ذہنی تناؤ کی برداشت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے یعنی ذہنی تناؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے مثال کے طور پر آج کل کے ملکی حالات کے اوپر اگر آپ 50 لوگوں کا تجزیہ ہے تو ہر ایک مختلف رائے رکھتا ہوگا اسی طرح اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیں تو ہر ایک پر کرونا نے مختلف نفسیاتی دباؤ ڈالا ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک خبر 10 لوگ اپنے اپنے ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ خبر 10 میں سے 4لوگوں کے جسم میں سے باؤنس کر جائے گی اور اس خبر کا تناؤ زیادہ گہرا نہیں ہوگا شاید چند منٹ یا کچھ گھنٹے اس کے جسم میں رہے مگر وہ تناؤ اس کے خون کا حصہ نہیں بنے گا۔ دوسری طرف کچھ لوگ وہ ہوں گے جو قدرتی طور پر حساس ہوں گے یعنی اس خبر کا تناؤ ان کو زیادہ متاثر کرے گا۔ ہر طرح کا تناؤ ان کے جسم میں جائے گا۔ ان کے جسم کا اور خون کا حصہ بنے گا اور بیماریاں پیدا کرے گا۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہمیں واقعی ذہنی تناؤ ہے یا نہیں۔ اگر آپ کو بلاوجہ غصہ آتا ہے اگر آپ میں چڑچڑا پن ہے اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ کوئی آپ کی بات ہی نہیں سنتا۔ اگر آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا جسم سر سے لے کر پاؤں تک ایک تناؤ کا شکار رہتا ہے یا جسم کھچا کھچا سا رہتا ہے اگر آپ کو رات کو بستر پر لیٹتے ہی نیند نہیں آتی اور گھنٹوں لگ جاتے ہیں سونے میں تو آپ یقینی طور پر تناؤ کا شکار ہیں کیونکہ آپ کا ذہن آرام کی حالت میں جاگ نہیں رہا۔ جس کا ذہن جتنا زیادہ وقت لے گا سکون میں جانے میں وہ بندہ اتنا ہی زیادہ تناؤ کا شکار ہوگا۔ یعنی اگر آپ کو بستر پر جاتے ہی نیند آجاتی ہے تو آپ کو ذہنی تناؤ نہیں ہے لیکن اگر آپ کو بستر پر لیٹنے کے بعد گھنٹہ دو گھنٹے لگ جاتے ہیں آنکھ لگنے میں یا سونے میں تو یقینی طور پر آپ کا ذہن تناؤ کا شکار ہے کیونکہ وہ مسلسل مصروف ہے۔ وہ سکون کی حالت میں جا ہی نہیں رہا یا وقت لے رہا ہے اور اس کے علاوہ اگر آپ ہنستے کم ہیں اور بچے آپ کی کمپنی سے لطف اندوز نہیں ہوتے ہیں اور آپ کی طرف مائل ہونے سے ڈرتے ہیں تو بھی آپ کو اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہوسکتا ہے ذہنی تناؤ کی وجہ سے 1-3 سال کا بچہ آپ کی شکل پر آنے والے اثرات کی وجہ سے آپ کی طرف مائل نہ ہورہا ہو۔ اس کے علاوہ اگر آپ کھانا تو کھا رہے ہیں مگر پھر بھی نہیں کھارہے یعنی کھانا کھاتے وقت آپ کا ذہن پچاس اور باتوں کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ آپ کو نہیں پتا کہ اندر جاگ رہا ہے یعنی آپ کھا کیا رہے ہیں۔ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کے آپ کو کھانے میں واضح طور پر کیا پسند ہے اور کیا نہیں پسند یعنی پوچھنے پر آپ کا جواب ہو کہ ’’آپ سب کچھ ہی کھالیتے ہیں، ایسا تو کچھ خاص نہیں یا جو آپ نہ کھاتے ہوں تو آپ بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں یعنی آپ کا معدہ اور ذہن الگ الگ چل رہے ہیں آپ mindful eating نہیں کررہے۔
ذہنی تناؤ کی کیا وجوہات ہیں:
- کچھ لوگوں میں سٹریس/ ذہنی تناؤ نیچے سے اوپر کی طرف جاتا ہے یعنی معدے سے سر کی طرف جاتا ہے۔ سٹریس کی وجوہات میں سب سے پہلے تو خوراک آجاتی ہے۔ اگر کسی کی خوراک میں قدرتی خوراک کی کمی ہے اور مصنوعی خوراک یعنی جس کو ہم Artificial foods بولتے ہیں وہ زیادہ ہے تو وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ جب artificial foods جسم میں جاکر نظام انہضام سے گزرنے کے بعد جو راکھ بناتے ہیں وہ دماغ کو ناخوش کرتے ہیں یا دماغ کو ایسے signals دیتے ہیں جس سے دماغ unhappy رلیز کرتا ہے۔
- اگر آپ خوراک تو ٹھیک لے رہے ہیں لیکن اس کا طریقہ غلط ہے یا وقت غلط ہے تو بھی وہ آپ کے لیے سٹریس دینے کا باعث بن سکتی ہے اور اس سٹریس کی شکل مختلف بیماریوں کی صورت میں بھی سامنے آسکتی ہے۔
