سوال نمبر: کیا میک اپ پر وضو ہو جاتا ہے؟
جواب: اعضائے وضو پر اگر کسی چیز کی تہہ جمی ہو اور پانی جِلد تک نہ پہنچ پائے تو وضو نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَینِ وَإِن کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَرُواْ وَإِن کُنتُم مَّرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنکُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَیَمَّمُواْ صَعِیدًا طَیِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِکُمْ وَأَیْدِیکُم مِّنْہُ مَا یُرِیدُ اللّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـکِن یُرِیدُ لِیُطَهِرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ.
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
(المائده، 5: 6)
اگر میک اپ میں صرف رنگ ہوں اور وہ اعضائے وضو تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہوں تو میک اپ پر وضو ہو جائے گا۔ لیکن اگر میک اپ کی تہہ جمی ہو جو پانی کو اعضائے وضو کی جلد تک نہ پہنچنے دے تو میک اپ پر وضو نہیں ہوگا۔
سوال: کیا شادی کی فلم بناناجائز ہے؟ اس میں لڑکیاں لڑکے اکٹھے ہوتے ہیں اور فلمائے گئے مناظر پر موسیقی بھی شامل کی جاتی ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب: شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کی یادیں محفوظ کرنے کے لیے فلم بنانا جائز ہے۔ یہ دورِ حاضر کی یہ ایک سہولت ہے جس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر خاندان کے افراد مہذب انداز میں ویڈیو بنوائیں، لڑکیاں باپردہ ہوں اور نامحرم خواتین و حضرات کا اختلاط نہ ہو تو فلم بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے برعکس اگر فحش لباس زیبِ تن کیے ہوئے مرد و خواتین مخلوط تقریب میں ہوں تو ایسی تقریب کی نہ صرف فلم بنانا غیرشرعی ہے بلکہ ایسی تقریبات میں شریک ہونا بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے شرعی حدود اور تہذیبی اقدار میں رہتے ہوئے تقریبات کا انعقاد کرنا اور ان کی فلم بنانا جائز ہے۔ اگر کلام فحش نہ ہو تو ان یادگاری فلموں میں موسیقی شامل کرنا بھی جائز ہے۔
سوال: کیا دینی تعلیم کے حصول کے لیے لڑکیوں کا گھر سے دور مدرسے کے ہاسٹل میں رہنا ٹھیک ہے؟ اگر مدرسے کے ہاسٹل میں رہنا جائز ہے تو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنا ناجائز کیسے ہے؟
جواب: سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہو کہ اسلام علم ومعرفت اور شعور وآگہی کا دین ہے کسی قیمت پر بھی جہالت و ناخواندگی کو پسند نہیں کرتا لہٰذا اسلام بلا تفریق مرد و زن ہر ایک کی تعلیم وتربیت کا قائل ہے۔ اگر کوئی اسلام کو خواتین کی تعلیم وتربیت میں رکاوٹ بنا کر پیش کرے تو یہ اس کی لا علمی ضرور ہو سکتی ہے لیکن قرآن وحدیث میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر لڑکیوں کو قدیم وجدید تعلیم وتربیت سے محروم رکھا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِo
فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔ بس نصیحت تو عقلمند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔
(الزمر، 39: 9)
اس آیت مبارکہ میں اہل علم کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی فوقیت علم والے کو ہی ہے وہ چاہے مرد ہو یا عورت کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ اور احادیث مبارکہ میں عورتوں کو تعلیم دینے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس کی بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اللہ نے اس کو دیئے ہیں تو وہ بیٹی اس کے لئے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی۔
(طبرانی، المعجم الکبیر، 10: 197، رقم؛ 10447، الموصل: مکتبة الزهراء)
آقا علیہ السلام کی زندگی ہمارے لئے کامل نمونہ حیات ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللهَ کَثِیْرًاo
فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونهِ (حیات)ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملنے)کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔
(الاحزاب، 21: 33)
تو جب آقا علیہ السلام ہمارے لیے بہترین نمونہ حیات ہیں تو پھر ہمیں عورتوں کی تعلیم وتربیت کے معاملہ میں بھی آپ علیہ السلام کی پیروی کرنی چاہیے۔ آپ علیہ السلام نے تو عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے دن مقرر فرمایا۔
حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات جہاد کیے میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی۔ ان کے لئے کھانا بناتی تھی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی۔(مسلم، الصحیح، 3: 1447، رقم: 1812)
لہٰذا مدرسہ ہو یا کالج ویونیورسٹی، اگر ادارے کی انتظامیہ لڑکیوں کی عزت وعصمت کا خیال رکھے اور اُن کی حفاظت کی ضمانت دے تو لڑکیاں محرم کے بغیر بھی ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ اگر لڑکیوں کی عزت وناموس محفوظ نہ ہو خواہ وہ دینی مدرسہ کا ہی ہاسٹل کیوں نہ ہو، وہاں بھی لڑکیوں کا رہنا جائز نہیں ہے۔ اسلام کا اصل مقصد مال وجان اور عزت وآبرو کی حفاظت ہے۔