کا دین کے ساتھ تعلق بحال کرنا اور دین کی تعلیمات پر عمل کرانا تجدید ہوتی ہے۔ اسی انداز اور رنگ میں تجدید کرانے والے کو مجدد کہتے ہیں اور اُسے ہی محی الدین کہتے ہیں۔

یہ دونوں پہلو تمام اولیاء اللہ میں برابر نہیں ہیں۔ بیشتر اولیاء ایسے ہوتے ہیں جو تقویٰ ، پرہیز گاری، عبادت گزاری، اخلاق، زہد، ورع کی وجہ سے اللہ کے اِتنا قریب ہوجاتے ہیں کہ انھیں شخصی عظمت اور کمال حاصل ہوجاتا ہے کہ اُن کے قریب آنےوالے لوگ ضرور بالضرور ہدایت پاتے ہیں اور ان کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ ہر ایک نے اپنے زمانے میں دین کو اُس طرح زندہ کیا ہو۔ ان اولیاء کے گریڈ ز، دائرہ کار اور حلقۂ اثر جدا جدا ہوتے ہیں۔ جن اولیاء میں یہ دونوں چیزیں یکجا ہو جائیں تو اُن کا مرتبہ مزید بلند ہوجاتا ہے۔ پہلے وہ اپنے مالک سے اپنا تعلق جُوڑتے اور مضبوط کرتے ہیں اور پھر وہ ایسی خدمات انجام دیتے ہیں کہ لوگوں کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ٹوٹا ہوا تعلق جوڑتے اور قائم کرتے ہیں۔

اولیاء اللہ سے عامۃ الناس کے تعلق کی نوعیت

اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے ساتھ ہمارے تعلق کی دو نوعیتیں ہیں:

  1. تعلقِ عقیدت
  2. تعلقِ متابعت

1۔ اولیاء کی ذاتی روحانی عظمتیں، کمالات، کرامات اور روحانی تصرفات سب عقیدت کے تعلق کے دائرے میں آتی ہیں اور ان امور کی بنا پر ان کے ساتھ ہمارا تعلق محبت و عقیدت قائم ہوتا ہے۔

2۔ محبت اور عقیدت کے تعلق کے بعد متابعت کاتعلق ہے یعنی اُن کی پیروی و اتباع کرنا، اُن کے نقشِ قدم پر چلنا اور اُن کی تعلیمات کی اتباع کرنا۔

تعلق کی ان دونوں نوعیتوں کے اعتبار سے ہمارے ہاں دو طرح کے مکتبِ فکر پیدا ہوچکے ہیں:

1۔ ایک مکتبہ فکر ایسا ہے جو محبت اور عقیدت کو تو سننا چاہتا ہے مگر تعلق کی دوسری نوعیت یعنی متابعت پر کان ہی نہیں دھرناچاہتا۔ وہ سارا کام خالی محبت اور عقیدت سے چلانا چاہتا ہے۔یہ کام اُسے آسان لگتا ہے اور دوسرے کام کو وہ مشکل سمجھتا ہے ۔ یہ طبقہ ہمارے اہل سنت کا ہے۔

2۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو محبت اور عقیدت کی بات زیادہ نہیں سننا چاہتا اور نہ ہی وہ اس سلسلہ میں تقریبات اور مجالس کا اہتمام کرتا ہے۔ وہ صرف تعلیمات کی پیروی اورمتابعت کی بات کرتا اور سنتا ہے اور یہی راستہ ان کو آسان لگتا ہے۔

یہ دونوں رشتے سچے ہیں مگر ایک طبقہ نے محبت وعقیدت کو اختیار کرلیا اور متابعت سے لاتعلق ہو گیا ہےاور دوسرے طبقہ نے پیروی اور متابعت کو اختیار کرلیا اور محبت و عقیدت سے لاتعلق ہوگیا۔ ان میں سے ہر ایک نے تعلق کی ایک نوعیت کو اختیار کرلیا اور دوسری نوعیت کو بے فائدہ سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح یہ دونوں طبقات حقیقت کے درمیان میں لٹکے ہوئے ہیں حالانکہ یہ دونوں تعلق اور رشتے لازم و ملزوم ہیں۔

