علامہ محمد معراج الاسلام
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کا حصہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِتَّقُو اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِکُمْ فَاِنّ اللّٰهَ يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَوْمَ القيامَةِ. (مستدرک)
’’اے میری امت کے لوگو! باہمی معاملات ٹھیک کرو، رنجش مٹاؤ اور ایک دوسرے کو مناؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کے مابین صلح کرائے گا‘‘۔
شرح و تفصیل
انسان ضعیف البنیاں طبعی طور پر کمزور، ضرورت مند اور حاجات و ضروریات کا اسیر ہے جس نے اسے کسی حد تک خود غرض بنادیا ہے، ضرورت پڑنے پر طوطا چشم بھی بن جاتا ہے اور اپنی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہزار خواہش کے باوجود ایثار و قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ دنیا میں تو اس کے ایثار و مروت کی بڑی بڑی اور حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں۔ مگر قیامت کے دن میدان حشر میں وہ بالکل صحیح معنوں میں طوطا چشم بن جائے گا اور اپنی نجات کے لئے آنکھیں ماتھے پر رکھ لے گا اور کسی کو ایک نیکی دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگ جو دنیا میں کسی کے ماں باپ رہے ہوں گے وہ بھی اپنی اولاد کو ایک نیکی دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ وہ خود نجات کے لئے نیکیوں کے بہت زیادہ محتاج ہیں اس لئے نیکیوں کی قربانی نہیں دے سکتے۔
فیضان رحمت
مگر حشر میں رحمت رب تعالیٰ کا فیضان پورے عروج پر ہوگا، حدیث پاک کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ رحمت و کرم کی ایسی ایسی نادر و نایاب مثالیں سامنے آئیں گی جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ رب کریم اس طرح کرم کی آبشار بہائیں گے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔ ہم ان مناظر کی ایک خوبصورت و ایمان افروز جھلک پیش کرتے ہیں جو انسان کو دلاسا دینے اور ڈھارس بندھانے والی ہے، گناہوں کے انبار میں دبا ہونے کے باوجود اسے امید کی کرن نظر آنے لگ جاتی ہے کہ وہ اس فیضان خاص اور ابر کرم سے محروم نہیں رہے گا اور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہونے کے ناطے وہ کچھ پالے گا جس کا اسے وہم و گمان بھی نہیں۔
دولت مند مفلس
حشر میں چلنے والی کرنسی دنیا کی کرنسی سے مختلف ہے، دنیا کے بازار میں روپے پیسے اور سونے چاندی کا چلن ہے، جس کے پاس یہ جنس جتنی زیادہ ہے وہ اتنا ہی زیادہ آسودہ حال اور خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے مگر اس شخص کی حالت قابل رحم ہوتی ہے، جس کی ضرورت کے وقت ساری پونجی لٹ جائے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مفلس اور قلاش ہوجائے، دوسرے لوگ آئیں اور اس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ لے کر چلے جائیں اور وہ دیکھتا اور ہاتھ ملتا رہ جائے اور کچھ بھی نہ کرسکے، یہ صورت کچھ یوں پیش آئے گی کہ :
