جنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ.
(آل عمران، 3: 133)
’’جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔
پہلے فرمایا میری مغفرت اور میری وسیع و عریض جنت متقین کے لیے تیار کی گئی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفات بیان کی ہیں۔
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ.
(آل عمران، 3: 134)
’’یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں ‘‘۔
جو فراخی و خوشحالی، تنگ دستی اور پریشان حالی میں بھی خرچ کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ انسان دوسروں پر کیوں خرچ کرتا ہے۔ دراصل اللہ ہمارے اندر دوسروں کا خیال پید اکرنا چاہتا ہے۔ ایک انسان وسائل رکھتا ہے دوسرا وسائل سے محروم ہے۔ دوسرا پریشان حال ہے دوسرے کی تنگی کا احساس کرنا اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا۔ یہ سوچ اللہ پاک عطا کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے نیکی کو دوسروں پر خرچ کرنے کے ساتھ جوڑا ہے۔ چوتھا پارہ کی ابتدا اس سے ہوتی ہے۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
(آل عمران، 3: 92)
’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو‘‘۔
تم لاکھ چاہو مگر تم نیک نہیں بن سکتے۔ تمہیں نیکی کا کوئی درجہ اللہ کی بارگاہ سے نہیں مل سکتا جب تک تم کو جس شے سے بڑا پیار ہے وہ خرچ نہ کر دو جس پیسے وسائل سے تمہیں محبت ہے دوسرے کی پریشانی پر خرچ نہیں کردیتے تم نیکی کی روح کو نہیں پاسکتے۔ اللہ کی نگاہ میں نیکوکار، صالح تصور نہیں ہوسکتے۔ ہمارے ہاں نیکی کے رسمی تصورات ہیں۔ تسبیح روزہ، نماز جو اللہ کے حقوق ہیں اس کو ٹوٹا پھوٹا زیادہ ادا کرلیا، حج کرلیا، روزہ رکھ لیا، محافل کروالی سمجھتے ہیں کہ نیکی کا حق ادا کردیا اللہ رب العزت نے اس کو رد فرمادیا ہے:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
(البقرہ، 2: 177)
’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو ‘‘۔
فرمایا نیکی یہ نہیں جن کا قبلہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف منہ کرلیں اور جن مذہب والوں کا قبلہ مغرب کی طرف ہے وہ مغرب کی طرف منہ کرلیں۔ مشرق و مغرب کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لینا محض نیکی یہ نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے کلیتاً اس کی نفی کردی جبکہ ہم نے نیکی کو روائتی حدود میں بند کردیا ہے۔ سماجی تصور چلا آرہا ہے ہم سمجھتے ہیں بس یہی نیکی ہے۔ کفار مکہ کے ہاں بھی اس طرح کے تصورات تھے۔ قبلہ کا طواف ننگے ہوکر کرتے وہ سمجھتے کہ اس طرح کرنا عاجزی کا اظہار ہے۔ یہ رسم و رواج تھے وہ حج کے ایام میں احرام پہن لیتے تو گھر میں دروازے سے داخل نہیں ہوتے تھے بلکہ نقب لگاکر گھر کے پیچھے سے داخل ہوتے تھے۔ وہ سمجھتے کہ یہ ان ایام کا تقویٰ ہے۔ یہ فرسودہ رسمیں ہیں جو انسان کو نیکی کی روح سے دور کردیتی ہیں۔ اللہ اس طرف متوجہ کررہا ہے:
وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَةِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ.
(البقرہ، 2: 177)
’’بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے‘‘۔
اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں، یتیموں اور محتاجوں پر خرچ کرنا مستحقین کی حاجت روائی کرنا، انکی تنگی کو مخاطب کرنے کو نیکی قرار دیا ہے۔ باقی معاملات حج، روزہ، نماز کا ذکر بعد میں آیا ہے۔ پہلے ایمان اس کے بعد اپنا مال جس رب پر ایمان لاتے ہو اس کے بندوں، ضرورت مندوں، محتاجوں پر خرچ کرنا، مال کی قربانی دینا یہ نیکی ہے۔ سورہ بقرہ کی ابتداء میں ذکر فرمایا۔
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ ج فِیْہِ ج هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.
(البقره، 2: 2)
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
فرمایا اس قرآن سے متقین کو ہدایت ملتی ہے قرآن متقین کو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ صاحبان تقویٰ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن ہدایت عطا کرتا ہے۔ متقین کی تعریف بھی قرآن نے کی:
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـهُمْ یُنْفِقُوْنَ.
(البقره، 2: 3)
’’جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں او رجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں‘‘۔
متقین وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ، اس کے رسولa پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرنا ایک چیز بیان کرنے کے بعد فرمایا ومما رزقنا ینفقون جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ مال دیا ہے تو مال میں سے خرچ کرتے۔ وسائل دیئے ہیں وسائل میں سے خرچ کرتے ہیں۔ علم دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ طاقت، صحت، توانائی اور عزت و شہرت دی ہے تو اس کا فائدہ کمزور لوگوں کو دے۔ اللہ نے کوئی منصب دیا ہے اس کے ذریعے نفع مند بنیں۔ محتاج لوگوں کی حاجت روائی کریں ان کی زندگیوں کو آسانیاں دیں۔ الغرض جو کچھ مال و دولت، ذہنی، فکری، عملی، سماجی نعمت جو کچھ اللہ رب العزت نے دی ہے اس میں سے خرچ کرے۔ علم کی نعمت دی ہے تو اس پر خرچ کرے جس کے پاس علم نہیں تاکہ وہ صاحب علم ہو۔ جو کچھ ہم نے تمہیں نوازا ہے اس میں سے خرچ نہیں کرو گے تو اللہ کی نگاہ میں متقی بن نہیں سکتے۔ سورۃ الیل میں فرمایا:
وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَی. الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی.
(اللیل، 92: 17-18)
’’اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے‘‘۔
یہ جو بڑی دوزخ جس کی آگ بھڑک رہی ہے اس متقی شخص کو اس دوزخ سے نجات دے دیں گے جو اپنا مال زیادہ سے زیادہ محتاجوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتا ہے۔ مال خرچ کرنے سے اپنی مال اور جان پاک کرلیتا ہے اور اپنا دل بھی مال کی محبت سے پاک کرتا ہے۔ مال کے لیے انسان دن رات محنت کرتا ہے، تکلیف اٹھاتا ہے، بیوی بچوں سے دور جاتا ہے، دکان کھولتا ہے، آفس جاتا ہے۔ 12، 14 گھنٹے کام کرتا ہے۔ دنیا کے سفر کرتا ہے اپنی جان مشکلات میں ڈال کر مال کماتا ہے۔ جتنی محنت کرکے کماتا ہے اتنی محبت اس مال کے ساتھ بڑھی چلی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو ماں باپ کی کمائی سے سب مل جاتا ہے۔ اس کی اتنی قدر نہیں ہوتی۔ نخرے کرتے ہیں۔ وہ پرواہ نہیں کرتے جب بڑے ہوتے ہیں تو محدود تنخواہ آتی ہے اس سے جو چیز کماکر لاتے ہیں اس کی بڑی قدر ہوتی ہے بچپن میں محنت کا تجربہ نہیں ہوتا اس درد کا بھی پتا نہیں، کما کر لانے میں کتنی درد صرف ہوئی ہے۔ اس لیے فرمایا:
وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ.