اس صورت حال میں علماء و واعظین کے لیے بڑا آسان کام ہوگیا کہ اگر تو ان کےسامعین صرف محبت اور عقیدت والےہوں تو وہ ایساخطاب کریں گے کہ جس میں کرامات، معجزات، کمالات کا ذکر ہوگا۔ جب واعظین عامۃ الناس کو محبت اور عقیدت پر ابھاریں گے تو پھر ان کے نام کے نعرے لگیں گے اور یوں لوگ ان سے جُڑیں گے کیونکہ قلب کا رشتہ جذبات کو جُوڑتا ہے ۔ اگر دوسرا رشتہ ہو جس کو وصول کرنے والی عقل ہے تو ایسے سامعین کی صورت میں واعظین و مبلغین عقل اور فہم کو مخاطب کرتے ہیں اور اس کے ذریعے عمل کی طرف ابھارا جاتا ہے۔

پہلا رشتہ جس سے قلبی جذبات وابستہ ہیں، لوگوں نے اِس کے ساتھ کاروبار وابستہ کرلیاہے۔ یہ لوگ بڑے comfort zone میں ہیں۔ عقیدت کروائی، ہاتھ چومائے، کرامات سنائیں اور بیڑا پار کروایا۔ان لوگوں کو نماز، روزے، حج ، زکوۃ، علم، عمل، تقویٰ، زہد، ورع، پرہیزگاری، حلال، اخلاق الغرض کسی شے پر زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔پھر اِس کے ساتھ ساتھ یہ تأثر بھی دے دیا جاتا ہے کہ بہت زیادہ لمبی چوڑی محنت کی ضرورت نہیں۔ اِسی عقیدت، نذرانے سے ہی بیڑا پار ہو جانا ہے۔ پس اسی عقیدت نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچادیاہے۔

میں نے جتنا پڑھا، سنا اور برتا ہے، اِس طرح کا بیڑا پار کرنا اسلام کا تصور نہیں ہے۔ یہ رویہ اور سوچ لوگوں کو گمراہ کرنا، بہکانا اور اُن کی آخرت کو خراب کرنا ہے۔ عقیدت کے ساتھ ہاتھ چوم لینا، سالانہ عرس پر آنا، نذرانہ دینا، لنگر پکانا اور کھلانا، یہ سب مراسم جائز ہیں، اِن میں برکت ہے، اِس سے جذباتی و قلبی نسبت پیدا ہوتی ہے ، فیض ملتا ہے، سب کچھ جائز ہے مگر صرف اِس پر انحصار کروا کر لوگوں کو ایسے آسان اور comfort zone میں ڈال دینے سے کہ اُن کے دل ودماغ اور زندگی سے علم اور عمل کی اہمیت ختم ہوجائے، تقویٰ کا تصور ختم ہوجائے، زہد ، ورع، پرہیزگاری اور حسنِ اخلاق کا خاتمہ ہو جائے اور وہ سمجھے کہ محض گیارہویں شریف، میلاد شریف اور عرس مبارک منانے سے بیڑا پار ہو گیا یا پھر پیر صاحب سے بیعت اور نذرانہ دینے سے بیڑا پار ہو گیا، اس رویہ کا شریعت اور طریقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کوئی آدمی ایسی تعلیم براہ راست دے یا اپنے قول وفعل سے لوگوں کے ذہنوں میں ایسا تصور قائم کردے تو اُس نے اپنابیڑا بھی غرق کیا اور دوسروں کا بھی بیڑا غرق کیا بلکہ اس نے اپنے اور دوسرے کے لیے ہلاکت خرید لی، اس لیے کہ یہ اولیاء کی تعلیمات ہرگز نہیں ہیں۔