میدان حشر میں ایک شخص کو اس کے نیک و بد اعمال کا موازنہ کرنے کے لئے میزان پر لایا جائے گا، اس نے دنیا میں بہت نیکیاں کمائی ہوں گی، اسے اطمینان ہوگا کہ اتنی ڈھیر ساری نیکیاں اس کی نجات کے لئے کافی ہیں وہ ان کے سہارے بہشت کے خوابناک ماحول میں پہنچنے اور وہاں کی لازوال نعمتوں سے فیضیاب ہونے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ابھی وہ موہوم کامیابی کے نشے میں سرشار، اپنے خوبصورت تصورات اور سہانے سپنوں میں کھویا ہوا ہی ہوگا کہ ایک شخص آئے گا اور اس کا گریبان پکڑ لے گا اور دعویٰ کرے گا کہ تم میرے مجرم ہو، دنیا میں تم نے میر احق مارا تھا، مال و دولت چھینا تھا یا زمین یا کوئی اور قیمتی چیز ہتھیالی تھی اس لئے اس کا بدلہ دو۔
نیکیوں کا انبار رکھنے والا وہ سوداگر اپنی صفائی پیش کرے گا کہ آپ کا دعویٰ بجا ہے کہ میں نے مکرو فریب اور دھوکہ بازی سے آپ کا مال ہتھیالیا تھا مگر دنیا کی چیز دنیا ہی میں رہ گئی ہے، اب تمہیں دینے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں، اس لئے بدلہ دینے سے قاصر ہوں۔
فرشتے فیصلہ کریں گے میدان حشر کی کرنسی دنیا سے مختلف ہے، یہاں نیکیاں چلتی ہیں اس لئے دنیاوی مال و دولت کے مقابلے میں تم اسے نیکیوں کا ثواب دو۔ اس لئے فیصلے کے مطابق وہ مظلوم اس سوداگر کی نیکیاں لے کر چلا جائے گا۔
ایک اور مظلوم آکر دامن گیر ہوگا اور کہے گا کہ دنیا میں ایک موقعہ پر تم نے مجھے مارا پیٹا تھا، کوئی دوسرا کہے گا تم نے مجھے گالیاں دی تھیں، کوئی اور کہے گا تم نے میری بے عزتی کی تھی اور مجھے ذہنی صدمہ پہنچایا تھا۔ غرض جس کو دنیا میں کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف دی ہوگی وہ آکر اس کے قصاص کا مطالبہ کرے گا اور اسے بدلے میں نیکیاں دینی پڑیں گی، ممکن نہیں ہوگا کہ پس و پیش کرے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کا دامن نیکیوں سے خالی ہوجائے گا اور دوسرے اس کی زندگی بھر کی نیکیاں لے کر چلے جائیں گے اور وہ شخص جو تھوڑی دیر پہلے مالا مال تھا، ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔
اس نے دنیا میں جو ظلم ڈھائے ہونگے، ان کی وجہ سے مظلوموں کی تعداد پھر بھی کم نہ ہوگی، وہ دامن پکڑ لیں گے کہ ہمیں بھی کچھ دو، وہ پریشان ہوکر کہے گا اب میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں بچا، مظلوم لوگ سب کچھ لے گئے ہیں۔ دنیا میں جن پر اس نے ستم کیا ہوگا وہ اس کی مجبوری پر ترس نہیں کھائیں گے اور بڑے روکھے لہجے میں کہیں گے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تمہارے پاس دینے کے لئے نیکیاں نہیں ہیں، ہمارے گناہ لینے کی تو گنجائش ہے چنانچہ وہ اپنے گناہ اس پر لاد کر چلے جائیں گے اور یہ آدمی جو تھوڑی دیر پہلے نیکیوں سے مالا مال، امیر کبیر اور بڑا دولت مند تھا، مفلس و قلاش رہ جائے گا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا : اصل مفلس یہ ہوگا جو اس روز اس حالت سے دوچار ہوگا۔
یا اللہ! بجاہ نبیک الرؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے انجام سے بچا اور اپنی رحمت کے سائے میں اور اپنے حفظ و امان میں رکھ۔ آمین۔
اس وقت میدان حشر کا یہ سمان واقعی ہو شربا ہوگا۔ بڑے بڑے تاجوروں اور سرفرازوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے، خونی رشتے بھی آنکھیں پھیر لیں گے یہاں تک کہ سگے ماں باپ بھی پہچاننے اور نیکیاں دینے سے انکار کردیں گے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا :
يَکُوْنُ لِلْوَالِدَيْنِ عَلٰی وَلَدِهمَا دَيْنٌ فَاِذَا کَانَ يَومَ الْقِيَامَةِ يَتَعَلَّقَانِ بَه فَيَقُوْلُ اَنَا وَلَدُ کُمَا.