(العادیات، 100: 8)
’’اور بے شک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے‘‘۔
یعنی بندہ کو مال کے ساتھ بڑی محبت ہوتی ہے کیونکہ مال اس کے پاس اپنے آپ نہیں آتا۔ مال کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے عمر بھر محنت کرتا ہے۔ ڈگری لیتا ہے پھر جاب اپلائی کرتا ہے۔ روزگار شروع کرتا ہے، دھکے کھاتا ہے محنتیں کرتا ہے۔ سو جتن کرکے وہ مال کمانے لگتا ہے۔ پہلے نقصان کرتا ہے پھر بریک ایون پر آتا ہے پھر وہ نفع کی طرف جاتا ہے۔ نقصان سے بچنے کی تدبیر کرتا ہے دن رات اس کا دل بیٹھتا ہے، جتنی اس کی دھڑکیں ہیں یہ اس کی مال کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ یہ اس کو محبت میں منتقل کرتی ہیں۔ یہ محبت اللہ رب العزت نے کہا تمہیں مال سے محبت ہے۔ دیکھنا ہے کہ ایک طرف مال کی محبت ہے، دوسری طرف انسانیت کی محبت ہے۔ ایک اللہ کے بندوں کی محبت، مشکلات میں پھنسے ہوئے بندے، جن کے پاس کھانا نہیں، بھوکے لوگوں کی محبت، مفلس لوگوں کی محبت، جن کے پاس رات کی ہنڈیا نہیں، بچہ بیمار ہے دوائی کے پیسے نہیں، بچے کو پڑھانے کے وسائل نہیں جو اللہ کے بندے اس کیفیت میں بیٹھے ہیں ان سے تمہیں کتنی محبت ہے۔ اپنے جتن کرکے جو مال کمایا تھا اس سے کتنی محبت ہے۔ اگر مال کی محبت بڑھ جائے تو یہ دوزخ میں لے جائے گی۔ یہ انسان کو بخیل کردے گی۔ مال کی محبت بڑھ جائے اور ضرورت مند لوگوں پر خرچ نہ ہو۔ اس کو اللہ رب العزت نے دین کو جھٹلانا قرار دے دیا سورۃ الماعون میں فرمایا:
اَرَئَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ. فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ. وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ.
(الماعون، 107: 1۔3)
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟۔ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا‘‘۔
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین جھٹلاتا ہے۔ اس طرح نہیں جھٹلاتا کہ قرآن کو نہیں مانتا، اللہ اور اس کے رسولa کو نہیں مانتا۔ آخرت کو نہیں مانتا، اس طرح نہیں جھٹلاتا۔ دین کو جھٹلانے کی تعریف کی ہے۔ فذلک الذی یدع الیتیم جھٹلانے والا کون ہے جس کو نہ کسی یتیم کی فکر ہے نہ مسکین کی، یتیم کی یتیمی پر خرچ کرتے کہ اس کو باعزت مقام دینے کے لیے، اپنا مال خرچ کرتا مسکین کی محتاجی کی کوئی فکر ہے کہ اس کو کھانا کھلائے، اپنا مال خرچ کرے۔ اس کا سہارا بنے مسکین کو بھوک و افلاس سے نکالے۔ جو یہ طرز عمل نہیں کرتا اللہ رب العزت نے فرمایا وہ دین کو جھٹلاتا ہے۔
آقا علیہ السلام نے ایک پیمانہ دیا اگر ایک شخص کا کھانا تمہارے پاس ہے اس کو آدھا آدھا کرکے دو میں بانٹ دو۔ دوسرے بندے کے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے۔ چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہے۔ (ترمذی، السنن)
جتنا میسر ہے اس میں سے حصہ دو۔ دیکھنا یہ ہے کہ پریشان حال انسانیت کا کتنا درد ہے ضرورت مند آپ کے محلے، پڑوس اور کمیونٹی میں ہیں۔ آپ کی فیملی میں ہیں۔ اعزا و اقارب کا پہلا حق ہے۔ پڑوسیوں کا پہلا حق ہے۔ سب سے بڑا بیوی بچوں کا حق ہے۔ اگر محبت ہے تو محبت بھی خرچ کرو یہ بھی انفاق کا حصہ ہے۔ مشکل حالات میں اگر محبت و شفقت ہے تو وہ بھی خرچ کرنا بھی انفاق فی سبیل اللہ میں آتا ہے۔