اگر ہم میلاد پاک، گیارہویں شریف اور عرس بھی کر رہے ہوں، بزرگوں کے ہاتھ بھی چوم رہے ہوں، پیرانِ کرام سے عقیدت بھی ہو مگر عملی زندگی میں جھوٹ، ہیرا پھیری، گالی گلوچ، دھوکہ دہی، حق تلفی، اہل و عیال اور رشتہ داروں و متعلقین کے ساتھ بدسلوکی و قطع رحمی، رزقِ حرام، لغو گوئی اور ظاہری و باطنی عدم طہارت بھی ہو اور صرف اور صرف عقیدت اور اُس کے مظاہر کے اوپر سارا مدار کر لیں اور سوچیں کہ بس بیڑا پار ہوجانا ہے تو یہ گمراہی، ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ حضور غوث الاعظمؓ اور وہ کل اولیاء اور صوفیاء جن کے ہم ماننے والے ہیں، اُن میں سے کسی ایک نے چودہ سو سال کے اندر ایسی تعلیم کبھی نہیں دی۔ جملہ اولیاء، قطب، غوث، اکابر اور اہل سلاسل کی تعلیمات میں ایک جملہ بھی اِس طرح کانہیں ہے۔ یہ تصور ہم نے گھڑلیاہے یا مفادات کے حصول کے لیے یہ تصور بنا دیا گیا ہے۔

جس طرح ہم پیروی اور متابعت کی اہمیت کو زندگی سے نکال کر سنت ، عمل ، تقویٰ، علم اور پرہیزگاری سے محروم ہو گئے ہیں ، اسی طرح دوسرے لوگ پیروی اور متابعت پر فوکس کرکے محبت و عقیدت کے مظاہر سے محروم ہوگئے۔ جن مظاہر سے روحانی ، وقلبی تعلق اور محبت و عقیدت کے سبب برکتیں اور فیوضات وابستہ تھے، اُنہوں نے اُس سے اپنے آپ کو محروم کر لیا ہے۔ سو آدھی چیز اِدھر رکھ لی گئی ہے اور آدھی چیز اُدھر رکھ لی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضور غوث الاعظم کے ساتھ جہاں محبت اور عقیدت کا تعلق ہے، وہاں پیروی اور متابعت کا تعلق بھی قائم کریں تاکہ ہم اُن کے سچے مرید اور پیرو کار کہلائیں۔ ہر شخص کا اپنےسلسلے کے بزرگوں کےساتھ اسی طرح کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسی حقیقت کی طرف یوں متوجہ فرمایا ہے:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي.

(آل عمران، 3: 31)

(اے حبیب مکرم ﷺ !) آپ فرمادیں: اگرتم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔

گویا سادہ سا فارمولہ دے دیا کہ اللہ سے محبت کرتے ہو توزندگی میں عملاً حضور نبی اکرم ﷺ کی متابعت کرو، تب اللہ کے ساتھ ہمارا دعویٰ محبت سچا ثابت ہوگا۔

تعلیماتِ حضور غوث الاعظمؓ (الفتح الربانی کی روشنی میں)

آیئے! حضور سیدنا غوث الاعظم ؓ کی چند وصیتوں اور نصیحتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ہر مہینے جن کی یاد مناتے ہیں، ان کی تعلیمات کیا ہیں؟ ان تعلیمات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکیں۔ محبت اور عقیدت کے ساتھ پیروی اور متابعت ہی کے سبب ہم ان ہستیوں کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہوں اورمسکرائیں کہ مجھ سے محبت کرنے والابھی ہے اور میری پیروی کرنے والاسچا وفادار بھی ہے۔ ’’الفتح الربانی‘‘ میں حضور سیدنا غوث الاعظم کے مواعظ پر مبنی 62 مجالس ہیں جن میں 250 سے زائد اصلاحی موضوعات شامل ہیں۔ ذیل میں آپ کے ان ہی مواعظ میں سے چند کا تذکرہ مع تشریح درج کیا جارہا ہے:

(1) خیر، توبہ اور دعا کے دروازے

الفتح الربانی کی چوتھی مجلس میں حضور غوث الاعظمؓ نے فرمایا: ’’جس شخص کے لیے خیر کاکوئی دروازہ اللہ نے کھول دیا ہو تو جب تک وہ دروازہ کھلا ہو، وہ اُس کو غنیمت سمجھے۔ معلوم نہیں یہ دروازہ کب بند ہوجائے۔ ‘‘

غور طلب امر یہ ہے کہ آپ یہ ارشاد نہیں فرما رہے کہ معلوم نہیں زندگی کب ختم ہو جائے بلکہ فرمارہے ہیں کہ دروازہ کب بند ہوجائے یعنی ایسا نہ ہو کہ زندگی کے اندر کوئی ایسا عمل ہوجائے کہ خیر کا دروازہ یعنی ہدایت کی توفیق بند ہوجائے۔