’’میدان حشر میں ایک بیٹا اپنے ماں باپ کا مجرم ثابت ہوجائے گا وہ دونوں کہیں گے : ہمارا حق دے، وہ کہے گا : میں آپ کا بیٹا ہوں، آپ لوگ معاف کردیں۔ وہ جواب دیں گے : معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم تو چاہتے ہیں تو اس سے بھی بڑا مجرم ثابت ہوتا‘‘۔
ایک طرف بندوں کی مایوسی مجبوری اور خود غرضی کا یہ عالم ہوگا، وہ نجات پانے کے لئے ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے، اس بے چارگی اور پریشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ اپنے مایوس و پریشان اور خوف زدہ بندوں پر اس طرح رحمت اور مہربانی فرمائیں گے جو ان کے تصور میں بھی نہیں ہوگی، اس نوازش و عطا اور کرم و سخاوت کی انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی مثال نہیں دیکھی ہوگی اور نہ ہی سنی ہوگی۔ ہوگا یوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے گناہ گار بندے کے ساتھ ایک سودا فرمائیں گے جو حیرت انگیز بھی ہوگا اور عجیب و غریب بھی۔ جس میں شان بندہ نوازی کا عنصر غالب ہوگا، اس واقعہ کی تفصیل حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے۔
عجیب سودا
پیکر دلربا، امت کے خیر خواہ والا شان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیاروں کی محفل میں رونق محفل کی حیثیت سے تشریف فرما تھے کہ اچانک مسکرائے، محفل سنجیدہ تھی، بظاہر مسکرانے کا کوئی محل نہیں تھا اس لئے سب حیران ہوئے۔ وہ جو محبوب کی ہر حرکت و ادا پر قربان ہونے کے عادی اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے خواہاں ہوتے تھے اس ادائے دلربا پر خاموش نہ رہ سکے اور آخر پوچھ ہی لیا۔
یارسول اللہ! میں قربان، آپ ہمیشہ اسی طرح مسکراتے ہی رہیں۔ اس وقت مسکرانے کا کیا سبب ہے؟
کسی خاص تصور سے محبوب کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں، بعد میں سلسلہ کلام سے واضح ہوا کہ دو امتی یاد آگئے تھے، وہ دونوں ایک دوسرے سے نالاں تھے، دونوں نے رب العالمین کے حضور حاضری دی۔ ایک نے اللہ کے دربار میں دوسرے کے خلاف شکایت پیش کی :
یا اللہ! میرے اس بھائی نے دنیا میں مجھ پر ظلم کیا تھا، میں اس سے اپنا حق وصول کرنا چاہتا ہوں یارب! خُذْ مَظْلَمَتِيْ من اخِيْ میرے اس دینی بھائی سے میرا حق لے کر دے۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا : لَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِه شَيئٌ. اس کے پاس تو کوئی نیکی نہیں بچی۔ وہ بندہ کہے گا۔ فَيَحْمِلَ مِنْ اَوْزَارِيْ. تب یہ میرے گناہوں کا بوجھ اٹھائے۔
اس شخص کے بے مروتی اور مجبوری کی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسین آنکھوں میں آنسو آگئے فرمایا : ان ذَالِکَ لَيَوْمٌ عَظِيْمٌ يَحْتَاجُ النَّاسُ اَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ. یہ بہت بڑا دن ہوگا، لوگ چاہیں گے کہ دوسرے ان کا بوجھ اٹھالیں۔
فَقَالَ اللّٰهُ لِلطّالِبِ اِرْفَعْ بَصَرَک.
اللہ تعالیٰ سائل سے فرمائیں گے، نگاہیں اٹھا کر دیکھو۔
وہ جنت کے حسین و جمیل مناظر سونے کے محلات اور دیگر آسائش کی قیمتی چیزیں دیکھ کر دنگ رہ جائے گا اور پوچھے گا۔
لِاَي نبِیٍ هٰذا؟
یہ کس نبی کی ملکیت ہیں؟
اس کو بتایا جائے گا۔
لِمَنْ اعْطَی الثَّمَنَ.
یہ اس کی ملکیت ہیں۔ جو ان کی قیمت دے دے۔
وہ حسرت سے کہے گا : بھلا ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :
اَنْتَ تمْلِکَه بِعَفْوِکَ عَنْ اَخِيْکَ.
اپنے بھائی کو معاف کرکے تو ان کی قیمت ادا کرسکتا ہے۔
وہ فوراً راضی ہوکر کہے گا :
اِنِّيْ عَفَوْتُ عَنْهُ.
میں نے اس کو معاف کیا۔ اللہ پاک فرمائیں گے۔
فَخُذْ بِيَدِ اخيْکَ وَاَدْخِلْهُ الْجَنَّة.
اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اسے لے کر جنت میں چلا جا۔
اسی طرح مظلوم کو جنت دے کر راضی کردیں گے اور جو زیادتی کرنے والا ہے اس کا کام بھی بن جائے گا۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو نصیحت اور وصیت فرمائی۔
اِتَّقُو اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذات بَينِکُمْ. فَاِنَّ اللّٰهَ يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَوْمَ الْقِيَامة.
(حاکم، المستدرک، کتاب الاھوال، 4 : 620 رقم : 8718)
باہمی معاملات ٹھیک کرو، رنجشیں مٹاؤ، ایک دوسرے کو مناؤ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان قیامت کے دن صلح کرائے گا اور ان کے شکوے دور کرے گا یہاں تک کہ جس شخص نے دنیا میں اپنے بھائی پر زیادتی کی ہوگی اور وہ بھائی اس سے ناراض ہوگا اور مطالبہ کررہا ہوگا کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کو جنت دے کر راضی کریں گے اس طرح مظلوم بھی خوش ہوجائے گا اور زیادتی کرنے والا بھی چھوٹ جائے گا۔
حیرت انگیز ضمانت
میدان حشر میں بندوں پر ایسی عنایات ربانی اور نوازشوں کا سلسلہ بہت وسیع ہوگا جنہوں نے دنیا میں دوسروں پر مظالم ڈھائے ہوں گے اور اس وقت بے یار و مددگار کسمپرسی کے عالم میں پھر رہے ہوں گے اور مظلوموں نے گریبان پکڑے ہوں گے تو اس نازک موقعہ پر اللہ کی خاص رحمت ہی بندے کی دست گیری فرمائے گی اور فریادیوں سے چھٹکارا دلائے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
میدان عرفات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل محبت کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے، رب تعالیٰ کی طرف سے سلام و پیام آ رہے تھے۔ اس وقت جو عنایت ربانی ہوئی اور خاص خوش خبری اور عطا سے نوازا گیا تو رحمت عالم نے اپنے غلاموں کو بھی اس بخشش و عطا اور بے پایاں عنایت کی خوشی میں شریک کرنے کے لئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
يَا بِلالُ : اَنْصِتِ النَّاسَ۔ اے بلال دوستوں کو چپ کراؤ۔
چنانچہ حضرت بلال نے حاضرین کو خاموش ہونے کا حکم دیا۔ تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو حقیقت حال اور امت پر جو خاص کرم ہوا تھا اس سے آگاہ فرمایا :
يا معشر الناس اتانی جبريل آنِفًا فاقرأنی مِنْ ربِّيْ السَّلاَم وقال : ان اللّٰه غفر لاهل عرفات و ضَمِنَ عنهم التسبغات.
اے میرے غلامو! ابھی میرے پاس جبریل آئے تھے، انہوں نے پہلے رب تعالیٰ کی طرف سے سلام عطا فرمایا پھر بتایا اس وقت میدان عرفات میں جو لوگ جمع ہیں اللہ نے سب کو بخش دیا ہے اوران پر جو حقوق واجب ہیں ان کی ادائیگی اپنے ذمہ کرم پر لے لی ہے اور ضمانت دی ہے کہ اسے وہ خود ادا کرے گا یعنی دنیا میں بندے جو ایک دوسرے کے حقوق سلب کرتے رہتے ہیں اور پھر ادائیگی حقوق کی ان کے پاس کوئی ممکنہ صورت نہیں ہوتی اور حق لینے والے گریبان پکڑتے اور تنگ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ ایسے بندوں کی ادائیگی وہ خودکرے گا اور اپنی نعمتیں اور جنتیں دے کر انہیں راضی کرے گا تاکہ وہ اپنے بھائیوں کو تنگ نہ کریں اور معاف کردیں۔ رحمت وکرم کی موسلا دھار بارش کا یہ عالم دیکھ کر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یارسول اللہ!
ہذا لنا خاصۃ کیا یہ فضل و کرم ہمارے ہی ساتھ خاص ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
هذا لکم وَلِمَنْ اَتٰی مِنْ بَعْدِکُمْ الی يوم القيامة.
(عبدالعظیم المنذری، الترغیب والترہیب، 2 : 131 رقم : 1796)
یہ تمہارے لئے اور جو قیامت تک آنے والے امتی ہیں سب کے لئے ہے۔