مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
سوال : جگہ کی تنگی کے باعث ایک مسجد ختم کرکے کسی وسیع جگہ پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس صورت میں پہلی والی جگہ کی کیا حیثیت ہوگی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔ (محمد انور۔ فیصل آباد)
جواب : مسجد میں ایسی تعمیرات اور ایسی تبدیلی لانا جس سے مقاصد مسجد میں خلل نہ ہو جائز ہے۔
ويضيعوا حيضان المآء للشرب والوضوء ان لم يعرف للمسجد بان. فان عرف فالباني اولى. وليس لورثته منعهم من نقصه والزيادة فيه. ولاهل المحلة تحويل باب المسجد ولهم تحويل المسجد علي مکان اخر ان ترکوه بحيث لا تصلي فيه، ولهم بيع مسجد عتيق لم يعرف بانيه وصرف ثمنه فی مسجد آخر.
’’اگر مسجد کے بانی کا پتہ نہیں تو مسجد میں پینے اور وضو کے لئے حوض تعمیر کرنا درست ہے۔ اگر مسجد کا بانی معلوم ہے تو یہ کام بطریق اولیٰ اس کے کرنے کا ہے۔ بانی مسجد کے وارثوں کو مسجد گرانے اور اس میں توسیع کرنے سے منع کرنے کا اختیار نہیں۔ اہل محلہ مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہی اور ان کو یہ بھی اختیار ہے کہ پوری مسجد دوسری جگہ منتقل کردیں، اگر اس میں نماز نہیں پڑھی جاتی اور پرانی مسجد جس کے بانی کا پتہ نہیں، اگر غیر آباد ہے اسے بیچ کر اس کی قیمت دوسری مسجد کی تعمیر پر بھی صرف کرسکتے ہیں‘‘۔ (الدرالمختار مع ردالمختار للشامی، ج4، ص356، طبع کراچی)
سوال : قبر پر اذان دینے سے متعلق رہنمائی فرمائیں؟ (محمد مدثر۔ چکوال)
جواب : پانچ نمازوں کے علاوہ اذان کسی نماز کے لئے سنت نہیں ہے۔ تاہم فقہاء نے درج ذیل مواقع پر اذان دینا جائز و مستحب قرار دیا ہے۔
- پیدا ہونے والے بچے کے ایک کان میں اذان دوسرے میں اقامت مسنون ومندوب ہے۔
- مغموم اور دورہ پڑنے والے پر۔
- غصہ والے، بداخلاق پر، انسان ہو یا جانور۔
- جب دشمن کا لشکر چڑھائی کردے۔
- جب آگ بھڑک اٹھے۔
- میت کو قبر میں اتارتے وقت۔
- چڑیلوں (جنات، بھوت) کی سرکشی کے وقت۔
(الدرالمختار وردالمختار للشامی ج 1، ص 385، طبع کراچی)
سوال : کیا بیمہ پالیسی شرعی طور پر جائز ہے یا ناجائز، وضاحت فرمادیں؟ (محمد اکبر علی)
جواب : ہماری تمام معیشت بلکہ دنیا بھر کی معیشت چند مستثنیات کے سوا سودی نظام پر استوار ہے۔ لہذا ہر شعبہ معیشت میں شیطانی عناصر نے کسی نہ کسی صورت میں سود کو داخل کر رکھا ہے۔ اسٹیٹ لائف یا اس جیسی کمپنیاں بھی الا ماشاء اللہ اسی اصول پر لوگوں سے سرمایہ جمع کرتی اور آگے زیادہ شرح سود پر وہی روپیہ بڑے تاجروں یا صنعتکاروں کو دیتی ہیں۔ یہ دراصل مال کا وہی کام ہے جو بینک کررہے ہیں۔ اسلامی نظام معیشت جب تک کلی طور پر نافذ نہیں ہوجاتا ظلم کے کئی دروازے کھلے رہیں گے۔ بیمہ زندگی اصولی طور پر ایک نہایت مفید سکیم ہے جس سے کوئی شہری اپنا اور اپنے بچوں کا معاشی تحفظ حاصل کرسکتا ہے۔ بس اتنی حد تک یہ درست ہے اور اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عام علمائے کرام نے اسے جائز رکھا ہے چنانچہ مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے۔ (احکام شریعت، صفحہ 202) لہذا ہم بھی اسے جائز سمجھتے ہیں۔ براہ راست چونکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نظر نہیں آتی لہذا جائز ہے۔
حرام خور طبقہ سود، جوائ، سٹہ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کا عادی ہوچکا ہے۔ ورنہ لوگوں سے لیا ہوا سرمایہ جائز صنعتوں، زراعت، تعلیم، تجارت، دفاع، انرجی، آب پاشی وغیرہ کی سینکڑوں صورتیں ہیں۔ جن میں یہ سرمایہ لگایا جاسکتا ہے۔ جس سے بیروزگاری بھی ختم اور ملکی مجموعی آمدنی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈیم بنائے جاسکتے ہیں، مرغیوں، مویشیوں کی پیداوار میں سرمایہ کاری ہوسکتی ہے، اسلحہ سازی، جہاز سازی، بحری بیڑے، آبدوزیں، ریلوے اور گاڑیوں کی صنعت کو فروغ دیاجاسکتا ہے۔ سرجری، ٹیکسٹائل، فولاد اور کھادکے کارخانے لگائے جاسکتے ہیں۔ ٹورازم پر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے، چمڑے کی صنعتوں میں سرمایہ لگایا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے جاسکتے ہیں۔ کھیلوں کا سامان، قیمتی پتھروں، معدنیات اورکوئلہ کی کانوں میں سرمایہ لگایا جاسکتا ہے۔