« فرمایا: ’’توبہ کے دروازے کو غنیمت سمجھو کہ وہ اب تک تمہارے لیے کھلا ہے۔ جتنا جلد ہو سکے، اُس میں داخل ہو جاؤ، قبل اُس کے کہ وہ بند ہوجائے۔‘‘

« فرمایا: ’’دعا کا بھی ایک دروازہ ہے اور غنیمت سمجھو کہ تم پر دعا کا دروازہ بھی کھلا ہے۔ اُس میں داخل ہو جاؤ۔‘‘

یعنی اللہ کے ساتھ دعا اور التجاء کے تعلق کو قائم کرنا ہوگا تاکہ جواب میں ہمیں ہدایت نصیب ہوسکے۔

(2) حقیقی دوست کون ہے؟

حضور غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں کہ’’اپنے اُن دوستوں، بزرگوں، مشائخ کوغنیمت جانو جو تمہیں تمہاری کمزوریوں ، غفلتوں اور کوتاہیوں سے آگاہ کریں۔ اُن کی مجلس میں بیٹھا کرو، اُن کو زیادہ سنو، اگر تم اُن سے کٹ گئےتو پھر تمہیں تمہاری بداعمالیوں پر آگاہ کرنے والا کوئی نہیں رہے گا اور اصلاح کی طرف واپس جانا تمہارےلیے ناممکن ہو جائےگا۔‘‘

ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری گفتگو پر کوئی واہ واہ کرے، ہماری خوشآمدی کرے تو ہم اُس سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے برعکس جو ہماری کمزوریوں کی بات کردے، ہم اُ س سے تعلق کا ٹ دیتے ہیں۔ حضور غوث الاعظمؓ کے اس فرمان کی روشنی میں ہمیں اپنے حقیقی دوستوں اورمجالس کو پہچاننا ہوگا جن کے وسیلہ سے ہم اصلاح کی طرف گامزن ہوسکیں۔

(3) تعلق باللہ و تعلق بالرسول ﷺ کی بحالی

آپ فرماتے ہیں کہ ’’لوگو! جو تعلق اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے توڑ چکے ہو عملی زندگی میں اُس کو پھر بحال کر لو۔‘‘

یعنی بدخُلقی، حق تلفی ، زیادتی، گالی گلوچ، غیبت، چغلی کے سبب جو تعلق اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے توڑ چکے ہو، اُس تعلق کو بحال کرلو۔

(4) باطنی طہارت

فرمایا:’’جس کو نجس اور پلید کر چکے ہو، اُس کو دھو لو۔سب چیزیں جنہیں بگاڑ چکے ہوسنوار لو۔ یعنی اپنے اعمال، احوال اور اخلاق کو بھی سنوار لو۔ اپنی ہر اُس چیز کو صاف کر لوجسے گدلا اور مکدر کر چکے ہو اور ہر وہ چیز لوٹا دو جسے ناجائز طور پر لے چکے ہو۔ ‘‘

یعنی وہ دل جس کو گناہوں، نافرمانیوں، بُری خواہشات اور بُرے خیالات کے ساتھ نجس اور پلید کر چکے ہو، اپنے ان دلوں کی نجاست کو توبہ، زہد، ورع، تقویٰ ، گریہ وزاری اور اصلاح کے پانی سے دھو لو تاکہ تمہارے دل پاک اور صاف ہو جائیں۔

حضور غوث پاکؓ کے مقام و مرتبہ کا معیار صرف کرامات نہیں ہیں کہ قُم بإذن اللہ سے مردے زندہ کر دیئے بلکہ اُنہوں نےاللہ کے دین کو اپنی تعلیم سے مسلمانوں کی زندگیوں میں زندہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فرمارہے ہیں کہ جس کے حق میں تم سے غلطی ہوئی، مغالطے سے یا بدنیتی سے یاتم نے اس سے ناجائز لے لیا تو اس کو لوٹا دو۔ اس لیے کہ اگر نہیں لوٹاؤ گے تو خیر کی طرف نہیں پلٹو گے ۔

(5) غفلت کی نیند سے بیدار ہوجاؤ

آپ نے فرمایا کہ ’’بیٹے! غفلت کی نیند سےبیدار ہوجا، قبل اس کے کہ جب تمہیں موت کی نیند سے بیدار کیا جائے گا تو پھر تمہارے پاس اپنے احوال کو سنوارنے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہاں تم حساب وکتاب کے لیے پیش کیے جاؤگے۔ ‘‘

« فرمایا: ’’اگر احکامِ الہیٰہ سے راہ فرار اختیار کرگئے ہو یا اس کی قربت سے بھاگ گئے ہو توتائب ہوکر اللہ کی طرف پلٹ جاؤ۔اپنی عملی زندگی میں دیندار بن اور جو دیندار ہیں اُن سے میل جول رکھ تاکہ تمہاری زندگی میں دین محفوظ رہے۔‘‘

(6) خلوت کی تصحیح

فرمایا: ’’بیٹے!تیری خلوت اللہ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘

یعنی جب تو باہر لوگوں میں نکلتا ہے تو اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتا ہےاور خود کو ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے تو اللہ کا بڑا مومن، مخلص اور نیک بندہ ہےمگر جب تو تنہا ہوتاہے تو اُس وقت تو وہ نہیں رہتا جو تو دکھاکر آیاتھا۔ لہذا تیری خلوت اللہ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ خلوت میں اُس سے بہتر حال رکھ جو جلوت میں لوگوں کے سامنے رکھا تھا۔ تب تیری خلوت اللہ کے ساتھ اچھی ہو گی۔یعنی اللہ کا عبادت گزار بن، وفادار بن، مخلص بن، اِس طرح کہ تیری خلوت اور جلوت ، تیرے ظاہر اور باطن، تیری تنہائی اور تیری محفل کی زندگی میں کوئی فرق نہ رہے۔

« فرمایا:’’جب تیرا قلب اور دل بُرے خیالات، بُری خواہشات، بُرے ارادوں اور بُری نیتوں سے صاف ہوجائےگا تو تُو جدھر دیکھے گا تجھے عبرت ملےگی۔پھر تیری نگاہ، سوچ اور کانوں سے تجھے عبرت ملے گی۔ تیرا دل فکر بن جائے گا اور تیری روح اللہ کے ساتھ جُڑ جائےگی۔ اُس وقت تجھے پتہ چلے گا کہ جس شےمیں تو دلچسپی رکھتا تھا، وہ عذاب تھااور جس سے اب تو مولیٰ کے ساتھ جُڑ گیا ہے وہ اصل حیات ہے اور حقیقت میں یہی راحت ہے۔ ‘‘

« فرمایا:’’اے بندے تیری خلوت تب تک فاسد اور باطل ہے اور تیرا باطن نجس ہے جب تک تواپنے دل ، اپنے باطن ، ارادوں ، نیتوں، چھپے معاملات اور خیالات کو پاک کرکے اللہ کے تابع نہیں ہوجاتا اور اس کی وفا میں یہ سب اس کے سپرد نہیں کردیتا۔ جان لے کہ نجس باطن کی اللہ سے دوستی نہیں ہوتی۔ جو لوگ اپنے دل اور باطن کو پلید رکھیں، اللہ اُن سے محبت نہیں کرتااور ان پلید دلوں میں اپنی محبت بھی نہیں ڈالتا ۔ ‘‘

اگر پیالہ پلید و نجس ہو تو کیا ہم اُس میں پانی ڈال کر پیتے ہیں۔۔۔؟ہم ایک گندے پیالے میں پانی نہیں ڈالتے تو گندے دل میں اللہ اپنی محبت کیسے ڈالےگا۔۔۔؟ وہ تو اپنی محبت کے لیے دلوں کو دیکھتا ہے۔ وہ ستر سترمرتبہ بھی دیکھتا ہے کہ کیا یہ دل اِتنا پاک صاف اور اِس قابل ہو گیاہےکہ اب اِس دل کے برتن میں اپنی محبت کا دودھ ڈال دوں ۔اگر دل پاک ہو جائیں اور اللہ کی قربت ومحبت کا برتن بن جائیں تو تب ان میں اللہ کے انوار وتجلیات اُترنے لگتے ہیں اور یہ مالائے اعلیٰ کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں۔

