اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ دین اسلام کی تاریخ نے ہمیشہ پر آشوب اور ناخوشگوار حالات کا سامنا کیا ہے۔ فکری انحطاط، عملی گراوٹ اور اصلاحی بگاڑ ہر زمانہ میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ ان حالات میں اصلاحی و تربیتی کاوشیں ایک ایسا پیمانہ تھیں جو ان نامساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہیں اور عالم اسلام میں پھیلی ظلمات کو روحانیت کی روشنی و نور کے ذریعے دور کرتی رہیں۔ غلط رجحانات کی اصلاح اور فتنوں کا سدباب کا سہرا امتِ مسلمہ کی ان عظیم ہستیوں کے سر سجتا ہے جو اپنے وقت کے نباض اور خداداد بصیرت و فراست کے مالک تھے۔ جن کا ظاہر شریعتِ محمدی ﷺ کا مظہر اور باطن نور محمدی ﷺ سے روشن و تابندہ تھا۔ حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا شمار بھی انہی عظیم لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے تجدید و احیاء دین اور فکرو نظر کی اصلاح و تربیت اور الحادی طاقتوں کا جوانمردی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دین الہٰی کی روح ایک دفعہ پھر ترو تازہ کردی۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ بن ابی صالح ابو محمد الجیلی رضی اللہ عنہ 470 ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ والد محترم کی طرف سے حسنی (یعنی سیدنا امام حسن المجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے) ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی (یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں) سے ہیں۔ 18 سال کی عمر 488ھ میں آپ نے بغداد شریف میں جب قدم رنجا فرمایا تو اسی سال بغداد ایک جلیل القدر عالم حضرت امام غزالیؒ سے محروم ہوا تھا۔ شہر بغداد میں آپ ایک طرف عالی ہمت، بلند حوصلہ اور جہد مسلسل سے زیور علم سے آراستہ ہوئے اور دوسری جانب آپ نے اپنے باطن کو مجاہدات و عبادات کے ذریعے منور و روشن کیا۔ آپ کے علمی و روحانی فکرو نظریاتی مربیوں میں حضرت ابوالوفاء، ابن عقیل، محمد بن الحسن الباقلانی اور ابو زکریا تبریزی کا نام آتا ہے اور جن عظیم ہستیوں نے آپ کے روحانی درجات اور ترقی میں راہنمائی فرمائی، ان میں شیخ ابوالخیر حماد بن مسلم الدباس اور قاضی ابوسعید المخرمی شامل ہیں۔
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا زمانہ اور سیاسی حالات
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے عہد میں بغداد میں سیاسی اقتدار اور حکومت و سلطنت میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے خلافتِ عباسیہ کے درج ذیل پانچ خلفاء کا زمانہ پایا:
- خلیفہ احمد المستظہر باللہ (487ھ۔512ھ): ان کا دور 24سال دورِ حکومت پر مبنی ہے۔ اس دورِ حکومت میں سیاسی اضطرابات اور جنگ و جدال کی کیفیت تھی، دینی اقدار یکسر بدل رہی تھیں اور نظریات و عقائد کو مسخ کرنے کے لیے مختلف باطل و دشمن طاقتیں سرگرم عمل تھیں۔ نتیجتاً فلسفہ باطنیت کے پجاری ظہور پذیر ہوئے اور فرقہ باطنیت کا آغاز ہوا۔ دفاعی سطح پر سلطنت عباسیہ بہت کمزور ہوچکی تھی۔ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوگیا تھا اور انھوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا۔
- الفضل المستر شد باللہ (513ھ۔529ھ): یہ دور حکومت 17 سال پر محیط ہے۔ ان کا زمانہ بھی سابقہ حکومت کا تسلسل تھا۔
- منصور الراشد باللہ (529ھ۔530ھ): ان کا زمانہ اقتدار ایک سال ہے۔
- محمد المقتفی لامراللہ (530ھ۔566ھ): انھوں نے بھی 24 سال تک حکومت کی۔
- یوسف المستنجد باللہ (555ھ۔566ھ): یہ خلافت عباسیہ کی مسند پر 10 سال تک جلوہ افروز رہے۔ یہ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے معتقدین میں سے تھے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کے سیاسی اور معاشرتی حالات اور دل سوز واقعات و حوادث سے بظاہر تو دور تھے لیکن اپنے شعور و احساس کو اس کے اثرات سے دور نہیں کرسکتے تھے۔ معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی و ثقافتی خرابیاں وبائی امراض کی طرح معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھیں۔ جس کا بنیادی سبب دین سے دوری اور حبِ دنیا تھی اور حال یہ تھا ہر سو مادیت کا غلبہ تھا۔ اس پرفتن کٹھن وقت میں تجدید و احیاء دین کرنا اور اصلاح عقیدہ و عمل پر توجہ مرکوز کرنا نہ صرف ایک لابدی امر تھا بلکہ یہ ایک ہمہ جہت مرد قلندر کا تقاضا کررہا تھا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے اصلاح انسانیت اور تشکیل افراد کے لیے اپنی توجہ عالیہ اور نظر کیمیاء حیاتِ انسانی کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں پر توجہ مرکوز فرمائی اور ان میں موجود فساد و خرابی کا ازالہ فرمایا۔ ذیل میں ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے آپ رضی اللہ عنہ کی خدمات کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
عقیدہ و نظریہ کی اصلاح میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی خدمات
عقیدہ دل کے ارادے اور فکرو خیال کا نام ہے۔ اگر دل کا ارادہ درست ہوجائے تو عمل قابل قبول ہوتا ہے۔ عقیدہ کو درست کرنے کے لیے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی تعلیمات جن اصولوں پر مبنی ہیں ان میں توحید کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے حضور غوث الاعظم کی چند تعلیمات ملاحظہ ہوں:
1۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ توحید کے حقیقی مفہوم کی وضاحت میں اپنی کتاب فتوح الغیب میں اللہ پر مکمل اعتماد کرنے اور توحید کا درس دیتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اس پر نظر رکھو جو تم پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے سامنے رہو جو تمہارے سامنے رہتا ہے۔ اس سے محبت کرو جو تم سے محبت کرتا ہے۔ اس کی بات مانو جو تم کو بلاتا ہے۔ اپنا ہاتھ اسے پکڑاؤ جو تمہیں گرنے سے بچالے گا اور تم کو جہالت کی ظلمات سے نکال دے گا اور ہلاکتوں سے محفوظ رکھے گا۔ ‘‘
2۔ الفتح الربانی میں فرماتے ہیں:’’توحید کو اتنا مضبوط کرو یہاں تک کہ تیرے دل میں جمیع مخلوقات میں سے ایک ذرہ بھی باقی نہ رہے۔۔۔ساری مخلوق عاجز ہے۔ نہ تجھے کوئی نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ وہی ذات تیرے اندر اور مخلوق میں تصرف فرماتی ہے۔ جو چیز تیرے لیے مفید ہے یا نقصان دہ ، وہ اللہ کے علم میں ہے اور اس کا قلم چل چکا ہے۔ ‘‘
3۔ جب عقیدۂ توحید راسخ ہوجاتا ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک مان لیتا ہے تو پھر توحید کے ثمرات و نتائج جس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے حضور غوث الاعظمؓ الفتح الربانی میں فرماتے ہیں:
’’توحید ہر (غیر کا) خاتمہ کردیتی ہے اور ہر (مرض) کا علاج اللہ کی توحید میں (مخفی) ہے۔ ‘‘
4۔ جب نظرو فکر اور تخیل و تصور پر توحید کا غلبہ ہوجاتا ہے اور انسان اللہ کی طرف یکسوئی کے ساتھ مائل ہوجاتا ہے تو پھر بندے کی جو حقیقت ہوتی ہے، اس حوالے سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
من طلب رضا اللہ عزوجل و وجهه صار کما قال اللہ عزوجل فی حق موسیٰ وحرمنا علیہ المراضع من قبل (القصص: 12) یحرم علی قلب ھذا المحب الصادق مرضع کل محدث مخلوق.
(الفتح الربانی، ص: 299)
’’جو اللہ کی اور اس کے چہرے کی خوشنودی چاہتا ہے۔ وہ اس طرح ہوجاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ’’ہم نے پہلے ہی موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا۔ (یعنی)اس محب صادق کے دل پر فانی مخلوق کی محبت حرام کردی جاتی ہے۔‘‘
5۔ توحید خالص اور رضائے الہٰی کے حصول کو اوڑھنا بچھونا بنالینے میں ہی نجات و فلاح پوشیدہ ہے۔ جتنا زیادہ عقیدہ توحید پختہ ہوگا اور صداقت پر مبنی ہوگا، اتنا زیادہ مرتبہ و مقام بلند ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی خالصیت نصیب ہوجائے اور انسان اپنا سب کچھ اس کے سپرد کردے تو پھر اسے بارگاہِ خداوندی میں مقام صدیقیت عطا کردیا جاتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ (الفتح الربانی:307) فرماتے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے کہ:
من استسلم لقضائی وصبر علی بلائی و شکر نعمائی کتبتہ عندی صدیقا ومن لم یستسلم لقضائی ولم یصبر علی بلائی ولم یشکر نعمائی فلیطلب ربا سوائی.
’’جس نے میرے فیصلہ کو تسلیم کیا اور میری آزمائش پر صبر کیا اور میری نعمتوں کا شکر ادا کیا تو میں اسے اپنے پاس صدیق لکھ لوں گا۔ اور جو میرا فیصلہ نہیں مانتا اور میری آزمائش پر صبر نہیں کرتا اور نہ ہی عطا کردہ نعمتوں پر شکر بجا لاتا ہے، پس وہ میرے سوا کسی اور معبود کو تلاش کرے۔ (یعنی میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے)۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عقیدہ توحید کی اصلاح حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے نزدیک بنیادی اور اہم رکن ہے اور یہ ایسی بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اگر اساس و بنیاد کمزور رہ جائے تو مضبوط عمارت کھڑی کرنا محال ہوتا ہے۔ لہذا توحید کو خالص و پاک کرنا اولین اقدام ہے، جس کا دین اسلام میں ہر انسان و بشر سے تقاضا کیا گیا ہے۔
اعمال و احوال کی اصلاح میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی خدمات
اللہ رب العزت نے انسان کو فطرتِ سلیمہ پر تخلیق فرمایا اور اسے اپنی عبادت و بندگی کا درس دیا اور اسے برائیوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ دنیا و ما فیھا کی رعنائیوں اور رنگینیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی مگر انسان کم عقل اور نادان ہے، وہ قریب میں موجود فانی چیز کو حقیقی سمجھ بیٹھا ہے۔ دنیا ایسا جال ہے کہ جو ہر شخص کو اپنے شکنجے میں پھنسالیتی ہے اور نفس کو برائی پر ابھارتی ہے۔ درحقیقت اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہر برائی کی اصل اور جڑ حب دنیا ہے۔ عقلمند انسان اپنی بصیرت و حکمت سے جب اس بات کو جان لیتا ہے تو پھر دنیا سے دور رہتا ہے۔ چونکہ یہ دنیا مرد مومن کے لیے قید خانہ ہے اور وہ ہمیشہ اس قید خانہ سے آزاد رہنے کی سعی و کوشش کرتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے انسان کے اعمال و احوال کی اصلاح کے لیے جن اصولوں اور بنیادوں کو اپنایا ہے ان میں اہم درج ذیل ہیں:
- تزکیہ نفس
- امر بالمعروف ونہی عن المنکر
- ظالم حکمران اور علماء سوء تنقید
- روحانی سلاسل و طرق کے مابین ہم آہنگی و یکجہتی
- منظم تعلیمی نیٹ ورک کا قیام
- مریدین کی روحانی تربیت کا انتظام
- افرادکی دینی اور روحانی حوالے سے تیاری
- وعظ و تبلیغ کا تسلسل 9۔ معاشرتی منفی رویوں کی مذمت
- عدل و انصاف کرنے کی دعوت
- منحرف فکری گروہوں کا سدِ باب
- اصلاحِ تصوف
اصلاحِ اعمال و احوال کے باب میں مذکورہ اقدامات میں سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی چند کاوشوں کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
1۔ تزکیہ نفس: نفس کا تزکیہ دین اسلام کا بنیادی تصور ہے۔ اس کی تعلیم قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ آئی ہے۔ اسی اصول کو حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں اپنایا اور تادم زیست اسی کی تعلیم دیتے رہے۔
2۔ امربالمروف ونہی عن المنکر:انبیاء، مبلغین اور مصلحین امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔ یہ عمل عقیدہ اسلامیہ کا ثمرہ اور پھل ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا نمونہ تھی۔ خلیفہ المقتفی لامر اللہ نے یحیی بن سعید المعروف ابن المرجم کو قاضی کا عہدہ دیا تو آپ نے فرمایا:’’تو نے مسلمانوں کا قاضی ظالم ترین شخص کو بنادیا ہے کل رب کو کیا جواب دو گے۔ پس خلیفہ نے اسے فوراً اسے منصب سے الگ کردیا۔
(عبدالرزاق الکیلانی، الشیخ عبدالقادر الجیلانی الامام الزاھد القدوۃ دار القلم دمشق، ص: 193)
3۔ روحانی سلاسل و طرق کے مابین ہم آہنگی ویکجہتی: حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے تحریک اصلاح کو سرگرم کرنے کے لیے روحانی سلاسل و طرق کو یکجا کیا اور دعوت و اصلاح کو عام کردیا۔ اس ضمن میں بغداد میں مدرسہ قادریہ میں پہلا اجتماع منعقد کیا جس میں عراق اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک سے عظیم المرتبت شیوخ طرق نے شرکت کی۔ بعد ازاں دوسرا اجتماع حج کے موسم میں ہوا جس میں عالم اسلام سے عظیم المرتبت روحانی پیشواؤں نے شرکت کی سعادت حاصل کی۔ جس میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی سربراہی و سرپرستی میں مصر سے الشیخ عثمان بن مرزوق القریشی، مراکش سے الشیخ ابو مدین المغربی اور کثیر شیوخ نے شرکت کی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے ان شیوخ کے ساتھ اپنے نائبین کو روانہ کیا تاکہ وہ مختلف امور کے حوالے سے ان کے ممدو معاون ثابت ہوسکیں اور اصلاحی و فکری ایجنڈے کو پورے عالم اسلام میں عام کردیا جائے۔ بعد ازاں شام کے عظیم روحانی مربی و مصلح شیخ ارسلان الدمشقی کے ساتھ رابطہ ہوا۔
4۔ اصلاحی عمل میں مختلف مدارس کی شرکت: طرق صوفیہ کو اپنی اصلاحی تحریک میں فعال کرنے کے بعد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی توجہ عالم اسلام میں موجود مختلف اصلاحی مدارس پر پڑی اور کثیر تعداد میں ان کے سربراہان نے آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ اس طرح آپ کی اصلاحی و فکری و تربیتی تحریک عراق سے نکل کر پورے عالم اسلام میں پھیل گئی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی زیر سرپرستی منعقد ہونے والے علماء و مشائخ عظام کے اجتماعات نے امت مسلمہ کو پروان چڑھانے اور صلیبیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
5۔ ظالم حکمرانوں کی اصلاح:حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کبھی کسی حاکم وقت کو حق کی تعلیم دیتے خائف نہ ہوتے۔ امام الشطنوفی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا۔ اس نے آپ کو سلام کیا اور نصیحت چاہی اور آپ کے سامنے دس تھیلیاں رکھ دیں جن کو دس غلاموں نے اٹھایا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ان کی حاجت نہیں اور قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس نے بڑی عاجزی کی، تب آپ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لی اور دوسری بائیں ہاتھ میں اور دونوں کو نچوڑا تو ان سے خون بہنے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوالمظفر! کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو۔ وہ خوفزدہ ہوگیا۔ تب شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی عزت کی قسم کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے رشتہ کا لحاظ نہ ہوتا تو میں ان تھیلیوں کو اتنا نچوڑتا کہ یہ خون تمھارے محل کو ڈبودیتا۔
(امام ا بوالحسن الشطنوفی، بهجۃ الاسرار، ص: 171)
- خلیفہ المستنجد باللہ آپ کی بارگاہ میں اکثر حاضر ہوتا تھا۔ ایک نشست میں اس نے آپ سے کرامت دیکھنے کا التماس کی اور عرض کیا کہ میں آپ کی کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا دل تسلی پائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں غیب سے سیب چاہتا ہوں اور وہ زمانہ سیب کا نہ تھا۔ آپ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ کے ہاتھ میں تھے۔ ایک سیب آپؓ نے اسے دے دیا اور ایک اپنے پاس رکھا۔ آپ نے اپنے سیب کو کاٹا تو نہایت مزیدار اور خوشبودار تھا۔ المستنجد نے اپنا سیب کاٹا تو اس میں کیڑے تھے۔ اس نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ آپ کے ہاتھ میں اچھا اور عمدہ سیب ہے جبکہ میرا سیب خراب ہے۔ آپ نے فرمایا: ابوالمظفر! تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے۔
(امام ابوالحسن الشطنوفی، بهجۃ الاسرار)
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جہاں حضور غوث الاعظمؓ سے محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی مریدی میں ہونے پر فخرمحسوس کرتے ہیں وہاں ہم عقیدہ و نظریہ اور اصلاحِ احوال و اعمال کے ضمن میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائیں تاکہ ہم حقیقی معنوں میں آپ رضی اللہ عنہ کے محبین اورمریدین میں شامل ہوسکیں۔