بیداری شعور ورکرز کنونشن سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
مرتب : محمد یوسف منہاجین معاون : اظہر الطاف عباسی
اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر شعور کی بیداری کے حوالے سے انسان کو متوجہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین بلاشبہ انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر اصلاح احوال کی طرف واضح رہنمائی کرتے ہیں۔ بیداری شعور کے سلسلہ میں قرآن پاک ہمیں کس طرح خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے، آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
قَدْ جَاءَكُم بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍO
(الانعام : 104)
اس آیت مبارکہ کا بیداری شعور کی اہمیت پر مکمل اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ کے الفاظ استعمال فرماتے ہوئے بیداری شعور کا پیغام دیا ہے کہ گویا ایسی نشانیاں ہیں جن میں بصیرت ہے اور شعور کی بیداری کا سامان ہے۔۔۔ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ فرماکر واضح فرمادیا کہ اگر کسی فرد نے انفرادی طور پر شعور کی آنکھ کھول لی تو اسے ذاتی طور پر فائدہ ہوگا اور اگر معاشرے اور قوم نے اجتماعی طور پر ان نشانیوں کو دیکھ کر اور سمجھ کر شعور کی آنکھ کھول لی تو اسے اجتماعی طور پر فائدہ ہوگا۔۔۔ پھر فرمایا : وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا جو لوگ آنکھوں کے سامنے دکھائی دینے والی واضح نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود بھی اندھے رہے اور ان سے بصیرت اخذ نہ کرسکے تو پھر اس کا وبال بھی انہی پر ہے۔۔۔ پھر فرمایا : وَمَآ اَنَا عَلَيْکُمْ بِحَفِيْظٍ. میں تمہارے اوپر نگہبان اور دراوغہ بن کے نہیں آیا میرے کام تمہیں حقائق سے آگاہ کرنا اور متنبہ کرنا ہے، نفع اور نقصان کے تم خود ذمہ دار ہو۔
وحی الہٰی کا آغاز اور پیغام بیداری شعور
قرآن مجید شعور کی بیداری پر کس قدر تاکید کرتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وحی الہٰی کا آغاز ہی بیداری شعور کے پیغام سے ہوا ہے یعنی فروغ علم اور بیداری شعور دونوں آپس میں لازم و ملزوم اور ایک دوسرے سے متعلق (Interlinked) ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔ یعنی حالات، معاملات اور واقعات سے آگاہی حاصل کرنا علم کہلاتا ہے اور اس آگاہی سے زندگی کا اچھا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے درس عبرت حاصل کرنا، بصیرت اخذ کرنا اور اس سے فکر و شعور کا نور حاصل کرنا شعور کہلاتا ہے۔ ارشاد فرمایا :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ۔
(العلق : 1)
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا‘‘۔
لفظ اقراء (پڑھئے) میں فروغ علم کا پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے اس پیغام کا آغاز کررہا ہے جس نے قیامت تک آنے والی انسانیت کو ہدایت دینی ہے۔ اس پیغام کے آغاز کے کئی موضوعات ہوسکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے فروغِ علم اور بیداری شعور کو پہلی وحی کے عنوان اور مضمون کے طور پر اختیار فرمایا۔ افسوس! اسی سے آج امت مسلمہ بالعموم اور ہماری پاکستانی قوم بالخصوص محروم ہے۔
اللہ رب العزت کی طرف سے علم کا یہ پیغام اس سوسائٹی میں دیا جارہا ہے جہاں پڑھنا لکھنا باعثِ عار تصور ہوتا تھا، اسے برائی، ہلکا اور گھٹیا کام سمجھتے تھے اور اَن پڑھ ہونا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ اس سے دور جاہلیت میں رہنے والوں کی ذہنیت، سوجھ بوجھ اور فہم کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سوسائٹی کو مخاطب کیا جارہا ہے اور ایسے مضمون پر مشتمل پہلی وحی آرہی ہے جو براہ راست ان کے تصور کے ساتھ مزاحمت اور مخالفت رکھتی ہے اور بلاواسطہ ان کی فکر پر حملہ کررہی ہے۔ وہ اجتماعی طور پر پڑھنے لکھنے کے خلاف ہیں اور پہلی وحی اس ماحول میں ’’اقراء‘‘ (پڑھئے) کے ساتھ نازل ہورہی ہے۔ یہ وحی انقلاب تھی۔ ایک علمی انقلاب کا آغاز کرنے کے لئے یہ وحی اتری۔
اسی آیت مبارکہ میں بیداری شعور کا پیغام بھی ساتھ ہی ہے۔ عرب معاشرہ تین سو ساٹھ بتوں کو پوجنے والا تھا، ہر قبیلہ نے اپنے اپنے رب بنا رکھے تھے جو مختلف مقاصد کے لئے الگ الگ تھے۔ ہاتھوں کے تراشے ہوئے یہ بت انہوں نے کعبۃ اللہ کے صحن میں سجا رکھے تھے۔ یہ ان کی مذہبی حالت تھی، ان حالات میں بیداری شعور کا پیغام ان الفاظ کے ساتھ دیا :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ کہ ان تین سو ساٹھ بتوں کو اٹھاکر پھینک دو، یہ تمہارے رب نہیں ہیں۔ تمہارا رب وہ ایک ہے جس نے تم سب کو پیدا کیا۔ یہ شعور کی بیداری کا پیغام تھا کہ جس جہالت و کفر اور شرک کے اندھیروں میں تم پھنسے ہوئے ہو اور تم نے سینکڑوں خدا بنا رکھے ہیں وہ سب غلط اور گمراہی ہیں، بہکاوہ ہے، تمہارا رب ان میں سے کوئی نہیں ہے۔ وہ فقط ایک ہے کہ جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔
پس پہلی ایک ہی آیت میں Message of knowledge یعنی فروغ علم کا پیغام اور Message of Awareness یعنی بیداری شعور کا پیغام ہے کہ آنکھیں کھولو یہ تم کیا کررہے ہو کہ اپنے ہی تراشے ہوئے سینکڑوں بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو حالانکہ ان میں کوئی بھی تمہارا رب نہیں ہے۔
سماجی برائیوں کا خاتمہ
اس سوسائٹی کے اندر سماجی خرایباں (Social evils) تھیں۔ تفاخر اور بڑائی کے بڑے بڑے نعرے، دعوے اور پیمانے تھے۔ ہر کوئی کئی اعتبارات سے بڑا تھا۔ بیداری شعور کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی سوچ اور خیالات کی رو کو درست کرنے کے لئے ارشاد فرمایا :
اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ.
(العلق : 3)
’’پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے‘‘۔
بڑائی اور اونچا ہونے کے، فخرکرنے کے سارے پیمانے مکمل طور پر غلط ہیں۔ بزرگ تو سب سے بڑا تمہارا رب ہے اور بعد ازاں ایک اور موقع پر بڑائی اور عزت کا پیمانہ یہ مقرر فرمایا کہ
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْ.
(الحجرات : 13)
’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔
بزرگی کا یہ پیمانہ ہے کہ جو زیادہ متقی اور باکردار ہوگا وہی بزرگی والا ہوگا۔ پس اقراء و ربک الاکرم کے اندر بیداری شعور کا پیغام دیا۔
فروغِ علم
اس سوسائٹی کے لوگ لکھنے کے دشمن تھے اور باتیں زبانی یاد رکھتے تھے، لکھنا نہیں جانتے تھے حتی کہ اپنا نام تک لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کا کلچر لکھنے کے یعنی قلم کے مخالف تھا۔ اس پیغام کے ذریعے اللہ رب العزت نے ان کے ہاتھ میں قلم پکڑا دیا کہ
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.
(العلق : 4)
’’جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا‘‘۔
جس Device, Tool اور ذریعے کے وہ خلاف تھے اور جسے باعث عار سمجھتے تھے یعنی جس کا حافظہ کمزور ہے وہ قلم کا سہارا لے، اس طرح کے ان کے Concepts تھے۔ اللہ رب العزت نے اس سوسائٹی کے اجتماعی ماحول میں ان کے ہاتھ میں قلم پکڑا دیا۔
ہمارے ہاں اول سوسائٹی میں کسی کے پاس قلم نہیں ہے، قلم سے کسی کا تعلق نہیں ہے اور لوگوں میں 5% کے پاس اگر قلم ہے تو اس میں شعور، تدبر، تفکر اور حکمت کی سیاہی ہی نہیں ہے یعنی قوم قلم سے خالی ہے اور قلم والے سیاہی سے خالی ہیں۔
وسعتِ علم
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ.
(العلق : 5)
’’جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔
علم کے تمام میدان، Areas، سائنسز اور علم و شعور کے سارے راستے قلم کے ذریعے کھول دیئے اور پھر مَالَمْ يعْلَمْ کہہ کر تصور علم کی تنگی کو ختم کردیا کہ صرف مذہبی علم پر علم کا حصر نہیں ہے۔ مذہبی Extreemism اور سیکولر Extreemisms دو انتہائیں ہیں۔ مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ صرف درس کا پڑھا ہوا ہی عالم ہے جبکہ سیکولر دنیاوی علوم کے لوگ دین کے علم کو بالکل اہمیت نہیں دیتے بلکہ دنیاوی علم حاصل کرتے ہیں اور اسے ہی اصل علم قرار دیتے ہیں۔ ہر بندہ دوسرے کو جاہل کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دیوار کو بھی توڑ دیا اور یہ بھی شعور کی بیداری ہے۔ علم علی الاطلاق شے ہے۔ ایک Absolute Reality ہے عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ کے اندر یہ پیغام پنہاں ہے کہ انسان جو کچھ نہیں جانتا تھا اس کو سکھادیا۔ اپنی ذات سے لے کر اس کائنات تک تمام حقائق کو جاننا علم ہے اور پھر اس ذریعے سے چل کر کائنات کے خالق تک پہنچنا شعور ہے۔
انقلاب کا راستہ
غور کریں کہ قرآن مجید کی پہلی وحی اور پہلا پیغام فروغ علم اور بیداری شعور ہے۔ اللہ رب العزت نے فروغ علم اور بیداری شعور کے پیغام سے اپنے کلام کا آغاز کیا۔ کیا انقلاب کے لئے اس سے بہتر کوئی پیغام اور راستہ ہوسکتا ہے؟ ہم انقلاب کے لئے انتخابات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، جو کہ ایک سعی لاحاصل ہے۔ جوں جوں انتخابات کا ماحول گرم ہوتا چلا جائے گا امیدوار کھڑے ہوں گے، تبدیلی کے نعرے لگیں گے تو اس وقت بے شعوری کی آگ کے تپتے ماحول میں حقیقی تبدیلی کے خواہش مند انقلاب کی آرزو لئے اس ماحول سے متاثر ہوں گے۔ اس ماحول میں ورکرز پریشان ہوتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے تو انقلاب کیسے آئے گا؟
یاد رکھیں! انقلاب اس راہ سے آئے گا جس راہ کو اللہ نے منتخب کیا اور جو پہلا پیغام اپنے آخری رسول کی طرف نازل کیا اور جس کی بنیاد پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ حتی کہ آخر وقت تک آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیداری شعور اور فروغ علم کی راہ کو اختیار کیا۔ وصال سے قبل علالت کے وقت بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو آخری بات فرمائی وہ بھی یہ ہے کہ کاغذ اور قلم لاؤ، میں تمہیں لکھ دوں۔ گویا ابتداء بھی قلم کے ذریعے پیغام دے کر کی تھی اور وصال کے وقت بھی قلم اور کاغذ ہی طلب فرمائے۔
پس اسلام کی تحریک کا آغاز بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فروغ علم اور بیداری شعور سے فرمایا اور انتہاء بھی فروغ علم اور بیداری شعور سے فرمائی۔ چونکہ وصال کے وقت آپ کا لکھنا اللہ رب العزت کو منظور نہ تھا سو آپ علالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سہارا لے کر مسجد نبوی میں تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ کر خطاب فرمایا اور اس شعور کو آخری وقت میں بھی منتقل کیا جو اللہ رب العزت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امانت تھا اور جس کی ادائیگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر بھر فرماتے رہے۔
یاد رکھیں! انقلاب انتخابات سے نہیں آئے گا بلکہ انقلاب طریق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آئے گا۔ ملک پاکستان میں موجودہ نظام انتخابات ایک بہت بڑا ڈھونگ اور تماشا ہے۔ لوگوں کو دائماً اس فراڈ کے ذریعے محروم رکھنے کا بہت بڑا مکروہ دھندہ ہے۔
غفلت۔۔ جانوروں سے مماثلت کا باعث
اللہ تعالیٰ نے بیداری شعور کے تصور کو قرآن مجید میں جابجا واضح فرمایا۔ ایک اور موقع پر بیداری شعور پر تاکید اور اہمیت کو اس طرح واضح فرمایا :
لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ز وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ز وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ط اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ط اُولٰئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ.
’’وہ دل و دماغ رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں‘‘۔
آیت مبارکہ میں انسانوں کی اکثریت کے بارے میں فرمایا کہ دل و دماغ کے باوجود سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یعنی شعور نہیں ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہورہا ہے اور دیکھ رہے ہیں مگر وہ دیکھنا، دیکھنا نہیں ہے یعنی اس سے ان کو نصیحت حاصل نہیں ہوتی۔ حق کو نہیں دیکھتے۔ کان کے ہوتے ہوئے بھی سن نہیں سکتے۔ ایسے لوگ جن کے قلب و دماغ بھی ہوں، جن کی آنکھیں اور کان بھی ہوں مگر نہ سمجھ سکیں، نہ دیکھ سکیں اور نہ سن سکیں۔ قرآن کریم ان لوگوں کے لئے تمثیل دے رہا ہے کہ ان کی حالت یہ ہے کہ اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ چوپایوں جیسے لوگ ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ اور بے راہ ہیں اور ان کی یہ حالت اس لئے ہے کہ اُولٰئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں شعور کی بیداری حاصل نہیں ہے۔ یہ ہماری قوم کا حال ہے۔
حقیقی بینائی۔۔ بیداری قلب
بیداری شعور کو قرآن پاک میں ایک جگہ پر یوں واضح فرمایا گیا :
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَهمْ قُلُوْبٌ يَعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَسْمَعُوْنَ بِهَا ج فَاِنَّهَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِی الصُّدُوْرِ.
’’تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔
(الحج : 46)
اس آیت مبارکہ میں انسان کو جھنجھوڑا جارہا ہے کہ کیا ان لوگوں نے زمین میں گھوم پھر کے نہیں دیکھا، سیر و سیاحت نہیں کی، مشرق و مغرب اور جدید و بعید زمانوں کی اقوام کے احوال نہیں دیکھے، جو قومیں تباہ ہوئیں ان کے کھنڈرات اور ترقی پذیر اقوام کی عمارات کو نہیں دیکھا۔ اگر گھوم پھر کے دیکھتے اور کھلی آنکھوں سے جائزہ لیتے تو شاید ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے دل ایسے ہوجاتے جن سے وہ سمجھ سکتے۔۔۔ شاید انہیں ایسے کان مل جاتے جن سے وہ سن سکتے۔۔۔ پھر فرمایا سن لو! ہم اس وقت جس بینائی اور اندھے پن کی بات کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل جو سینوں میں ہے وہ اندھے ہوتے ہیں۔
ایک شخص آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوتا ہے مگر اس کا دل بینا ہوجاتا ہے، اس کے شعور کی آنکھ کھل جاتی ہے، حقیقت میں بینا یہی شخص ہے اور ایک شخص کی آنکھیں بینا ہیں مگر شعور کی آنکھ کے اعتبار سے نابینا ہے تو وہ ظاہری آنکھوں کے باوجود بھی نابینا ہے۔ یہ سب بیداری شعور کے Quranic Messages ہیں۔
٭ اسی طرح بیداری شعور کے حوالے سے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا.
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں‘‘۔
(محمد : 24)
اس آیت میں غورو خوض کی دعوت دی جارہی ہے کہ کیا ان کے شعور کی آنکھیں بند ہوگئی ہیں۔
٭ اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا :
وَمَن كَانَ فِي هَـذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاًO
(بنی اسرائیل : 72)
’’اور جو شخص اس (دنیا) میں (حق سے) اندھا رہا سو وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہِ (نجات) سے بھٹکا رہے گا‘‘۔
جو شخص دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میںبھی اندھا ہی رہے گا۔ اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ ایک بے چارہ قدرتی طور پر اندھا ہے تو قیامت کے دن بھی اندھا ہوگا بلکہ اس سے مراد بھی یہ ہے کہ جو شعور کی آنکھ سے اندھا رہا وہ قیامت کے دن بھی اندھا ہوگا اور جس کے شعور کی آنکھ نہیں کھلی وہ گمراہ ہی رہے گا۔
٭ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا.
(الانعام : 125)
’’پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کسی کو (عدلاً اس کی اپنی خرید کردہ) گمراہی پر ہی رکھنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ شدید گھٹن کے ساتھ تنگ کر دیتا ہے‘‘۔
سینہ کشادہ کردینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شعور کی آنکھ کو کھول دیتا ہے اور اسے نگاہ بصیرت عطا کردیتا ہے، اسے انشراحِ صدر عطا ہوجاتا ہے اور اسے بات حقیقت میں سمجھ آنے لگ جاتی ہے لیکن جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ عدلاً اس کی اپنی خرید کردہ گمراہی پر ہی رکھنے کا فیصلہ کردے کہ اس نے اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی بے شعوری کی وجہ سے، اپنے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے، غفلتوں کی وجہ سے، بے پروائی کی وجہ سے جو گمراہی خرید رکھی ہے اگر اللہ ارادہ کردے تو پھر وہ اسی گمراہی میں بھٹکتا پھرے گا۔ اس کا سینہ شدید گھٹن کے ساتھ تنگ ہوجاتا ہے یعنی اسے سمجھ نہیں آتی۔
انقلاب کا تقاضا۔۔۔ بیداری عوام
کارکنان جب تک تحریک منہاج القرآن کو بیداری شعور کی تحریک بناتے ہوئے 17کروڑ عوام تک پیغام نہیں پہنچائیں گے، اس وقت تک انقلاب نہیں آسکتا۔ اس لئے کہ لازمی نہیں کہ جن تک آپ پیغام پہنچائیںوہ متحرک بھی ہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ جتنے لوگوں تک پیغام پہنچے گا اس میں آدھے یا ایک تہائی متحرک ہوں گے۔ پس اگر 5سے 6کروڑ تک بھی پیغام پہنچے تو اس طرح پہنچے کہ وما علینا الا البلغ کا آئینہ دار ہو کہ وہ پیغام انہیں ہلا کے رکھ دے۔۔۔ انہیں غفلت سے بیدار کردے۔۔۔ ان کے دل، دماغ، آنکھیں اور کان شعوری طور پر سب کھل جائیں۔۔۔ اور بات ان کی سمجھ میں آجائے۔ کارکنان اس بات کو اپنے اوپر لازم ٹھہرالیں کہ 6 کروڑ افراد تک اس بیداری شعور تحریک کے ذریعے اس طرح پیغام پہنچے کہ ان میں سے دو، تین کروڑ افراد متحرک ہوجائیں، اٹھ کھڑے ہوں، بیداری شعور انہیں غفلت کی نیند نہ سونے دے بلکہ بیدار کردے، اٹھا دے، جگا دے، مضطرب کردے اور وہ باہر نکل آئیں۔ اس وقت آپ سمجھیں کہ آپ کی بیداری شعور تحریک نے کامیابی حاصل کرلی۔ یہی راہ انقلاب ہے۔
صبر و استقامت کا مظاہرہ
جب تک آپ اس منزل کو حاصل نہیں کرتے تو آپ راستے میں ہیں۔ راستے میں چلنے والا مسافر اگر شور کرے کہ منزل کب آئے گی تو اس کا سفر اس پر مشکل اورکٹھن ہوجائے گا۔ اس کی مثال بچوں جیسی ہے کہ فاصلے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ منزل کب آئے گی، کا سوال دوران سفر مسلسل دوہراتے رہتے ہیں۔
مجھے 80ء کا زمانہ یاد ہے کہ جب کبھی چھٹیاں ہوتیں یا عید کے موقع پر میں بچوں کے ساتھ لاہور سے جھنگ جاتا تو ابھی ہماری گاڑی راوی دریا کے پل سے نکلتی یا شاہدرہ تک ہی پہنچتی تھی تو حسن اور حسین پوچھنا شروع کردیتے تھے کہ ابو جی جھنگ کب آئے گا؟ میں انہیں کہتا بیٹے ابھی تو ہم لاہور سے نکلے ہیں، جھنگ ابھی بہت دور ہے اور کافی وقت لگے گا مگر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر پوچھتے کہ ابو جھنگ کب آئے گا؟ یہی حالت ہمارے کارکنوں کی ہے۔ اسی طرح کی بات غالباً فیض احمد فیض کے بارے میں بھی سنی ہے کہ وہ لندن میں کسی تقریب میں تھے، کسی بچے نے ان سے پوچھا کہ انقلاب کب آئے گا؟ انہوں نے کہا : آجائے گا، ذرا آپ جوان تو ہوجائیں۔
مقصد بات کا یہ ہے کہ اس طرح کی بے صبری بھی بیداری شعور کے فقدان کے باعث ہے۔ اس طرح کی نفسیات بچوں کی ہوتی ہیں، ان کی طبیعتوں میں اضطراب اور بے چینی ہوجاتی ہے۔ چونکہ بچوں کو سفر کا پتہ نہیں ہوتا، منزل کی مسافت کا پتہ نہیں ہوتا، سفر کے تقاضے معلوم نہیں ہوتے، منزل کا بوجھ معلوم نہیں ہوتا چونکہ پورا شعور اور ادراک نہیں ہوتا لہذا وہ سفر پر روانہ ہوتے ہی پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ منزل کب آئے گی؟ لہذا کارکنان کو اس بچگانہ نفسیات سے باہر نکلنا چاہئے۔
پوچھا جاتا ہے کہ انقلاب کب آئے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب سات کروڑ افراد تک انقلاب کا پیغام پہنچ جائے گا اور اس میں سے دو، تین کروڑ آپ کے ساتھ اس فرسودہ نظام کے خلاف جنگ لڑنے، اسے اٹھاکر سمندر میں غرق کرنے، مفاد پرستی، دجل و فریب، کرپشن، دہشت گردی اور دھوکہ دہی کے ان بتوں کو پاش پاش کرنے کے لئے آپ کے ساتھ اس طرح باہر نکل آئیں کہ راستے بلاک ہوجائیں اور دھوکہ و فریب کی ٹریفک ایسی جام ہوجائے کہ پھر چل نہ سکے، اس وقت انقلاب آجائے گا۔ لہذا کارکن کا کام صبر و استقامت ہے کہ وہ شعور بیدار کرنے، پیغام کو گھر گھر پہنچانے اور اس ہدف کو حاصل کرنے تک بغیر تھکے ہوئے اور بغیر بے صبر ہوئے لگا رہے، یہی انقلاب کا راستہ ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والی نعمت پر شکر ادا کریں کہ اللہ رب العزت نے آپ پر بڑا کرم کیا ہے اور انعام فرمایا ہے کہ اس صدی کی سب سے عظیم تحریک سے آپ کو منسلک کیا ہے۔ وہ تحریک جو اس پندرھویں صدی کی بلاشک و شبہ تجدیدی اور احیائی تحریک ہے۔ جس کے ذمہ پوری امت مسلمہ کے لئے شرق تا غرب تجدید دین اور احیائے اسلام کی ذمہ داری ہے حتی کہ بعض اعتبارات سے نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم کفر کے سامنے بھی اسلام کے Image کو زندہ کرنا اس تحریک کی انفرادیت میں شامل ہے۔ (تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں ماہنامہ منہاج القرآن مارچ، جون 2011ء) آپ اس تحریک سے منسلک ہیں، اس پر اللہ کا شکر ادا کیا کریں اور اس پر استقامت کے ساتھ رہنے کی دعا کیا کریں۔
تحریک کی حکمت عملی اور غلط فہمیوں کا ازالہ
2002ء کے الیکشن کے بعد اور بالخصوص پاکستان کی نیشنل اسمبلی سے میرے استعفیٰ کے بعد تحریک کی حکمت عملی حالات کا جائزہ لے کر واضح طور پر تبدیل کردی گئی۔ یہ فیصلہ 1989ء میں موچی دروازہ لاہور میں ہونے والے پہلے مصطفوی انقلاب کنونشن میں پاکستانی عوامی تحریک کی بنیاد رکھتے ہوئے کرلیا گیا تھا۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ دو الیکشنز میں حصہ لیں گے اگر ہم ان دو انتخابات کے نتیجے میں منزل کے قریب گئے تو ہم اس راستے کو جاری رکھیں گے اور اگر ہم نے دیکھا کہ راستے کے قریب نہیں گئے اور ان دو الیکشنز کی کوششیں ہمیں راستے کی طرف نہیں لے جا رہیں اور بیکار ہیں تو ہم اس راستہ کو چھوڑ دیں گے۔ ہم نے الحمدللہ اسی عہد پر عمل کیا۔ 1990ء کے الیکشن میں حصہ لیا اور اس کے بعد 12 سال تک الیکشنز میں حصہ نہیں لیا۔ بعد ازاں 2002ء میں الیکشنز میں شریک ہوئے۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ یہ الیکشنز مصطفوی انقلاب کا راستہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت بڑا فراڈ ہے جو اس قوم کے ساتھ انتخابات کے نام پر کیا جاتا ہے۔ خدا کرے اس قوم کو اس بات کی سمجھ آجائے۔
پس ہم نے حسب وعدہ یہ راستہ ترک کردیا اور اپنے قول پر عمل کیا کیونکہ موجودہ مروجہ سیاست کا یہ راستہ چھانگا مانگا کے جنگلوں میں قوم کو گھما پھرا اور پھنسا رہا ہے۔ پس ان عوامل کی بناء پر تحریک کی حکمت عملی تبدیل ہوگئی۔
ایک اور بات جو اس موقع پر کہی تھی آج بھی کارکنوں کے ذہنوں میں گھومتی ہے اور غلط فہمی کا باعث بنتی ہے۔ اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اس کی وضاحت کرتا چلوں کہ میں نے 1989ء میں یہ کہا تھا کہ ان شاء اللہ، اللہ رب العزت کو منظور ہوا تو 2000ء کا سال مصطفوی انقلاب کے ساتھ طلوع ہوگا یعنی کم و بیش بارہ سال ہمیں لگیں گے اور ہم انقلاب کی منزل کو پالیں گے۔ اس بات نے سال ہا سال تک کارکنوں کو پریشان کئے رکھا کہ اس طرح کہا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
اس طرح کی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ
یہ بات ایک انسان کی کہی ہوئی تھی۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات نہیں تھی۔ یہ بات میری بات تھی۔ انسان کی کہی ہوئی بات وحی الہٰی پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ انسان کی کہی ہوئی ہوتی ہے۔ انسان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس کا تخمینہ اور اس کی Assessment ہوتی ہے۔ اس وقت کے حالات کے تناظر میں، وقت کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات میری Assessment تھی۔ جس طرح یہ بات اندازے پر مبنی تھی کہ دو الیکشنز ہمیں اپنی منزل تک پہنچادیں گے اور اگر دو الیکشنز منزل تک نہ پہنچاسکے تو ہم یہ راستہ چھوڑ دیں گے۔ پس ہم نے دیانتداری کے ساتھ راستہ چھوڑ دیا۔ بالکل اسی طرح یہ بھی اندازہ تھا کہ 2000ء کا سال مصطفوی انقلاب کا سال ہوگا۔ مگر حالات و واقعات اس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئے کہ نتائج Assessment کے مطابق نہ نکلے۔ ان دو الیکشنز نے ہمیں منزل تک کیوں نہیں پہنچایا، اس لئے کہ حالات تبدیل ہوئے۔
89ء میں جب یہ اعلان کیا گیا تھا تو اس وقت کسی نے دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر کا نام نہیں سنا تھا۔۔۔ عالمی طاقتوں کی کتنی دخل اندازی ہورہی ہے اور ہوتی جائے گی اس کا تصور نہیں تھا۔۔۔ اس وقت عراق اور گلف War نہیں ہوئی تھی۔۔۔ عالم اسلام کے اندر کھلم کھلا عالمی طاقتوں کی مداخلت شروع نہیں ہوئی تھی۔۔۔ ایجنسیوں کا سیاست کے عمل پر کھلا کنٹرول نہ تھا۔۔۔ ہر چیز کا فیصلہ ایک مرکز سے اور پھر اس کا فیصلہ باہر کے مرکز سے علی الاعلان نہ ہوتا تھا، اگر پہلے تھا تو اس وقت بڑا خفیہ تھا اور ایک حد تھی۔ اس حد تک اندھیر نگری نہیں مچی ہوئی تھی جیسے آج ہے کہ ہر چیز عامۃ الناس کے کنٹرول سے باہر ہے۔
پس جو حالات آنکھوں کو نظر آرہے ہوتے ہیں اس کی روشنی میں انسان Assess اور اندازہ کرتا ہے، تخمینہ لگاتا ہے۔ حالات جب بدل جاتے ہیں تو اندازہ بھی بدل جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ گھر سے نکلتے ہیں اور موسم نارمل ہوتا ہے مگر کچھ دیر کے بعد آپ کا اندازہ غلط نکلتا ہے اور موسم میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ یورپ میں اس چیز کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ گھر سے نکلے تو موسم بالکل صاف ہوتا ہے، اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ سے فلاں جگہ ایک گھنٹہ میں پہنچ جائیں گے مگر سفر شروع کرنے کے بعد اچانک بارش شروع ہوجاتی ہے یا برف باری شروع ہوجاتی ہے، آندھی، طوفان شروع ہوجاتا ہے۔
امسال کینیڈا میں موسم کے ماہرین نے مارچ میں کہا تھا کہ Snow fall ختم ہوگیا ہے لیکن ماہرین کے تمام اندازے غلط ہوگئے اور اچانک اطراف و اکناف برف سے بھر گئے۔
اسی طرح انگلینڈ میں 30، 35 سال کا عرصہ گزر گیا کبھی Snow fall نہیں ہوئی۔ لہذا ان کے پاس اس کے انتظامات ہی نہیں تھے اور نہ ہی پلاننگ تھی۔ ابھی دو سال سے اتنی شدید برفباری شروع ہوگئی ہے کہ تصور سے باہر ہے اور اب وہ لوگ اس کے لئے انتظامات کررہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ موسم تیس سال کے اندازے کے خلاف ہوگیا۔ گویا Assessment اور حالات یک لخت بدل جاتے ہیں۔
راستے میں کبھی کسی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور گھنٹوں ٹریفک پھنسی رہتیہے۔ اس طرح اس کے تمام اندازے جو اس نے سفر شروع ہونے سے پہلے لگائے تھے، غلط ہوجاتے ہیں۔
اس قوم اور امت کے ساتھ بھی ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، ایک نہیں بلکہ پے درپے ایکسیڈنٹ ہوئے۔ اس وقت بھی ملک حالتِ ایکسیڈنٹ میں ہے اور پچھلے دس بارہ سال بھی ایکسیڈنٹ میں گزرے ہیں اور پوری امت عالمی سطح پر ایکسیڈنٹ کی حالت میں چلی گئی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ انسان کی Assessment حالات کے مطابق ہوتی ہے کبھی یک لخت صورتحال تبدیل ہوجاتی ہے، انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے یا وحی کے ذریعے اپنے نبی کو آگاہ کرسکتا ہے اور کوئی انسان اس کا دعویدار نہیں ہوسکتا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔
1989ء میں جو بات میں نے کہی تھی اس وقت داخلی اور خارجی حالات واضح نظر آرہے تھے کہ ان کے مطابق اس ملک کے لئے دس بارہ سال کا عرصہ تبدیلی کے لئے مناسب تھا۔ ذہن اور دل و دماغ مطمئن تھا۔ اسکے بعد یک لخت خارجی Snow fall ہوگئی اور داخلی راستے بند ہوگئے، ان حالات کا اندازہ نہ تھا لہذا تمام اندازے اور تخمینے غلط ہوگئے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت ان حالات و واقعات کی لپیٹ میں آگئی۔ World war شروع ہوگئی، عراق کسی کے قبضے میں چلا گیا، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب بیرونی طاقتوں کے اڈے بن گئے جو کہ اس سے پہلے نہیں تھے اور آج تک ان کے مراکز قائم ہیں۔ بعد ازاں افغانستان کے حالات بدل گئے۔ پاکستان بھی غیر ملکی طاقتوں کی کالونی اور اڈہ بن گیا۔ یہ وہ مسلسل ہونے والی تبدیلیاں اور حالات تھے جن چیزوں نے راستہ روک دیا۔ یہ حادثات، حالات و واقعات 20سال سے تسلسل سے چل رہے ہیں۔
پس بات کو ہمیشہ حقیقی بن کر سمجھنا چاہئے کبھی حالتِ خواب میں نہ رہیں۔ ہم میں سے کوئی تصور کرسکتا تھا کہ عراق جیسا ملک کسی کے قبضہ میں چلا جائے گا۔۔۔ عالم عرب پورے کا پورا کسی کے کنٹرول میں ہوجائے گا۔۔۔ وہ افغانستان جو روس سے بارہ سالہ جدوجہد کے بعد آزاد ہوا تھا وہ قبضہ میں چلا جائے گا۔۔۔ عالم اسلام کے دگر گوں حالات ہوجائیں گے۔۔۔ دہشت گرد جنم لیں گے، قتل و غارت گری شروع ہوجائے گی۔۔۔ آج سے 15 سال قبل ملک پاکستان میں مجموعی طور پر امن و امان تھا، تمام صوبے پر امن تھے۔ اس وقت کوئی ان حالات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
مقصد بات کا یہ ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں انسان کے وہم وخیال میں بھی نہیں ہوتیں جو سارے کا سارا منظر نامہ تبدیل کردیتی ہیں۔ لہذا کبھی ناپ تول نہ کیا کریں کہ انقلاب کب آئے گا، یاد رکھیں! اس دن انقلاب آئے گا جب دو سے تین کروڑ افراد اس نظام کو زندہ دفن کرنے کے لئے میدان میں باہر نکل آئیں گے۔ اب یہ جنگ ایمان کی جنگ ہے، اعتقاد کی جنگ ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا کی جنگ ہے، استقامت کی جنگ ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ، اہل بیت اور ائمہ کی پیروی کی جنگ ہے، حق و باطل کی جنگ ہے اور ہر لمحہ آپ کو اس جنگ کا اجر ملے گا۔ آپ محروم اجر نہیں ہیں۔
آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ تحریکی حکمت عملی تبدیل ہونے کے باوجود پاکستان کے سیاسی، معاشی، سماجی اور معاشرتی انتہائی مشکل ترین حالات میں آپ نے نہ صرف اپنا سفر جاری رکھا ہے بلکہ پے در پے کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور استقامت کے ساتھ سفرکرتے ہوئے ہر آنے والے دن میں اس تحریک کو مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے۔
عالم شرق، عالم مغرب، عالم عرب، عالم اسلام میں ہر طرف تحریک کو اللہ رب العزت نے تھوڑے عرصے کے اندر وہ فروغ، قبولیت اور پذیرائی دی کہ پوری دنیائے انسانیت میں اسلام کے چہرہ امن کی نمائندہ کے طور پر صرف تحریک منہاج القرآن کو قبولیت عامہ حاصل ہورہی ہے۔ امن کے دین کے طور پر اسلام کے تصور کی نمائندہ تحریک صرف تحریک منہاج القرآن ہے۔
آپ ایک انقلابی تحریک کے کارکن ہیں اور آپ کا نعرہ اور منزل مصطفوی انقلاب ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ تحریک زندہ ہے مگر بدقسمتی سے جس ملک اور معاشرہ میں یہ بپا ہے وہ قوم خواب غفلت کا شکار ہے، مثل مردہ ہے۔ تحریک اور اس کے کارکن زندہ ہیں مگر جس معاشرہ میں یہ کارکن انقلاب لانا چاہتے ہیں وہ معاشرہ مردہ ہے۔ یہ معاشرہ مردہ ہے اسی لئے تو اس صورتحال کو قبول کر رکھا ہے جو اس وقت سر پر مسلط ہے۔ معاشرہ اور قوم زندہ ہوتی تو مرجاتی مگر اس صورتحال کو قبول نہ کرتی۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ دینی شعائر کمزور ہورہے ہیں، دین سے دوری فروغ پارہی ہے، ہر سمت کرپشن ہے، اس حد تک گراوٹ ہوچکی ہے کہ کرپشن کو زندگی اور کلچر کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ ظلم اور استحصال ہے، جبرو بربریت ہے، ہر طرف لاقانونیت ہے جس کی لاٹھی ہے اسی کا قانون اور سب کچھ ہے۔ ہر طرف قتل و غارتگری ہے، بدامنی ہے، جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ نہیں ہے۔ المختصر یہ کہ دہشت گردی کا دور ہے۔ یہاں مفادات کی جنگ ہے، اسی میں بدقسمتی سے سیاسی اور مذہبی قیادت بھی مبتلا ہے۔ فرقہ واریت ہے، صوبائی عصبیتیں ہیں، لسانی کشمکش، طبقات اور فرقے ہیں، مذہبی انتہا پسندی ہے۔ دوسری طرف سیکولر (مذہبی) انتہا پسندی ہے۔ اعتدال کی سوسائٹی نہیں رہی، شعور بیدار نہیں ہے۔ ان حالات میں سفر کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنے کا خواب پوری قوم میں شعورکو بیدارکئے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔
کارکن کا کام عجلت کا شکار ہونا نہیں ہوتا، جو بے صبر ہوجائے اسے کارکن نہیں کہتے۔ کارکن بننا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت سے سیکھئے۔ آپ منزل کو پا نہیں سکتے جب تک شعور کی بیداری کی مہم کامیاب نہ کریں اور ہماری حالت یہ ہے کہ شعور کی بیداری کیا ہوگی ہمیں تو یہ احساس بھی نہ رہا کہ ہم لٹ گئے، برباد ہوگئے اور ہلاک ہوگئے۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہمیں نہ صرف لٹنے کا افسوس نہیں بلکہ لٹنے کا احساس بھی نہیں رہا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
بیداری شعور تحریک کی جہات
کارکنان کیلئے ضروری ہے کہ چار جہتوں میں اپنے آپ کو مضبوط کریں اور انہی چار جہات میں بیداری شعور تحریک کو آگے بڑھائیں۔
1۔ بندگی و عبادت کو اخلاص وللہیت تک پہنچانا
اللہ تعالیٰ کی بندگی، عبادت اور عبدیت میں ایسی تبدیلی لائیں کہ یہ اخلاص اور للہیت تک جا پہنچے۔ بندگی، عبادت، خدمت دین، کوشش اور جدوجہد سب کچھ جو ہم اللہ کے لئے کررہے ہیں اس میں اخلاص اس کمال کو پہنچے کہ للہیت آجائے۔ سوائے اللہ کی رضا کے کوئی شے، کوئی غرض، کوئی مقصود، کوئی دھیان درمیان میں حائل نہ رہے۔ کارکنان و رفقاء اللہ کے ساتھ اپنی تعلق بندگی کو اخلاص کے باب میں للہیت تک پہنچائیں۔ اس پر محنت کریں۔
اس ضمن میں دروس قرآن اور عرفان القرآن کورسزکے ذریعے اپنی کاوشوں کو آگے بڑھائیں۔۔۔ دینی اجتماعات کے ذریعے اس پیغام کو پہنچائیں۔۔۔ اپنے خطابات، تقاریر اور بیانوں میں اس موضوع پر زور دیں کہ لوگوں میں للہیت پیدا ہو، کوئی اورغرض ان کے اندر نہ رہے۔ کسی کو خوش کرنا اور کسی کو ناراض کرنا، کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ نہ کہے ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہوجائیں، للہیت یہی ہے۔ کتب کا مطالعہ کریں۔ ہر شخص مطالعہ کی عادت ڈالے۔۔۔ علم کا کلچر زندہ کرے۔۔۔ تربیت کی سرگرمیاں بڑھائیں۔۔۔ الغرض تمام اجتماعات میں اخلاص اور للہیت پر زور دیا جائے۔
2۔ محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفا تک لے کر جانا
دوسری جہت جس میں مضبوط ہونے کی ضرورت ہے وہ ربط و نسبت رسالت ہے۔ ہم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور محبت و نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دم بھرتے ہیں۔ اس غلامی اور محبت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ سچی اور کامل وفا تک لے کر جائیں۔ محبت ایسی ہو جو مرتے دم تک وفا کرے، ایسے محب بن جائیں کہ وفا کریں۔ وفا کے یہ سارے سبق اسوہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملتے ہیں۔
اس کے لئے کثرت کے ساتھ فکری سطح پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کریں۔۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت کیسے فرمائی کہ وہ وفادار ہوئے؟ مدنی دور کا مطالعہ کریں۔۔۔ درود و فکر کے حلقات قائم کریں۔۔۔ محافل میلاد و نعت کا بھی اہتمام کریں۔۔۔ نیز ان محافل کے مقصود کو بھی حاصل کریں اور وہ یہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری کیسے پیدا ہو؟ زندگی میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور سنت طیبہ کی پیروی کا جذبہ ہو اور عملی طور پر بھی زندگی میں اس کا رنگ نظر آئے۔ دروس قرآن کے ذریعے بھی پیغام دیں۔۔۔ CD's کے ذریعے دعوت کو بھی پھیلائیں۔۔۔ اور کتابوں کا مطالعہ کریں۔
3۔ موجودہ نظام سے نفرت تک لے کر جانا
موجودہ نظام انقلاب کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس قوم کے مقدر کی تباہی کا باعث ہے اور اس ملک میں کسی قسم کی خیر پر مبنی تبدیلی کے راستے میں دیوار ہے۔ اس نظام کو بچانے کے لئے وہ سب متفق اور متحد اس لئے ہیں کہ وہی اس خرابی کے نظام کے ستون ہیں۔ ان کو اس نظام نے بچا رکھا ہے اور نظام کو انہوں نے بچا رکھا ہے۔ انقلاب کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا جب تک آپ اس فرسودہ نظام کی عمارت کو زمین بوس نہیں کرتے۔ اس نظام کا حصہ بن کر انقلاب نہیں آسکتا۔ اس نظام کو ٹھکرانا اور گرانا ہوگا۔ اس کے لئے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس نظام سے بیزاری پیدا کریں اور لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کریں۔ اس نظام کے خلاف اتنی نفرت پیدا کریں کہ لوگ اس نظام کی عمارت کو گرانے کے لئے باہر نکل آئیں۔ یہ سیاسی نظام مفاد پرستانہ نظام ہے جس نے پاکستان کی سیاست، پاکستانی قوم اور ملک پاکستان کو بدنام کررکھا ہے۔
اس کے لئے مختلف کانفرنسز، سیمینارز کا انعقاد کریں۔ کتابچے، ہینڈ بلز، ویڈیو کلپس، تحریکی مجلات اور اخباری آرٹیکلز میں ان چیزوں کو عام کریں اور لوگوں تک اس شعور کو پہنچائیں۔
4۔ اجتماعی سوچ کی طرف لانا
آج ہم انفرادی سوچ کے حصار میں قید ہیں، اجتماعیت کی سوچ اور غیرت و حمیت ہمارے اندر سے ختم ہوگئی، اس کو زندہ کرنے کے لئے کوشش کریں کہ لوگ انفرادی سوچ کے حصار سے نکلیں اور اجتماعیت کی طرف آئیں۔ اس کے لئے تحریک کے ادارہ جات میں تعلیمی سرگرمیاں کریں، فلاحی سرگرمیاں، لٹریچر Create کریں، MES ،MWF ،MSM اور MYL سیمینارز منعقد کریں۔
اپنی راہوں اور لائحہ عمل کو خود مرتب کریں
جب آپ نیکی کا کام کرتے ہیں تو اس وقت سوچتے ہیں کہ دوسرے لوگ کیا کہیں گے۔ ان سوالوں سے کارکن کو متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ ایسی سوچ خود اعتمادی کی کمزوری ہے اور کارکن ہونے کے شان کے خلاف ہے۔ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ کیا کام کرنے اور کیا کام نہیں کرنے کے ہیں۔ بہت سے حادثات اور واقعات قوموں کی زندگی اور معاشرے میں آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو محتاج اور حاجتمند ہیں ان کی ساری نظر الیکشنز کے سیاسی مفاد پر ہوتی ہے۔ وہ ہر ہونے والے واقعہ کو چاہے وہ دینی، مذہبی، روحانی، سیاسی، سماجی ہو، کسی کے ظلم کا ہو یا کچھ ہو، خواہ اس کا کچھ بھی نتیجہ نہ نکلے مگر اس کو انہوں نے Cash کرانا ہوتا ہے اور اس کے ذریعے اپنا وجود دکھانا ہوتا ہے کہ ہم نے بھی کچھ کیا ہے۔ ان کی ساری کاوشوں کا نتیجہ اللہ کی رضا، اخلاص اور للہیت نہیں ہوتی، انقلاب نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی بلکہ مقصود ان تمام کاوشوں کا اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔
ان طبقات کے برعکس ہم نے کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا؟ کس حد تک کسی کام میں شریک ہونا ہے اور کس حد تک نہیں ہونا؟ اس کا فیصلہ اس بات پر کرنا ہے کہ اس کا Impect تحریک اور ملک و قوم پر کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا؟ اس پوری کاوش کا انجام کیا نکلے گا؟ گویا ان تمام امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے قدم اٹھانا ہے۔
نام نہاد قائدین کا افسوسناک طرز عمل یہ ہے کہ وہ پے در پے بیانات دیتے، دعوے کرتے یا اجتماعی جلوس و جلسہ کرتے ہیں بعد ازاں اس کے خواہ کچھ بھی نتائج نہ نکلیں لیکن مہینے کے بعد پھر تازہ دم ہوکر کسی نئے ایشو کے ساتھ پھر لوگوں کے درمیان میں آجاتے ہیں اور انہیں اس ملک میں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے کہ تم نے دو ماہ پہلے یہ کیا تھا یا یہ کہا تھا، اس کا کیا بنا؟ اس ملک میں کئی تحریکیں چلتی ہیں کہ ذمہ داران کی گرفتاری تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے مگر نہ کوئی دہشت گرد پکڑا گیا اورنہ کوئی سزا ہوئی اور نہ کسی کا نام بتایا گیا مگر وہ تحریکیں چلانے والے ایک آدھ احتجاج کے بعد گھروں کو چلے گئے۔ اس کے بعد کوئی نیا ایشو آگیا تو اس کو شروع کردیتے ہیں۔ قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ پوچھتے ہی نہیں کہ تمہارے پچھلے قصہ کا کیا بنا۔ یہ سارا دجل و فریب، دھوکہ بازی، مکاری، عیاری کا ایک چنگل اور فریب ہے۔ مذہبی شکل کے لباس والا بھی وہی کام کرتا ہے اور داڑھی منڈا آدمی بھی وہی کام کرتا ہے۔
کارکن کی حیثیت سے آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ تحریک کے لئے، ملک و قوم کے لئے آپ کے فہم میں کیا درست اور کیا نا درست ہے۔ دیکھا دیکھی اور روا روی نہیں۔ اس کام کا طریقہ یہ ہے کہ جو کام کریں وہ شعور اور للہیت کے ساتھ ہو۔
رضاء الہٰی ہمیشہ مقدم رہے
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کوئی شخص جہاد کرتا ہے اور اس غرض کے لئے کرتا ہے کہ اس کو اجر اور کوئی فائدہ ملے گا، مال غنیمت ہاتھ آئے گا، یا اس کی شہرت اور ناموری مجاہد کے طور پر ہوگی، گویا اللہ کی راہ میں جہاد بھی کرتا ہے، جان بھی دیتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی اس کے خیال میں رہتی ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اس کو کوئی اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا شئی لہ کہ وہ جان بھی دے دے تب بھی اس کے لئے کوئی اجر نہ ہوگا۔ لوگ اسے شہید کہتے پھریں مگر اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔
ذرا سوچیں!کہ کیا ایک کارکن کی جملہ کاوشیں میدان جہاد میں جان دینے والے سے زیادہ ہیں؟ نہیں، مگر اس شخص کے لئے بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لا شئی لہ کوئی اجر نہیں ہے کیونکہ اس کی نیت میں ملاوٹ آگئی ہے۔ لڑ بھی رہا ہے، جہاد بھی کررہا ہے مگر اس کے مالی مفادات بھی ہیں، شہرت و ناموری بھی ہے، اس کی نیت میں کئی چیزوں کی آمیزش ہوگئی لہذا وہ اجر سے محروم ہوگیا پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمِلَ اِلَّا مَاکَانَ لَه خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِه وَجْهُ.
’’اللہ تعالیٰ صرف کسی شخص کا وہ عمل قبول فرماتا ہے جو خالصتاً اس کے لئے ہو اور اسے کرنے سے اس کی مراد اور غرض صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو‘‘۔
اس کے علاوہ کوئی اور شے اس کے عمل میں بطور غرض یا بطور نیت شامل ہوگئی تو وہ شخص اجر سے محروم ہوگیا۔
میرے اس بنیادی نکتہ کا مقصد یہ ہے کہ بندگی، خدمت دین، مشن کی خدمت، تنظیمی خدمت، انتظامی خدمت، دعوتی خدمت، تربیتی خدمت، فلاحی خدمت الغرض جس میدان میں بھی آپ کاوشیں کررہے ہیں ان تمام امور میں صرف ایک ہی غرض ہو اور وہ یہ کہ اللہ کی رضا ہمیشہ مقدم رہے اور یہی کارکن کا زیور اور اس کا سرمایہ ہے۔
ہر شخص جس عمل میں مصروف و مشغول ہے وہ اپنا مطمع نظر اخلاص اور للہیت کو بنالے۔ للہیت، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے سوا کچھ مقصود نہ ہو۔ باقی سب گرد و غبار درمیان سے نکال دیں۔ اگر اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوجائیں تو اس میں ہی سب کی خوشی ہے۔
(جاری ہے)