(7) صحبت اور دوستی کا معیار: علم، عمل اور تقویٰ

آپ نے فرمایا کہ ’’اے میر ے مخاطب!جب تو ایسے شخص کی صحبت اختیار کرے یا ایسے شخص کے ساتھ دوستی رکھے ، اُس کی مجلس میں بیٹھے یا اُس کی خدمت بجا لائے جو علم اور تقویٰ میں تجھ سے زیادہ ہے تو پھر یہ صحبت تیرے لیے برکت کا باعث ہوگی۔‘‘

یعنی اِس سے تمہارے ایمان میں اضافہ ہوگا، آخرت کی طرف تمہاری رغبت بڑھے گی، تمہارےاخلاق بہتر ہوں گے، تمہارے دلوں کو صفائی ملے گی، تمہارے اندر کی نجاست دور ہوگی اور پاکیزگی و طہارت ملے گی۔

پھر فرماتے ہیں کہ’’جب تو ایسے شخص کی صحبت اختیار کرے گاجس کے پاس نہ علمِ نافع ہے اور نہ عملِ صالح و تقویٰ ہے تو اُس کی صحبت تمہارے لیے منحوس ہوگی اور نتیجتاً خیر، نیکی، اطاعت اور عبادت کا ذخیرہ یا جذبہ جو پہلے تمہارے اندر تھا، وہ بھی ختم ہوجائے گا یا کمزور ہوجائے گا ۔‘‘

گویا آپؓ نے واضح فرمادیا کہ اِس چیز پر مدار نہیں ہے کہ کون عمر میں بڑا ہے اور کون چھوٹا ہے؟ کس کی کیا وضع ، قطع، عمر، ہیت ، لباس اور نسب وغیرہ ہے بلکہ مدار علمِ نافع ، عملِ صالح اور تقویٰ ہے۔ حضور غوث الاعظمؓ علم، عمل اور تقویٰ سے خالی شخص کی صحبت سے اس لیے منع فرماتے ہیں کہ چونکہ اُس میں علم نہیں ہے تو وہ کبھی زندگی میں علم کی اہمیت کا درس نہیں دے سکتا۔ جس آدمی کے پاس خود علم نہیں مگر وہ اپنی تعظیم وتکریم کروانا چاہتا ہےاور اپنی بزرگی منوانا چاہتا ہے تو وہ کہے گا کہ ’’بیٹا یہ علم کتابی چیز ہے، ہم تو سارا کچھ سینوں کے ذریعے اوپر سےلیتے ہیں۔‘‘ حالانکہ کتاب کے بغیر سینہ اور اوپر کی کسی چیز کا نام نہیں ہے۔اوپر اُس کے لیے ہے جس کے پاس پہلے سے نیچے بھی کوئی اصل ہے۔ یعنی کتاب ہے۔ جس کے پاس کتاب نہیں ہے، اُس کے لیے اللہ کا کوئی خطاب نہیں ہے۔ جس نے زمین پر تقویٰ اور طہارت کے ساتھ ریاضت اور مجاہدہ نہیں کیا، اُس پر اللہ کی بارگاہ سے وہب اور انعام کا دروازہ نہیں کُھلتا۔

آج لوگوں نے شریعت، طریقت اور حقیقت کو الگ الگ کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علماء شریعت جانتے ہیں، ہم اِن سے ایک درجہ اونچے ہیں کیونکہ ہم طریقت والے ہیں۔ اسی طرح کوئی کہتا ہے کہ ہم طریقت والوں سے بھی اونچے حقیقت والے ہیں۔یاد رکھ لیں! جو شخص صاحبِ شریعت نہیں اوروہ دعویٰ طریقت کا کرے تو وہ شیطان ہے۔ ہاں اگر دعویٰ نہیں کیا مگر اپنی عاجزی کااقرار اور اپنے نقص اور قصور کا اعتراف کرے تو شیطان کے بہکاوے سے آزاد ہوگامگر اصل حقیقت لوگوں سے اوجھل نہ کرے۔ شریعت چونکہ اللہ نے بھیجی اور اللہ کے رسول ﷺ لے کر آئے، اس لیے طریقت اور حقیقت اس کے خادم ہیں یا یوں سمجھیں کہ شریعت ایک درخت ہے اور طریقت و حقیقت اُس کی شاخیں اور پھل ہیں۔

جس شخص کے پاس خود عملِ صالح نہیں لیکن وہ لوگوں میں مشہور بھی ہے تو ایسا شخص کبھی زندگی میں عمل کی اہمیت پر زور نہیں دے گا۔ اِ س لیے کہ اگرعمل کی اہمیت پر زور دیا تو لوگ کہیں گے کہ یہ خود تو عمل نہیں کرتے اور ہمیں کہتے رہتے ہیں، اس طرح اس کا سارا دھندا اور کاروبار خراب ہو جائے گا۔ اسی طرح جس میں خود تقویٰ نہیں وہ دوسروں کو تقویٰ کی تعلیم نہیں دے گا۔

یہی وجہ ہے کہ حضور غوث الاعظمؓ نے علم، عملِ صالح اور تقویٰ والوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا اور ان اوصاف سے خالی لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کی۔ اس لیے کہ ان سے تعلق اور صحبت بندے کو دین میں کمزور اور ایمان سے محروم کر دے گی۔

(8) رویہ، مزاج اور اخلاق کی درستگی

حضور غوث الاعظمؓ نے دل کو پرکھنے کا ایک بڑا خوبصورت معیار دیا تاکہ پہچان ہو کہ کس کا دل کتنا صاف ہے اور دنیوی اغراض و مقاصد اور لالچ سے کتنا بے نیاز ہے۔۔۔ کس کا دل اللہ کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔۔۔ کس کے دل میں اللہ کی محبت، رحمت، نگاہ اور نور ہے۔۔۔؟ اگر یہ پہچان کرنی ہو اور جاننا ہو تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جملے میں پوری پہچان بیان فرما دی۔ فرمایا کہ ’’اگر تمہارے پاس امیر، غریب یا فقیر آئے تواپنے دل کو دیکھ اور اپنے طرزِ عمل پر غور کر کہ اگر تیرا رویہ امیر اور غریب کے لیے الگ الگ ہو تو سمجھ لے کہ تو بدبخت ہو گیا ہے اور فلاح سے محروم ہے۔ اس لیے کہ تیری نگاہ تقویٰ پر نہیں بلکہ مال پر ہے۔۔۔تیری نگاہ عملِ صالح پر نہیں بلکہ دولت پر ہے۔۔۔ تیری نگاہ علمِ نافع پر نہیں بلکہ دنیاوی مفاد پر ہے۔ اگر تومحسوس کرے کہ امیر آئے یا غریب آئے، میرے دل کا تعلق دونوں کے ساتھ یکساں ہے، دونوں سے محبت اور رغبت ہے اور اُن کی تکریم اور احتشام میں فرق نہیں کرتا بلکہ اُس کے عمل پر توجہ ہے تو سمجھ لے کہ اللہ نے تیرے دل کو فلاح دے رکھی ہے۔ ‘‘

(9) اللہ سے تعلق کیسے قائم ہو؟

حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اے بندے ! جب تک تو دنیا اور اُس کے مفاد کے ساتھ اِس طرح جُڑا ہوا ہے کہ تیرا دل دنیا کے مفاد اور اس کی حاجتوں کی قدر کرتا ہے تو جان لے کہ آخرت کے ساتھ تو ہمیشہ منقطع رہے گا۔ اسی طرح اگر تو صرف آخرت اور جنت کے ساتھ جُڑا رہے گا تو جان لے کہ مولیٰ کے ساتھ منقطع رہے گا۔ اللہ کے ساتھ جُڑنے کےلیے دو سفر طے کرنے پڑتے ہیں: پہلے دل کی رغبت دنیا کے حرص سے ختم کرنی پڑتی ہے اور پھر جنت اور آخرت کی طلب سے بھی دل کی چاہت ختم کرنی پڑتی ہے۔ لہذا دنیا کی طلب کو جنت اور آخرت کی طلب میں فنا کرو اور پھر جنت اور آخرت کی محبت کو اللہ کی محبت میں فنا کروتو منزل پر پہنچ جاؤ گے۔

ہمیں حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور اُن کی تعلیمات کا ادراک ہونا چاہیے تاکہ ان کے سچے پیروکار بن سکیں اور جو تعلیم اُنہوں نے دی اور تربیت فرمائی، اُ س کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ اولیاء کی محبت اور اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