صنعت، تجارت، دفاع، جنگلی حیات، آبی جانوروں کی پرورش، الغرض سینکڑوں میدان سرمایہ کاری کے منتظر ہیں جن میں سرمایہ کاری ہو۔ ملکی صنعتی و زراعتی پیداوار میں اضافہ ہو، فی کس پیداوار آمدنی میں اضافہ ہو، عام آدمی کی معاشی حالت سدھرے، جرائم کا قلع قمع ہو، روزگار کے مواقع پیدا ہوں، بیروزگاری و مہنگائی سے قوم کی جان چھوٹے۔ مگر افسوس کہ سامراج کے پٹھو سیاستدان، سرمایہ دار اور جاگیردار، وڈیرے مغربی آقاؤں کے اشارہ ابرو پر رقص کناں اور ان کے مفادات کے نگہبان بنے ہوئے ہیں۔ قوم سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ ملکی دولت و وسائل رزق پر قارون کی یہ حقیر سی جماعت سانپ بن کر بیٹھی ہے۔ عوام بھوکے ننگے اور مصائب و آلام سے دوچار اور یہ جونکیں ان کے خون سے اپنے طول و عرض میں پھیلتے جارہے ہیں۔ بہر حال بیمہ و انشورنس ایک نہایت کار آمد و مفید معاشی سکیم ہے۔ نہ براہ راست اس میں سود ہے، نہ جوا، تاویلات رکیکہ سے ایک مفید سکیم کو حرام کہنا غلط اور بلا دلیل ہے۔
سوال : کیا معاہدہ کے مطابق مکمل رقم ادا نہ کرنے پر زمین کا سودا منسوخ کیا جاسکتا ہے؟ نیز اس بات کی بھی وضاحت فرمادیں کہ کیا کل رقم کا ایک حصہ ادا کرنے سے وہ اس ساری زمین پر زبردستی قبضہ کرتے ہوئے اسے آگے ٹھیکے پر دے کر نفع حاصل کرسکتے ہیں؟ (عمران صابر)
جواب : قرآن پاک میں ہے :
وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اﷲِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْکِيْدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اﷲَ عَلَيْکُمْ کَفِيْلًا ط اِنَّ اﷲَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ.
(النحل : 91)
’’اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالاں کہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بے شک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔
ایک اور جگہ فرمایا :
وَاحْفَظُوْآ اَيْمَانَکُمْ.
(المائدہ : 89)
’’اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو‘‘۔
اسی طرح قرآن مجید میں بے ایمان اور ایمان والوں میں نشاندہی کی گئی ہے :
أَوَكُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَO
(البقرہ : 100)
’’اور کیا (ایسا نہیں کہ) جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اسے توڑ کر پھینک دیا، بلکہ ان میں سے اکثر ایمان ہی نہیں رکھتے‘‘۔
اور ایمان والوں کے لئے فرمایا :
وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَO
’’اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں‘‘۔
(البقرہ : 177)
حدیث پاک میں حضرت صفوان بن سلیم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا :
ايکون المومن جبانا قال نعم فقيل له ايکون المومن بخيلًا قال نعم فقيل له ايکون المومن کذابا قال لا.
(مشکوۃ، ص 414)
’’کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، پھر پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟ فرمایا : ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے، فرمایا : نہیں‘‘۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں وعدہ پورا کرنے اور نہ کرنے والے کے بارے میں صراحت موجود ہے۔ جو صورت حال آپ نے بیان کی ہے اس میں چونکہ دوسرے فریق نے طے شدہ معاہدے کے مطابق آپ کو رقم ادا نہیں کی اس لئے آپ بھی پابند نہیں ہیں کہ ان کو زمین دی جائے۔ انہوں نے وعدہ خلافی کی ہے اور اوپر سے ناجائز قبضہ بھی جمائے بیٹھے ہیں۔ اس لئے آپ شرعی طور پر ان کو زمین فروخت کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ آپ کی مرضی ہے فروخت کریں یا نہ کریں۔
دوسری بات یہ کہ جو دوسرا فریق زبردستی قبضہ کرتے ہوئے زمین کو آگے ٹھیکے پر دیئے ہوئے ہے اور اس زمین کی آمدنی ناجائز طریقے سے کھارہا ہے وہ اس کا حق دار نہیں۔ اس کا حق دار زمین کا مالک ہے، وہ ظلم و جبر کے ذریعے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں۔