ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
زیر نظر مضمون عرب دنیا کے ایک ممتاز عالم استاد محمد فتحی عثمان کی تصنیف ’’الدین للواقع‘‘ (دین برائے حقیقت) کے ایک باب کا اردو ترجمہ ہے۔ اس میں دینِ اسلام کو ایک دینِ عمل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے جو زندگی کے سخت، مشکل اور تلخ حقائق سے گریز سکھانے کے بجائے ایمان و بصیرت کے ساتھ ان کا سامنا کرنے اور حل کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ یہ دین اعتدال اور توازن کا دین ہے، یہ ’’دینداروں‘‘ اور ’’دنیا داروں‘‘ کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کرنے کا قائل نہیں۔ اسکے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرماکر یہ مصنوعی تفریق ختم کردی ہے اور دنیا و دین کے درمیان توازن قائم کردیا ہے کہ واعمل لدنیاک کانک تعیش ابدا واعمل لآخرتک کانک تموت غدا۔
’’اپنی دنیا کے لئے یوں دل لگا کر کام کر جیسے تو نے ہمیشہ یہیں زندگی گزارنا ہے اور آخرت کے لئے اس یقین اور اخلاص سے کام کر جیسے تو نے کل ہی مرجانا ہے‘‘۔
اس امید کے ساتھ یہ مضمون نذرِ قارئین ہے کہ یہ تحریر ہمیں دین کی حقیقت سے آشنا کرتے ہوئے عمل کی جانب راغب کرے گی۔
جس طرح ہر آئے دن اس زندگی کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے بالکل اسی طرح دین اور مذہب کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وہ دین جو عبارت ہے اللہ وحدہ لا شریک کی ذات پر ایسے ایمان سے جو اس دنیا کے انسانوں کی زندگی کو تعمیر و توانائی بخشتا ہے۔۔۔ دین جو عبارت ہے ایک ایسے عقیدے سے جس سے تہذیب و تمدن کی تخلیق ہوتی ہے۔۔۔ اور وہ دین جو عبارت ہے ایک ایسی عبادت سے جو انسانی معاشرے کی پرورش اور تربیت کی ضامن ہے۔
دین سے مراد الفاظ و تعلیمات کی چند ظاہری اور جامد رسومات کا مجموعہ نہیں جسے اوراق میں مقید کردیا جائے یا انسان اسے ایک دوسرے سے سنتے چلے جائیں بلکہ دین تو نام ہے اس روئے زمین پر کاروان حیات کا رواں دواں رہنا اور اس قافلہ زندگی کے راستوں پر دین عمل کی روشن کرنوں کا ضوفشاں رہنا جہاں انسان کے جسم و روح، قلب و دماغ اور رہن سہن کے طریقوں کو راہنمائی میسر آتی رہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کے اوصاف و علامات محرابوں میں نماز گزار نمازیوں کی پیشانیوں تک محدود نہیں بلکہ ایمان کی یہ علامات تو کبھی علماء کی بحث و تحقیق میں چمکتی دمکتی نظر آئیں گی، کبھی کام کرنے والوں کے حسین کارناموں میں نمایاں ہوں گی اور کبھی اہل فن کی فنکارانہ کوششوں میں جلوہ گر دکھائی دیں گی۔ سچ تو یہ ہے کہ دین زندگی کی تمام کوششوں اور شعبوں میں تمدن کی تخلیق کرتا ہے ایسا تمدن جو تجدد پذیر ہے۔ جیسے جیسے نسلیں جنم لیتی ہیں اورمعاشرے ترقی کرتے ہیں اسی قدر تمدن کا یہ تجدد بھی آگے بڑھتا رہتا ہے۔ دین محض چند رسوم و تعبیرات کے بے حس و بے حرکت مجموعے کا نام نہیں جو تجدد کے بغیر خود کو دہراتا چلا جائے۔
حقیقت دین
وہ شخص غلطی پر ہے جو کلمہ ’’کن‘‘ کے اشتقاق اور اس کی گردان کا مطالعہ کرکے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس نے تخلیق کا مفہوم جان لیا ہے اور اس کے قوانین و نوامیس کو بھی اس نے سمجھ لیا ہے۔۔۔ یا کوئی اس لفظ کو خوش خط لکھ کر ایک خوبصورت فریم میں سجادے اور یہ سمجھ لے کہ اس نے بھی ’’کن‘‘ کا مفہوم اور تخلیق کا راز پالیا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔۔۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ اس نے چند گٹھلیوں یا انڈوں کے ایک مجموعے کو ظاہر سے دیکھ لیا ہے جو مختلف مراحل حیات سے گزرتے ہوئے اپنے حیوانی وظائف کی ادائیگی کے لئے تیار ہورہے تھے، اس لئے اب اس نے زندگی کے تمام اسرار کا احاطہ کرلیا ہے تو وہ بھی یقینا غلطی پر ہے۔۔۔ بالکل اسی طرح وہ شخص بھی خطاکار ہے جو یہ فراموش کر بیٹھتا ہے کہ اس نے دین سے تو زندگی کا ایک جوش و ولولہ حاصل کرنا ہے۔ چند الفاظ کا منہ سے نکالنا یا بعض حرکات و افعال کا رسمی انداز میں عمل میں لانا دین نہیں ہے۔ دین محض رسومات یا اورادو وظائف کا نام نہیں بلکہ دین تو ایک جوش عمل کی انقلابی قوت تحریک کا نام ہے۔
جب تم کسی شہر میں جاؤ تو وہاں جاکر اس شہر کے عبادت گزاروں یا عبادت خانوں میں آنے والے پجاریوں کا مت پوچھو کیونکہ یہ کام کوئی مشکل نہ ہوگا اس لئے کہ تم بڑی آسانی سے عبادت خانے میں عبادت کے لئے جاکر وہاں آنے والوں کو دیکھ لوگے۔ اس کے بجائے جب تم کسی شہر میں جاپہنچو تو وہاں پوچھنے کی بات یہ ہوگی کہ یہاں ان اہل ایمان کی تعداد کیا ہے جنہیں ان کے عقیدے نے جوش و ولولہ عطا کیا اور انہیں ان کی عبادت نے نصیحت و عبرت فراہم کی چنانچہ وہ عبادت سے فراغت کے بعد زمین کے گوشوں میں چل نکلے، اللہ کی نعمتوں اور فضل و کرم کو تلاش کرنے کے لئے سرگرم ہوگئے۔ ان میں سے کچھ تو ایسے اہل علم بن گئے جنہوں نے تخلیق کائنات کے راز معلوم کرکے اور کائنات کے گوشوں میں ودیعت کردہ قوتوں کا انکشاف کرکے اللہ رب العزت کی عبادت کا حق ادا کیا۔۔۔ کچھ ان میں سے ایسے بندگان خدا نکلے جنہوں نے اللہ کے تخلیق کئے ہوئے وسائل رزق دریافت کرکے اس کے بندوں کے لئے روزی کا سامان پیدا کرکے اپنے پروردگار کی عبادت کا حق ادا کردیا۔۔۔ اور بعض ایسے اہل فن نکلے جن کی روحوں کے حسن وجمال پر اللہ کی کائنات کے حسن و جمال کا عکس پڑا چنانچہ وہ اپنے برشوں، سازوں اور قلموں کے ذریعے اس پروردگار کی تسبیح و تقدیس میں لگ گئے جس نے روحوں کو وجود بخشا اور کائنات کو تخلیق فرمایا۔
تاریخ میں مسلمانوں کی عظمت کا تذکرہ اس لئے نہیں آگیا کہ انہوں نے صرف چند کلمات کا ورد کرلیا یا چند رکعت نمازیں ادا کردی تھیں بلکہ ان کا تذکرہ تاریخ میں اس لئے آسکا کہ مدینہ منورہ، دمشق، بغداد، قرطبہ اور غرناطہ سے اسلام کے جھنڈے بلند ہوئے تھے جو ایک ترقی پذیر اور تعمیری انسانی تمدن کے قیام کا اعلان کررہے تھے۔ یہ لوگ تاریخ کے صفحات میں جو حیات دوام حاصل کرگئے تو صرف اس لئے کہ یہ ایک نئی امت کا تصور لے کر اٹھے تھے جو انسانیت کے لئے ایمان، بھلائی اور نیکی کی علمبردار تھی۔ ارشاد ربانی ہے :
’’اے انسانو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آچکی ہے۔۔ وہ دلوں کے لئے شناسا ہے، ہدایت ہے اور اہل ایمان کے لئے رحمت ہے‘‘۔
اللہ کی ارسال کردہ نصیحت صرف ان چند کلمات سے ہی عبارت نہیں جن پر مصحف مقدس مشتمل ہے بلکہ اللہ کی نصیحت تو وہ دل ہلادینے والی حقیقت ہے جسے مصحف مقدس کے یہ پاکیزہ کلمات انسان کے فکر و دماغ میں ودیعت کردیتے ہیں۔۔۔ سینوں یا دلوں کی شفا کا تعلق ان چند لفظوں کے ساتھ نہیں جن کے دوران میں انسانی نظرو بصیرت کے سامنے قرآن کریم کے یہ الفاظ ایک روح پرور چمک لے آتے ہیں بلکہ دلوں اور سینوں کی شفا سے مقصود وہ تربیت ہے جو ایک صراط مستقیم پر چلنے والے انسان کو میسر آتی ہے۔ وہ انسان جس کا دل و دماغ سلیم الفطرت ہو، جس کا جسم و روح ہر قسم کی ذہنی، اعصابی اور شکستگی کی بیماریوں اور الجھنوں سے پاک و صاف ہو۔۔۔ اور ہدایت و رحمت تو دو ایسے عظیم الشان الفاظ ہیں جو چند نعروں یا مذہبی شعائر پر منحصر نہیں ہوسکتے۔ ہدایت سے مراد وہ ربانی روشنی ہے جو ہر وقت اندھیری نشیب کو روشن کردیا کرتی ہے۔۔۔ رحمت ایک وسیع ترین نعمت و بخشش کاکام ہے جسے اللہ جل شانہ نے تمام جہانوں کے اندر بسنے والے انسانوں کے لئے عام و ارزاں فرما دیا ہے۔
یہ دین عقل کے لئے ایک نصیحت و موعظت ہے کیونکہ اس کے بعد ’’عقل مومن‘‘ چل نکلتی ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی چلی جاتی ہے۔۔۔ یہ دین نفس انسانی کے لئے نسخہ شفا بھی ہے تاکہ اس نفس کے بحران اور خرابیاں انسان کی آفاق گیر قوتوں کے لئے کسی رکاوٹ کا سبب نہ بن جائیں۔ پھر یہی دین ایک فرد انسانی کی تمام قوتوں کے لئے اور انسانی معاشرے کے تمام افراد کے لئے رحمت و ہدایت کے سامان مہیا کرتا ہے تاکہ کوئی شدید مجنونانہ تصادم بلا فائدہ خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہاسکے یا کسی ایک زندہ روح اور مادی سامان کے کسی ایک ذرے کو کوئی گزند نہ پہنچاسکے۔
یہ ہے وہ دین جس کے سرچشموں سے مسلسل نسلیں اپنی پیاس بجھانے کا سامان کرتی چلی آرہی ہے۔ یہی وہ دین ہے جس کے چند الفاظ و کلمات جب کبھی فکر و فن یا عمل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔۔۔ یا جب کبھی اس کے یہی الفاظ و کلمات کامیابی و کامرانی کا ایک لامتناہی سرچشمہ بن جاتے ہیں تو پھر کبھی تو یوں ہوا کرتا ہے کہ طاقت ور و فتح مند سلطنتیں قائم ہوتی ہیں۔۔۔ پھر کبھی اس سے کسی مغلوب و غلام قوم کو قوت کا سہارا میسر آجایا کرتا ہے۔۔۔ کبھی شمشیر و سنان سے فتح و نصرت کے شادیانے بجتے ہیں۔۔۔ کبھی فکر و فن اور قلم وقرطاس کو عظمت و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔۔۔ اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ دین کے یہی چند کلمات حکمت ناکامی پر صبر اور استقلال کی قوت عطا کرتے ہیں تاکہ ناکامی کے اسباب کو دور کیا جائے، بیداری و تیاری کا سامان ہو اور پھر موقع پاکر نئی فتح اور نئی کامرانی کی خاطر میدان عمل میں پاؤں گاڑ دیئے جائیں۔
یہ وہی دین ہے جس کے چند کلمات نے ماضی میں اہل فکر اور اہل علم کو قوت بخشی اور وہ سنگ فلاسفہ اور اکسیر حیات جیسی ایجادات کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کے وسائل فراہم کرتے رہے۔۔۔ اور پھر آج بھی یہی دین ہے جو حال کے اہل علم و فکر کو ایٹم کا جگر چیرنے اور خلاؤں کو عبور کرنے والے مصنوعی سیارے تخلیق کرنے کی قوتیں اور صلاحیتیں بخش رہا ہے۔۔۔ یہی چند الفاظ تھے جو پہلے زمانے میں شاعر کو جوش و وجدان کی کیفیت عطاکرتے اور اس سے خوبصورت، جاندار اور عظیم الشان قصائد کہلواتے تھے۔ آج یہی چند الفاظ ہیں جو اس دور کے فنکار کو قوت عمل بخش رہے ہیں اور وہ شعر و نثر کی شاندار تخلیقات پیش کررہا ہے۔
یہ تو ایک زندہ دین ہے جس کا تعلق زندوں کی دنیا سے ہے اور یوں اللہ جل شانہ کی ذات کے بارے میں قرآن مجید نے اپنا عقیدہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔۔۔ ارشاد ہوتا ہے :
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا احاطہ کرتا ہے اور وہ باریک باتوں کا جاننے والا خبردار ہے‘‘۔ (الانعام : 95۔ 103)
تو جب اللہ کی ذات وہ ہے جس کا احاطہ نگاہوں کے لئے ناممکن ہے تو پھر اس ذات پر عقیدہ رکھنے کا تقاضا ایک آدھ مرتبہ ہونٹ ہلادینے سے کیونکر پورا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی کتاب کے اسرار و رموز کا احاطہ کرنے کے لئے اس کی آیات کو دہرانے یا قاریوں کی زبانی انہیں سننے سے نہیں ہوسکتا۔ دین تو زندگی کا ایک خزانہ، ایک بحر بیکراں اور ایک مرکز ہے۔ ایک ایسی زندگی کا مرکز جس کا رشتہ نفس، احساس فکر اور وجدان کی تمام قوتوں سے ہے۔ وہ زندگی جو پہلے فرد کو نفسیاتی و ذہنی فضا میں نشوونما پاتی ہے۔ پھر یہی زندگی جوش میں آتی ہے اور پھلانگتے ہوئے زمین کی وسعتوں کو اپنے گھیرے میں لے آتی ہے اور گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے، پھر اس سے ایک نور کی شعاعیں پھوٹتی ہیں جو نظر کے تمام راستوں پر عام ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد اس بات کی خبر ہی نہیں رہتی کہ اس روشنی کا مرکزکوئی کتاب ہے جس کے اوراق ہیں اور ان پر حروف و کلمات درج ہیں جو طویل صدیوں کے دوران بھی کمی بیشی کا شکار نہیں ہوتے۔ دین کی شعاعیں عام کرنے والی قوتیں ہر فرد اور ہر نسل کے لئے ایک قسم کی روشنی مہیا کرتی چلی جاتی ہیں جو بقدر استطاعت ہر ایک کے لئے موزوں ہوتی ہیں۔ یہ روشنی ہمیشہ جمود کی بجائے تجدد پذیر رہتی ہے، وہ کسی ایک رنگ پر آکر منجمند نہیں ہوجاتی خواہ وہ رنگ کتنا ہی شوخ اور وافر مقدار میں پیدا ہوگیا ہو۔ ارشاد ربانی ہے :
’’کہہ دیجئے کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لئے روشنائی بن جائیں تو پھر بھی یہ ختم نہ ہوں گے بلکہ ان کے ختم ہونے سے پہلے سمندرختم ہوجائیں گے خواہ ہم اس جیسا ایک اور سمندر ہی کیوں نہ لے آئیں۔۔۔ اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں ان سب کی قلمیں بن جائیں اور سمندر کے ساتھ اس جیسے اور سات سمندر بھی ملادیئے جائیں تو بھی اللہ کی نعمتیں ختم نہ ہوسکیں گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے‘‘۔
تو پھر ذرا سوچئے تو سہی دین کے طلبگار کہاں۔۔۔ اور دین کی حقیقت کہاں۔۔۔ ؟
لوگ دین کے غیر فانی سرچشمے کو اور اس کے نمو پذیر موثرات اور تجدد پسند اثرات کو آپس میں غلط ملط کر بیٹھے ہیں۔ چنانچہ اب ان کے پاس دین کی ایک شکل رہ گئی ہے جو بارہا دہرائی جاتی ہے اور جس کے اصول و ضوابط ایک سو چودہ سورتوں والی کتاب اللہ اور ہزاروں احادیث پر مشتمل سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود ہیں۔ ان دونوں کی ظاہری صورتوں میں وقت کی چودہ صدیاں کوئی تغیر نہیں لاسکیں۔ بس اتنا ہے کہ پہلے یہ کھجور کی چھال اور پتوں پر ہاتھ سے نقل کی جاتی تھیں مگر آج یہ آفسٹ اور لائنو ٹاپ پر طبع ہورہی ہیں۔
لیکن موزوں یہ ہوتا کہ ان ہر دو سرچشموں کا ہر نسل۔۔۔ بلکہ ہر فرد پر اثر ہو۔ ان کی فکری اور عملی زندگی پر اس کے اثرات نمایاں ہوں، ان میں فلاسفر، دانشور اور فنکار پیدا ہوں۔ ان میں ابن رشد، ابن سینا، فارابی اور غزالی وغیرہ پیدا ہوتے رہیں۔ ان کے ہاں امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل کا ظہور ہوتا رہے۔ وہ اپنے اندر ابن حبان، ابن الہیثم اور رازی جیسے لوگ پیدا کریں۔ وہ بحتری، متنبی اور ابوالعلاء معری کو جنم دیں اور ابو اسحاق الموصلی اور زریاب جیسے اہل فن کی تخلیق کرتے رہیں۔ ان میں نسل بعد نسل مسلسل اور لگاتار علماء مفکرین اور فنکار ہر عہد میں ظاہر ہوتے رہیں اور اپنا اپنا کام کرتے اور پیغام چھوڑتے جائیں۔
مگر ہوا کیا؟ ہمارے اسلاف نے دین اسلام کو اچھی طرح سمجھا اور اسے ایک زندگی، ایک تمدن اور ایک عمل جانا مگر ہم نے تو کبھی اسے مجلد مطبوعات تیار کرتے ہوئے اسی پر قناعت کی اور کبھی اسے قیام و قعود خیال کر بیٹھے، حالانکہ یہ تو ایک غلط فہمی اور کوشش بے سود کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
یورپ ہمارے اسلاف کے راستے پر
اسلاف کا عہد عمل و عزم تو بیت گیا اور پیچھے رہ گئی ناخلف نسل جو عزم سے عاری اور عمل سے قاصر تھی لیکن یورپ کا انسان ہمارے اسلاف کی راہ پر چل نکلا۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔ نئی نئی ایجادات اور انکشافات ہوئے، تجارت سے دولت کی ریل پیل ہوئی۔ صنعتی انقلاب برپا ہوا اور قسم قسم کی دستوری اور قومی تحریکات ابھرنے لگیں۔۔۔ عظیم دماغوں نے تاریخ انسانی پر نظر ڈالی اور اپنے ماحول کی روشنی میں جائز لے کر نئی راہیں متعین کیں۔ پھر کیا ہوا؟ یہی عظیم دماغ نئے انسانی تجربات کے روشن عنوانات بن گئے اور انسانیت نے ان نئے نئے تجربات سے فیضیاب ہونا شروع کیا۔ یہ روشن عنوانات کبھی دانتے، شیکسپئیر، فولیتر، روسو اور جوتیہ کی صورت میں نمایاں ہوئے اورکبھی اینجلو، دافنشی، رافائیل، باخ، موزارٹ، بیٹوفن، کوپر نیکوس، گلیلو، نیوٹن، ایڈیسن، مارکونی، لوتھڑ، ڈارون اور فرائڈ کے روپ میں ظاہر ہوتے رہے اور یوں انسانی تمدن کا قافلہ تسلسل کے ساتھ رواں دواں رہا مگر اب اسلامی مشرق کے بجائے اس کارواں کی قیادت مغربی ذہن و دماغ کے حصے میں آئی تھی اور مسلمان؟ مسلمان تو کبھی حیرت سے انگشت بدنداں ہوئے، کبھی سامراجیوں کے پنجے میں جکڑے گئے اور کہیں کہیں ہوش میں آنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔
معجزہ کی منتظر قوم
مگر جب انہوں نے آنکھیں کھولیں اور ہوش میں آئے تو پھر روشنی اور اس روشنی کے سرچشمے کے درمیان تمیز نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ چراغوں سے چھیڑ چھاڑ کرکے روشنی کو زندہ کر اٹھائیں گے۔۔۔ وہ یہ گمان کر بیٹھے تھے کہ اپنی کتاب میں سے بے جان کلمات نکال کر۔۔۔ جن کا تعلق نہ تو ان کے دلوں کی گہرائی سے تھا اور نہ ان کی حقیقی زندگی سے کوئی واسطہ رکھتے تھے، مردوں کو زندہ کردینے کا معجزہ پیش کردیں گے۔۔۔ ممالیک کے عہد حکومت میں جس طرح وہ مغرب کے سیاسی استعمار کے مقابلے میں آئے تھے اور چاہا تھا کہ بخاری شریف کے تعویذوں کے ذریعے نپولین بونا پارٹ کی یلغار کو روک دیں بالکل اسی انداز میں۔۔۔ بعد میں۔۔۔ مغرب کے فکر، مغرب کی سائنس اورمغرب کی تنظیم کا سامنا کرنے کے لئے نکل آئے کبھی تو اپنی مقدس کتابوں کے الفاظ کا سہارا لے کر ان کا مقابلہ کرتے، کبھی اپنے اسلاف کی شروحات کی طرف رجوع کرتے اور کبھی اپنی گذشتہ تاریخ کے واقعات نقل کرکے تسلی پالیتے۔۔۔
یوں وہ زندگی کا سامنا کررہے تھے مگر زندگی کے بغیر۔۔۔ اور تمدن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے تمدن کے بغیر۔۔۔ وہ دراصل اپنے عقیدے اور اپنی کتاب کو ایک مشکل آزمائش میں ڈالتے تھے کیونکہ وہ یہ دیکھ لینے کے باوجود کہ ان کا دین متعفن لاشوں کے ایک ڈھیر، جہالت کی حوصلہ شکن تاریکیوں اور بھوکوں اور محکوموں کے درمیان پھنسا پڑا ہے، ایک غیر متوقع معجزے کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ ایسے چند الفاظ و کلمات کا معجزہ جو ان کے پاس آسمان سے نازل ہوئے تھے مگر جن پر انہوں نے اس روئے زمین پر کبھی عمل نہ کیا تھا۔۔۔ چند ایسی عبارات کا معجزہ جو انہوں نے بغیر کسی محنت و مشقت کے متون اور شروح کے اندر سے نکال لی تھیں۔۔۔ وہ کلمات اور وہ عبارات جو کبھی ایک عظیم تمدن کی خالق اس وقت بن گئی تھیں جب لوگوں کے دل میں ایمان کی حرارت اورعمل کا جوش ہوا کرتا تھا۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں کی حیرت اور دہشت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی کہ ان کا دین اتنے جوش اور جذبے کا دین تھا مگر اب وہی ان کے لئے سوہان روح بن گیا ہے یہ کس طرح ممکن ہے؟ اس دین کی کتاب تو وہ ہے جو خدائے حکیم و حمید کی نازل کردہ ہے۔ وہ کتاب جس پر باطل کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا، نہ آگے سے رکاوٹ ڈال سکتا ہے، نہ اس کا تعاقب کرسکتا ہے یہ کیا ہوگیا ہے کہ ابن خلدون کے مقابلے میں کارل مارکس چاروں شانے چت کیوں نہیں ہوتا۔۔۔ ؟ امام غزالی کے سامنے فرائڈ کیوں سرنگوں نہیں ہوتا۔۔۔ ؟ الحسن ابن الہیثم کی تصریحات دنیا کی نظروں کو چکا چوند کیوں نہیں کرتیں۔۔۔ ؟ اس کے مقابلے میں دنیا کے چاند سورج ماند کیوں نہیں پڑتے۔۔۔ ؟ مگر وہ لوگ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے تھے کہ وہ کوئی بھی ایسا فقیہ یا قانون دان نہ پیدا کرسکے تھے جو صحیح، صائب اور اصلی فکر کا مالک ہوا اور ان کے حال کو دیکھ کر ان کے مستقبل کی بات کرتا۔ وہ اپنے فلاسفہ اور سائنس دانوں کی کوششوں کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے میں ناکام رہے تھے وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اگر آج ہمارے وہ بزرگ اہل علم موجود ہوتے تو وہ اپنے لکھے ہوئے کے اوپر اضافہ کرتے ہوئے اور بہت کچھ لکھتے۔ انہیں وقت کے تقاضے بہتر سے بہتر اور بلند سے بلند تر کی کوشش پر ابھارتے۔ وہ یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرتے کہ ان کی علمی کوششوں پر اب چودہ صدیاں بیت چکی ہیں۔ فکر اور سائنس کی دنیا میں حیرت انگیز انقلابی تبدیلیاں آچکی ہیں اور انسانی معاشرہ بے حدالجھ چکا ہے۔
ہمارے ان اسلاف نے تو اپنا فرض منصبی پہچان لیا تھا اور اسے کماحقہ پورا کرگئے۔ انہوں نے اپنے دین کو سمجھا اور اس سے سبق حاصل کئے۔ انہوں نے اپنے دین کو عقل کے لئے نسخہ حیات اور کائنات کے لئے باعث آبادی تصور کیا اور اس کی روشنی میں آگے بڑھے تو کامیابی و کامرانی نے ان کے قدم چومے۔
الوہیت و وحدانیت کے اقرار کے تقاضے
اللہ کی ذات کے بارے میں دین اسلام کا عقیدہ چار کلمات پر مشتمل ہے۔ لا الہ الا اللّٰہ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ان چار کلمات کو زبان سے دہرانا کوئی اتنا بڑا بوجھ نہ تھا کہ اس کی خاطر اتنی کثرت اور تسلسل کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا جاتا اور وہ باری باری اپنی قوموں کو اللہ کی وحدانیت کی د عوت دیتے۔
اگر صرف ان چار کلمات کو منہ سے ادا کردینے سے جنت کا پروانہ مل جایا کرتا اور اگر ان کلمات کے بارے میں خاموشی لوگوں کو جہنم میں دھکیل دینے کے لئے کافی ہوتی تو پھر یہ ایک عجیب ترین بات ہوتی کہ یہی دین خود کو دنیا کے اہل عقل و بصیرت کے سامنے پیش کرنے کا دعویٰ کرتا۔
لیکن حق یہ ہے کہ کسی دینی شعار کو 33 مرتبہ بلکہ ایک سو یا ایک ہزار مرتبہ دہرا لینا نہ تو دین کی گواہی کے لئے کافی ہے اور نہ دین پر ایمان کے لئے۔۔۔ شہادت دین اور ایمان باللہ تو صرف اسی وقت حقیقت ثانیہ بن سکتے ہیں جب فکر و عمل کی قوتیں سرگرم عمل ہوجائیں۔
لا الہ الا اللّٰہ کا اقرار استعلا و کبریا اور غلبہ و برتری کی تمام صفات صرف اللہ کی ذات کے ساتھ مختص کردینے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ صفات اس کی ذات کے سوا کسی اور کو زیب نہیں دیتیں کیونکہ وہی حاکم اور آقا وہی غالب و قہار ہے۔ وہی ہے جس نے انسانوں کو اپنی معرفت و اطاعت کی خاطر پیدا کیا ہے۔ تنگی اور آسانی میں صرف اسی کے سامنے جھکیں اور مشکل میں بھی صرف اسی کی حمدو ثنا بیان کریں۔ رہا انسانوں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ سو وہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ وہ جب کسی کو اپنا حکمران چنیں تو وہ ان پر اپنی حاکمیت نہ ٹھونسے۔ وہ اس کے ساتھ معاملات میں بحث و مناظرہ بھی کریں، اس کی مدح بھی کرسکتے ہیں اور اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔۔۔ کسی کو زیبا نہیں کہ وہ پھلانگتے ہوئے اس مرتبہ علو و کبریائی پر دست درازی کی کوشش کرے اور وہ اوصاف اپنے لئے تصور کرنے لگے جو اہل اسلام کی زبان میں صرف اللہ کے لئے مختص ہیں۔
لا الہ الا اللّٰہ پر ایمان درحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ ربوبیت کی صفت صرف اللہ کے لئے مختص کرکے وسیع انسانی برادری اور مساوات کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور یہیں سے قرآن کریم کے اس شاندار انداز بیان کی عظمت واضح ہوجاتی ہے جس میں وہ اللہ کے رسولوں کو دنیا کی مختلف اقوام کی طرف مبعوث کئے جانے کا ذکر کرتا ہے۔ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود علیہ السلام، ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح علیہ السلام اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ پھر یہ بیان اپنی انتہا کو اس وقت پہنچتا ہے جب وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف گنواتا ہے :
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِيْمٌ.
’’تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا گیا ہے اس کے لئے تمہاری تکلیف و مشقت ناگوار ہے، اسے تمہارا بہت خیال ہے، وہ مومنین کے لئے شفیق و مہربان ہے‘‘۔
(التوبہ : 128)