- اگر ایک انسان کی رات کی نیند نہیں ہے تو وہ بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ پیٹ کے اندر کچھ ایسے کیمیائی مادے بستے ہیں جو آپ کو سٹریس میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
- ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم دوائیاں ایسے کھاتی ہے جیسے بچے ٹافیاں کھاتے ہیں۔ بغیر کسی ڈاکٹر کی تجویز کے اپنے لیے دوائیاں خود تجویز کرتے ہیں اور ان کی مقدار اور وقت بھی خود ہی تجویز کرتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ہمارا جسم مسلسل طور پر ایسے کیمیائی مادے بناتا ہے جو مسلسل طور پر ہمارے ذہن کو بے چین رکھتے ہیں۔
- کچھ لوگوں میں سٹریس اوپر سے نیچے کی طرف جاتا ہے یعنی سر سے پیٹ کی طرف جاتا ہے۔ اگر ہماری تربیت میں بنیادی اقدار کی کمی ہے مثال کے طور پر ہماری تربیت میں ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ منفی سوچوں کو اپنے اوپر کیسے طاری نہیں ہونے دینا یا ان منفی سوچوں کی پہچان کیسے کرنی ہے۔ یعنی قدرتی طور پر ان کے اندر حسد، احساس کمتری، جلن ہے اور بچپن میں کسی نے ان کی نشان دہی کرکے ان کو حل نہیں کیا تو امکان ہے کہ یہ جذبات ذہن سے پیٹ کی طرف آئیں اور عمومی بے چینی یا تناؤ کا سبب بنیں۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ غذا سے بھی زیادہ حسد، احساس کمتری، غصہ، احساس ندامت جیسے جذبات بڑی بڑی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ہم ذہنی تناؤ کو کیسے دور کرسکتے ہیں
- اصول یہ ہے کہ جس طرح ہم روز صبح اٹھ کر جسم کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح روز کے روز ذہن کی صفائی بھی ضروری ہے۔ یعنی روز کے روز آنے والے ذہنی تناؤ/ دباؤ کو ذہن سے نکالنا بھی ضروری ہے۔ روز کے روز ذہن کی صفائی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے۔
- ہم تین زندگیاں ساتھ ساتھ جیتے ہیں یعنی ایک ہی وقت ہم جسم ذہن اور روح کو ساتھ لے کر چل رہے ہوتے ہیں جب ہم بے یقینی کا شکار ہوتے ہیں جب ہم منہ سے تو اللہ اللہ کریں اس کی رحمت اور مصلحت کا اقرار زبان سے تو کریں مگر دل سے اس کے قائل نہ ہوں تو ہم سٹریس بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب مثال کے طور پر ہم نماز پڑھتے ہیں اور سجدے کی حالت میں جاتے ہیں تو ذہن کا سٹریس ارتھ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب بھی آپ کو سٹریس اور ذہنی دباؤ محسوس ہو آپ کوئی سا بھی درود شریف پڑھیں اور اعتقاد کے ساتھ اس کو پانی میں پھونکیں اور پی لیں اب سائنسی اعتبار سے ہوگا کیا آپ نے وہ Positive energy پانی میں منتقل کی اور اب وہ پانی آپ کے جسم آپ کے خون کا حصہ بن کر آپ کے ذہن تک آپ کے دماغ تک پہنچے گا اور آپ کے دماغ کو سکون دے گا۔
- اس کے علاوہ مراقبہ بھی بہت فائدہ مند ہے۔
- ایسا ہوتا ہے کہ کبھی بہت کوشش کے باوجود بھی ہم اپنا ذہن ان منفی سوچوں سے ہٹا نہیں پاتے۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو اپنا طرز زندگی قدرت کے نظام کے مطابق کرلیں۔ یعنی اگر آپ وقت پر ناشتہ کرنے والے ہیں تو آپ قدرتی طور پر اس بندے سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں ذہنی دباؤ سے لڑنے کی برعکس اس شخص کے جو وقت پر صحیح ناشتہ نہیں کرتے اور یہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی قدرتی خوراک میں ہی ہے، مصنوعی خوراک اور artificial food یہ کام نہیں کرسکتی۔
- اگر آپ یہ سب کچھ نہیں بھی کررہے اور صرف رات کو سوتے وقت کررہے ہیں تورات کا 6 گھنٹے کا سونا یعنی کہ اندھیرے کی نیند ہی آپ کے ذہن کو نیوٹر لائز کردیتی ہے۔ دن میں سونے کا یعنی دن میں 6گھنٹے کی نیند کا فائدہ اس لیے نہیں ہے کیونکہ آپ کا نظام جاگ چکا ہوتا ہے۔
- اس کے علاوہ اپنی hobbies پر توجہ دیں یہ بھی اللہ کی طرف سے قدرتی ہتھیار ہے سٹریس کے خلاف۔