حمد باری تعالیٰ جل جلالہ
کہاں کے یہ زبان و لب مرا رنگِ ثنا کیا ہے
یہ حسنِ صورت یہ طرز بیاں، فکرِ رساں کیا ہے
جمال خالق یکتا کا مظہر ہیں سبھی منظر
’’یہ کلیاں، پھول، غنچے، رنگ و بو، موجِ صبا کیا ہے‘‘
زمین و آسماں، یہ بحرو بر، مہر و مہ و انجم
بس ان کو دیکھ لو اور جان لو شانِ خدا کیا ہے
عنایت ہے تری فیضان ہے جود و کرم تیرا
مرے دامن میں میرا اے مرے ربِّ عُلا کیا ہے؟
خدا کے نام پر جس نے فدا کی زندگی اپنی
کھلا اس بندہ حق پر فنا کیا ہے، بقا کیا ہے
تشکّر، انکساری، عاجزی، گریہ، پشیمانی
نہیں ہے بندگی تو پھر مناجات و دعا کیا ہے
یہ ابھرا مطلع باطن سے کس کے نام کا سورج
یہ کس کے فیضِ وحدت نے بھلایا ماسوا کیا ہے
یہ میرے حجرہ قلب حزیں میں کون رہتا ہے
دلِ شہزاد سے جو اٹھ رہی ہے یہ صدا کیا ہے
(شہزاد مجددی)
نعت بحضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اشکوں کے موجزن تھے سمندر تمام شب
لب پر رہی ہے نعتِ پیمبر (ص) تمام شب
کیا خوب میرے ساتھ شریکِ ثناء رہے
بزمِ درود میں مہ و اختر تمام شب
میری جبینِ شوق میں بھی جاگتے رہے
دہلیزِ مصطفی کے یہ منظر تمام شب
آقا حضور (ص) چشمِ کرم کی طلب لئے
خلقت رہی ہے آپ (ص) کے در پر تمام شب
رکھے ہتھیلیوں پہ نئے دن کی روشنی
بانٹے چراغ شہرِ منور تمام شب
خوشبو کے ساتھ رقصِ مسلسل میں بھی رہے
نوک قلم پہ حرفِ معطر تمام شب
نعتِ رسولِ پاک کے لطفِ عمیم میں
ڈوبا رہا ہے میرا مقدر تمام شب
بستی کے ہر مکین کا اعزاز ہے کہ پھر
میلادِ مصطفی ہوا گھر گھر تمام شب
پڑھ کر درود آپ (ص) پر لب چومتا رہا
اک کیفِ سرمدی مرے اندر تمام شب
امت دیئے جلانے کے قابل نہیں رہی
تیرہ شبی کے ٹوٹیں گے لشکر تمام شب
آقا (ص) غلام آپ (ص) کے طائف میں ہیں ہنوز
برسے ہیں ان پہ آج بھی پتھر تمام شب
گزرتے رہے ہیں خیمہ افلاک سے ریاض
کشکولِ آرزو میں جواہر تمام شب
(ریاض حسین چودھری)