قائداعظم کے بعد اگر کسی ایسی شخصیت کا ذکر مقصود ہو جس کی عدم موجودگی میں پاکستان کا قیام ناممکن ہوتا تو پورے یقین کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کا نام لیا جاسکتا ہے۔ فاطمہ جناح نے قائداعظم کے ساتھ اپنی طویل رفاقت میں دوستی، برادرانہ محبت، خلوص، نگرانی، تیمار داری، خانہ داری اور مشاورت کا حق ادا کردیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی قربانیوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات روز، روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اگر فاطمہ جناح قائداعظم کے قریب نہ ہوتیں تو قائداعظم برصغیر کی سیاست میں وہ لافانی کردار ادا نہ کرسکتے جو انہوں نے کیا۔
1935ء میں قائداعظم کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور اس طرح قائداعظم کی زندگی کا سب سے اہم دور شروع ہوا، قائداعظم کی ذمہ داریاں بڑھنے کے ساتھ ہی فاطمہ جناح نے گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی ایک انتہائی اہم ذمہ داری اپنے لیے مخصوص کرلی اور وہ تھی ہندوستان کی مسلم خواتین کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی ذمہ داری۔ انہوں نے مسلم لیگ اور کانگرس کے ہر جلسے میں شریک ہونا شروع کردیا۔
قائداعظم مسلم خواتین پر بعض ناروا پابندیوں کے بارے میں بہت متفکر رہا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس قوم کی نصف آبادی عضو معطل بن کر ایک طرف بیٹھی رہے وہ قوم کسی بھی عظیم تحریک کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔ فاطمہ جناح نے اسی خوابیدہ نصف آبادی کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور خواتین کی سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی ترقی کے لیے کام شروع کردیا۔ انہوں نے سیاسی میدان میں اس قدر زیادہ محنت کی اور قائداعظم کو خواتین کی بیداری کی تحریک کے بارے میں ایسے ایسے حقائق سے آگاہ کیا کہ قائداعظم نے ایک سے زائد مواقع پر یہ کہہ کر اپنی بہن کو خراج تحسین پیش کیا:
’’فاطمہ میرے سیاسی کاموں میں نہ صرف ایک انتھک ساتھی ہے بلکہ بعض اوقات اس کے مشوروں سے بھی میں مستفید ہوتا ہوں‘‘۔
قائداعظم فاطمہ جناح کی سیاسی بصیرت پر کس قدر اعتماد کرتے تھے، اس کا ثبوت بیگم رافعیہ شریف پیرزادہ کے اس بیان سے ملتا ہے کہ جب قائداعظم کے سیکرٹری کوئی مسودہ ٹائپ کرکے لاتے اور قائداعظم کے سامنے آخری منظوری کے لیے پیش کرتے تو قائداعظم ان سے کہتے کہ وہ یہ مسودہ فل کونسل کے سامنے پیش کریں۔ فل کونسل قائداعظم اور ان کی بہن فاطمہ جناح پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح وہ عام طور پر اپنے بیانات بھی فاطمہ کو پڑھائے بغیر جاری نہیں کیا کرتے تھے۔ بیگم جی اے خان بھی اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ قائداعظم خود کہا کرتے تھے:
’’میں ہر اہم بیان جاری کرنے سے قبل اسے جنرل کونسل یعنی فاطمہ کو دکھالیا کرتا ہوں، فاطمہ میری بہترین مشیر بھی ہیں اور دوست بھی‘‘۔
فاطمہ جناح نے ایک جگہ خود لکھا کہ مستقبل کے ہندو مسلم انتشار کے بارے میں سوچ سوچ کر قائداعظم پریشان ہوجاتے اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جایا کرتی تھیں۔ اسی پریشانی کے عالم میں فاطمہ جناح انہیں ذہنی کشمش سے کچھ دیر کے لیے نجات دلانے کی غرض سے ان کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ وہ یہ سب کچھ اس طرح کرتیں کہ قائداعظم ان سے ایک نیا حوصلہ پاتے۔ قائداعظم نے ایک مرتبہ خود کہا کہ مایوسی کے اس دور میں میری بہن میرے لیے امید کی کرن اور مستقبل کی روشنی بن جاتی تھی۔ میں پریشانیوں میں گھرا ہوتا تھا اور میری صحت خراب تھی لیکن فاطمہ کے تدبر، توجہ اور حسن انتظام سے میری تمام پریشانیاں دور ہوجایا کرتی تھیں۔
تحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کے لیے اپنے مشن میں زیادہ سے زیادہ مسلم خواتین کی شمولیت کو قائداعظم از حد ضروری خیال کرتے تھے۔ لیکن اس وقت معاشرتی حالات ایسے تھے کہ عورتوں کا کسی سیاسی جدوجہد میں عملی طور پر شریک ہونا اگر ناممکن نہیں تو از حد مشکل ضروری تھا۔ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی اس مشکل کو حل کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور تحریک آزادی کی ایک کارکن اور سپاہی کی حیثیت سے مردوں کے دوش بدوش جدوجہد میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ ہندوستان کی دیگر خواتین کے ساتھ جرات اور بہادری کی ایک مثال قائم ہوسکے۔
دسمبر 1938ء میں قائداعظم نے تحریک میں خواتین کو ایک مثبت کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کابینہ میں اجلاس بلایا، اس اجلاس میں آل انڈیا مسلم خواتین کی کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ فاطمہ جناح اس کمیٹی میں بھی شامل تھیں۔ اس کمیٹی کی تشکیل سے مسلم خواتین میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا۔ فاطمہ جناح نے اس سلسلے میں پورے ہندوستان کے دورے کیے اور ان کی تحریک پر بے شمار خواتین کمیٹیاں قائم ہوئیں۔ انہوں نے خواتین کے ہزاروں اجتماعات سے خطاب کیا اور قائداعظم کے نصب العین کو خواتین کے سامنے موثر انداز میں پیش کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندو اور انگریز کے ایجنٹ مسلم لیگ کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کررہے تھے اور عوام کے ذہنوں میں ناگفتنی شکوک و شبہات پیدا کررہے تھے۔ عام مسلم خواتین کے اذہان بھی اس مسلم لیگ مخالف مہم کے سبب پراگندہ ہورہے تھے۔ ان حالات میں فاطمہ جناح وہ واحد خاتون تھیں جو قائداعظم کے نظریات اور خیالات پر صحیح روشنی ڈال سکتی تھی اور قائداعظم کے اقوال کی عورتوں کے سامنے کھل کر تشریح کرسکتی تھیں، اسی بناء پر فاطمہ جناح کے جلسوں میں عورتوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا، ان سے عورتوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ خطاب کے بعد خواتین کی اکثریت ان کے گرد جمع ہوجاتی اور ان سے ہاتھ ملانے اور انہیں ہار پہنانے کی کوشش کرتی۔ فاطمہ جناح کی خدمت میں عقیدت کے پھول پیش کرکے خواتین کو یوں محسوس ہوتا جیسے انہوں نے یہ پھول براہ راست قائداعظم کو پیش کیے ہوں۔
فاطمہ جناح کی ان پُرخلوص سرگرمیوں کے نتیجے میں بے شمار خواتین مسلم لیگ کے لیے کام کرنے کی غرض سے نکل کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے مسلم لیگ کی مدد کرنے کے مختلف طریقے سوچے۔ ان ہی میں سے ایک مینا بازار کا منصوبہ بھی تھا۔ مینا بازار منعقد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو خواتین میں باہمی رابطہ کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوسکیں۔ دوسرے مسلم لیگ کی مالی امداد کی سبیل بھی نکل آئے گی۔ قائداعظم اور فاطمہ جناح نے اس منصوبے کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا۔
لاہور کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی پر خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا:
’’میں اپنی قوم کی بہنوں کو دلی مبارکباد دیتی ہوں کہ صوبہ پنجاب کے الیکشن میں آپ نے نہایت شاندار طریقے سے کام کیا اور لاہور کی دونوں نشستیں جیت کر اور اس کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے مسلمانوں کی اناسی سیٹیں جیت کر دنیا کو بتادیا ہے کہ پنجاب کے مسلمان سب کے سب پاکستان اور صرف پاکستان چاہتے ہیں، مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ اس کامیابی میں آپ نے پورا پورا حصہ لیا‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد ایک موقع پر کرنل برنی سے بات چیت کے دوران فاطمہ جناح کی قربانیوں کا ذکر نکل آیا تو قائداعظم نے فرمایا:
’’میری بہن فاطمہ نے طویل مدت تک میری خدمت کرکے اور مسلم خواتین کو بیدار کرکے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ میں اس کا بدلہ نہیں دے سکتا‘‘۔
محترمہ فاطمہ جناح سے ہندوستان کی مسلم خواتین کی بے پناہ عقیدت اور محبت کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ خود فاطمہ جناح بے حد محنتی اور بے لوث خاتون تھیں، لیکن خواتین میں ان کی مقبولیت کی ایک اور زبردست وجہ بھی تھی اور وہ تھی قائداعظم کی مکمل شخصیت سے بے پناہ مماثلت اورمشابہت۔
فاطمہ جناح واقعی اپنے بھائی کا عکس جمیل تھیں، وہی کردار کی عظمت، وہی ارادہ، وہی دیانت خلوص، وہی راست گوئی، وہی مقصد سے لگن، وہی بلند حوصلہ اور وہی استقلال بے باک، صاف ستھرے ذہن کی مالکہ قائداعظم ہی کی طرح ضمیر جھنجھوڑنے اور خوابیدہ ولولوں کو بیدار کردینے والے تیز تیز فقرے۔ جب بھی کوئی شخص خاتونِ پاکستان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اسے دل ہی دل میں بارہا یہ گمان گزرتا کہ شاید وہ قائداعظم سے محوِ گفتگو ہے۔
مرحوم آغا شورش کاشمیری نے ایک مرتبہ اپنے مخصوص اسلوب میں محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیت کو اپنے سحر طراز الفاظ میں یوں بیان کیا:
’’بھائی کی ہوبہو تصویر، بلند و بالا، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قامت، گلابی چہرہ، ستواں ناک، آنکھوں میں بلاکی چمک، جائزہ لیتی ہوئی آنکھیں، بال سفید، ماتھے پر جھریوں کی چنت، آواز میں اقبال، چال میں کمال، طبیعت میںجلال، سرتاپا استقلال، رفتار و گفتار میں سطوت، کردار میں عظمت، قائداعظم کی معنوی صفات کا عکس، صبا کی طرح نرم، رعد کی طرح گرم، بانی پاکستان کی نشانی، ایک حصار جس کے قُرب سے حشمت کا احساس ہوتا ہے اور جس کی دوری سے عقیدت نشوونما پاتی ہے، بھائی شہنشاہ بہن بے پناہ‘‘۔
بیماری اور تیمار داری:
جب قائداعظم اور ان کی بیگم رتی جناح میں علیحدگی ہوئی تو فاطمہ جناح اس وقت عین عنفوانِ شباب میں تھیں، انہوں نے جب اپنے عظیم بھائی کو گھریلو پریشانیوں میں گھرا ہوا دیکھا تو انے مستقبل کے منصوبوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنی زندگی کو قائداعظم کے لیے وقف کردیا۔ اس کے بعد سے ان کے انتقال تک ان کی زندگی کا محور فقط دو چیزیں رہیں۔ ایک قائداعظم اور دوسرے پاکستان۔
قائداعظم کی زندگی کے آخری دس برس سامراج سے جنگ کے ساتھ ساتھ اپنی بیماری سے بھی زبردست نبرد آزمائی میں گزرے، ان سالوں میں ان کی سیاسی مصروفیات میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سے بہت کم وقت آرام کے لیے نکال پاتے تھے۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتادیا تھا کہ انہیں مسلسل آرام کی اشد ضرورت ہے لیکن انہیں علم تھا کہ اگر وہ بیماری کے ہاتھوں بستر پر لیٹ گئے تو شاید مسلمان قوم کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ اس لیے انہوں نے شدتِ مرض کے پیشِ نظر مسلسل کام کرنے کی ٹھان لی اور اپنی تمام تر قوتوں کو حصول پاکستان کے لیے وقف کردیا۔ 23مارچ 1940ء کو جب قرار داد پاکستان پاس ہوئی، قائداعظم کی صحت جواب دینے لگی تھی لیکن ابھی منزل آزادی دور تھی۔ انہوں نے زیادہ محنت اور لگن سے شب و روز کام کرنا شروع کردیا۔ اس دوران فاطمہ جناح حتی الامکان ان کا ہاتھ بٹانے اور کام کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ قائداعظم کا وزن جو کبھی 112 پونڈ تھا، اب تیزی سے کم ہورہا تھا۔ جوں جوں ان کے تنِ نحیف میں لاغری بڑھتی جارہی تھی، توں توں ان کا جذب و شوق توانا ہوتا چلا جارہا تھا۔ 1941ء میں قائداعظم کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور غالباً یہ اس بیماری کا آغاز تھا جس نے آخر کار اس عظیم ہستی کو اپنی قوم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ حسب معمول ہندوستان کے مختلف علاقوں کے دورے کرتے رہے۔
فاطمہ جناح اس صورت حال سے بہت پریشان رہتی تھیں اور بھائی کو بار بار آرام کی تاکید کرتی رہتی تھیں۔ جب آرام کے سلسلے میں فاطمہ کا اصرار بڑھ جاتا تو خود بقول فاطمہ جناح قائداعظم جناح فرماتے:
’’فاطمہ کیا تم نے کبھی یہ سنا ہے کہ ایک جرنیل چھٹی پر چلا جائے جبکہ اس کی فوج اپنی بقا اور سلامتی کی جنگ میں مصروف ہو‘‘۔
یہ جواب سن کر فاطمہ جناح وقتی طور پر تو خاموش ہو رہتیں، لیکن بھائی کی محبت انہیں چند ہی دنوں میں پھر سے مضطرب کردیتی اور وہ ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر پھر ڈاکٹروں سے معائنہ کے لیے زور دینے لگتیں۔ ایسے موقعوں پر قائداعظم بہن سے مخاطب ہوکر فرماتے:
’’ایک شخص کی صحت کا کیا فائدہ۔ جب مجھ سے ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی قسمت وابستہ ہے‘‘۔
کراچی کلب کے ایک استقبالیہ میں بھی خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے ایک مرتبہ فاطمہ جناح کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا:
’’تفکرات، پریشانیوں اور سخت محنت کے زمانے میں جب میں گھر آتا تو میری بہن روشنی اور امید کی تیز کرن کی صورت میں میرا استقبال کرتی۔ اگر میری بہن نہ ہوتی تو میری پریشانیاں کہیں زیادہ ہوتیں اور میری صحت کہیں زیادہ خراب ہوتی، اس نے لاپرواہی سے کام نہیں لیا اور کبھی شکایت نہیں کی‘‘۔
قائداعظم کی نرس مسز نیتھینل اس حقیقت کی بھی راوی ہیں کہ فاطمہ جناح ساری ساری رات جاگ کر گزار دیتیں۔
ہمہ وقت تیمار داری کی تھکن اور ریت جگوں کو دیکھتے ہوئے ایک دن قائد کے ڈاکٹروں نے ان سے کہا:
’’ہم اپنے قومی باپ کی صحت کے ذمہ دار ہیں، آپ فکر نہ کریں، ہم پر اعتماد کریں‘‘۔
مگر فاطمہ جناح نے جواب دیا:
’’میری زندگی میری اپنی نہیں ہے، میں نے اپنی زندگی اپنے پیارے بھائی کے حوالے کردی ہے۔ میں تو اب یہ محسوس کرتی ہوں جیسے میں قائداعظم کی تیمارداری نہیں کررہی ہوں بلکہ اپنی تیمار داری آپ کر رہی ہوں۔
صرف تیمار داری ہی نہیں، فاطمہ ان دنوں اپنے بھائی کی خصوصی معاون کے فرائض بھی سرانجام دے رہی تھیں، وہ قائداعظم کے نام آنے والی ڈاک کا روزانہ مطالعہ کرتیں۔ ضروری فائلیں دیکھتیں اور بھائی کو اہم حصے پڑھ کر سناتیں۔ پھر قائداعظم کی ہدایات کے مطابق ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کو ان کی رائے سے مطلع کرتیں تاکہ وہ ضروری امور کا جواب تیار کرسکے۔ اس کے علاوہ رات دن بھائی کی طبیعت کو بشاش رکھنے کے لیے ان سے باتوں میں مصروف رہتیں۔ ملک بھر سے نامور سیاسی و سماجی شخصیتیں قائداعظم کی مزاج پُرسی کے لیے آرہی تھیں۔ فاطمہ جناح پہلے کود ان سے ملاقات کرتیں اور مناسب موقع دیکھ کر قائد سے ان کی ملاقات کا بندوبست کرتیں۔
فاطمہ جناح کے قول کے مطابق قائدعظم نے اگست 1948ء کے اختتام پر ان سے مخاطب ہوکر کہا:
’’فاطمی۔۔۔ مجھے زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔۔۔ میں زندہ رہوں۔۔۔ جتنا جلدی ممکن ہوسکے۔۔۔ میں رخصت ہوجاؤں‘‘۔
’’آپ بہت جلد صحت یاب ہوجائیں گے، ڈاکٹر پُر امید ہیں‘‘۔
مگر قائداعظم نے جواب دیا: ’’نہیں اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتا‘‘۔
جب قائداعظم کا آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے سر کے اشارے سے اپنی پیاری اور جاں نثار بہن کو پاس بلایا۔ فاطمہ ان کے بالکل قریب ہوگئیں۔ انہوں نے سرگوشی کے انداز میں فرمایا:
’’فاطمی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ لا الہ الا اللہ۔۔۔۔ محمد۔۔ رسول۔۔۔ اللہ۔۔۔
فاطمہ نے یہ دیکھا تو چلائی ہوئی ڈاکٹر کی طرف بھاگیں اور بولیں:
’’ڈاکٹر میرا بھائی رخصت ہورہا ہے‘‘۔
ڈاکٹر فوراً قائداعظم کے پاس پہنچے، انہیں دیکھا۔ ڈاکٹر الہٰی بخش نے بے بسی کے عالم میں سر گھمایا اور غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی بہن کو اشارے سے بتایا کہ اس کا عظیم بھائی ہمیشہ کے لیے ان کا ساتھ چھوڑ چکا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون