عالمِ انسانیت پر احساناتِ مصطفی ﷺ

پروفیسر محمد اکرم رضا

گذشتہ سے پیوستہ

حضور نبی اکرم ﷺ کی جلیل القدر شخصیت ہر دور اور ہر زمانہ میں مشعلِ راہ ہے۔ ہر عہد اورہر صدی نے آپ ﷺ سے فیض اٹھایا ہے۔ اگر دلوں سے تعصبات کی آلائش دور کردی جائے تو ہر دل نبی کریم ﷺ کی مسلمہ عظمت کا معترف اور ہر زبان آپ کی ثنا خوانی پر مجبور نظر آئے گی۔ ذیل میں عالمِ انسانیت کے لیے آپ ﷺ کے احسانات کے چند پہلو درج کیے جاتے ہیں:

1۔ مساواتِ انسانی کے علمبردار

حضور یوم النشور ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق و فرائض کے تعین کی سب سے اہم دستاویز ہے۔ آپ ﷺ نے عالمِ اسلام کو مساوات و اخوت اور محبت و شفقت کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا :

ان ربكم واحد واباكم واحد ولا فضل لعربي على أعجمي ولا لعجمي على عربي ولا احمر على اسود ولا اسود على احمر إلا بالتقوى.

(المعجم الاوسط، 5: 86، الرقم: 4749)

’’بے شک تمہارا رب ایک ہے، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے، نہ کالی رنگت والے کو سرخ رنگت والے پر فضیلت ہے اور نہ سرخ رنگت والے کو کالی رنگت والے پر کوئی فضیلت ہے۔ بجز تقویٰ کے۔‘‘

آپ ﷺ نے اصلاحی معاشرے کے خطوط وضع فرماتے ہوئے صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیزگاری کو ہی معیارِ فضیلت قرار دیا۔ یہ حقیقت ہے جب انسان کے فکرو عمل میں تقویٰ کی سر بلندیاں سماجائیں تو پھر وہ اپنی عملی زندگی میں ہر گام پر ہر آن تعلیماتِ قرآنی اور ارشادات نبوی ﷺ کو پیشِ نظر رکھتا ہے اور اس طور اس کی زندگی عظمتِ کردار کا نمونہ اور پاکیزگیِ اطوار کا مظہر بن جاتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ بہترین سلوک کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

إِخْوَانُکُمْ خَوَلُکُمْ جَعَلَهُمُ اللهُ تَحْتَ أَيْدِيْکُمْ فَمَنْ کَانَ أَخُوْهُ تَحْتَ يَدِه فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْکُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُکَلِّفُوْهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ کَلَّفْتُمُوْهُمْ فَأَعِيْنُوْهُمْ.

(بخاری، الصحيح،کتاب الإيمان، باب المعاصی من أمر الجاهلية، 1: 20، الرقم:30)

’’ تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، سو جو تم خود کھاتے ہو اُنہیں بھی وہی کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو اُنہیں بھی وہی پہناؤ۔ اُنہیں اُن کی طاقت سے بڑھ کر کسی کام کا مکلف نہ ٹھہراؤ اور اگر ایسا کوئی کام اُن کے ذمہ لگاؤ تو اُس کام میں خود بھی اُن کی مدد کرو۔‘‘

آپ ﷺ نے اپنے ارشادات کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے اپنے جانثار اور وفادار غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف غلامی سے آزاد کردیا بلکہ اپنا منہ بولا بیٹا بھی بنالیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے غلام آزاد کردیئے اور چشمِ عالم نے پہلی بار غلاموں کو اپنے سابقہ آقاؤں کے شانہ بشانہ زندگی کی جدوجہد میں مصروف دیکھا۔ سیاہ فام حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو یکایک جلیل القدر اصحابِ رسول ﷺ کی صفِ اول میں شامل ہوگئے اور انہیں آقائے دو عالم ﷺ کی نگاہ فیض رساں نے یوں فیضیاب فرمایا کہ ان کی زندگی عشاق رسول ﷺ کے لیے قابلِ رشک بن گئی۔ حبش سے آنے والے بلال رضی اللہ عنہ کے مقدر کا ستارہ یوں چمکا کہ حضور ختمی مرتبت ﷺ کے معتمدین میں شمار ہونے لگے اور جب یہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ وفات پاگئے تو سیدنا عمر فاروق الاعظم رضی اللہ عنہ ان کے فضائل و اوصاف کا تذکرہ یہ کہتے ہوئے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ:

المات سیدی بلال

’’ہمارے سردار بلالؓ وفات پاگئے‘‘

آج دنیا مساوات کے نعرے لگا رہی ہے۔ پسماندہ اور کچلے ہوئے انسان رنگ و نسل اور ذات پات کی زنجیروں کو توڑ کر ابھرنا چاہتے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی بالادستی کے نام پر اپنی پسماندگی اور سماجی زبوں حالی کا مداوا چاہتے ہیں لیکن باوجود اپنی انتہائی کوشش کے وہ اس سماجی اونچ نیچ، طبقاتی حد بندی اور معاشرتی عدمِ مساوات کی دیواروں میں شگاف پیدا نہیں کرسکے۔ نظریات کے نام پر اپنا سب کچھ تج کر دینے کے باوجود بھی ایک نچلے طبقے کا انسان اپنے سے اوپر کے زینے پر بیٹھنے والے کے برابر نہیں بیٹھ سکتا۔ لیکن اسلام کی آغوش میں جو بھی آتا ہے، وہ رنگ و نسل کے امتیازات اور ذات برادری کی تفریق کو بھول کر ایک ملتِ مسلمہ میں گم ہوجاتا ہے۔

نبی کریم ختمی مرتبت ﷺ کس درجہ غلاموں اور خادموں کا خیال رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے۔ حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

کُنْتُ أَضْرِبُ غُـلَامًا لِي بِالسَّوْطِ فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ خَلْفِي: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ، فَلَمْ أَفْهَمِ الصَّوْتَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: فَلَمَّا دَنَا مِنِّي إِذَا هُوَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، فَإِذَا هُوَ يَقُوْلُ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ، اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ، قَالَ: فَأَلْقَيْتُ السَّوْطَ مِنْ يَدِي، فَقَالَ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ، أَنَّ اللهَ أَقْدَرُ عَلَيْکَ مِنْکَ عَلٰی هٰذَا الْغُـلَامِ، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا أَضْرِبُ مَمْلُوْکًا بَعْدَه أَبَدًا.

(مسلم، الصحيح، کتاب الأيمان، 3: 1281 الرقم:1659)

’’میں اپنے ایک غلام کو چابک سے مار رہا تھا کہ اچانک میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی، اے ابو مسعود! جان لو! میں غصے کی وجہ سے اُس آواز کو پہچان نہ سکا۔ جب وہ (آواز دینے والا) میرے قریب ہوا تو میں نے پہچانا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: اے ابو مسعود! جان لو، اے ابو مسعود! جان لو، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے چابک پھینک دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو مسعود! جان لو کہ جتنا تم اِس غلام پر قادر ہو اللہ تعالیٰ تم پر اُس سے زیادہ قادر ہے۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: میں آئندہ کسی غلام کو کبھی بھی نہیں ماروں گا۔‘‘

اسی ضمن میں ایک اور حدیث ملاحظہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً أَعْتَقَ اللهُ بِکُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنَ النَّارِ.

(بخاری، الصحيح،کتاب العتق،2: 891، الرقم:2381)

’’جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے گا اللہ تعالیٰ اُس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اُس (آزاد کرنے والے شخص) کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا۔‘‘

کافروں کو یہ ناگوار گزرتا تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں غریب اور نادار مسلمان مساواتِ انسانی کی تصویر بن کر بیٹھے ہوتے تھے لیکن رحمتِ مجسم ﷺ نے امیروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کردیا اور ’’الفقر فخری‘‘ کو اپنا افتخار بناتے ہوئے زمانے بھر کے مظلوم ومقہور انسانوں کو اپنی پناہ میں لے لیا۔

قرآن حکیم نے اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات:10) فرماکر عالمِ اسلام کو ایک ہی مرکز پر لاکر یوں کھڑا کردیا کہ مسلم معاشرے میں عربی، عجمی، گورے، کالے، اسود و احمر، شرقی غربی اور فقیر و امیر کا امتیاز اٹھ گیا۔ ایک کعبہ، ایک قرآن، ایک خدا اور ایک رسول ﷺ کا تصور اتنا راسخ ہوا کہ دل و نگاہ میں مساوات و اخوتِ اسلامی کی حقیقت مہرو ماہ کی صورت ضوفگن ہوگئی۔ چشمِ فلک صدیوں تک اسلامی تاریخ کے یہ حیرت انگیز نظائر دیکھتی رہی کہ کہ شاہانِ وقت عام شہریوں کی حیثیت سے عدالتِ انصاف میں حاضری دیتے رہے اور جب کسی مفلوک الحال کا ہاتھ طلبِ انصاف کی خاطر بادشاہ کے دامن کی طرف دراز ہوتا تو وہ خوفِ خدا اور عظمتِ عدل و انصاف کا احساس کرکے لرز اٹھتا۔

تاریخ بلاشبہ ہماری عظیم روایت کی امین اور درخشندہ کارناموں کی پاسدار رہی ہے۔ خلفائے راشدین کی بات چھوڑیئے کہ وہ تو چشمِ نبوت کے براہِ راست فیض یافتہ تھے، بعد کے ادوار کے مسلم حکمرانوں اور سلاطین نے بھی مدتوں مساواتِ انسانی کا پرچم اس شان سے بلند کیے رکھا کہ انھوں نے خود کو تازیست عوام کے حقوق کا پاسبان اور رعایا کا ادنیٰ خادم تصور کرتے ہوئے رعایا کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کو اپنی توہین تصور نہ کیا بلکہ اقتدار کو رعایا کی امانت اور عطیۂ خداوندی سمجھتے ہوئے انصاف کے حصول کے لیے بلند ہونے والی نحیف سے نحیف تر آواز کو بھی آوازۂ فطرت سمجھ کر اس کا استقبال کرتے رہے۔

2۔ معاشی عدل و انصاف

جناب محمد مصطفی ﷺ جس خطۂ عرب میں مبعوث کیے گئے تھے وہاں زندگی بے بندگی بلکہ شرمندگی کا نمونہ تھی۔ اس معاشرے میں شرافت، کمزوری اور نیکی، مجبوری سمجھی جاتی تھی۔ طاقتور کو لامتناہی حقوق حاصل تھے جبکہ غربت اور مفلسی کو ناقابلِ معافی جرم تصور کیا جاتا تھا۔ کمزوروں اور بے نواؤں کے حقوق غصب کرنے کو باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا۔ غربا یا تو غلام بنالیے جاتے یا ان کو سود در سود کی چکی میں یوں پیس دیا جاتا تھا کہ ان کی زندگی موت سے بدتر ہوجاتی تھی۔ اس معاشرے میں خیرات یا صدقہ اور رحمدلی کا احساس تک بھی نہیں تھا۔ لیکن حضور نبی اکرم ﷺ نے انسانی کردار کو وہ رفعت بخشی کہ دوسروں کا حق چھننے والے اقوامِ عالم کے حقوق کے نگہدار اور بے نواؤں کے ترجمان بن گئے۔ آپ ﷺ کی بخشی ہوئی تعلیماتِ ایمانی کی بدولت صاحبِ ثروت مسلمانوں کو یہ احساس سونے نہیں دیتا تھا کہ کہیں ان کا پڑوسی بھوکا نہ سوگیا ہو۔ یہ آپ ﷺ کا ہی فیضانِ نبوت تھا کہ مفلس و گداگر ہاتھ پھیلاتے ہوئے اور منعم وتونگر حاجت مند کی غیرتِ نفس کے احساس سے اعلانیہ بھیک دیتے ہوئے جھجکتے تھے۔

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

اسلام نے معاشی عدل و انصاف کے دائمی اصول وضع فرمائے۔ یورپ کے نام نہاد دانشور آج اپنے آپ کو مزدوروں کے حقوق کا علمبردار کہتے نہیں تھکتے لیکن چودہ صدیاں قبل انسانی اصولوں سے بے بہرہ تاریک معاشرہ مزدوروں اور غلاموں سے صرف بیگار لینے کا قائل تھا اور تنخواہ اور معاوضہ کا تصور بھی نہیں تھا۔ اس وقت شارحِ اسلام ﷺ نے یہ فرماکر مزدور کا رتبہ سربلند کردیا:

أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ.

(ابن ماجہ، السنن، ج: 2، ص: 817، الرقم: 2443)

’’مزدور کو مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔‘‘

دنیا بھر کے دساتیر پیغمبر اسلام ﷺ کے اس ارشادِ گرامی سے بڑھ کر محنت کشوں کے حقوق کی پاسداری کی ضمانت دینے سے قاصر ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی تمام زندگی میں کبھی محنت کی عظمت سے منہ نہ موڑا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ سفر کرتے تواپنے حصے کا کام خود کرتے، مسجد نبوی کی تعمیر اور غزوۂ خندق کے سلسلہ میں خندق کھودتے ہوئے آپ ﷺ خود بوجھ اٹھاتے اور صحابہ کی تمام تر منت سماجت کے باوجود برابر کام کرتے۔

آپ ﷺ نے الفقر فخری کہہ کر دنیا بھر کے مظلوموں، بے نواؤں، محنت کشوں اور مزدوروں کو سینے سے لگالیا۔ آپ ﷺ کی زندہ تعلیمات اور روشن کردار کی بدولت نہ صرف محنت کی عظمت دوبالا ہوئی بلکہ مزدوروں اور محنت کشوں کو روحانی سکون کا احساس ہوا۔ غریبوں، لاچاروں اور دکھیاروں کو قرار آگیا کہ معینِ بے کساں، زینتِ ہر دو جہاں، سرورِ کشور کشایانِ عالم جناب رسالت مآب ﷺ نہ صرف ان سے پیار کرتے ہیں بلکہ قیامت کے روز ان کے ساتھ اٹھائے جانے کی دعا بھی فرماتے ہیں۔

میری غربت بن گئی اس وقت سے میرا وقار
کہہ کے جب الفقر فخری وہ ہمارے ہوگئے

یہ حقیقت ہے کہ آپ ﷺ نے عالمِ انسانیت کو ایسا ابدی منشور دیا کہ جس میں سرمایہ ایک جگہ اکٹھا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی سرمایہ دار سودی کاروبار کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کی بدولت تقسیمِ زر کا ایک ایسا سنہری دور ہمارے سامنے آتا ہے کہ جس میں تجوریاں خالی اور پیٹ بھرے ہوئے ہوں۔۔۔ سامانِ ضرورت وافر اور دل مطمئن ہوں۔۔۔ حقوق محفوظ اور فرائض کی ادائیگی کی لگن ہو۔۔۔ روحیں پرسکون اور دل و دماغ تعلیماتِ محمدی ﷺ کی روشنی سے منور ہو ں۔۔۔ شب و روز عبادت میں بسر ہوں۔۔۔ بھلائی کی ترویج اور برائی کا انسداد ہو۔۔۔ نہ تو دولت آنے کی غیر معمولی خوشی ہو اور نہ ہی دولت جانے کا غیر معمولی غم۔

پھر زمانے نے وہ وقت بھی دیکھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مقدسہ میں ہی اسلام کی کشور کشائی اور فتوحات کا پرچم حدودِ عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں تک لہرا رہا تھا۔ قیصر و کسریٰ کے ایوانوں پر لرزہ طاری تھا اور شاہانِ زمانہ اسلام کی ہمہ گیر عظمت کے تصور سے ہی کپکپارہے تھے۔ ایک عظیم الشان اسلامی حکومت کہ جس کا دارالحکومت مدینہ منورہ تھا، وجود میں آچکی تھی۔ ہر روز نئے خطے اور شہر فتح ہورہے تھے۔ نبی مکرم جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی حکمرانی ایک زندہ و پائندہ حقیقت بن چکی تھی۔ ایسے عالم میں بھی جنابِ سرور کائنات ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور اہل خانہ اس سادگی اور فقرو استغنا سے زندگی بسر کرتے تھے کہ اس کا تصور کرتے ہی اہلِ شوق کی آنکھیں عشق و عقیدت کے آنسوؤں سے لبریز ہوجاتی ہیں۔ یہ کیسی زندگی تھی جس پر کائنات کی شامِ ابد تک کی رفعتیں قربان کی جاسکتی ہیں۔ آپ ﷺ مالکِ کونین تھے، سرورِ دنیا و دین تھے، ساقی کوثر تھے، قاسمِ رزق خداوندی تھے، جو کچھ ہاتھ آتا، سب خیرات کردیتے۔اس زندگی کی درخشندہ ترین گواہی ام المومنین عائشہ صدیقہj کی اس ایمان آفریں روایت سے ملتی ہے:

إن كنا آل محمد لنمكث شهرا ما نستوقد بنار إن هو إلا التمر والماء.

(مسلم الصحیح، 4: 2282، الرقم: 2972)

’’ہم آلِ محمد ﷺ کا یہ حال تھا کہ مہینہ مہینہ بھر تک آگ نہ سلگاتے تھے۔ صرف کھجوروں اور پانی پر گزارا ہوتا تھا۔‘‘

میلاد و سیرت مصطفی ﷺ کا پیغام

ہمیں اپنی زندگی میں مختلف حالتوں مثلاً: امن و جنگ۔۔۔ مفلسی و محتاجی۔۔۔ تونگری و غنا۔۔۔ ازدواج و تجرد۔۔۔ تعلقاتِ خدا و معاملاتِ عباد، حاکم و محکوم ۔۔۔ غیظ و غضب اور سکون و طمانیت۔۔۔ جلوت و خلوت، الغرض زندگی کے تمام پہلوؤں سے سابقہ پڑتا ہے، ان تمام معاملات میں عقلِ انسانی ایسی بہترین کلی مثال کی جستجو کرتی ہے، جس کو مدِّنظر رکھ کر وہ پیش آمدہ مسائلِ حیات سے صحیح طور سے عہدہ برآ ہوسکے۔ ایسے عالم میں ہماری نظریں بے اختیار نبی کریم ﷺ کے اسوۂ طیبہ کی طرف ا ٹھتی ہیں کیونکہ علمی مثال کے لحاظ سے دوسری کوئی سیرت اور اسوہ آپ ﷺ کی جامعیت اور کاملیت کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچتی۔

اس میں کوئی کلام نہیں کہ تمام انبیاء و رسل کے محاسن اور ان کے اوصاف کے انوارِ الہیٰ سمٹ کر سرور کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ میں پرتو فگن ہوگئے۔ وہ تمام خصوصیات اور صفات جو ہر پیغمبر کو اپنے اپنے مقام و مرتبہ اور زبان و مکاں کے لحاظ سے ودیعت کی گئیں، آپ ﷺ کی ذاتِ والا صفات میں جمع کردی گئیں۔ آپ ﷺ کو ان تمام محاسن و کمالات سے بہرہ ور کرنے سے قدرت کا مقصود یہ تھا کہ چونکہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کسی شریعت یا نبوت کی ضرورت باقی نہیں، اس لیے آپ ﷺ کی شخصیت سیرت و کردار کے لحاظ سے اس قدر افضل و اکمل ہونی چاہیے کہ دنیا ابد کی آخری ساعتوں تک آپ ﷺ کے فیوض و برکات کی تابانیوں سے مستنیر ہوتی رہے۔

روزِ ازل سے لے کر آج تک کسی بھی قائدِ انسانیت کے بارے میں دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے۔ فقط رسول مقبول ﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی حیاتِ پاکیزہ کی ایک ایک ساعت تاریخ کے ایوانِ ابد میں جگمگارہی ہے۔ قرآن حکیم آپ ﷺ کی سیرت کی عظمتوں کا مظہر ہے، احادیث نبوی ﷺ اور تاریخ و سیرت کی کتب آپ کی رفعتوں کی مظہر ہیں اور احادیث نبوی اور تاریخ و سیرت کی بے شمار کتابوں میں آپ ﷺ کی اک اک ادا محفوظ ہے۔آپ ﷺ کے معمولات و مشاغل، اقوال و افعال، مجلس آرائی وخلوت گزینی، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت، شعائر اسلامی کی ترویج اور ادائیگی،غرض یہ کہ جزوی امور حیات سے لے کر کلی رموزِ کائنات تک آپ کی عملی زندگی کا ایک ایک پہلو اور فکری و نظری لمحہ افشانیوں کی ایک ایک کرن تاریخی دستاویز بن کر مادیت کی تاریکیوں کو حیات آفریں اجالے بخش رہی ہے۔ آپ ﷺ کے اوصافِ حسنہ اور کمالاتِ مقدسہ پر لاتعداد کتب تصنیف ہوجانے کے باوجود ذہن و فکر کو اپنی کم مائیگی اور عجز بیانی کا احساس ہورہا ہے کہ ؎سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے

غرض یہ کہ آپ ﷺ نے خلوت و جلوت، سفرو حضر، صلح و جنگ، اعلانِ نبوت سے قبل اور اعلانِ نبوت کے بعد مکہ کے عام شہری اور مدینہ منورہ کے مقتدر حکمران کی حیثیت سے ہر لمحہ اور ہر آن انسانیت کی بقا اور انسانی و تہذیبی اقدار کے فروغ کو مدنظر رکھا۔رسول کریم ﷺ عالمِ انسانیت کا وہ روشن مینار ہیں کہ جس سے پھوٹنےو الی کرنوں نے وادیٔ حجاز سے لے کر افریقہ کی تاریک بستیوں تک تہذیبِ عالم کو یکساں روشنی اور انسانی عظمت کو حرارت بخشی ہے۔

یہ رسول خدا جناب سرور کائنات ﷺ کی عظمت بے پایاں اور انسانیت نوازی کا ہی اعتراف ہے کہ آج دشت و جبل، بحرو بر، زمین و آسمان، عرب کے ریگ زاروں، ایشیا کی عبادت گاہوں، یورپ کے علمی و تہذیبی سرمائے، افریقہ کے کالے انسانوں کے چمکتے دلوں، محسوسات کے مہکبار گلستانوں، عشق و عقیدت کے پر انوار ایوانوں، فکر و تدبر کی روشن وادیوں، شعرا کی مدحت طرازیوں، ادیبوں کی ادب نوازیوں اور خطیبوں کی تکلم باریوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کا نام نامی اسم گرامی انسانیت کے سب سے بڑے محسن کی حیثیت سے ابھرتا اور جگمگاتا ہے۔ روحِ فطرت کا یہ جاں نواز پیغام اقبال کے لفظوں میں یوں محبت رسول ﷺ کا احساس بخش رہا ہے:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دَہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے